جلد بازی اور بے اطمینانی سے پڑھی گئی نماز دل کی غیرحاضری اور بے رغبتی کا اظہار ہے: ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے: صدر منہاج القرآن
نماز دینِ اسلام کا ستون اور بندے کا اپنے رب سے قرب کا ذریعہ ہے۔ شریعتِ مطہرہ نے نماز کو نہ صرف فرض کیا ہے بلکہ اس کے آداب و طریقے بھی واضح فرمائے ہیں۔ ان آداب میں سے ایک اہم ادب "تعدیلِ ارکان" ہے، یعنی نماز کے ہر رکن کو اطمینان اور سکون سے ادا کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے تعدیلِ ارکان کے بغیر نماز کو ناقص قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کو وہ نماز پسند ہے جو خضوع و خشوع اور اطمینان کے ساتھ ادا کی جائے۔ نماز کی صحت پر اثر انداز ہونے والی جلدی یہ ہے کہ نمازی رکن کو اس طرح ادا کرے کہ اس میں ٹھہراؤ نہ ہو، اور اس ٹھہراؤ کو فقہاء ’اطمینان‘ کہتے ہیں۔ اطمینان سے مراد یہ ہے کہ نماز کے تمام ارکان کو ادا کرتے وقت اعضا کچھ لمحات کے لیے ساکن ہو جائیں۔ اگر نمازی رکن کو ادا کرے اور اس کے اعضاء بقدرِ اطمینان ٹھہر جائیں۔
صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے نماز میں سکون اور ٹھہراؤ کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت سیدنا طلق بن علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اُس بندے کی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جس میں وہ رکوع اور سجود کے درمیان قومہ اور جلسہ میں پشت سیدھی نہیں کرتا۔ یعنی ایک سجدے سے اُٹھ کر اطمینان کے ساتھ بیٹھے اور پھر دوسرا سجدہ کرے، اور اسی طرح رکوع سے اُٹھ کر قومہ کی حالت میں اپنی کمر کو سیدھا کرے پھر سجدے میں جائے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی حدیثِ مبارکہ سے رسالتمآب ﷺ کی نماز کے بارے میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز تکبیرِ تحریمہ سے اور قراءت کا آغاز الحمد للہ رب العالمین سے شروع فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو سر مبارک نہ اونچا رکھتے اور نہ زیادہ نیچے جھکاتے یعنی متوسط رہتے، اور جب رکوع سے سَر مبارک اٹھاتے تو اُس وقت سجدہ نہ کرتے جب تک سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے۔ اور جب ایک سجدے سے سَر اُٹھاتے تو اُس وقت تک دوسرا سجدہ نہ کرتے جب تک سیدھے نہ بیٹھ جاتے۔ یعنی آقا ﷺ کی نماز میں انتہا درجے کا سکون اور خشوع و خضوع ہوتا تھا۔
نماز میں جلدی اور تیزی پر شریعتِ مطاہرہ نے تنبیہ فرمائی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہؓ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی ساٹھ سال تک نمازیں پڑھتا رہتا ہے مگر اُس کی کوئی نماز قبول نہیں ہوتی، شاید وہ رکوع تو پورا ادا کرتا ہو لیکن سجدہ پورا نہ کرتا ہو، لیکن سجدہ پورا کرتا ہے مگر رکوع پورا نہ کرتا ہو، اس وجہ سے اُس کی تمام عمر کی نمازیں ردّ ہو جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرآنِ مجید نے نماز کی خصوصیات میں سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ نماز ہمیں فُحش کاموں سے روکتی ہے لیکن ہماری نماز ہمیں نہیں روک رہی، شاید اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری نماز قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچتی۔ سیدنا عمر بن خطاب ارشاد فرماتے ہیں ہر نمازی کے دائیں اور بائیں ایک فرشتہ ہوتا ہے، اگر وہ نماز پورے اطمینان سے ادا کرتا ہے تو وہ دونوں فرشتے اُس کی نماز اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دیتے ہیں، اور اگر وہ نماز کو اطمینان اور ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کرتا تو وہ فرشتے اُس کی نماز اُس کو واپس لوٹا دیتے ہیں۔
اطمینان اور سکون کے بغیر نماز ادا کرنا ایک سنگین کوتاہی ہے، جس کے دنیا و آخرت میں کئی نقصانات اور سخت وعیدیں آئی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ چوروں میں سب سے بُرا چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرے، یعنی رکوع و سجود مکمل نہ کرے۔ ایسی نماز جو جلد بازی اور بے سکونی سے پڑھی جائے، وہ دل میں خشوع پیدا نہیں کرتی۔ یہ عمل نہ صرف عبادت کی روح کو ختم کر دیتا ہے، بلکہ قیامت کے دن ایسی نماز ردّ کیے جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جلد بازی اور بے اطمینانی سے پڑھی گئی نماز درحقیقت دل کی غیر حاضری اور اللہ سے بے رغبتی کا اظہار ہے۔
تبصرہ