تحفظ پاکستان علماء و مشائخ کنونشن

مورخہ: 10 مئی 2009ء


منہاج القرآن علماء کونسل کے زیراہتمام مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں "تحفظ پاکستان علماء و مشائخ کنونشن" منعقد ہوا۔ جس میں پاکستان بھرسے جیّد اور نامور علماء و مشائخ نے شرکت کی۔ شریک ہونے والے علماء مشائخ میں پیر صاحبزادہ مسکین فیض الرحمٰن درانی، آستانہ عالیہ کوٹ مٹھن شریف سے حضرت پیر خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، سجادہ نشین آستانہ عالیہ گڑھی شریف خانپور حضرت پیر خواجہ غلام قطب الدین فریدی، سجادہ نشین آستانہ عالیہ مانکی شریف سرحد حضرت پیر صاحبزادہ نبی امین، سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت یار حسین پشاور پیر عبدالہادی قادری، سجادہ نشین آستانہ عالیہ اوچ شریف حضرت پیر مخدوم سید نفیس الحسن بخاری، سجادہ نشین آستانہ عالیہ حضرت منظور المشائخ اوکاڑہ پیر صاحبزادہ سعید احمد صابری، سجادہ نشین آستانہ عالیہ چورہ شریف پیر صاحبزادہ اسد اللہ غالب، منہاج یونیورسٹی سے شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد معراج الاسلام، آستانہ عالیہ حنفیہ سیفیہ سے پیر میاں محمد حنفی سیفی، مرکز البلال لاہور سے پیر شفاعت رسول قادری، سجادہ نشین آستانہ عالیہ دادوالی شریف گوجرانوالہ پیر صاحبزادہ فیض شاہد فیضی، ناظم اعلیٰ جامعہ نعیمہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی، خطیب داتا دربار لاہور پروفیسر میاں محمد سلیم اللہ، پیر زادہ علی احمد صابری، علامہ صاحبزادہ محمد بدرالزمان قادری، ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، مرکزی ناظم علامہ سید فرحت حسین شاہ، علامہ میر آصف اکبر، علامہ محمد حسین آزاد، علامہ مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی، علامہ نواز ظفر، علامہ عتیق حیدر، علامہ عباس نقشبندی، علامہ مسعود مجاہد اور دیگر 200 سے زائد علماء کرام شامل تھے۔


اتفاق رائے سے منظور ہونے والا اعلامیہ

1۔ اسلام امن و محبت کا دین ہے اس میں نفرت انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی کسی بھی شکل و صورت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا یہ کنونشن اسلام کے نام پر ہونے والی جملہ دہشتگردانہ کارروائیوں کی پرزور مذمت کرتا ہے اور انہیں خلاف اسلام قرار دیتا ہے۔

2۔ صوفیاء کرام ہر دور میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت، فروغ امن و محبت، رواداری اور تعمیر معاشرہ میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان کے مزارات اور خانقاہیں اسلامی ثقافت کی عظیم علامات اور مقامات مقدسہ کے درجے کی حامل ہیں۔ ان کی بے حرمتی اور انہدام ناپاک جسارت اور کلیتاً خلاف اسلام ہیں۔ لہذا ان کی پرزور مذمت کی جاتی ہے۔ اسلام میں دیگر مذاہب کے مقامات کی بے حرمتی کی بھی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ لہذا اس طرح کی جملہ کاروائیوں کو بھی خلاف اسلام قرار دیا جاتا ہے۔

3۔ آئین پاکستان پوری قوم کیلئے ایک مکمل دستاویز ہے جس کو ملک پاکستان کے تمام مذاہب، مسالک اور مکاتب فکر کے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا۔ لہٰذا آئین پاکستان اور اس کے تحت قائم پارلیمنٹ اور عدلیہ کی توہین آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کی کسی طور پر اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس طرز عمل کی مذمت کی جاتی ہے۔

4۔ حصول علم بلا امتیاز مرد و زن ہر مسلمان پر فرض ہے اور نصوص قطعیہ سے ثابت ہے لہٰذا خواتین کی تعلیم کو ناجائز قرار دینا اور تعلیمی اداروں کو مسمار کرنا تعلیمات اسلام کی صریح خلاف ورزی اور قرآن کے نصوص قطعیہ کا کھلا انکار ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنے اور اصرار کرنے والا شخص اسلام کی صریح بدنامی کا باعث ہے۔

