اہلِ بیت علیہم السلام سے محبت، ایمان کی اساس ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل، پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے آسٹریلیا کے شہر وکٹوریہ میں منعقدہ 15ویں سالانہ ذکرِ امام حسین علیہ السلام کانفرنس سے ایمان افروز اور فکری خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محبتِ اہلِ بیت علیہم السلام ایمان کی بنیاد، دین کی روح، اور امت کے اتحاد کی ضمانت ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کیا گیا کہ اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کی محبت کو قرآن نے اجرِ رسالت قرار دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے اہلِ بیت علیہم السلام سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی۔ کربلا امتِ مسلمہ کے لیے بیداری کی صدا ہے، جو وفا، قربانی، حق شناسی اور ظلم سے انکار کا درس دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں محبتِ اہلِ بیت علیہم السلام نے امت کو جوڑا، وہیں بغضِ اہلِ بیت علیہم السلام نے انتہا پسندی اور تباہی کی راہ ہموار کی۔ کربلا اسی حقیقت کا عملی اظہار ہے۔ انہوں نے عقیدۂ اہلِ سنت علیہم السلام کی دو بنیادیں بیان کیں: ادبِ الٰہی یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید اور احکامات کی پاسداری، اور محبت و تعظیمِ رسول ﷺ و اہلِ بیت علیہم السلام۔ اگر یہ دونوں بنیادیں نہ ہوں تو نہ عقیدہ باقی رہتا ہے اور نہ دین۔ نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو محبتِ اہلِ بیت علیہم السلام کو بطور عقیدہ دل میں بسانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانانِ عالم وہی ہیں جو نبی کریم ﷺ کے پیغام کو عام کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میرے کسی پیروکار پر احسان کیا، میں قیامت کے دن اس کا بدلہ دوں گا۔ جو احسان کا بدلہ دے سکتا ہے، وہ ظلم کا حساب بھی لے سکتا ہے۔ قرآن مجید ہمیں اتحاد کی دعوت دیتا ہے۔ سورہ آلِ عمران کی آیت "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقے میں نہ پڑو" کی تفسیر میں مفسرین کے مطابق اللہ کی رسی قرآن مجید ہے، جبکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے مطابق اہلِ بیت ہی اللہ کی رسی ہیں۔
حدیثِ ثقلین میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری اہلِ بیت علیہم السلام؛ ان دونوں سے جڑے رہو۔ صرف قرآن یا صرف اہلِ بیت علیہم السلام کافی نہیں، دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایمان دل سے شروع ہوتا ہے، اور دل محبتِ اہلِ بیت علیہم السلام سے روشن ہوتا ہے۔ اگر دل محبت سے خالی ہو تو عبادات بے اثر ہو جاتی ہیں۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی روایت بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو مجھ سے، علی سے، اور میرے نواسوں حسن و حسین علیہم السلام سے محبت کرے گا، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا۔ ایک اور روایت میں فرمایا: میں درخت ہوں، علی اس کی شاخ، فاطمہ تناور حصہ، حسن و حسین علیہم السلام پھل ہیں، اور ان سے محبت کرنے والے پتے؛ یہ سب جنت میں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو اہلِ بیت سے بغض رکھے گا، وہ نبی ﷺ سے بغض رکھتا ہے، اور جو نبی ﷺ سے بغض رکھے گا، وہ اللہ کی ناراضی میں ہوگا۔ حسن و حسین سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھتا ہے، اور جس سے میں ناراض ہوں، اللہ بھی اس سے ناراض ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ جنت کی راہیں اہلِ بیت کی راہوں سے ہو کر گزرتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کی: اے اللہ، میں حسن و حسین سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما، اور جو ان سے محبت کرے، اس سے بھی محبت کر۔ اگر کوئی اہلِ بیت پر ظلم کرے یا ان کی شان میں گستاخی کرے، تو اس پر اللہ، رسول ﷺ اور تمام انبیاء کی لعنت ہے۔ یزید جیسے کردار پر لعنت کا جواز کربلا اور اہلِ بیت پر ڈھائے گئے مظالم سے واضح ہے۔ علماء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ محبتِ اہلِ بیت کو کمزور کرنے والی باتیں کرتے ہیں، ان کی اصلاح ضروری ہے، کیونکہ یہ عمل ایمان کی روشنی کو بجھا دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دین کو روحانی زندگی دینی ہے تو محبتِ اہلِ بیت کو ایمان کا مرکز بنانا ہو گا۔ حسینیت ایک دائمی فکری اور روحانی تحریک ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر معاشرے سے ظلم، ناانصافی اور عدم برداشت کو ختم کرنا ہے تو ہمیں امام حسین علیہ السلام کی فکر کو اپنانا ہو گا۔ ان کا قیام کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں تھا بلکہ وہ دین کی بقا، حق کی سربلندی اور مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے اٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے بچوں کے ایمان، دین کی روح، اور امت کی وحدت کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو محبتِ اہلِ بیت علیہم السلام کو دین کی بنیاد بنانا ہو گا۔ یہی امام حسینؑ کا پیغام ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین قادری نے کہا کہ ہمیں انتہا پسندی، نفرت اور تفرقہ انگیزی سے کنارہ کش ہونا چاہیے۔ اہلِ بیت علیہم السلام کی محبت فقہی یا مسلکی مسئلہ نہیں بلکہ تمام اولیاء، فقہاء اور علماء کے لیے روحانی زیور ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نبی کریم ﷺ کے خاندانی افراد سے اپنی ذاتی رشتہ داریوں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں۔ اسی جذبے کا مظاہرہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کیا۔ آپ فرماتے تھے: اہلِ بیت علیہم السلام کی رضا میں رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی تلاش کرو۔ قیامت کے دن یہی محبت ہماری شفاعت بنے گی۔
خلفائے راشدین نے اپنی زندگیاں اہلِ بیت کی عظمت پر قربان کیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام زین العابدین، امام محمد باقر، امام جعفر صادق اور امام زید بن علی سے علم حاصل کیا اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ اہلِ بیت سے نفرت، خوارج کے نظریاتی آغاز کی بنیاد ہے۔ خوارج نے قرآن تو پڑھا مگر اس کی روح نہ سمجھی۔ آج بھی بعض طبقات میں وہی نفسیات اہلِ بیت دشمنی کی صورت میں زندہ ہے۔ خوارج نے فقہی تاویلات کے پردے میں صحابہ کی تکفیر کی اور دین میں نفرت کو فروغ دیا۔ ان کے نقش قدم پر چلنے والے آج بھی امت کو تقسیم کر رہے ہیں۔
خطاب کے اختتام پر پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ محبتِ اہلِ بیت علیہم السلام ایمان کا لازمی جزو ہے، اور بغضِ اہلِ بیت انتہا پسندی کی جڑ ہے۔ فرقہ واریت، تعصب اور نفرت کے خلاف کھڑے ہونا ہوگا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ محبتِ اہلِ بیت علیہم السلام کو ایک مرکزی فکری و تربیتی موضوع بنایا جائے تاکہ آئندہ نسلیں فرقہ واریت، شدت پسندی، تعصب اور بےحسی سے محفوظ رہ سکیں۔
صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کانفرنس کے شاندار انعقاد پر جملہ منتظمین کو خصوصی مبارک باد دی۔ کانفرنس میں محترم ڈاکٹر اشفاق حسینی، محترم مختار احمد خان، محترم محسن شفیق، محترم فرخ حسین، محترم میاں محمد واسق، محترم علامہ جاوید ملک، محترم راجہ بابر حسین (فرانس)، محترم قاسم خان، محترم سید رفیع الدین قادری دیگر ذمہ داران، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات، رفقاء و وابستگان اور پاکستانی کمیونٹی کے مرد و خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
تبصرہ