اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت محض ایک صفت نہیں بلکہ کائناتی نظام کا وہ تدریجی اصول ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
انسان کی پریشانیوں کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ وہ خود کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرتا ہے: صدر منہاج القرآن
انسانی زندگی ایک تدریجی اور متوازن ارتقاء کا نام ہے، جس میں جسم، شعور، علم، فہم، مزاج اور روحانی استعداد سب پہلوؤں کو یکساں نشوونما نصیب ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے آغاز ہی میں اپنی پہچان صفتِ ربوبیت کے ذریعے کروائی، جو اِسی بتدریج ترقی، تربیت اور ترتیبِ حکمت کا مظہر ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے میں، ہر نعمت اور کمال کا حصول اسی فطری ترتیب کے تابع ہوتا ہے۔ اگر انسان صرف جسمانی طور پر بالغ ہو جائے، مگر علمی، اخلاقی اور روحانی طور پر جامد رہ جائے، تو وہ ربوبیت کے نظام سے دور جا پڑتا ہے۔ عصرِ حاضر میں، اگر کوئی تحریک اس متوازن نشوونما کا حقیقی فیض فراہم کر رہی ہے تو وہ تحریک منہاج القرآن ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ بابرکات کا تعارف اپنی صفتِ ربوبیت سے قرآنِ مجید کے آغاز میں ہی فرما دیا ہے۔ یہ اس کی صفتِ ربوبیت ہے یعنی اللہ رب العزت کا رب ہونا اس کے اندر ایک خاص قسم کا عمل پوشیدہ ہے۔ یعنی اس کا رب ہونا اپنے اندر جامد نہیں ہے یعنی اس کے رب ہونے میں بذات خود یہ خبر پوشیدہ ہے کہ اس کی یہ صفت تحرک میں رہتی ہے۔ یعنی اللہ رب العزت کی یہ صفت کوئی ایسی شے کا نام نہیں ہے جو ایک بار ہوئی ہے اور اَب وہ اپنی جگہ پر موجود ہے؛ بلکہ اِس کی صفتِ ربوبیت کے اندر پروان چڑھائے جانے کا Gradually Process اور اُس کی نشاندہی پائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت کے اندر جتنے بھی عوالم موجود ہیں، اُن تمام عوالم کی اللہ تعالیٰ بتدریج پرورش کرتا ہےاُن کو مرحلہ در مرحلہ ترقی دیتا چلا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کبھی بھی کوئی نعمت یا ترقی اچانک عطا نہیں کرتا:
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ربوبیت کے متعلق بیان کرتے ہوئے کہا کہ: اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت کے اندر جو ایک خاص پیغام پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کبھی بھی کوئی نعمت، کوئی ترقی اچانک یا یکایک کسی کو عطا نہیں کر دیتا۔ اللہ رب العزت نے آغازِ قرآن میں اپنی شان یہ بیان فرمائی کہ وہ رب العالمین ہے، یعنی بتدریج ترقی عطا فرماتا ہے، یک دم یا اچانک سے کچھ نہیں کرتا۔ تو اسی طرح کائناتِ انسانی اور زندگی کے اندر ہر مرحلہ، ہر کام ایسے ہی انجام پائے گا کیونکہ یہ اللہ رب العزت کی شان ہے۔ اللہ رب العزت اسی طرح ترقی دیتا ہے تو کائنات انسانی کی ہر ترقی اسی مرحلے اور process سے ہی گزرے گی۔
زندگی ایک تدریجی سفر ہے:
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے انسانی زندگی کے مختلف مراحل بیان کرتے ہوئے کہا کہ: جب کوئی شخص اپنی زندگی کے مختلف مراحل پر نظر دوڑاتا ہے تو اُسے واضح ہوجاتا ہے کہ کل تک جو شخص سائیکل پر تھا، آج وہ کار کا مالک ہے، کبھی کرائے کے مکان میں رہنے والا، اب اپنے آشیانے کا مالک ہے۔ کاروبار ایک کمرے سے شروع ہوا، آج فیکٹریوں تک جا پہنچا۔ پندرہ سولہ سال کی عمر سے شروع ہونے والا کسی شخص کا یہ سفر جب وہ ستر پچھتر برس میں پلٹ کر دیکھتا ہے، تو کہتا ہے: میں خالی ہاتھ چلا تھا، آج خاندان، گھر بار، اور عزت و وقار سب میرے ہمسفر ہیں۔ یہ تمام سفر ایک انسان نے بتدریج طے کیا ہے۔
