بندۂ مؤمن زمین پر رہتا ہے مگر اُس کا دل عرشِ معلّیٰ سے جُڑا ہوتا ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
جب بندۂ مؤمن، اللہ کے نور سے دیکھنے لگے تو اس کا ظاہر بھی چمک اٹھتا ہے اور باطن بھی ایمان کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے: صدر منہاج القرآن
ایمان صرف زبان سے ادا کیے گئے کلمات کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسا نور ہے جو دلوں میں اتر کر انسان کی سوچ، نگاہ اور عمل کو بدل دیتا ہے۔ جب دل اللہ کی یاد میں گم ہو، جب نگاہیں ظاہر سے ہٹ کر باطن کی حقیقتوں کو دیکھنے لگیں، تو پھر ایک مومن کا حال وہ نہیں رہتا جو عام لوگوں کا ہوتا ہے۔ وہ زمین پر ہوتا ہے، مگر اس کا دل عرشِ معلّیٰ سے جُڑا ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک مقام پر جب صحابیِ رسول حضرت حارثؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں دنیا میں ہوتے ہوئے جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں عذاب سہتے دیکھتا ہوں، تو تاجدارِ کائنات ﷺ نے تعجب یا انکار نہیں فرمایا بلکہ وہ جملہ ارشاد فرمایا جو ایمان کی معراج کو بیان کرتا ہے؛ فرمایا: اے حارثؓ! تو نے ایمان کی حقیقت کو پہچان لیا۔ یہ وہ روحانی درجہ ہے جہاں انسان صرف شریعت کی ظاہری حدود پر نہیں، بلکہ حقیقتِ ایمان کی گہرائیوں میں اُتر چکا ہوتا ہے۔
ایمان کی حقیقت اور اولیاء اللہ کی کیفیت
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ایک انصاری صحابی حضرت حارث بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے اُن سے استفسار فرمایا کہ اے حارث! تو نے صبح کیسے کی؟ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں نے سچے مؤمن کی طرح یعنی حقیقتِ ایمان کے ساتھ صبح کی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: غور کرو، کیا کہہ رہے ہو؟ یقیناً ہر شے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے۔ تیرے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ، میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے، اور اس کی وجہ سے راتوں میں بیدار رہتا ہے، اور دن میں روزہ دار رہتا ہوں۔ میری حالت یہ ہے گویا میں اپنے رب کے عرش کو اپنے سامنے ظاہری آنکھ سے دیکھتا ہوں۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: یہ اولیاء اللہ کی کیفیات بیان ہو رہی ہے جو دن رات اپنے رب کی رضا کے لیے اعمال کرتے ہیں۔ حضرت حارث کہتے ہیں یا رسول اللہ، میری کیفیت یہ ہے کہ میں اہل جنت کو ایک دوسرے سے ملتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں، اہل دوزخ کو عذاب کی تکلیف سہتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے حارثؓ! تو نے حقیقتِ ایمان کو پہچان لیا۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو صحابی عرض کر رہے ہیں یا رسول اللہ ﷺ! میں اس دنیا میں چلتے پھرتے اہل جنت کو دیکھتا ہوں۔ میں یہاں زمین پر رہتے ہوئے عرش معلّی کا دیدار کرتا ہوں۔ یہاں کوئی اور کہے تو فتوے لگ جاتے ہیں۔ صحابی رسول ﷺ کہہ رہے ہیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نہیں فرمایا: حارث کیا کہہ دیا؟ بلکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اے حارثؓ! اب تم نے ایمان کی حقیقت کو پہچانا ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہا کہ: یہ وہ سفر ہے جس کو ایک بندۂ مؤمن طے کرتا ہے اُس کی آنکھیں ظاہر کی ہوتی ہیں مگر اُس کا باطن ملاءِ اعلیٰ سے جُڑا ہوتا ہے۔ وہ اپنی ظاہری آنکھوں سے عرشِ معلّی کے انوار تکتا ہے، آنکھیں ظاہر کی ہوتی ہیں مگر وہ دنیا میں رہتے ہوئے جنتیوں کے احوال سے بھی واقف ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کو آقا ﷺ نے فرمایا: حارثؓ تم نے ایمان کی حقیقت کو جان لیا۔
حاصلِ کلام
ایمان محض رسمی جملوں یا عبادات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک ایسی اندرونی کیفیت ہے جو انسان کے دل، فکر اور مشاہدے کو بدل دیتی ہے۔ جب بندۂ مؤمن کا دل دنیا کی رغبت سے ہٹ کر رب کی طرف مائل ہو جائے، تو اس کے باطن کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ عالمِ ظاہر میں چلتا پھرتا ہے مگر اس کی روحانی نگاہیں ماورائی حقائق کو دیکھنے لگتی ہیں۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم، خصوصاً حضرت حارثؓ جیسے عاشقانِ حق، اسی درجۂ ایمان پر فائز تھے کہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی جنت و دوزخ کے مناظر کو محسوس کرتے، عرشِ الٰہی کے انوار کا مشاہدہ کرتے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ان کے اس حال پر تصدیق فرمائی کہ یہ ہے سچے ایمان کی حقیقت۔ دراصل یہ وہ بلند روحانی مقام ہے جہاں شریعت کا ظاہر، حقیقت کے باطن سے جُڑ جاتا ہے، اور ایک بندۂ مؤمن اللہ کے نور سے دیکھنے لگتا ہے۔
تبصرہ