اے آر وائی نیوز : ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا مبشر لقمان کو خصوصی انٹرویو

مبشر لقمان: آپ دیکھ رہے ہیں پروگرام ’’کھرا سچ‘‘۔ آج ہم بیٹھے ہیں منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ میں اور منہاج القرآن کے روح روان اور سیاق و سباق ڈاکٹر طاہر القادری ہمارے ساتھ ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کچھ تو میں نے آپ سے سوال کرنے ہیں، آپ یہ سمجھیں کہ میں آج 14 جنوری ہے۔ میں ذرا Fast forward آج 27 دسمبر نہیں ہے۔ آج 14 جنوری ہے کیونکہ آپ نے بڑی تفصیلی ایک تقریر کی مینار پاکستان پہ، اس پہ آپ کا جو موقف تھا وہ بڑی clearly سامنے آیا ہے۔ مجھے کم از کم اس پر کوئی ambiguity نہیں ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ آپ لوگوں کو انٹرویو دینا شروع ہوگئے ہیں، جو سوالات اٹھتے ہیں آپ کی ذات کے حوالے سے وہ اس میں بھی clear ہو رہے ہیں۔ میرا آج جو زیادہ stress چودہ جنوری اس کے بعد اور پاکستان کی کیونکہ geo-political situation اس حوالے سے زیادہ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج 14جنوری ہے۔ دو ملین نہیں تقریباً چار ملین چالیس لاکھ افراد جو ہیں اس کمرے کے باہر دھرنا لگا کے اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب کیا کریں، اب کیا ہوگا۔

شیخ الاسلام: ایسی صورت میں میں نے بہت زیادہ بوجھ federal government پہ نہیں ڈالا نہ provincial government پہ ڈالا ہے۔ Simple ایک چیز بڑی آسان کی Adjustment تجویز کی ہے اور یہی چودہ جنوری کو ہونی ہے کہ وہ more اور less اپنا Tenure مکمل کر چکے ہیں۔ ایک دو مہینے اوپر نیچے ہونا معنی نہیں رکھتا۔ ان کا Tenure complete ہوگیا اور وہ اس کی مبارک باد لے چکے ہیں۔ کہ First time انہوں نے اپنا پورا پیریڈ Complete کیا ہے۔ مطالبہ صرف یہ ہے کہ اب اسمبلی کو Resolve کریں اس لئے کہ Just, Honest Free and Fair اور Free of all corrupt services ان شرائط کے ساتھ جو آئین پاکستان نے دی ہیں۔ ایک الیکشن ہونا ضروری قرار پایا ہے اور اس کے لئے اسی طرح کی ایک care taker govt کی ضرورت ہے۔ جس کی اپنیPolitical ambushes نہ ہو۔ کسی کے ساتھ پولیٹیکل جھکاؤ نہ ہو۔ کسی کے ساتھ پولیٹیکل اس کی دشمنی نہ ہو۔ نہ کسی کو نفع پہنچائے نہ کسی کو نقصان پہنچائے۔ اور الیکشن کے بعد بھی اس کے Western political interestنہ ہوں۔پھر وہ گورنمنٹ اس کے ability ہو، vision ہو، will ہو اور اس کے پاس Competency ہو اس کے honesty ہو، اس کے پاس vision ہو، will ہو اور اس کے پاس Courage ہو اور ادارے support کر رہے ہوں تاکہ اس ملک کو وہ ایسا الیکشن دے سکے کہ care taker govt. ، electroreforms وہ کرے اور وہ electroreforms کے ساتھ Constitutional شرائط کے تحت الیکشن کروائے تاکہ پاکستان سے جمہوریت کے نام پر سیاست کا گند صاف ہو۔ اور اچھی قیادت آ سکے۔

single مطالبہ 14 جنوری کو ہوگا کہ آپ اس کو تحلیل کرکے care taker govt. تمام stake holder کے اعتماد کے ساتھ بھلے آپ کا agreement گورنمنٹ کا اور اپوزیشن پارٹی کا ضروری ہے۔ 20th ویں ترمیم کے تحت اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ وہ ہو مگر In addition to that باقی تمام stake holders کو اعتماد میں لیں۔ جنہوں نے عدل فراہم کرنے کی ذمہ داری نبھائی ہے۔ جنہوں نے امن و امان کو سنبھالنا ہے۔ اور خاص طور پر بلوچستان کے لوگ جو پچھلے الیکشن میں بڑی پارٹی شریک ہی نہیں ہوئی تھیں اور ان کی اس Constitution authority maintain نہ کرسکے۔ وہ already باہر ہیں۔ اگر آپ باہر کے stake holder کو نہیں لیتے تو اس کا مطلب ہے اگلا الیکشن آپ ملک توڑوانے کے لئے بنا رہے ہیں۔ بس یہ ہوگا کہ care taker govt اس شرط پر قائم ہونی چاہیے۔

مبشر لقمان: میں آپ کے موقف سے agree نہیں کرتا اس sence میں کہ اگر کوئی الیکشن سے ہی باہر رہا ہے۔ اپنی choice سے ہی باہر رہا ہے۔ مثلاً پاکستان تحریک انصاف تو پھر وہ کسی پہ الزام نہیں لگا سکتے۔ کہ وہ اس سسٹم کے تحت جناب غلط لوگ آئے ہیں۔ انہوں نے خود choose کیا کہ وہ باہر رہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ جنوری گزر گئی۔ اب آج 17 جنوری ہے۔ اب ہم یہ سمجھ رہے ہیں۔ 17 جنوری آگئی، تین دن کا دھرنا ہوگیا۔

شیخ الاسلام: لیکن وہ جو ایک درمیان میںآپ نے subsection آگیا آپ کے سوال کا ۔ اجازت دیں گے کہ 14 جنوری کے بعد جانے سے پہلے میں تھوڑا سا اس حصے یہ بات کر لوں۔

مبشر لقمان: بسم اللہ۔

شیخ الاسلام: دیکھیے۔ مبشر لقمان صاحب وہ اپنی choice سے باہر رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں مگر آپ گراؤنڈ reality کا انکار تو نہیں کرسکتے۔ ان کی Existence اور Existence validity کا انکار تو نہیں کرسکتے۔

مبشر لقمان: Exist تو یہاں پر القاعدہ بھی ہے تو القاعدہ سے بھی ووٹ لے لیں۔

شیخ الاسلام: نہیں وہ valid نہیں ہے۔ میں نے لفظ بولا Existence validity، ان کی Existence دہشت گردی کے لئے ہے تو نہ وہ جمہوریت میں نہ وہ آئین اور قانون میں ہے۔ وہ لوگوں اس لئے احتجاج سے گئے تھے کہ ایک NRO پر الیکشن ہو رہا تھا اور جس کو قوم کے نزدیک اور سب پارٹیز کے نزدیک یہ سمجھوتہ کوئی خیر کا سمجھوتہ نہیں تھا، شر پہ سمجھوتہ تھا۔ ایک مخصوص mindset کے ساتھ کیا جا رہا تھا اور فوجی آمر کروا رہا تھا۔ اس کو ان کا احتجاج ان کے نکتہ نظر سے valid تھا، اگر اس وقت انہوں نے احتجاج میں شرکت نہیں کی۔ مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ ان کی گراؤنڈ reality اور ان کی Existence validity کو چیلنج نہیں کر رہے لہٰذا ان کو شامل کرنا چاہیے۔

round the stake holder تاکہ ان کے مفاد میں ہوگا۔ مبشر صاحب کہ اگر دنیا کہے کہ الیکشن کے بعد دو پارٹیوں نے مک مکا کر لیا تھا اور ہم تو اس کو fair ہی نہیں سمجھتے تو کیا ہمارے لئے فائدہ مند ہے۔ وفاقی حکومت خود کہتی ہے۔ غیر جانبدار الیکشن کرائیں گے۔ ہر شخص کہتا ہے کہ منصفانہ الیکشن ہونے چاہیں۔ تو کیا غیر جانبدار منصفانہ الیکشن اور آزاد الیکشن کا اور آئینی الیکشن کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ irrespective of all these Gunges ساروں کو سے ووٹ لیں۔ اور ان پر ساروں کااعتماد قائم کریں۔ پوری قوم کی concenses ۔