یہی اللہ رب العزت کی شان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کو ایسے ہی سفر کرواتا ہے۔ اگر اس کے برعکس کوئی امید رکھیں گے تو وہ اس کے نظام قدرت کے خلاف ہے۔ وہ چاہے تو کچھ بھی فرما دے، لیکن اگر کوئی انسان اِسی طرح سوچے، کوئی نوجوان اِسی طرح سوچے کہ میں رات کو سو جاؤں، جب صبح اٹھوں تو مالی طور پر مستحکم ہوں، تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بتدریج زندگی کے سفر سے ہی اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کو وہ منازل عطا کرتا ہے۔
نظامِ قدرت اور تدریج کی حکمت:
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ: انسان اگر یہ تمنا کرے کہ لمحوں میں اُس کی تقدیر بدل جائے، تو اُسے جان لینا چاہیے کہ یہ خواہش ربّ کے بنائے ہوئے فطری نظام سے بغاوت کے مترادف ہے۔ جو دل ایسی بےصبر تمناؤں کا اسیر ہو، اُسے چاہیے کہ اپنی خواہشات کو لگام دے اور قدرت کے اصولوں کے تابع ہو جائے، تب ہی خیر اور سکون کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ ورنہ انجام صرف مایوسی، اضطراب اور ذہنی الجھن کی شکل میں نکلتا ہے، کیونکہ انجامِ کار وہی ہوتا ہے جو قدرت چاہے، اور قدرت کی چاہت تدریج میں ہے، یک دم انقلاب میں نہیں۔
درخت بھی جب اُگتا ہے تو پہلے بیج بنتا ہے، پھر کونپل، پھر شاخیں اور پھر کہیں جا کر سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے۔ یہی اصول انسان پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اِسی طرح ایک بچہ جو آج ماں کی گود میں ہے، اُس سے یہ تقاضا کرنا کہ کل پی ایچ ڈی کر لے، فطرت کے نظام کے ساتھ ظلم ہے۔ جس طرح عمر سے پہلے کسی چیز کا مطالبہ بےوقوفی ہے، اسی طرح عمر کے بعد بھی توقعات بیکار ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے دنیا کا نظام تدریج پر قائم کیا ہے۔ وہ ہر شے کو وقت کے سانچے میں ڈھالتا ہے، پروان چڑھاتا ہے، اور اپنی حکمت سے اُسے بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔
اپنی ذات کا کسی کے ساتھ موازنہ نہ کیا جائے:
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ: انسان کی پریشانیوں کا ایک بڑا سبب دوسروں کے ساتھ موازنہ اور بے جا مقابلہ کرنا ہے۔ خود کو دوسروں کے معیار پر تولنا، خاص طور پر ایسے افراد سے جو عمر، تجربے یا حالات میں آپ سے کہیں آگے ہوں، محض ذہنی اذیت اور مایوسی کا باعث بنتا ہے۔
اگر آپ بیس برس کے ہیں تو تقابل بھی اپنے ہم عمر سے کیجیے، نہ کہ کسی ایسے سے جو ساٹھ برس کی زندگی، تجربہ اور ٹھہراؤ کے ساتھ مسند پر بیٹھا ہے۔ ایسا موازنہ فطرت کے خلاف ہے اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ علم و فضل کی دنیا میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ طلبِ علم کا آغاز جب ہوتا ہے تو انسان شاگردی اختیار کرتا ہے، مطالعہ کرتا ہے، مشق و مزاولت میں مصروف ہوتا ہے۔ اگر ابتداء ہی میں فتویٰ و مسند کا شوق پال لے تو یہ بھی قدرت کے نظام سے انحراف ہے، کیونکہ حکمت، فہم اور بصیرت ایک عمر کے بعد عطا ہوتے ہیں۔وقت کی چھلنی سے گزرے بغیر دانائی حاصل نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے ہر شے کے لیے ایک فطری وقت مقرر کیا ہے۔ جو دانائی چالیس سال بعد ملتی ہے، وہ بیس سال کی عمر میں نہیں مل سکتی۔ جو تجربہ تیس کے بعد حاصل ہوتا ہے، وہ قبل از وقت ممکن نہیں۔ ساٹھ برس کی عمر میں جو حکمت و بینش حاصل ہوتی ہے، وہ وقت سے پہلے نہیں دی جاتی۔
