اسلام دین امن ہے، جو کثیر الجہت سماج کی بنیاد کا درس دیتا ہے: شیخ الاسلام کا ممبئی، انڈیا میں عوام کے جم غفیر سے خطاب

مورخہ: 15 مارچ 2012ء

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دورہ انڈیا میں 15 مارچ 2012ء کو برلاماتوشری سبھاگرہ ممبئی میں اجتماع منعقد ہوا، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ منہاج القرآن مہاراشٹر کے صدر رفیق احمد خان کے علاوہ منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا اور منہاج القرآن انٹرنیشنل ممبئی کے قائدین بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ اس پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعت مبارکہ سے ہوا۔

خطاب شیخ الاسلام

تاریخی اجتماع میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے "اسلام امن اور رحمدلی کا مذہب" موضوع پر خطاب کیا۔ جس میں آپ نے اس بات پر زور دیا کہ "دنیا نفرت کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتی"۔

آپ نے کہا کہ قرآن مجید میں پہلی وحی کا آغاز بھی لفظ 'اقراء' سے ہوا۔ پہلی وحی میں اللہ تعالٰی نے علم، امن، محبت، رحمدلی اور جمہوریت کی تعلیم دی ہے۔ اگر اللہ تعالی چاہتا تو عبادت، روزہ یا کسی اور حکم الٰہی سے وحی نازل کر سکتا تھا، لیکن اللہ تعالی نے وحی قرآنی کے ذریعے اسلامی تعلیم کا آغاز 'علم' اور انسانیت' سے کیا اور یہی اسلامی تعلیمات کا مرکزی پیغام بھی ہے۔

آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت علم اور انسانیت کے لئے کی گئی، کہ دنیا میں علم کا نور پھیلایا جائے۔ انسانیت کے ذریعے انسانوں کی عزت کی جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا سے اللہ کے اس حکم کے ساتھ اترے کہ نبوت کا اعلان کر کے اللہ کے پیغام کو ساری انسانیت میں عام کر دیں۔

آپ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اسلام انسانیت کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کے احترام کا بیڑہ اٹھایا، آپ بیواؤں، غریبوں یتیموں، پڑوسیوں کے غمگسار ہیں۔ اس اصول کو آپ نے ساری انسانیت کے سامنے پیش کیا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ جب حبشہ ہجرت میں بادشاہ نجاشی کے سامنے 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر مشتمل وفد سے سوال کیا گیا تھا، کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں اور اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ اس پر حضرت جعفر بن طیار رضی اللہ عنہ نے ایک تفصیلی جواب دیا کہ "ہم گنوار اور غیر مہذب تھے، طاقتور کمزورں کو کھا جاتے تھے، ہم کسی قانون کے پابند نہیں تھے، کسی کی حاکمیت کو قبول نہیں کرتے تھے، ہمارا قانون صرف طاقت تھا، ہم رشتہ داروں کو قتل کرتے تھے، پڑوسیوں کی اور دوسرے انسانوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے، پھر اللہ نے ہم میں سے ہی ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا، ہم جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق اور امین ہیں، ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقدس، پاکیزگی، طہارت اور امانت سے خوب واقف تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خبردار کیا کہ جھوٹ نہ بولو سچ بولو، ہمیں کہا کہ کمزوروں کی حفاظت کرو، غریبوں، بیواؤں اور بے آسرا لوگوں کی حفاظت کرو، یتیموں کو پالو، عورتوں کو عزت دو اور ان پر الزام تراشیاں نہ کرو، امانت دار بنو، حکم دیا کہ پڑوسیوں اور خونی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو، کہا کہ خبردار انسان انسان کا خون نہ بہائے، غیر اخلاقی کاموں سے روکا، کہا کہ کسی کو دھوکہ نہ دو، کسی کی جائیدادیں ہڑپ نہ کرو۔

حضرت جعفر بن طیار کا یہ جواب سن کر نجاشی بادشاہ رو پڑا اور اس نے کہا کہ پیغمبر آخر الزمان کے بارے میں نے اپنی کتابوں میں یہی پڑھا تھا۔

شیخ الاسلام نے مزید کہا کہ انسانی اقدار سے محبت اور انسانیت کو آج نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لوگ خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن وہ یہ بھول گئے ہیں کہ 'مسلمانیت' نام ہے 'انسانیت' کی حفاظت کا' ترقی کا، انسان کے احترام کا، امن کا، انصاف کا، رحمدلی کا نام ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ میں بذریعہ علم و شعور پیغام امن لے کر انڈیا آیا ہوں، میں ہر دہشت گرد کا دشمن ہوں۔ ہر انسان کی جان بچانے کے لئے ہم سب کو آگے بڑھنا چاہیے، چاہے اس میں ہماری جان بھی چلی جائے۔ شیخ الاسلام نے دو ٹوک کہا کہ پیغام محمدی کو پھیلانے اور عام کرنے کے سامنے طاہر القادری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