5۔ بے گناہ اور معصوم افراد معاشرہ پرخودکش حملے صریحاً حرام ہیں۔ ان کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ یہ بربریت اور دہشت گردی ہے۔ اسی طرح اپنے مطالبات کو طاقت کے ذریعے منوانا، اختلاف رائے رکھنے والوں کا قتل عام کرنا، مسلم ریاست کی افواج اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف جنگ اسلام کے سراسر منافی ہے۔ اس کی بھی پرزور مذمت کی جاتی ہے۔

6۔ اسلام خواتین کی عزت و احترام، ان کو تعلیم کے برابر مواقع کی فراہمی اور معاشرے میں ان کے عملی کردار کو یقینی بنانے کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جس کے برعکس خود ساختہ فکر پر مبنی تصورات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔

7۔ دہشت گردی و انتہاء پسندی، جمہوریت کا انکار، خواتین کے حقوق کی پامالی، مقامات مقدسہ کی بے حرمتی، انسانیت کے قتل عام، خود کش حملے، ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت، آئین کی پامالی، علاقوں پر مسلح افراد کا قبضہ اور مسلم ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد پر مبنی افکار و نظریات کے حامل لوگ پاکستان کا ایک چھوٹا سا اقلیتی گروہ ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور یہ اسلام کو بدنام کرنے اور اس کے تابناک چہرے کو داغدار کرنے کی گہری سازش کا حصہ ہے۔ جملہ پاکستانی من حیث القوم، علماء حق اور مشائخ عظام متفقہ طور پر اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اور اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔

8۔ حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں دیرپا قیام امن اور دہشت گردی و انتہاء پسندی کے کلیتاً خاتمے کے لیے تحفظ پاکستان علماء و مشائخ کنونشن میں تجویز کیے جانے والے درج ذیل مطالبات پر فوری عملدرآمد کرے۔

  1. دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کی خفیہ اور درپردہ سرپرستی یا حمایت اور امداد کرنے والے جملہ عناصر کو بے نقاب کیا جائے اور ان کا قلع قمع کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔
  2. حکومتی اداروں، ریاستی مشینری، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود ایسے عناصر پر جو دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں اور ان کی درپردہ حمایت کرتے ہیں، آئین پاکستان کی غداری کے تحت کارروائی کی جائے اور جملہ ریاستی اداروں اور مشینری کو ان سے پاک کیا جائے۔
  3. بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں کو متحرک کرکے وہاں اہل، قابل اور صحیح معنوں میں محب وطن افراد کی تعیناتی کی جائے اور پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف ہونے والے منفی اور مذموم پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جائے۔
  4. پاکستان میں ہونے والی بدترین دہشتگردی کے پیچھے بیرونی عناصر بالخصوص ہمسایہ ملک کی مداخلت کو جرات مندانہ طریقے سے بے نقاب کر کے اس کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر ٹھوس لائحہ عمل بنا کر فوری اقدامات کیے جائیں۔
  5. دہشتگردوں کی آزادانہ نقل و حمل اور ان کو ملنے والی رسد کے جملہ ذرائع کو ریاستی مشینری کے بروقت اور مؤثر استعمال سے بند کیا جائے۔
  6. دہشتگردوں کے ممکنہ اہداف بالخصوص ریاستی اداروں، مذہبی مقامات و اجتماعات، مذہبی قیادتوں اور عوامی مقامات کی حفاظت کے لیے فول پروف اقدامات کیے جائیں اور عامۃ الناس کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
  7. دہشتگردی کے خاتمے کے لیے صرف فوجی آپریشن پر انحصار کرنے کی بجائے دیگر ذرائع اور سیاسی اقدامات کے راستوں کو بھی اپنایا جائے اور اس حکمت عملی کو دائماً نہایت مؤثر طریقے سے قائم اور جاری و ساری رکھا جائے۔
  8. پاکستان کے پسماندہ علاقہ جات بالخصوص سرحدی اور قبائلی علاقوں سے غربت، جہالت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔
  9. ملک میں سیاسی استحکام، آزاد عدلیہ، اداروں کی مضبوطی، آئین اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام، مہنگائی کے خاتمے اور عوام کو فوری، سستے اور آسان انصاف کی فراہمی اور ظلم و استحصال کی ہر شکل کے خاتمے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں تاکہ دہشتگردی کا باعث بننے والے جملہ عوامل کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
  10. صوبہ سرحد اور بلوچستان میں مسلسل ایسے حالات پیدا کیے جارہے ہیں جن سے وفاق پاکستان کو خطرات لاحق ہیں۔ حکومت اس حوالے سے جملہ سازشوں کو بے نقاب کرے اور ان کے خاتمے کے لیے فوری لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
  11. پاکستان میں ایسے لٹریچر کی اشاعت جس سے پاکستان کی اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہو، پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
  12. پاکستان کی تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی جماعتوں اور تنظیموں پر مشتمل ایک قومی کانفرنس بلائی جائے اور اس میں دہشت گردی کے خاتمے، قیام امن اور تحفظ پاکستان کے لیے ایک قومی پالیسی تیار کی جائے اور پوری قوم کو اعتماد میں لے کراس کے نفاذ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
  13. 1973ء میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق پاکستان کے جملہ قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے، عدل، مساوات، بنیادی حقوق کی فراہمی، ظلم و استحصال اور معاشی ناہمواریوں کی ہر صورت کے خاتمے، تمام شہریوں کو برابر مواقع کی دستیابی، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور اعلیٰ اسلامی اخلاقی اقدار کے قیام اور ان کے تحفظ کے عظیم اسلامی اصولوں کے مطابق پاکستان میں حقیقی اسلامی نظام کا قیام عمل میں لایا جائے۔
  14. درج بالا نکات کی روشنی میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ایک قومی پالیسی تیار کی جائے اور پوری قوم کو اعتماد میں لے کر اس کے نفاذ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور نیشنل سیکیورٹی کی مستقل پالیسی کا نہایت اہم حصہ بنا دیا جائے۔