مبشر لقمان: اب 17 جنوری آ گئی ہے۔ عصر کی اذان ہو گئی ہے اور اب آپ کو ایک فون آیا ہے کہ جناب حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ اب وفاقی حکومت نے آپ کی ڈیمانڈ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ care taker setup بنانا ہے اور آپ کا سلوگن ہے۔ ریاست بچاؤ سیاست نہیں ٹھیک ہے۔ اب تمام جو stake holders ہیں وفاقی حکومت کے صوبائی حکومتوں کے اپوزیشن پارٹیاں اور بلوچستان کی جو بھی Legitanate stake holder ہیں جیسا آپ فرماتے ہیں اب وہ سارے آپ کو فرداً فردا ً request کرتے ہیں۔ جناب ڈاکٹر صاحب آپ ہمارے Prime minister بن جائیں تو آپ کا جواب کیا ہوگا۔

شیخ الاسلام: آپ کے سوال میں دو حصے ہیں چونکہ آپ نے عصر کی اذان کہہ دی۔ میرا جواب تو پہلے ان کو جواب دینے سے پہلے یہ ہوگا کہ Just wait پہلے نماز ادا کروں گا اور اللہ کے حضور شکر انہ ادا کروں گا۔ کہ کسی نے اس حقیقت کو realize کیا ہے اب اگلا جو Specific سوال آپ کر رہے ہیں میں اس مقصد کے لئے یہ تحریک نہیں چلا رہا۔ وہ میرا objective نہیں ہے کہ وہ مجھے کہیں۔

مبشر لقمان: وہ آپ کو زور لگا رہے ہیں۔ آپ کے عقیدت مند بھی ہیں۔

شیخ الاسلام: میں زور اس لئے نہیں لگا رہا ہوں کہ مجھے Care taker Prime minister بنائیں۔ حاشا و کلا میری غرض و غایت اور میری Struggle کا objective یہ نہیں ہے۔ یہ جب اس وقت بات کریں گے۔ Discuss کریں گے تو یہ سوال وہ ہے جس کا جواب اس وقت حالات کی روشنی میں ان سے گفتگو کی روشنی میں کہ کہاں تک مطالبات مانے گئے۔ کہاں تک وہ support اور Authority of Constitutional دینا چا ہارہے ہیں۔

مبشر لقمان: آج 17 جنوری کو سارا مطالبات مانے گئے۔ اب آپ نے سوال کا نہیں اب آپ نے منت کا جواب دینا ہے۔

شیخ الاسلام: میں نے مبشر لقمان صاحب معذرت خواہ سوال کا جواب 17 جنوری کو عصر کے وقت ہی دے سکوں گا۔

مبشر لقمان: اس وقت دینگے۔

شیخ الاسلام اس وقت دوں گا۔

مبشر لقمان: 20 جنوری پر آ جاتے ہیں۔ تین تین دن بڑا ٹائم ہوتا ہے۔ اس ملک کے لئے۔ اب assume کر رہے ہیں کہ آپ نے اپنے عقیدت مندوں اور اپنے چاہنے والوں کی خواہش کے مطابق آپ نے وہ عہدہ لے لیا۔ میں assume کر رہا ہوں اور 20 جنوری بھی تو assume ہو رہی ہے، وہ بھی ایک مفروضہ یہ ہے۔ ہم نے دیکھا ہے جب بھی یہاں یہ امریکہ نے خطے میں کچھ کرنا ہوتا ہے تو وہ ایک فوجی انقلاب آتا ہے۔ یہ قوت ہے اور وہ ایک single Unified force جو ہوتی ہے یا power جو ہوتی ہے وہ ایک جگہ پر ایک نقطے پر آکر منجمد ہو جاتی ہے اور وہ امریکہ کے کہے ہوئے تمام احکامات جو ان پر عمل در آمد ہوتا ہے رہتا ہے اس بار چونکہ مارشل لاء کی گنجائش نہیں ہے۔ عوام بھی accept نہیں کرے گی۔ اور خود فوج بھی نہیں آنا چاہتی اچھا تو ایک سول سوسائٹی کا مارشل لاء جو لگتا ہے لایا جا رہا ہے۔ شاید خطے میں امریکہ نے دوبارہ سے کوئی حرکت کرنی ہے۔ اس صورت میں اگر آپ کو Choose کرنا پڑے کہ امریکی دوستی Choose کریں گے یا چائنہ دوستی Choose کریں گے۔ پاکستان کے لئے پاکستان کا future متعین کرنے کے لئے ۔

شیخ الاسلام: اس طرح کا سوال آپ جتنی بار بھی کریں گے جواب دینے سے پہلے میں ایک جملہ ضرور کرتاجاؤں گا۔ تاکہ میری پوزیشن clear رہ اور کسی ایک جواب سے بھی جو لاکھوں ملینز لوگ مبشر لقمان صاحب کا سوال اور میرا جواب سن رہے ہیں۔ انہیں غلط فہمی نہ ہو کہ میں کسی care taker Prime Minister شپ کے لئے ، عہدے کے لئے یہ Struggle نہیں کر رہا۔ یہ میری نیت ہی نہیں میری نیت electroreforms کرکے اٹھارہ کروڑ عوام کو اس دائمی عذاب سے نجات دلانا ہے۔ اب آپ کی مفروضہ کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ صرف میں اس حصے کو یوں لوں گا۔ کہ آپ مجھ سے گویا یوں پوچھ رہیں ہیں کہ آپ کا Choiceکیا ہوگا۔ میرا Choice نہ امریکہ ہوگا نہ میرا Choice چانئہ ہوگا۔ میرا Choice ہوگا پاکستان اور پاکستان۔ پاکستان اس کے اٹھارہ کروڑ عوام پاکستان کی سا لمیت، پاکستان کی آزادی پاکستان کی خود مختاری، پاکستان کی Sustainable economic growth ۔

پاکستان کی economy یہاں کے human rights اور یہاں کی امن و سلامتی مقصد یہ بات کہ Supreme National interest میرا Choice ہوگا۔ اور امریکہ کا کبھی Choice یہ ہوگا، چین کا بھی یہ Choice ہے۔ کہنے کو UK کا اور European Countries کا Russia سمیت دنیا کا کوئی ملک کسی ملک کا وفادار دوست ہے نہ کسی کا پکا دشمن ہے ہر کسی کی اصل دوستی اس کے اپنے قومی مفادات سے ہوتی ہے بدقسمتی یہ ہے کہ 60 سال میں ہم اپنے قومی مفادات کا تعین نہیں کرسکے۔ ہم اپنی سمت متعین نہیں کرسکے۔ جس کی وجہ سے ہماری خارجہ پالیسی ایک ڈگمگاتی کشتی کی طرح چل رہی ہے۔ جس کا direction ہی نہیں ہے۔

مبشر لقمان: آپ جو چھ سال کینیڈا میں رہے۔ وہاں پر آپ کو کوئی ٹائم ہی نہیں ملا آپ اس سے پہلے آ جاتے ابھی آپ کو الیکشن سے 15 دن پہلے ہی آنا تھا ۔ دو ماہ پہلے آنا تھا اور آکے یہ سب کچھ کرنا تھا۔