میں پیغام محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام کرنے کے لیے ساری دنیا میں سفر کرتا ہوں، جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان انسان سے محبت کرے، میں نفرت کو مٹانے اور نفرت کو محبت سے بدلنے کے لئے دورے کرتا ہوں۔

شیخ الاسلام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے مدینہ جانے والے سفیروں سے لی گئی بیعت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ جو پہلی تعلیم بھیجی وہ بھی انسانیت کی تعلیم تھی، کہ زنا نہ کرو، چوری نہ کرنا، بچوں کو قتل نہ کرنا، کسی پر تہمت نہ لگانا، غیبت نہ کرنا، عورتوں کی بے عزتی نہ کرنا، سب کے حقوق کے محافظ رہنا اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور یثرب یعنی زحمت کو مدینہ یعنی رحمت بنا دیا، تب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پہلے خطاب میں یہی درس دیا کہ اللہ سے محبت کرو، دلوں کو نرم رکھو، ایک دوسرے سے محبت کرو، ایفائے عہد کرو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دشمنوں کو کبھی نفرت کا پیغام نہیں دیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صابر اور شاکر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانوں کو ایک لازوال سیرت و کردار دیا۔ جس کا پیغام یہ تھا کہ اے مسلمانوں اگر تم سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بننا چاہتے ہو تو آپ سب کو محبت، ایمانداری، سچائی، علم، پیار کی طرف آنا ہو گا، عورتوں کو عزت دینا ہو گی، خود کو بھوکا رکھ کر بھوکوں کو کھلانا ہو گا، قربانی دینی ہو گی"۔

شیخ الاسلام نے مزید کہا کہ "مسلم ہو یا غیر مسلم آپ تمام کو اپنی خوشیاں ساری انسانیت پر نچھاور کرنا ہوں گی"۔ خطاب میں 'میثاق مدینہ' اور مہاجرین انصار، قریش اور یہودی قبائل کو آپس میں جوڑنے کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے مزید فرمایا کہ "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو امت واحدہ کہتے ہیں۔ انہیں ایک قوم کہا تھا، آج یہ تصور کہاں چلا گیا؟ مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے، مدینہ میں یہودیوں کے لئے ان کا مذہب تھا اور مسلمانوں کے لئے ان کا لیکن سیاست اور ملک میں سب ایک قوم تھے یہ ایک کثیر الجہت سماج کی بنیاد تھی، تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں مسلمانان ممبئی اور اسلامی ملکوں کے لئے میرا یہ پیغام ہے کہ جہاں بھی دوسرے مذاہب کے لوگ اقلیت میں ہیں وہاں ان کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر ہے اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے ملک کے وفادار رہیں، نہ کسی کا گلا کاٹیں نہ اپنا گلا کٹوائیں یہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، اسلام علیحدہ رہنے سے روکتا ہے اور میل جول کا درس دیتا ہے۔ یہ بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے"۔

شیخ الاسلام نے فتح مکہ کے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے عام معافی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "امن کا یہ تصور اسلام نے دیا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور کردار اعتدال کا رہا انتہا کا نہیں، اسلام میں انتہاء پسندی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ نفرت اور قتل وغارت گری کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ آپ نے حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانو! تم انتہا پسند نہ بنو، توازن رکھو اور معتدل بنو جنت میں پہنچو گے"۔

شیخ الاسلام نے اسلام کے پڑوسیوں، غیر مسلموں، عورتوں اور بچوں کے حقوق کا تذکرہ کیا نیز کہا کہ "اسلام انسانیت کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں دیتا، نہ اجتماعی قتل کی اجازت دیتا ہے نہ انفرادی قتل کی، جنگ کے دور میں بھی یہ عورتوں، بچوں، ضعیفوں، عبادت گزاروں، تاجروں، جنگی قیدیوں اور نہ لڑنے والوں کے قتل کو روکتا ہے، یہ پھل دار درخت کاٹنے سے روکتا ہے، جانور مارنے سے روکتا ہے، اسلام عدم تشدد کا مکمل درس دیتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کی جان ومال کی حفاظت کے لئے آئے تھے، قتل و غارت گری کے لئے نہیں"۔

آخر میں شیخ الاسلام نے کہا کہ "تمام مذاہب انسانیت کا ہی درس دیتے ہیں، میرا پیغام مسلمانوں، ہندوؤں، عیسائیوں، یہودیوں اور تمام مذاہب والوں کے لئے یہی ہے کہ دنیا نفرت کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتی۔ تنگ نظری کے ساتھ نہیں کھلے دل و دماغ کے ساتھ چلنا ہو گا، سب کا مذہب اپنا اپنا مگر سب مل جل کر پیار اور امن سے رہنا سیکھیں اور مل جل کر، نفرت اور دہشت گردی کی آگ کو بجھائیں اور محبت اور امن کو فروغ دیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے لئے میرا پیغام بھائی چارہ اور برداشت کا ہے"۔

پروگرام کا اختتام دعائے امن سے ہوا۔

اس سے متعلقہ اخباری تراشے ملاحظہ کرنے کے لئے کلک کریں۔

تبصرہ

Top