زندگی کا اَصل سفر انسان کی باطنی نشوونما سے جڑا ہے:
ہر عمر کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے، ایک مخصوص رنگ اور جذبات کا ایک منفرد انداز۔ جو جذبات آج آپ کے دل میں موجزن ہیں، وہ کل نہیں ہوں گے، کیونکہ وقت کے ساتھ انسان کے احساسات، سوچ اور ترجیحات بدلتی چلی جاتی ہیں۔ آج جو سوالات آپ ذہن میں ابھرتے ہیں، ممکن ہے دس سال بعد اُن کا وجود ہی نہ رہے، اور آج جن فیصلوں کو آپ جذبات کی رو میں درست سمجھ رہے ہیں، آئندہ برسوں میں آپ خود ان پر مسکرا دیں اور کہیں کہ: تب مجھے بات کی گہرائی کا اندازہ نہ تھا، بڑے لوگ واقعی تحمل اور توازن رکھتے تھے۔
زندگی کا ہر دور اپنی ایک خوبی رکھتا ہے۔ جو جرأت و جوش جوانی میں ممکن ہے، وہ بڑھاپے میں ممکن نہیں۔ یہی زندگی کی تدریجی ترتیب ہے۔ ایک مرحلہ دوسرے کی بنیاد بنتا ہے، ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت جنم لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی نشوونما ایک تدریجی نظام کے تحت رکھی ہے، جسم، عقل، شعور اور روح ہر ایک کو اپنا مرحلہ طے کرنا ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان جسمانی طور پر تو عمر کی سیڑھیاں چڑھ لیتا ہے، مگر اُس کا شعور بچپن کی دہلیز پر ہی رُکا رہتا ہے۔ ایسے افراد نظر آتے ہیں جن کی عمر تو ساٹھ برس ہو چکی ہوتی ہے، مگر اُن کی گفتگو، رویہ اور فہم بچپنے کا عکس پیش کرتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص صرف جسمانی عمر کے مرحلے سے گزرا ہے، لیکن اُس کا شعور اُس تجربے، ٹھہراؤ اور حکمت سے نہیں گزرا جو عمر کے ساتھ آنا چاہیے تھا۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، ویسے ویسے روحانی اور ذہنی بلوغت بھی بڑھنی چاہیے۔ اگر شعور، فہم، دینی و روحانی بصیرت ایک جگہ رُکی رہ جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ زندگی کا اصل سفر، جو باطن کی نشوونما سے جڑا ہے، وہ مکمل نہیں ہوا۔ قد بڑھ جانا، بال سفید ہو جانا، صرف ظاہری علامتیں ہیں؛ اصل ترقی تو وہ ہے جو انسان کے اندر ہو، فکر میں، فہم میں، اور روح میں۔
انسانی عمر کا سفر شخصیت کی تکمیل:
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: درحقیقت انسان کی حیات کے چار اہم پہلو ہوتے ہیں، اور ان سب کو بتدریج ارتقاء کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ ان میں پہلا پہلو جسمانی ہے۔ بچپن سے جوانی، اور جوانی سے بڑھاپے تک جسم پروان چڑھتا ہے۔ قد میں اضافہ ہوتا ہے، طاقت آتی ہے، پھر آہستہ آہستہ بالوں کی سیاہی سفیدی میں بدلنے لگتی ہے، اور جسم کی توانائی ٹھہراؤ میں ڈھلنے لگتی ہے۔
لیکن اگر صرف جسم ہی بڑھا اور شعور اپنی جگہ ٹھہرا رہا، تو یہ ترقی ادھوری ہے۔ شعور کو بھی عمر کی سیڑھیاں چڑھنی چاہییں۔ جس طرح جسم کا انداز بدلتا ہے، ویسے ہی سوچ، فکر اور طرزِ عمل میں بھی پختگی آنا لازم ہے۔