شیخ الاسلام: یہ بات آپ نے بڑی important پوچھی ہے، اور میں Credit دیتا ہوں چھ سال باہر رہنے کا سوال مجھ سے کہیں پروگراموں اور کئی اینکرز نے اور جنرلسٹ نے پوچھا ہے۔ مگر اس angle سے نہیں پوچھا گیا اس وقت تک وہ اور angle سے پوچھتے رہے کہ آپ اچانک آ کے یہ step اٹھا لیا۔ مگر یہ بڑی ایک عجیب بات کی کہ ٹائم ہی نہیں ملا اس ترجیح کے لئے چھ سالوں میں پہلے۔ ہاں! ٹائم تھا، میں چند چیزیں آپ اجازت دیں تو کہنا چاہوں گا۔ آپ نے سوال بڑا اہم اور وزنی کر دیا ہے اور نیا کیا ہے۔ لوگوں کے نزدیک شاید common سوال ہے، مگر آپ اپنے نئی Dimension لی ہے۔ میں غافل نہیں رہا ۔ پاکستان سے۔ چھ سالوں میں۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں پہلے تو بات یہ ہے کہ چھ سال کا عرصہ نہیں ہے۔ تین سال گزرے ہیں۔ یہ چوتھا سال ہے میں آیا ہوں۔ اس سے پہلے تو regular آتا رہا ہوں یہاں تین سال ساڑھے تین سال کر لیں یہ چوتھا سال ہے۔ میری ترجیحات میں پاکستان رہا۔ لیکن خدا کا شکر ہے پاکستان کو آپ دیکھ لیں۔ کوئی ایسا شخص نہیں ہے۔ جو پاکستان سے باہر کروڑوں کی تعداد میں اورسیز Overseas پاکستانی، Pakistani community بس رہی ہے وہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ عربوں روپے کا زر مبادلہ بھیجتے ہیں۔ ہماری معیشت کے بہت سارے حصے کا ان پر انحصار ہے وہ ہماری طاقت ہیں۔ ہمارا Source ہیں ایک اطمینان کا اس دہشت گردی کی جنگ چھڑ جانے کے بعد وہ بالکل Defensive پہ چلے گئے تھے اور یہ حالت ان کی ہو گئی تھی کہ دنیا بھر میں پاکستانی غیر محفوظ تصور ہونے لگے تھے۔ wester world کا ہر شخص ہر گورا پاکستانی کی شکل پہچان کر سمجھتا He is a terrorist۔ حملے کرتے تھے اور اس کو دہشت گرد قرار دیتے تھے۔ پاکستانیوں کی کیفیت یہ تھی کہ side line لگ گئے تھے۔ اس وقت ضرورت تھی پاکستانی قوم کی کہ کوئی نکلے انہیں عدم تحفظ کے احساس سے باہر نکالے اور یہ جو غلط تصور چلا گیا تھا۔ مغربی دنیا کہ ذہن میں کہ پاکستانی دہشت گرد ہیں۔ اس جنگ پر کوئی لڑے کہ نہ پاکستان دہشت گرد ہے۔ نہ پاکستانی قوم دہشت گرد ہے۔ کچھ لوگوں کی غلطیوں اور جرائم کی وجہ سے پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام جو peaceful ہے، democratic ہے skillful ہے professional ہے اور پوری دنیا میں اپنے پروفیشنل کے فیض دے رہی ہے ان کو آپ ایسے کیوں سمجھتے ہیں۔ میں اس محاذ پر پاکستانیوں کو اس fear اور teror کی فضاء سے نکالنے کے لئے East سے West تک دورے کرکے کانفرنسز کی ہیں، 14، 14 ہزار پاکستانیوں کی، 12 ، 12 ہزار میں نے westen Parliment کو خطاب کئے ہیں، یورپ میں گیا ہوں۔ اور میں نے ان کے احساس اور Confidence کو بحال کیا ہے اور پاکستان کا جو immage خراب ہوگیا تھا Distorted کیا جا رہا تھا خاص لابی کی وجہ سے اس image کا damge کنٹرول کیا ہے۔ پھر اس کو میں نے بحال کرنے کی کوشش کی ہے اور Clash of civilization کی تھیوری کے تحت جو ایک بربادی کی فضاء شروع ہونے والی تھی۔ اس کو Culture & dialogue میں منتقل کیا ہے میں اقوام عالم کے سارے مذاہب کو اکٹھا کیا ہے Peace for humanity کانفرنسز اور Global dialogue کے system کھولے ہیں اور stage پر کھڑے ہو کر بتایا ہے کہ پاکستان یہ ہے، اور اسلام یہ ہے کہ جو ایک چھت میں سارے مذاہب کو امن و سکون فراہم کرسکتا ہے۔ تو میں نے struggle اس منحوس لابی کی جو پاکستان کے خلاف ایک جنگ جاری ہوگئی تھی۔اس سے پاکستان کو خارجی محاذوں پر بچانے اس کے immage کو بلند کرنے اور اس angle سے international level پر میں نے ان تمام سالوں میں کام کیا ہے۔ تین چار سال اور Plus دیکھتے ہوئے کہ اب ہمیں پاکستان کی کشتی کو اس گرداب سے نکالنا ہوگا۔اس immage کو Internally بھی دور کرنا ہوگا۔ پھر میں نے سب system کو study کیے ہیں۔ globally میں سٹڈی کی ہے۔

مبشر صاحب! UNO کے Resolutions پڑھے ہیں اور ان کی سٹڈی کی اور میں نے یورپ development میں نے پڑھی ہیں۔ کہ قومیں کس طرح اٹھتی ہیں، غلامی کی زنجیروں سے اور ترقی پر گئیں ہیں۔ کہاں کہاں خرابی ہوئی ہے، کہاں کہاں تباہی اور بربادی ان کی ہوئی ہے۔ میں نے ایک لانگ سٹڈی کے دوران جاری رکھتا رہا ہوں اور کرکے جب Frame of mind میں نے سٹڈیcomplete کرلی او راس نتیجے پر پہنچا کہ ساری تباہی کی جڑ Electoral system کا فساد ہے اس کو جب تک درست نہیں کریں گے۔ ہمارا immage درست نہیں ہوگا۔ لہذا میں اس وجہ۔

مبشر لقمان: اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب آپ نے اتنا Inter faith hormoney اور Intra faith hormoney دونوں پر کر لی بات تو کیوں نا اب پاکستان کے مسائل بھی کم کریں۔ معاشی بھی اور دوسرے بھی اور جو ہمارے Perception ہیں۔ جب بریک سے واپس آئیں تو ڈاکٹر صاحب سے سوال پوچھوں گا کہ پاکستان کیوں نا اسرائیل کے ساتھ صلح کر لے۔

ڈاکٹر صاحب اسرائیل سے تو میری کوئی لڑائی نہیں ہے۔ معذرت کے ساتھ فلسطین کے اوپر بات ہوتی ہے۔ تو یاسر عرفات نے ہمیشہ ہندوستان کا ساتھ دیا ہے۔ کشمیری مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا۔ سعودی عریبیہ نے تو آج تک تو یہ نہیں بتایا کہ اسرائیل جو بیچ میں ہے مشرق وسطہ کے ا سکو پیڑول کون دیتا ہے، کون سا ملک دیتا ہے۔ اگر وہی بند ہو جائے تو اسرائیل کی گاڑیاں کھڑی ہو جائیں ساری کی ساری بھٹک کر ہم کتنا interfaith کر رہے ہیں۔ وہ بھی تو بحر حال چلیں کیا کہتے ہیں۔ ایک نبی کے ماننے والے ہیں ایک آسمانی کتاب ان کے اوپر آ چکی ہے۔ تو رات جو ہے تو ہم کیوں نہ امن سے صلح کر لیں۔

