علمِ دین سے وابستہ لوگوں کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ کاملًا تقوٰی کا پیکر بن جائیں: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

مورخہ: 12 اگست 2025ء

سلف صالحین کا یہ طریقہ تھا کہ وہ دین کو دنیا کا زینہ نہیں بناتے تھے بلکہ دنیا سے بے رغبت رہتے اور اپنی مَسند و مقام کو کبھی مقصود نہ ٹھہراتے: صدر منہاج القرآن

دین کے خدمت گزاروں اور علمِ دین کے متلاشیوں کے لیے ہمیشہ سے یہ ہدایت رہی ہے کہ وہ اپنے ظاہر و باطن کو تقویٰ، اخلاص اور انکساری سے مزین کریں، کیونکہ وہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے قول و فعل سے اُمت کے رہبر اور دین کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ سلفِ صالحین کا حال یہ تھا کہ دین کو دنیا کا زینہ نہیں بناتے تھے بلکہ دنیا سے بے رغبت رہتے اور اپنی مسند و مقام کو کبھی مقصود نہ ٹھہراتے۔ ان کا علم خاموشی میں بھی نصیحت اور ان کی نظر دلوں کو جگا دینے والی ہوتی۔ مگر آج، جب مساجد اور مدارس کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے اور علماء کی کثرت ہے، پھر بھی نوجوان نسل دین سے دور ہوتی جا رہی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ علم کے ساتھ وہ اصل روح، یعنی خشیت، عاجزی اور نرمی کمزور پڑ گئی ہے۔ سوشل میڈیا کی چمک دمک اور لائکس و شہرت کی دوڑ نے علم کو مقصد کے بجائے وسیلہ بنا دیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عزت اور رفعت اسی کو ملتی ہے جو اس سے بھاگتا ہے اور محض اللہ کے لیے علم و عمل کی راہ اپناتا ہے۔

علمِ دین سے وابستہ افراد کو کیسا ہونا چاہیے؟

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے علمِ دین سے وابستہ لوگوں کے لیے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: پرہیزگاری کی کئی جہتیں اور بے شمار پہلو ہیں جو ایک مومن کی شخصیت کو سنوارتے ہیں، مگر علمِ دین سے وابستہ افراد کے لیے یہ اہمیت ناگزیر ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ محض اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے کردار، گفتار اور عمل سے دین کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ ان کی ایک نگاہ، ایک بات، حتیٰ کہ ایک خاموشی بھی لوگوں کے لیے نصیحت بن سکتی ہے۔ اسی لیے ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے ظاہر کو پاکیزگی اور اپنے باطن کو خشیتِ الٰہی سے آراستہ کریں، اپنے ہر عمل کو اخلاص کے رنگ میں رنگ لیں، اور اپنی زندگی کو سراپا تقویٰ و پرہیزگاری کا آئینہ بنا لیں تاکہ وہ نہ صرف دین کے علمبردار بلکہ اس کے عملی نمونہ بھی بن سکیں۔

امام شعرانی کے نزدیک پرہیزگار لوگوں کے اوصاف

امام شعرانی علیہ الرحمہ پیرہیزگار اور متقین لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

(۱) جب آپ اللہ تعالیٰ کے دین سے وابستہ ہو جائیں تو یاد رکھیں کہ قرونِ اولیٰ کے لوگ دین کے ساتھ مخلص تھے، وہ دین کے ذریعے دنیا کی طرف نہیں دوڑتے تھے بلکہ دنیا سے منہ موڑ لیتے تھے۔

(۲) اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے علمائے ربانیین میں شامل کر دے تو اسے چاہیے کہ علمِ دین کے ذریعے سرداری کا طلبگار نہ ہو؛ نہ اس علم کے ذریعے باقی علما پر سرداری جتانے کی کوشش کرے، نہ دیگر طبقات پر برتری چاہے، اور نہ اپنی مَسند اور کلام کو دوسروں پر مقدّم رکھنے کا ارادہ کرے۔ ایسا طرزِ عمل پرہیزگاری کے منافی ہے۔

(۳) طالبِ علم کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہو، مگر اس کے دل کی کیفیت یہ ہو کہ کوئی نہ جانے وہ کتنا جانتا ہے۔