اسی طرح انسان کے مزاج اور طبیعت کا بھی ارتقاء ہونا چاہیے۔ اگر غصہ، شدت اور بےصبری جوانی میں بھی ویسی ہو اور بڑھاپے میں بھی وہی برقرار رہے، تو پھر عمر نے کیا سکھایا؟ عمر کا اصل فائدہ تب ہے جب مزاج میں نرمی، طبیعت میں ٹھہراؤ، فیصلوں میں دانائی، دل میں قناعت اور دماغ میں حکمت پیدا ہو جائے۔ زندگی کا اَصل حُسن یہی ہے کہ وقت کے ساتھ انسان کی شخصیت کے یہ پہلو نکھرتے چلے جائیں، اور ہر عمر میں اُس کا کردار اُس عمر کی متانت، بردباری اور شعور کی گواہی دے۔
انسان کی کامل نشوونما اور تحریکِ منہاج القرآن کا فیض:
جوں جوں انسان کی عمر بڑھتی ہے، اسی طرح اُس کے علم، فہم، بصیرت اور روحانی شعور میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ اگر صرف جسمانی طور پر انسان بڑا ہو جائے، لیکن اُس کی علمی سطح، ذہنی استعداد، اور روحانی کیفیت ویسی کی ویسی رہے، تو گویا اُس نے اپنی ذات کے ساتھ ناانصافی کی۔ ایسی ترقی ادھوری اور بےروح ہے۔
کامل اور متوازن ترقی وہی کہلاتی ہے جو رب کے نظامِ ربوبیت کے تحت ہر پہلو میں ہو، یعنی جسمانی، علمی، روحانی اور اخلاقی۔ آج کے دور میں اگر کوئی شخص خود کو ایسی مکمل اور بتدریج ترقی سے ہمکنار دیکھنا چاہے، تو اُس کے لیے بہترین راستہ تحریک منہاج القرآن سے وابستگی ہے، اور خصوصاً حضور شیخ الاسلام کی صحبت ہے۔
جو لوگ 1980 سے اس تحریک سے وابستہ ہیں، اگر وہ آج کی تاریخ میں پلٹ کر اپنے چالیس سال کا سفر دیکھیں، تو وہ خود گواہی دیں گے کہ ان کی علمی سطح میں کیسا غیر معمولی اضافہ ہوا، ان کی روحانیت میں کس قدر پاکیزگی آئی، اور ان کے اخلاق، تدبر، حکمت، قناعت اور باطنی بصیرت میں کیسے نکھار آیا۔
یہ کوئی دعویٰ نہیں، بلکہ ہر اُس شخص کا تجربہ ہے جو اخلاص کے ساتھ اس تحریک کا حصہ بنا۔ اس لیے کہ تحریک منہاج القرآن، اس صدی میں اللہ تعالیٰ کی منتخب کردہ جماعت ہے، جو صفتِ ربوبیت اور صفتِ رحمت کی کامل جلوہ گاہ ہے۔
جو کوئی سچائی اور وفا کے ساتھ اس کارواں کا ہمسفر بنتا ہے، اُسے زندگی کے ہر پہلو میں ارتقاء نصیب ہوتا ہے۔ یہاں کسی ایک پہلو کی ترقی باقی پہلوؤں کو نظر انداز کر کے نہیں ہوتی، بلکہ شخصیت کا ہر زاویہ سنورتا، نکھرتا اور پروان چڑھتا ہے اور یہی ربوبیت کا فیض ہے۔
حاصلِ کلام:
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے اس فکر انگیز خطاب کا حاصلِ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت محض ایک صفت نہیں بلکہ کائناتی نظام کا وہ تدریجی اصول ہے جو ہر شے کو وقت، حکمت، اور تربیت کے مراحل سے گزار کر کمال تک پہنچاتا ہے۔ زندگی کا ہر گوشہ، خواہ جسمانی ہو یا روحانی، علمی ہو یا اخلاقی، اس ربانی اصول کا پابند ہے۔ نہ ترقی یک لخت آتی ہے، نہ دانائی لمحوں میں عطا ہوتی ہے؛ ہر بلندی کی راہ صبر، محنت اور تدریج سے ہو کر گزرتی ہے۔ جو شخص اس اصول کو سمجھ کر اپنی زندگی کی تعمیر کرتا ہے، وہی حقیقت میں سکون، قناعت اور حکمت کا وارث بنتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن ایک ایسا فیض رساں قافلہ ہے، جو انسان کو ظاہری نہیں بلکہ باطنی ارتقاء کی شاہراہ پر گامزن کرتا ہے، جہاں علم نکھرتا ہے، کردار سنورتا ہے، روحانیت مہکتی ہے، اور زندگی کا ہر زاویہ ربوبیت کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ یہی وہ متوازن اور مکمّل ترقی ہے جو انسان کو نہ صرف دنیا میں وقار عطا کرتی ہے بلکہ اُسے رب کے قرب کی جانب بھی لے جاتی ہے۔
بلاگ: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر، سوشل میڈیا، لائیو اَپڈیٹ سیل)
تبصرہ