شیخ الاسلام: میں آپ کو مبارک دیتا ہوں کہ آپ نے پھر ایک اچھوتا سوال کیاہے جو میری کینیڈا سے پاکستان آمد سے پہلے کے تمام انٹرویو سے لے کر اب تک کے کی انٹرویو یہ بات نہیں پوچھی گئی۔ آپ ایک خطرناک آدمی لگتے ہیں۔ نہیں یہ آپ نے حق ادا کیا او ریہ آپ کا right ہے او ریہ بات اچھی میں مبارک اس لئے دے رہا ہوں کہ یہ چیزیں جو لوگ lead کر رہے ہیں، قوم کو ہرہر angle پر ان کا vision قوم کے سامنے ہونا چاہیے۔ ان کے اندر courage کیا ہے۔ ان کا vision کیا ہے۔ International issues ، national ، regional issues ان کی thinking ان کی under stanging کیا ہے اور اگر ہم نے صرف ساز ناز اور پیسے کی لین دین کی سیاست کرکے ہی لیڈر بن جاناہے تو قوم اس طرح بربادی کے گڑھے ہی رہے گی۔اس لئے they so i appreciate ، this question دیکھیں جواب یہ ہے، اسرائیل کو نہ مانا۔ یا اسرائیل کے ساتھ ہمارا اختاف میں آپ کو اپنا point of view دے رہا ہوں۔ اور کی بات نہیںکرسکتا۔ آپ نے بعض ملک کا ذکر کیا۔ میں ان پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ میں resposible ہوں میرا Point of view کیا ہے۔ ہمارا اسرائیل سے اختلاف اس وجہ سے نہیں کہ وہ Jews religion رکھتے ہیں۔ وہ یہودی مذہب کے قائل ہیں۔ تورات کو مانتے ہیں، اور قرآن کو نہیں مانتے۔ یہ وجہ نہیں ہے، اس روئے زمین پر اگر مسلمان مسلمانوں کو اپنی ریاست میںآزادانہ رہنے کا حق ہے، ہندو مذہب کے ماننے والوں کو آزادی سے رہنے کا حق ہے۔ christian community کو آزادی کا حق ہے، why not for Jews community انہیں بھی آزادی، استحکام کے ساتھ رہنے کا انتا ہی حق ہے، جتنا مسلمانوں کو، ہندوؤں، عیسائیوں سکھوں، کسی مذہب کو ہی، ہمارے اختلاف کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ ہم اس وجہ سے نہیں مانتے یہ رسول پاک a نے یہ فلسفہ نہیں دیا۔ آقا a نے تو یہودیوں کے ساتھ پہلا alliance قائم کیا۔ جو میثاق مدینہ کہتے ہیں جس کے پرانے سکالرز نے 48 آرٹیکل بنائے تھے یہی اس کے اوپر کتاب لکھی ہے۔ میں نے اس کی فرداً Constitutional division کر 63 آرٹیکل میں Constitution of Madina کو کیا ہے اور میرے بیٹے ڈاکٹر حسن محی الدین نے PhD بھی اس پر Constitution of Madina پر کی ہے۔ اچھا تو حضورa نے تو allince کیا اور ان کو اس پولیٹیکل alliance میں شامل کرکے یہ فرمایا کہ انہ امۃ واحدۃ میں تمہیں ایک پولیٹیکل Community، اور nation قرار دیتا ہوں اور ان کے alliances کو اس nation اور community کا حصہ قرار دیتا ہوں۔ پھر حضورa نے تو مسیح وفد جو آتے تو ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کے مذہب کے مطابق اپنے قبلہ کی سمت ہی عبادت کی اجازت دی۔ اسلام وہ دین ہے اور ہم اس کے پیرو کار ہیں۔ جنہوں نے پوری دنیا میں live and let کا کلچر دیا ہے اور پوری دنیا کو Religion hormone دی ہے اور پوری دنیا کو کلچر آف ڈائیلاگ دیا ہے تو ہمار اس بنیاد پر اختلاف نہ ہے، نہ ہونا چاہیے اگر بعض ذہن اس وجہ سے اختلاف رکھتے ہیں تو clear کریں، یہ قرآن و سنت کی تعلیم نہیں ہے۔

ہمارا اختلاف دیگر ground پر ہے اور وہ grounds ہیں۔ Total democracy کی، وہ grounds ہیں، human rights کی وہ grounds ہی ٹوٹل Liberty جو freedom کی یعنی فلسطین ایک ریاست میں رہ رہے تھے سال ہا سال سے بلکہ صدیوں سے اور UNO کا resulation پاس ہوا جب یہ ٹکڑے ہوا۔ کہ یہ خطہ فلسطین کی Independence state بنے گی۔ اور اس حصے پر جتنی آبادی Jews کی تھی ۔ ان کی independent اسرائیل کی اسٹیٹ بنی تھی آج 65 سال ہوگئے۔ اُس قرار داد UNO کی قرار داد اور اسمبلی کے Resolution اسٹیٹ کے طور پر رہنے پہ ہمیں اعتراض نہیں اگر یہ وہ دوسری شرط پوری ہو جائے۔

ہمیں اعتراض ہے کہ اگر ان کو اسٹیٹ کے طور پر تسلیم کیا جانا ان کا حق ہے تو Why not this right to be given to Palestine's ۔

مبشر لقمان: اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل کی حقیقت فرق یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں۔ سفارتی تعلقات اس وقت ہونگے وہ فلسطینیوں کو حق دیں گے۔

شیخ الاسلام: نہیں میرا جواب یہ نہیں۔

مبشر لقمان: میں غلط سمجھا پھر

شیخ الاسلام: جی ہاں میں دوبارہ عرض کر دیتا ہوں۔ میں نے یہ نہیں کہا بلکہ میں نے یہ کہا ہے کہ ہمیں یہ اعتراض نہیں کہ فلسطین کو یہودیوں کو اس ریاست میں رہنے اور جینے کا حق نہیں ہے۔ مگر وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ نہیں ہوسکتی تسلیم۔ International principals of democracy اس کو negate کیا جا رہا ہے۔ کہ فلسطینیوں کا اور اسرائیلیوں کا بیک وقت حق بقا تسلیم کیا جائے اور حق ریاست تسلیم کیا جائے۔ فلسطین جو اصل گھر اور زمین کے مالک تھے وہ دنیا میں دھکے کھائیں وہ دہشت گرد بن جائیں ان کے پاس زمین نہ رہنے کا گھر نہ ہو ان کے پاس جینے کا حق نہ ہو۔ ان کی آزادیاں سلب ہوں۔ ان کے عبوری حقوق سلب ہوں جمہوری حقوق سلب ہوں human tight سلب ہوں۔ International Commitment سلب ہوں، تو پھر ایک گھر کو تسلیم کیا جائے ایک کو نہیں۔ یہ ظلم ہے، یہ injustice ہے، ہمارا مطلب ہے کہ world commuity اسرائیل کے ساتھ فلسطین کو بھی ریاست بنائے۔ آزاد اور خود مختار ریاست ان کو حق دے UNO میں ان کی ممبر شپ ہو۔

Full-fledged autonomy خود مختاریت کے ساتھ۔ ان کی حیثیت تسلیم کریں اس کے ساتھ اسرائیل کی بھی ریاست تسلیم کرلے۔

مبشر لقمان: لیکن میرا یہ کہنے کا مطلب ہے کہ اگر پاکستان آپ اس کو logically دیکھیں تو واحد ملک ہے دنیا کے تمام ممالک میں اسلامی ممالک میں جس کی کوئی حیثیت ہے۔ جو اسرائیل تسلیم کرتا ہے یعنی وہ پاکستان کو سمجھتا ہے کہ یہ طاقت والا ملک ہے۔ جو Nuclear بھی ہے فوج بھی اس کی ایسی ہے یہ سارا کچھ ہے۔ اگر پاکستان اور اس کا روابط ہیں تو ڈائیلاگ ہوتا ہے۔ narrative بیان کیا جاتا ہے۔ تو کیا بہتر پوزیشن میں نہیں ہے۔ فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے میں۔

شیخ الاسلام: دیکھیں ڈائیلاگ کا میں نے انکار نہیں کیا۔ میں تو beliver ہوں کلچر آف ڈائیلاگ کا۔ انڈیا کے ساتھ ہمارے اختلافات ہیں بہت سارے ایشوز پر اور کشمیر کے matter کے اوپر میں still یہی believe کرتا ہوں کہ ڈائیلاگ ہونا چاہیئے۔ چونکہ جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے جنگوں کا زمانہ گزر گیا۔ دہشت گردی کا زمانہ۔ terror کا زمانہ بندوق گولی کا دور گزر گیا، اب یہ دور ہے کلچر آف ڈائیلاگ کا۔ تو انڈیا کے ساتھ بھی میں چاہتا ہوں کہ friendly relations قائم ہوں۔ dispute resolve کرنے کے بعد اور resolution جنگ اور بندوق اور گولی سے نہیں ہونگی ڈائیلاگ کے ذریعے ہونگے۔

International Democratic principal کے ساتھ ہونگے۔ قوموں کے اور طبقات کے آزادی کے حق تسلیم کرنے کے ساتھ ہونگے تو جب ہم انڈیا کے ساتھ ڈائیلاگ کو جائز سمجھتے ہیں تو why not with Israil ۔ ڈائیلاگ کا کوئی انکاری نہیں ہے۔ basic point یہ ہے کہ ڈائیلاگ nuclear یہ ہو کہ فلسطینیوں کا حق بقا حق زندگی حق ریاست حق آزادی اور حق خود مختاری بھی اسی طرح تسلیم کیا جائے اور اسرائیل کو بھی اسی طرح تسلیم کریں۔ کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ UNO کی قرار داد میں چاہتا ہوں۔ Later and spirit ،1947 کی That shuld be implement ۔

مبشر لقمان: آگئی 26جنوری اسرائیل نے ایران پر attack کر دیا۔

شیخ الاسلام: یہ جوبات آپ 26 جنوری پہ اب آئے آپ نے 2014 ، 15 تک کی، 26 جنوری باتیں پہلے پوچھ لی ہیں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ ہم بڑی جلدی یہ مراحل طے کریں گے۔ اگلے چھ مہینے میں پاکستان بہت زیادہ stages سے گزرنے والا ہے اور یہ میں آؤں گا end پہ آپ کے لانگ مارچ پہ۔