علم و عبادت کے باوجود بے اثر ماحول کی وجوہات

ہر طالبِ علم اور صاحبِ مسند کو چاہیے کہ عاجزی و انکساری کا ایسا پیکر بن جائے کہ ہر گلی، ہر محلے میں اہلِ تقویٰ، اہلِ محبت اور اہلِ اخلاص اپنے کردار اور گفتار سے روشنی پھیلائیں۔ اُن کے پیغام میں اَثر ہو، اُن کے کلام میں خیر ہو، اور لوگ اُن کی صحبت سے فیض پائیں۔ جب یہ روش عام ہو تو ماحول کے بدلنے میں کیا رکاوٹ باقی رہ سکتی ہے؟ مگر المیہ یہ ہے کہ آج مساجد کی تعداد بڑھ گئی، مدارس میں اضافہ ہو گیا، علماء کی کثرت ہو گئی، لیکن نوجوان نسل دین سے قریب ہونے کے بجائے دور ہو رہی ہے؛ علمی مجالس سے اُٹھ کر بیزاری کے ساتھ نکلتی ہے، دین سے اُکتا جاتی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اصل روح، یعنی اخلاص و تقویٰ، ہمارے کردار اور دعوت کے اندر کمزور پڑ گئی ہے، اور یہی نوجوانوں کی بے راہ روی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

آج سوشل میڈیا کے دور میں جب ہم اس دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لائکس اور ویورشپ حاصل کی جائے، تو آہستہ آہستہ ہمارے دلوں سے عاجزی و انکساری رخصت ہونے لگتی ہے، نرمی کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے، اور الزام تراشی و جملہ بازی کا چلن عام ہو جاتا ہے۔ یوں ہم اس راہ سے ہٹ جاتے ہیں جس سے ہمارے باطن میں نور پیدا ہونا تھا، اور مختلف غلط سمتوں پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس بے مقصد مسابقت سے بچیں اور اپنے باطن میں جھانک کر اپنی ذاتی طہارت، تقویٰ، پرہیزگاری اور نیکی پر توجہ مرکوز کریں۔ ساتھ ہی علم میں محنت کریں، مگر اس علم کے ذریعے نہ قیادت طلب کریں، نہ شہرت کے خواہاں ہوں، نہ طاقت کے متلاشی بنیں، اور نہ ہی عزت کے طلبگار۔ جو شخص خلوصِ نیت سے علم و عمل کا پیکر بنتا ہے، اللہ تعالیٰ خود اُسے عزت و رفعت عطا کرتا ہے

امام حسن بصریؒ کا علمِ دین کے طالب کے لیے فرمان

امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ: جو وقت سے پہلی سرداری چاہتا ہے، سرداری اُس سے بھاگ جاتی ہے، اور جو سرداری کی طرف پشت کر کے چل پڑتا ہے پھر سرداری اُس کے پیچھے پیچھے آتی ہے۔ یہ وہ آداب ہیں جو صوفیاء کرام نے لوگوں کو سکھائے اور بتائے۔

آخر میں ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ:

جو تقویٰ، عاجزی اور نرم خوئی علماء کے شایانِ شان تھی، شاید ہم نے وہ راستہ پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ علماء کی اصل شان یہ تھی کہ وہ اپنی زندگی میں خشیتِ الٰہی کو غالب رکھتے، اپنے رویوں میں انکساری کو زینت بناتے اور اپنے لب و لہجے میں نرمی کو داخل کرتے۔ یہی اوصاف ان کے علم اور ان کی دعوت کو مؤثر بناتے تھے۔ مگر آج جب یہ اوصاف کمزور پڑ گئے ہیں تو علم کی روشنی بھی دلوں تک پہنچنے میں مدھم ہو گئی ہے، اور اس کی تاثیر کم ہو گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب علم کے ساتھ تقویٰ کا سنگم ٹوٹ جائے تو وہ علم رہنمائی کے بجائے محض الفاظ کا انبار بن جاتا ہے۔

حاصلِ کلام

اہلِ علم کے لیے سب سے بڑی زینت یہ ہے کہ وہ اپنے ظاہر کو طہارت اور اپنے باطن کو خشیتِ الٰہی سے سنواریں، علم کو دنیاوی جاہ و حشمت کا وسیلہ نہ بنائیں بلکہ اسے محض رضائے الٰہی کے لیے بروئے کار لائیں۔ سلف صالحین کا طریق یہی تھا کہ دین کو ذریعۂ معیشت یا برتری کا زینہ نہیں بناتے بلکہ دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے شوق میں سرشار رہتے۔ آج جب مساجد، مدارس اور علما کی تعداد بڑھ گئی ہے مگر اخلاص، نرمی اور عاجزی کا جو جوہرِ اصل اثر پیدا کرتا تھا وہ کمزور پڑ چکا ہے، تو معاشرہ علم کے باوجود بے نور دکھائی دیتا ہے۔ سوشل میڈیا کی نمود و نمائش اور شہرت کی دوڑ نے دلوں کی صفائی اور باطن کے سکون کو گہنا دیا ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top