تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف 2011ء کا تیسرا دن

مورخہ: 24 اگست 2011ء

تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف کے تیسرے روز مؤرخہ 24 اگست 2011ء کو بھی تمام معتکفین و معتکفات شیڈول کے مطابق ذکر و اذکار، تلاوت قرآن مجید اور اللہ تعالیٰ کی بندگی و عبادت میں مصروف رہے۔ اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کثرت سے درود و سلام بھیجنے کا عمل بھی جاری رہا۔ بعد از نماز فجر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سلوک و تصوف کے موضوع پر خطاب کیا۔

شیخ الاسلام نے "سلوک و تصوف" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تصوف کی اصطلاحات میں اصل حیثیت اور مقام شیخ کو حاصل ہے۔ "شیخ" ہونا نہ کاروبار اور نہ ہی وراثت ہے۔ بلکہ تصوف میں احسان، ایمان اور ایقان کے تقاضے پورے کرنے والا کوئی بھی شخص مقام و مرتبہ حاصل کر سکتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک سادہ آدمی تعلیم حاصل کرتے کرتے ڈاکٹر بن گیا۔ وہ دنیا کا معتبر اسکالر اور سائنسدان بن گیا۔ محنت کرتے کرتے وہ دنیا کا بہت بڑا تاجر بن گیا۔ آپ نے کہا کہ تصوف میں جو شخص بھی محنت سے ولائت کے تقاضے پورے کرے گا، وہ اس کو حاصل کر لے گا۔ شیخ ہونے کے لیے گدی نشین ہونا لازمی نہیں۔ بلکہ جس نے بھی شریعت و حقیقت اور طریقت کے تقاضے پورے کر لیے، وہ شیخ بن گیا۔

آپ نے کہا کہ مرید اور ارادت کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک عجیب سا تصور رائج ہو گیا ہے۔ مرید کا معنی ارادہ کرنے والا، تصوف کی اصطلاح میں مرید اس کو کہتے ہیں، جو اللہ کا ارادہ کرے اور جس کو اللہ چاہتا ہے وہ مراد ہوتا ہے۔ تصوف میں جو شخص دنیا کے ساری غلاظتوں کو نکال کر صرف اللہ کا ارادہ کر لے تو اس کو مرید کہتے ہیں۔ جب بندہ آخرت اور جنت کا دھیان بھی خیال سے نکال دے تو پھر وہ مرید بنتا ہے۔ یہ اس کا حقیقی معنی ہے۔

مرید کا ایک مجازی اطلاق بھی ہے۔ مجازاً شیخ کے شاگردوں پر بھی مرید کا اطلاق ہوتا ہے۔ اے میرے شیخ میں تیری صحبت، تیرے حلقہ اور تیری مجلس میں آتا ہوں، تو مجھے یہ سکھا کہ اللہ کا طالب کیسے بننا ہے۔ تو شیخ وہ ہے جو مرید کو اللہ کی طرف متوجہ کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔ اس لیے مرید کی نسبت اور اضافت مجازی طور پر شیخ کی طرف کر دی جاتی ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ آج وقت آ گیا ہے کہ ایسے مخالطوں کو دور کیا جائے۔ حضور غوث الاعظم نے اپنی کتاب غنیتہ الطالبین کے باب 23 میں لکھا ہے۔ کہ میں نے لفظ "مرید" قرآن پاک سے اخذ کیا ہے۔ شیخ کا مرید ہونا اس لیے مرید کہلاتا ہے کہ جو بندے کو دنیا کی مریدی سے نکال کر مولا کی مریدی کی طرف لے جائے۔ قرآن میں ہے۔

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ

(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں۔

الكہف، 18 : 28

ارادت، مرید اور مراد کے باب میں یہی تعلیمات سلطان الہند حضرت خواجہ اجمیری اور یہی امام عارفاں حضرت سیدنا بہاؤ الدین شاہ نقشبند کی ہیں۔

جب تک بندہ اللہ کی محبت کا اس طرح ارادہ نہ کرے تو اس وقت تک وہ مرید نہیں ہو سکتا۔

دوسری جانب ہمارے ہاں یہ امتیاز بالکل ختم ہو گیا ہے کہ شیخ اللہ کی طرف جانے والا وسیلہ ہے، مراد نہیں۔