درست بات ہے۔ میں آپ کی بات کو endorse کرتے ہوئے کہوں گا۔ آپ جتنا تیزی سے سوالوں کو آگے لے جارہے ہیں اسی طرح تیزی سے ہماری قوم اور ملک کا وقت گزر رہا ہے۔ ہمیں تیزی سے فیصلے کرنے ہیں۔ اس وقت لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ دیانت داری کے ساتھ اپنے گند کو غلاظت کو، کرپشن کو پاک کر کے اور اکنامکسstatebility کو پولیٹیکل اپنی clearityکو اپنی vision کو اپنے good governess کو اپنی Trans piracyتاکہ ہم دنیا کے roleplay کر سکیں۔ عالم اسلام کا آپ نے صحیح کہا واحد ملک ہے۔

newclear power اور ہم فخر تھے۔ Pride of Nations of the Muslim Ummah تھے۔ آج ہم life stock بن گے۔ درست ہے ہمیں جلدی سے فیصلے کرنے ہیں۔

مبشر لقمان: اسرائیل نے ایران کے newclearپہ حملہ کردیا۔ 26 جنوری کا دن ہے۔ پاکستان ایران کے sideپہ ہو گا یا اسرائیل کی ۔

ہم ایران کا ساتھ دیں گے کہ چپ رہے گئے۔ مصلحتاً catagorical

شیخ الاسلام: جواب چاہتے ہیں؟ ایران کا ساتھ دیں گے۔ اس لیے کہ اسرائیل ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک dose not matter کس کو right دیا ہے کہ وہ کسی ملک پر حملہ کرے اس پر بم گرائے۔ اس کی آزادی اور خود مختاری میں مداخلت کرے۔ ہم بشمول دنیا کے تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک کے ہم ہر ملک کی آزادی کی قدر کرنے کے قائل ہیں۔ ہم ہر ایک کی آزادی، خود مختاری، سا لمیت، اس کے قدر کرنے کے قائل ہیں۔ یہ ہمارا problem ہے ہمارے اندر اور باہر حملے ہو رہے ہیں۔ ہمارے اوپر قیادت اس قابل نہیں ہے کہ اس کو بچاسکے ہم پر جو ظالم ہو گا اس کے خلاف مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

مبشر لقمان: مجھے یہ problemہو رہی ہے کہ آپ نے القاعدہ اور دہشت گردوں کے خلاف تو فتویٰ دے دیا۔ آپ نے یہ کہا کہ کھل کے فتویٰ دیا۔ بڑی بہادری کی بات ہے۔ میں مانتا ہوں لیکن جب امریکہ کے ڈرون حملے معصوم بچوں اور عورتوں کی جانیں لیتے ہیں تو امریکہ کے خلاف فتویٰ نہیں آتا۔ اگر کوئی فلسطین کا بندہ مارا جاتا ہے، اٹھایا جاتا ہے اس کے لیے تمام علماء دین اکٹھے ہو جاتے ہیں آپ اتنے سال کینیڈا میں رہے، میں نے وہاں پہ ایک کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بازیابی کے لیے آپ نے تعلقات استعمال کیے ہوں یا منہاج القرآن کے اثر و رسوخ کو استعمال کیا ہو۔ تو یہاں پہ ہم کیوں ignore کر دیتے ہیں امریکہ کو۔

شیخ الاسلام: بات یہ ہے کہ میں تعلقات ضرور استعمال کرتا کہ اگر میرا کوئی تعلق وائٹ ہاؤس کے ساتھ ہوتا۔ میری خوش بختی سمجھیں کہ میں تعلق گرین ہاؤس سے یعنی گنبدِ خضریٰ کے ساتھ ہے، وائٹ ہاؤس کے ساتھ میرا آج کے دن تک کوئی تعلق نہیں کہ میں اپنے تعلقات یا اپنے referencesکو استعمال کر سکوں۔ میرا معاملہ صرف یہ ہے کہ مختلف دنیا کہ بشمول امریکہ اور پوری ورلڈ کے پلیٹ فارمز پر اکیڈمک پلیٹ فارمز پر think tank پر یونیورسٹیز پر اور ان کے بڑے بڑے انسٹی ٹیوشنز پر اور ان کی پارلیمنٹ میں اور اپنی آواز بلند کر رہا ہوں اور بات کرتا ہوں۔ یہ جو بات آپ نے ڈرون حملوں کی کی ہے میں نے اپنی speech میں بھی کہا اور ہر جگہ کہا۔ میری اگلی ایک کتاب آرہی ہے، جہاد پر سپیشنل اور reality اس کے اوپر ڈرون حملوں پر سن لیجئے، کسی ملک کو ڈرون حملوں کی پاکستان سمیت کسی ملک میں کرنے کی اجازت نہیں، یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔

مبشر لقمان: وہ تو کر رہے ہیں۔

شیخ الاسلام: جی میں بتاتا ہوں کیوں کر رہے ہیں یہ ملکی Sovereignty کے خلاف ہے international Law کے خلاف ہے اب کر کیوں رہے ہیں، امریکہ کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں ہاتھ ڈالنا ہے، international law اجازت ہی نہیں دیتا امریکہ کے اگر یہاں کی ریاست اور حکومت اگر انہوں نے خود اجازت نہ دی ہو۔ یہ حکومت کاکام تھا۔ حکومت کی مرضی ، حکومت کی اجازت یا اس کے silent approval اور Consentکے بغیر کوئی ملک پاکستان کی سرزمین پہ ڈرون حملے نہیں کر سکتا۔ اگر یہ جاری ہیں تواس کا مطلب ہے Responsible ہماری اپنی گورنمنٹ اور پولیٹیکل قیادت ہے، جن کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ اپنے اقتدار کی کرسی کو بچانے کے لیے جو روک نہیں سکتے اس کو کیا آپ کون ہوتے ہیں۔ ہماری زمین پر ڈرون حملے کرنے والے۔

ہماری دو طرح کی کمزوریاں ہیں۔ ہمارے ہاں دو طرح کی ہماری خودمختاری، سا لمیت، attack میں ہے، ایک ڈرون حملوں کا attack خارجی اور ایک داخلی ابھی پشاور میں بیس پر حملہ کرنے والوں کے جسم پر ٹیٹوز نکلے وہ باہر کی قومیت کے لوگ نکلے۔ تو باہر کی قومیت کے لوگوں نے بھی ہماری خودمختاری پر حملہ کر رکھا ہے اور اس کو center of threat اور center of Exporting ، threat all over the world بنادیا ہے۔ پاکستان کو تو ہمیں اپنے ملک کی اندرونی خود مختاری کو بحال کرنا ہے اور بیرونی سطح پر بھی خود مختاری کو بحال کرنا ہے یہ دو کام ایسے ہیں کہ at the same time ہونے چاہیے۔ گورنمنٹ اس کو categoricaly منع کرے اور یہ کہ ادھر سے دہشت گردی ختم کرے، اور ادھر کہے کہ خبردار ہم کسی ڈرون حملے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم اس معاملے کو خود نپٹ کر دکھاتے ہیں۔ دونوں کام دیانتداری سے ہوں تو دونوں چیزیں ختم ہو سکتی ہیں۔

مبشر لقمان: دیانتداری سے تو نہیں ہو رہا۔ یہاں پہ مذہبی لوگ بھی ذرا بخل سے کام لے رہے ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں تو میں کھل کر بات کر لیتا ہوں

شیخ الاسلام: نہیں آپ نے اشارہ کر دیا۔

مبشر لقمان: آپ کے مدارس کے Bridling ground نہیں ہیں مگر ایک دینی مدرسے کے اوپر کوئی آرمی جاتی ہے۔ یا پولیس جاتی ہے تو پوری اسٹیٹ ایک عذاب میں آجاتی ہے، کہ دیکھو رسول اﷲ کی شان میں گستاخی ہو گئی، مذہب کے نام پہ یہ ہو رہا ہے۔ مذہب کو جب لوگ استعمال کرتے ہیں اور معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ غلط نہیں ہے۔