9۔ دہشتگردی اور اس کے جملہ رجحانا ت کے خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ پوری قوم بالخصوص قوم کے مؤثر طبقات جن میں وکلاء، علماء، مشائخ، سیاستدان، صحافی، دانشور، اساتذہ، تاجر حضرات اور تنظیمیں شامل ہیں، اپنا اپنا مؤثر اور بھرپور کردار ادا کریں۔

10۔ پاکستان بنانے میں علماء و مشائخ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اب پاکستان کو بچانے کے لیے بھی علماء و مشائخ اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے اور اس سلسلے میں پورے پاکستان میں علماء و مشائخ کنونشن منعقد کیے جائیں۔

11۔ میڈیا دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مزید مؤثر کردار ادا کرے اور ایسے پروگرامز اور خبروں کی نشرواشاعت سے گریز کیا جائے جس سے دہشتگردی کی کسی صورت اور شکل کی بالواسطہ بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ میڈیا ملکی مفاد، سالمیت اور نیک نامی کو ہمیشہ مقدم رکھے۔

12۔ مالاکنڈ ڈویژن کے متاثرہ خاندانوں اور افراد کی مدد اور بحالی کے لیے حکومت اور جملہ رفاعی اور فلاحی تنظیمیں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

علماء و مشائخ نے اس امر پر اتفاق کیا کہ پچھلے تیس سالوں سے زیادہ عرصہ سے حکومت پاکستان کے خفیہ اور سیکیورٹی اداروں نے انتہاء پسندوں اور دہشتگردوں کے خاتمہ کیلئے نہ صرف یہ کہ کوئی مؤثر پالیسی نہیں بنائی بلکہ ان کے بارے میں دہرا رویہّ رکھا گیا ہے۔ ایک مخالفت کا رویہ اور دوسرا درپردہ ان کی امداد، بحالی اور حوصلہ افزائی کا۔ حکومتی انکار کرنے کے باوجود یہ حقیقت ہے جسے جھٹلانا دن کو رات کہنے کے مترادف ہے۔ ورنہ یہ لوگ پَل پَل کے اژدھا نہ بن سکتے۔ خدا کے لیے یہ دو طرفہ تماشا ہمیشہ کیلئے ختم کیا جائے اور پوری قوم اور ملک کو امن و سلامتی سے ہمکنار ہونے دیا جائے۔ اگر اس متضاد طرز عمل میں بیرونی طاقتوں کا عمل دخل رہا ہے تو پاکستانی Intelligence اور سیکیورٹی کے ادارے کس حد تک ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ یہ اجتماع مستقبل میں ہر سطح پر دوغلہ پن ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

تبصرہ

Top