بدقسمتی سے آج ایک سازش کے تحت صدیوں سے چلے آنے والے صحیح اور راسخ عقیدہ اہل سنت کو ختم کیا جا رہا ہے۔ شرک اور بدعت کے نام پر عقیدہ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ کئی لوگوں نے عقیدہ صحیحہ کو ختم کرنے کے لیے ایسے موضوعات کو بیان کرنا ہی چھوڑ دیا، جس میں توسل، شفاعت، میلاد، مولد النبی، نعت خوانی، اہل بیت، شہادت امام حسین، مقام صحابہ، مقام اولیاء، مقام صالحین اور کئی اور موضوعات شامل ہیں۔ مخالفین اپنے وعظ میں ان موضوعات کی بجائے کچھ اور ہی بیان کر رہے ہیں۔ ادھر جب نوجوان نسل ان کو سنتی ہے تو ان کو طرف راغب ہو جاتی ہے اپنے عقائد کا تو ان کو پتہ ہی نہیں، تو پھر یہ عقیدہ کیسے پروان چڑھے گا۔

آپ نے کہا کہ یہ تصور بھی غلط ہے کہ تصوف میں ہاتھ میں ہاتھ دینا ضروری ہے۔ تصوف میں ہر قدم اور ہر شے اللہ کے لیے ہوتی ہے۔ بیعت ایک معاہدہ اور عہد ہے، جو بندے اور اللہ کے درمیان ہے۔ جسمانی طور پر یہ لازمی نہیں ہے۔ یہ رائج رسوم میں ایک رسم ہے جو جائز ہے لیکن ایسی کوئی بات شریعت میں نہیں۔

صحابہ کرام کے دور میں عرب میں ہاتھ میں ہاتھ دینا ایک کلچر تھا۔ جس طرح صحابہ نے بیعت رضوان کی، جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی ذکر کیا۔ اس طرح عقبی میں مناء کے میدان میں بیعت عقبیٰ ثانیہ، ثالثہ ہوئیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام کی مختلف بیعتیں ہیں۔ اس طرح سات، آٹھ قسموں کی بیعت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہیں۔ ان میں سے ہر بیعت مریدی اختیار کرنے کے لیے نہیں تھی۔ لیکن یہ ایک عہد ہوتا تھا۔ لہذا اگر کوئی ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسا نہ کرے، یعنی ہاتھ میں ہاتھ نہ بھی دے تو وہ غلط نہیں ہے۔ ایسا نہ کرنے والا شخص بھی مرید ہو سکتا ہے۔ شیخ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ طریقہ واجب نہیں ہے۔ یہ طریقہ حضور غوث الاعظم اور شاہ نقشبند سمیت بہت سے آئمہ کی کتب میں ہے۔

حضرت داتا گنج بخش کے استاد امام ابو القاسم قشیری اور ان کے شیخ امام ابو عبدالرحمن سلمی کی کتب میں بیعت کے لیے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا طریقہ ہی رائج نہیں۔

حضرت شقیق بن ابراہیم بلخی جن میں سے تمام سلاسل ملتے ہیں، انہوں نے حضرت ابراہیم بن ادھم کی صحبت اختیار کی لیکن ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیا، بلکہ صرف مجلس سے شیخ مان لیا۔

شیخ کے لیے اجازت نہیں کہ وہ چل کر لوگوں کے پاس جائے اور لوگوں کو مرید بناتا پھرے۔ شیخ وہ ہے جس کے پاس مرید خود چل کر آئیں اور دس میں سے کسی ایک کو مرید بنائے اور باقی نو کو چھوڑ دے۔ انہیں اپنی مجلس میں فیض لینے کا کہے۔ جو زہد نہیں سکھاتا، وہ کون سا شیخ ہے۔

آج ہم نے ٹونے ٹوٹکے کا نام تصوف بنا لیا ہے۔ اس شیخ کی صحبت اور مجلس جائز ہے، جو عالم ہو، زاہد ہو، ظاہر اور باطن میں کامل ہو۔ کیونکہ یہ شیخ کی ذمہ داری ہے، جب مرید اس کی ارادت میں آ جائے تو اس کو سنتیں بھی سکھائے اور فرائض بھی سکھائے۔ الا ماشاء اللہ آج کے نام نہاد شیوخ کو تو نماز میں سنتیں، واجبات اور فرائض کا بھی علم نہیں رہا۔ مریدوں کی تلاش میں ملک ملک مارا مارا پھرنا، ایسے کسی تصوف کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔

شیخ الاسلام کا خطاب 7 بج کر 25 منٹ پر ختم ہوا۔

تبصرہ

Top