شیخ الاسلام: میں آپ کی اس بات سے agree کرتا ہوں لیکن ساتھ اس سے تھوڑا اختلاف کروں گا کہ میرا تعلق چونکہ جدید اور قدیم دونوں کلچر اور دونوں سوسائیٹز کے دونوں قسم کے طبقات کے ساتھ پوری لائف میں رہا ہے۔ میں ذاتی طور پہ جانتا ہوں کہ یہ کیفیت سارے مدارس کی نہیں ہے۔ بلکہ Probablyکہوں گا کہ 90% سے 80% مدارس میں بھی ایسے نہیں ہیں۔

مبشر لقمان: میں کہتا ہوں کہ ایک فیصد میں ہے۔

شیخ الاسلام: ہاں ممکن ہے ایک فیصد میں ہوں۔ اگر ایک فیصد میں جہاں ایسا ہے دہشت گرد پالے جاتے ہیں۔ تربیت دی جاتی ہے ان کو پناہ دی جاتی ہے تو وہ مدارس نہیں ہیں۔ ان کی حیثیت مسجد ضرار کی ہے جس کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق آگ لگا کے جلا کے مسمار کر دیا گیا تھا۔ میں ان مراکز کو مدارس نہیں سمجھتا۔ وہ دہشت گردی کے مراکز ہیں، مگر پھر کہتا ہوں کہ وہ مدارس نہیں ہیں۔ 99% آپ نے خود کہہ دیا میں نے تو احتیاط سے 90% کا کہا تھا۔

over willbeing Majority میں مدارس NGOs کا کام مدارس کرتے ہیں، غریب طلباء کو دین کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کی shortcomings ہیں۔ کہ سلیبس کو update نہیں کر سکے۔ جو modern world کی development ہیں۔ اس کے ساتھ شانہ بشانہ نہیں چلا سکے۔ جدید دور کی زبان modren language،سائنس، ٹیکنالوجی ، پولیٹیکل ، سوشل، Awareness ان چیزوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کر سکے، نصابات میںترمیم ضرورت ہے۔ یہ shortcoming، یہ بھی ہے۔

ذہن Narrow mindness ہے۔ اپنے فرقوں اور مسلکوں کی تعلیم سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ بعض جگہوں پر ایک دوسرے کو کافر بنانے کے لیے ترغیب دی جاتی ہے۔ اور ہم آج بھی کئی سو سال پہلے کفر کی فتوؤں اور ایک دوسروں کے خلاف جنگ و جدل کے ماحول میں ذہن بنا رہے ہیں۔ یہ shortcomings ہیں۔ کہ ان کے اندر broadmindness آئے۔ ان کا vesion broad ہو وہ آج اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق زندہ رہنا دین سے سیکھیں اور یہ زندہ رہنا تو تاجدارِ کائناتa ۔

مبشر لقمان: نہ کہ ان کو جلا کر مسمار کرایا جائے۔

شیخ الاسلام: جو ایسی اکا دُکا جگہ ہیں میں ان کو مدارس تسلیم نہیں کرتا۔ مدارس دینی نہیں ہیں ۔

مبشر لقمان: وہ دہشت گرد فیکٹری ہیں۔

شیخ الاسلام: میں سمجھتا ہوں کوئی مکتبِ فکر اس کو sport نہیں کرے گا۔ کہ اگر یہ دہشت گردی کے مراکز اگر ثابت ہو جائیںتو وہ اس کو برقرار رکھیں۔ نہ دیوبندی مکتبِ فکرکے علماء اس کو sport کریں گے کہ یہ رہیں، نہ اہل حدیث مکتبِ فکر کے نہ اہل سنت کے مکتب فکر کے نہ بریلوی مکتب فکر کے نہ شعیہ مکتب فکر کے کوئی مسلک اور تمام علماء وہ sport نہیں کریں گے کہ جہاں Establish دہشت گردی کی تعلیم ہے، تربیت ہے، پناہ گاہ ہے، کہ اس کو ختم نہ کیا جائے، علماء اس کی خدمت کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے، اتنی جرات سے نہیں کر پا رہے سارے جتنی جرات سے کرنی چاہیے کئی کرتے بھی ہیں، مگر میں اتنا agree کروں گا۔ جہاں مدرسہ کے نام پر دیکھیں اگر ایک بوتل ہے آپ اس پر لکھ دیں، دودھ یا شربت روح افزاء اور اندر شراب دے رہے ہوں تو توڑ دیں اس بوتل کو وہ روح افزاء کا ٹائٹل اس کو روح افزاء نہیں بنائے گا۔ وہ اس کے اندر کیا drink ہے وہ بنائے گا آپ اگر مدرسہ کا نام لکھ دیں۔ اور اندر دہشت گردی کی ٹریننگ ہو رہی ہو تو وہ اس بوتل کی طرح توڑ دیں مدرسہ نہیں ہے وہ دہشت گردی کا مرکز ہے وہ مگر مدارس اس سے پاک ہے ان میں اور طرح کی اصلاحات چاہیے کہ وہ کیا جائے اوپر کیا جائے ان کے درجے کو تاکہ جامعہ الازھر اور منہاج القرآن کی یونیورسٹی جو ہے اس طرح وہ اپنے نصابات کو update کر کے اوپر لائیں تاکہ ان کا درجہ بلند ہو۔

مبشر لقمان: واپس آتے ہیں، 27دسمبر پر۔ اب MQM ،CIA اور ISI کے علاوہ کون س جماعتیں ہیں جو آپ کے ساتھ ہونے کو تیار ہیں لانگ مارچ کے لئے۔

شیخ الاسلام: آپ کے سوال کے جواب میں پہلے تو میں لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم ۔ یعنی آپ نے MQM تو ہمارے ساتھ اس جنگ میں شریک ہے۔

مبشر لقمان: وہ نظر آگیا۔

شیخ الاسلام: یعنی آپ نے CIA اور ISI کو جماعتیں بنا دیا۔ ان میںسے نہ کوئی شریک ہے نہ ہو گا نہ ہم محتاج ہیں۔ سنیئے MQM اس لیے شریک ہے کہ وہ Middle class سے اٹھی ہوئی ایک جماعت ہے پوری عمر انہوں نے جاگیرداری، سرمایہ داری، وڈیرہ شاہی، استحصال کے خلاف نعرہ بلند کیا۔ اور جنگ لڑی اور ان کے جتنے MPAs اور MNAs ہیں ان میں کوئی ایک جاگیردار اور وڈیرا نہیں ہے وہ Middleکلاس کے لوگ ہیں۔ عام سٹوڈنٹ تھے ڈاکٹر تھے ، انجینئرز تھے، اٹھ کر وہ political leadership تک آئے۔

مبشر لقمان: اگر بابر غوریmiddle classہے تو اﷲتعالیٰ ہر کسی middle class کرے۔ اگر رؤف صدیقی middle class ہے تو اﷲ ہر ایک کو middle class کرے۔

شیخ الاسلام: چونکہ میں ہر ایک کی indivual سے واقف نہیں۔ یہی general Perception دے رہا ہوں اور نعرہ دے رہا ہوں۔

مبشر لقمان: MQM ایک بڑی باشعور جماعت ہے ڈاکٹر صاحب۔

شیخ الاسلام: یہ ایک community ہے۔ ہم نے چونکہ اس جاگیردارانہ استحصالی نظام کے خلاف آواز بلند کی یہ ایک common thought ہے۔

مبشر لقمان: MQM بہت زیادہ مشاورت پر یقین رکھتی ہے میں ان کو جانتا ہوں۔

شیخ الاسلام: میں نے اپنی آنکھوں سے تجزیہ کیا اور دیکھا ہے۔

مبشر لقمان: Collective wisdom پہ یہ یقین رکھتی ہے۔ تو آپ کے جلسے میں شریک ہونا یہ کوئی ایک request کا جواب نہیںہے MQM کے آنے سے کیا ہو گا بڑا سوچ کے آئیں ہوں گے۔ وہ ایسے کون سے عوامل ہیں آپ کے خیال میں کہ حکومتی جماعت ہونے کے باوجود حکومت میں شریک ہونے کے باوجود MQM اپنی حکومت کے خلاف آپ کے ساتھ stage پہ بیٹھ گئی۔

حکومت میں ہوتے ہوئے حکمران جماعت ہوتے ہوئے MQM آپ کے ساتھ stage پہ کیوں بیٹھ گئی۔

شیخ الاسلام: میں آپ کے سوال کا جواب دینے سے قبل آپ کے دو لفظوں کا آپ اجازت دیں تو میں اس کی correction کردوں۔

مبشر لقمان: بسم اﷲ

شیخ الاسلام: ایک آپ نے کہا کہ حکومت کے اندر ہوتے ہوئے ان کے خلاف پہلے کہا کہ ان کے خلاف ہمارے ساتھ کیوں بیٹھ گئی۔ دوسرا آپ نے کہا انکے خلاف احتجاجاً کیوں بیٹھ گئی۔ تو میرا ان دونوں لفظوں سے اختلاف ہے۔ نہ وہ احتجاج کے لیے وہاں بٹیھے نہ حکومت کے خلاف اور میرا خیال ہے نہ کوئی ان کے خلاف بیٹھے ہیں۔

مبشر لقمان: اس سسٹم کو represent کر رہے ہیں۔ جس سسٹم کے خلاف لانگ مارچ کر رہے ہیں

شیخ الاسلام: اصل وجہ میری دانست میں صرف ایک ہے جس Elected system کی کرپشن کے خلاف میں نے آواز بلند کی اور جس استحصالی نظام کے خلاف آواز بلند کی ایک thought میں common ایجنڈا لگا۔ انہوں نے اس وجہ سے اس کو sport کیا ہے۔ نہ کوئی حکومت کو چھوڑا ہے نہ اس کے خلاف کوئی protest کیا ہے۔ وہ ان کی ایک اپنی پالیسی ہے۔ یہ اصولوں کی بنیاد پر انہوں نے حمایت کا اعلان کیا اور میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں الطاف حسین صاحب کا اور پوری MQM کا کہ انہوںنے out right لی۔ اور اس ایجنڈے کو sport کیا ہے۔ جو ایجنڈا پاکستان کی آئینیت کی بحالی حقیقی جمہوریت کی بحالی اور عوام کے چھینے ہوئے حقوق انہیں دلانے کے لیے جاگیرداری، سرمایہ داری، وڈیرہ شاہی اور یہ جو تسلط اور کرپشن لوٹ کھسوٹ کی سیاست ہے اس نظام کو ختم کرنے اور درست انتخابی نظام کو لانے کی جدوجہد شروع کی انہوں نے ان اصولوں پر حمایت کی ہے۔ اور یہی چاہتا ہوں کہ باقی جماعتیں بھی یہی جو Change چاہتی ہیں۔

مبشر لقمان: Problem ایک اور ہے۔

شیخ الاسلام: جو change چاہتی ہیں جو تبدیلی چاہتی ہیں ان کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ وہ بھی آئیں۔ 14 جنوری میں شریک ہوں ساری۔ ساتھ چلیں میرے۔

مبشر لقمان: 14جنوری کو ہو جائیںابھی ہم پہنچے گئے 5 دسمبر کو ابھی 23 دسمبر آنی ہے۔ وہ جلسہ ہونا ہے۔

ابھی آپ سمجھے 5اور 11 دسمبر کے بیچ میں ہیں ہم۔ کہ یہاں آپ کے آنے سے پہلے چہ مہ گو ئیاں ہو گی کہ آپ کو لایا جا رہا ہے کیوں ایک تو عمران فیل ہو گئے وہ اٹھانے میں لوگوں کو 30اکتوبر کے بعد اور لوگوں نے کہا کہ آپ کے اوپر Investmentکی جارہی ہے تمامright wing partiesکو Estiblishment ، Parties کو آپ کے ساتھ اکٹھا کیا جائے گا۔ اچھے میڈیا والوں کو یہ شک یقین میں تبدیل ہو گیا۔ 5دسمبر کے بعد کیونکہ وہی اشتہار دینے والی کمپنیاں جو Esablishment کی پارٹیز کے اشتہار دیتی رہی۔ اور حکومتی اشتہارات بھی releaseکرتے ہیں۔

وہی آپ کے بھی اشتہار releasکر رہی ہے۔ اچھا پر ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں refamiltry آگئی اور اگر میں کہوں کہ آپ کی لانگ مارچ سے پارلیمنٹ ختم ہوتی ہے تو سب سے زیادہ فائدہ President زرداری صاحب کو ہوتا ہے پھر ان کے صدر آرڈر سے ساری حکومت چلنی ہے۔ تو وہ صدر مشرف والی sutuationواپس آجائے گی۔ اور آپActully آمریت کو لانے میں آپ ایک roleplayکر رہے ہیں۔ اس کا جواب دیں مجھے۔

شیخ الاسلام: اب آپ چار سوال اکٹھے جمع کر دیئے میں شروع سے چلتا ہوں جب بھول جاؤں تو آپ مجھے remind کروادیں۔ سوال کا پہلاحصہ تو پہلی بات تو یہ کہا تھا۔ کہ بات مشہور ہو گئی کہ لایا جا رہا ہے میں سنتا رہا ہوں، یہ بدقسمتی ہے اس قوم کی کہ جب کوئی بڑا Event ہونے کو جاتا ہے یہاںہمارے ہاں Political لوگ آغازِ سوچ کا بدگمانی سے کرتے ہیں۔ سوئے ظن سے جس سے اﷲ اور اس کے رسولa نے منع کیا ہے کہ سوئے ظن سے بچو کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ہم مثبت سوچ سے نہیں سوچتے کسی چیز کے کہ کوئی Evidence کے بغیر الزام نہ لگائیں اس کے nagitively سوچ نے ہماری قوم کے charcter کو برباد کر دیا ہے۔ اس کا مختصر جواب بحیثیت مسلمان لوگ کس طرح کرتے ہیں۔

مجھے غرض نہیں ہے اس سے بس اتنا دے سکتا ہوں بحیثیت مسلمان لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ لایا جا رہا ہے ، investment یہ سارا بکواس ہے۔ جھوٹ ہے غلط ہے، بہتان ہے، اگر کوئی ایسی چیز ہو کہ لایا جارہا ہوں کسی نے investment کی ہو ہمارے اوپر ہمارے جلسے پر یا میرے لانے پر یاایسی کوئی بات کسی نے میرے ساتھ کی ہو تو اﷲ رب العزت حضور کی شفاعت میرے اوپر حرام کردے۔

مبشر لقمان: استغفر اﷲ نعوذ باﷲ

شیخ الاسلام: میری بات یہ تو پہلے حصہ ہے۔

مبشر لقمان: ہو گیا۔

شیخ الاسلام: میں بحیثیت مسلمان اس سے بڑی بات نہیں کر سکتا

مبشر لقمان: ٹھیک ہے۔

شیخ الاسلام: اب وہ کہاں سے کرتے ہیں کہاں سے ان کو گمان آتے ہیں۔ بدقسمتی سے میری nature ایسی نہیں ہے ایک میں سرسری سوچ کی بات کر رہا ہوں۔

مبشر لقمان: ختم ہوگئی بات

شیخ الاسلام: اب جو اگلی بات ہے وہ جو کمپنی V-air کی تھی وہ بھی بڑا ایک Process Natureal ہے میں تو یہاں تھا نہیں مجھے ایک کمپنی کا بھی یہاں نام پتہ نہیں۔ اور اس وقت بھی جس کمپنی کو add دیے commercialمجھے اس وقت اس کے نام کا اب بھی پتا نہیں ہے۔ ہماری یہ adminatertinہے ہمار ایک نظام ہے well established اور 90 ملکوں کی تنظیموں کو یہ سیکرٹریٹ بیٹھ کر چلاتا ہے میں نہیں چلاتا میں guide کرتا ہوں۔ ہمارا ایک منظم نظام ہے state کی طرح الحمد اﷲ تعالیٰ ان لوگوں سے تو ریاستی وسائل کے ساتھ ملک نہیں چلتا ہم تو 90ملکوں کا ایک نیٹ ورک چلاتے ہیں انہوں نے وہ ٹینڈر کال کیے مختلف organization کے جو فرم advertisment میں اور ان کے ساتھ انہوں نے meatings کی اور meatings کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ جو سب سے بہترین پہلے کسی اور فرم کو جو لیاقت باغ کے جلسے کا جو انہوں نے کسی کو contract دیا تھا۔ دوبارہ ان کو دیا۔ چونکہ یہ بہت بڑا event تھا۔ یہ انہوں نے terms طے کر کے دیکھا ہو گا کہ just جس طرح ہوتاہے fair دیکھا ہو گا تو فیصلہ کر دیا۔

اب وہ unformaly کا مجھے نہیںپتا ہے پہلے ان کے کیسے اشتہار ہوتے ہیں۔ اشتہار انہوں نے نہیں بنائے، اخباروں کے چلائے ہیں یا TV کے باقی Publicty ،Privatelyہماری تنظیموں نے کی ہے۔

مبشر لقمان: ٹھیک ہے ہو گیا آخری سوال میرا رہ گیا۔

شیخ الاسلام: جی وہ آخری جز تھا

مبشر لقمان: میں اب آخری سوال کر رہا ہوں۔

کہ جیسا آپ نے فرمایا بالکل صحیح ہے پہلے جواب میں آپ نے کہا تھا کہ leadership کافقدان ہے۔ ٹھیک ہے نہ پاکستان میں اور جو آپ reforms لانا چاہا رہے ہیں وہ ایک اچھی لیڈر شپ کے لیے لے کے آرہے ہیں۔ اب سوال یہ کہ لوگوں کے بھی دل میں ہے کہ آپ مختصر اچھا وہ اس لیڈر سے بھی محروم ہو رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ میں میرے ساتھ long march میں بھی شامل ہوں اور تبدیلی کے لئے آؤ یہ تو وہ نوالہ ہے جو نہ نگلا جارہا ہے اور نہ اُگلا جارہا ہے۔ اور لوگ کیا کریں کیوں 14 کو آپ کے ساتھ آئیں۔

شیخ الاسلام: دیکھئے میں نے کسی کو نہ Categoricaly ، Noکہا ہے اور next process کے لئے نہ Categoricaly yes کہا ہے اس وقت میں نے کہا کہ میری آمد اور جدوجہد کرنے کا سنگل objective ہے۔ تاکہ میری نیت میں للہیت اور خالصیت رہے۔ وہ Electorial systemکو reforms کرنا اور سیاسی گند کو ختم کرکے ستھرے انتخابات کے ذریعے اچھی قیادت کو لانے کا راستہ ہموار کرنا۔

یہ reforms ہو جاتی ہیں تو ہم نے اس کا اگلا اس کے اندر خود آؤں یا نہ آؤں ہم نے اس دن تک ہم نے Party میں discus نہیں کیا۔ اور ہمارا یہ فیصلہ ہے کہ اگر electorial reforms نہ ہوں اور الیکشن اسی طرح استحصالی جاگیردارانہ اور سرمایہ دارنہ کرپشن دھاندلی، دھن دھونس اور غنڈہ گردی بدمعاشی کے ساتھ اشرافیہ کی جمہوریت کے ساتھ الیکشن ہوتے رہیں۔ تو پھر کسی شریف طبقے کا شریک ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ وہ بھی برباد ہو جائے گا۔ اگر electorial reforms میں کامیابی ہو جاتی ہے تو یہ اﷲ کی مدد و نصرت اور لوگ میرے ساتھ رابطے کر رہے ہیں، ملاقات کر رہے ہیں۔ اور جو تبدیلی کے خواہش مند ہیں ہم بیٹھیں گے۔ Discusکریں گے اور Party میں Discus کریں گے پھر اس کے بعد صورتحال کے مطابق جو Development ہوتی ہے اس کا فیصلہ تب ہو گا کہ میں نے آنا ہے یا نہیں آنا۔

اس وقت میرا Singal focusہے۔ electorial reforms کر کے اس قوم کی بہتری کا سامان فراہم کرنا ہے۔

مبشر لقمان: چلو میں ایک ضمنی سوال آخر میں پوجھ لیتا ہوں کہ اگر ایک تحریک کامیاب ہو تی ہے لانگ مارچ کامیاب ہوتی ہے تو آپ کے خیال میں یہ عمران خان کی papularity پے ایک ڈنٹ ہو گا کہ میاں نوازشریف کی۔

شیخ الاسلام: میں تو کسی کی Papularity پے Dent لگانے کا نہ ارادہ رکھ کے آیا ہوں نہ میں نے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی سوچا ہے۔ کبھی ایک لمحے کے لیے نہیں سوچا میں تو پوری قوم کوPapularity اور Democarcy دینا چاہتا ہوں میں تو ان سیاسی پارٹیوں سب کی مدد کر رہا ہوں۔

میرے نزدیک تو political parties بیچاری خود اس نظامِ انتخابات کی جو فرسودگی اور استحصالیت ہے اس کے قیدی بنی ہوئی ہأں سب کے پاس اچھے لوگ بھی ہوں گے جن کو چاہتی ہوں کہ یہ بھی ہماری پارٹی کے ٹکٹ پے capaility کے لوگ پارلیمنٹ میں جائیں۔ مگر نظام انتخابات اتنا مہنگا ہے ۔ کہ جہاں ٹکٹ 5،10 کروڑ سے بکنا شروع ہوتی ہے اور 20 کروڑ کا خرچہ مانگتی ہے تو اچھے لوگ رہ جاتے ہیں اگر میری تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ پیپلزپارٹی کو بھی نفع دے گی یہ مسلم لیگ کو بھی نفع دے گی، MQMکو بھی نفع دے گی، ANPکو بھی نفع دے گی۔ PTIکو بھی نفع دے گی، Relegios پارٹی کو بھی نفع دے گی۔ ہر پارلیمنٹ اور جمہوریت پے یقین رکھنے والی سیاسی قوت کو فاہدہ دے گی۔ کہ زنجیریں ان کے لیے کٹ جائیں گی۔ کہ وہ پھر مجبور نہیں ہوں گے کہ wining horses کو ٹکٹ دینے ہیں پھر الیکشن گھوڑوں کا الیکشن نہیں رہے گا ، انسانوں کا الیکشن بن جائے گا۔ میں تو اس قوم کو گھوڑوں کے الیکشن سے نجات دلانا چاہتا ہوں۔ اور انسانوں کے الیکشن مہیا کرنا چاہتا ہوں۔

مبشر لقمان: کیایہ صحیح ہے کہ کافی ججز، آپ کے مریدین ہیں تو آپ کو امید ہے کہ سپریم کورٹ آپ کا ساتھ دے گئی۔

شیخ الاسلام: قطعی طور پے میں نے کبھی اس حوالے سے سوچا ہی نہیں۔

مبشر لقمان: مرید ہیں۔

شیخ الاسلام: نہیں نہیں بالکل مرید کوئی نہیں میں پیری مریدی نہیں کرتا۔

مبشر لقمان: یعنی عقیدت مند ہیں

شیخ الاسلام: نہیں نہیں وہ سٹوڈنٹ ہوں گے میرے کئی۔

مبشر لقمان: یہ 17 لوگوں میں سے 8 لوگ میں نے سنا ہے آپ کے ہیں۔ 1978 ،79،80 سے میں لاء کالج جب لیکچرار کے طور پر آیا تھا تو جہنوں نے میرے بات سمجھیں۔ آج سے 34 سال پہلے بن جاتے ہیں، 34 سال پہلے پڑھا ہے لاء میرے پاس اور Constitution Law بھی پڑھاتا تھا British Jurispercce???? بھی پڑھاتا تھا، Americal Constitution کی بھی پاکستان کا constitution بھی ، Islamic Law بھی، International Lawبھی اور مختلف وقتوں میں Specialty میری Islamic law کی تھی مگر جنہوں نے آج سے 34 سال پہلے پڑھا اب 33،32 ،30 سال پہلے پڑھا مختلف Fields میں گئے تو 30;32 سال کے carear کے بعد کوئی کہاں سے کہاں آپ نے جو جوانی کی عمر میں شروع کیا ہو گا آج آپ کتنے مقام پر جا پہنچے وہ لوگ بھی تو اپنے اپنے مقام پر پہنچ گئے ہوں گے نہ یہ میرے وہم و گمان میں ہے اور نہ میں نے نام رکھے ہوئے ہیں کسی اپنے کے۔

ڈاکٹر طاہر القادری منہاج القرآن ہمارے ساتھ تھے ان کے آنے والے دنوں میں ان کے لانگ مارچ کتنی کامیاب ہوتی ہے وہ تو آپ دیکھے گے۔ شاید آپ سب اس میں شامل بھی ہوں بہت سے لوگ اگر انٹرویوں کے حوالے سے کوئی سوال ہو آئندہ next time والسلام۔

تبصرہ

Top