اسلامی مبادیات تجارت
ڈاکٹرحسین محی الدین القادری
اسلام واحد مذہب ہے جس نے تجارت کے بنیادی اصول 1400سال قبل وضع کر دیے تھے جو تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ سات آٹھ سو سال قبل جب مغرب کو رہن سہن کی خبر نہ تھی۔ لندن اور پیرس جیسے شہروں میں باتھ رومز تک کا تصور نہ تھا۔ اسلام Cost efficiencyاورtime efficiencyکی بات صرف کمپنی کے لیے ہی نہیں بلکہ کسٹمر کے لیے بھی کرتا ہے۔ یہ بات مغرب کو سالہاسال کے تجربات کے بعد اب سمجھ آئی ہے مگر اسلام چودہ صدیاں قبل اس کے اصول وضع کر چکا ہے۔
اسلام کا بزنس کا تصور یہ ہےکہ سرمایہ مالک، ملازم اور غریب عوام تینوں میں تقسیم ہوا اور معاشرہ ایک فلاحی ریاست کا نظارہ پیش کرے، بزنس کے اسلامی ماڈل میں دیانت داری اور مستقل دیانت داری کا بنیادی تصور اور خواہشات کو محدود کر کے وسائل کو لامحدود کرنے کی محنت وہ سنہری اصول ہیں جن پر عمل کر کے مسلم بزنس مین دنیا میں ترقی کی معراج کو چھو سکتے ہیں۔
ڈاکٹرحسین محی الدین القادری، آسٹریلیا
اردو نیٹ جاپان 17مارچ 2011ء
تجارت کے لئے وضع کردہ بین الاقوامی ضوابط اور مختلف کاروباری ماڈلز اپنا ارتقائی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مختلف مذاہب اورتہذیبوں کے حامل معاشرے بزنس کے لیے نئے نئے اصول وضع کر کے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں شریک ہیں اس طرح مادیت کا غلبہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اسلام واحد مذہب ہے جس نے تجارت کے بنیادی اصول 1400سال قبل وضع کر دیئے تھے جو تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ یہ اصول انسانیت کو قیامت تک رہنمائی دیتے رہیں گے اور ان پر قائم رہتے ہوئے کوئی بھی معاشرہ اور تہذیب کامیابی کی معراج کو چھو سکتا ہے۔ اسلام کے کاروباری نظام پر بات کرنے سے قبل ہم موجودہ حالات کو دیکھتے ہیں تو آج ہمارا رول ماڈل مغرب کا بزنس مین، مغربی کارپوریٹس اور مغربی پالیسیاں ہیں۔ مغرب نے ترقی کی منازل طے کر کے نیا نظام دیا اورآج دنیا اس کی پیروی کر رہی ہے۔ اسلام نے بزنس کے جو اصول وضع کیے اس کی اصل روح کو سمجھا نہیں گیا۔ ان کو نظر انداز کر دیا گیا یا کوئی سمجھانے والا نہ مل سکا۔ نتیجتاً مغرب کی تقلید کی گئی اور یہ کہہ دیا گیا کہ اسلام کا دیا ہوا بزنس ماڈل آج کے دور کے لیےقابل عمل نہیں رہا۔ سات آٹھ سوسال قبل جب مغرب کو رہن سہن کی خبر نہ تھی۔ لندن اور پیرس جیسے شہروں میں باتھ رومز تک کا تصور نہ تھا، مسلم سپین کے بڑے شہروں قرطبہ و غرناطہ اور بغداد میں تین سے چارسو ریشم کی ملیں ہوا کرتی تھیں۔ 800 سے زائد زیتوں کے تیل کے Expellersتھے جو پورے عرب اور یورپ میں Olive Oilایکسپورٹ کرتے تھے او رپوری دنیا میں مسلمان تاجروں کاچرچا تھا اور اس وقت ان کے سامنے Westکا نہیں بلکہ اسلام کا عطا کردہ بزنس ماڈل تھا جس کے بانی حضور نبی اکرم a ہیں۔ مسلمانوں نے اس کاروباری ماڈل پر عمل کر کے کئی سو سال تک دنیا پر حکومت کی۔ آج چین Cost efficiency کا ماڈل لے کر آگے بڑھ رہا ہے مگر اس کا انداز اور حیثیت copy catکی ہو گئی اور copy cat کبھی سپر پاور نہیں بن سکے۔ اسلام کا اپنا اوریجنل بزنس ماڈل ہے جسے اپنا کر مسلمانوں نے ترقی کی اور بعد ازاں اسے ساری دنیا نے اپنایا۔
اسلامی بزنس ماڈل کے علاوہ دنیا میں رائج کچھ ماڈلز کا تذکرہ ضروری ہے جو وقت کے ساتھ پس منظر میں چلے گئے۔ ان میں سے ایک ماڈل Relativism تھا جس میں پہلے سے طے شدہ اصولوں کو ماننے کی بجائے یہ تصور دیا گیا کہ ہر فرد جو چاہے کر سکتا ہے اور ہر کسی کی رائے درست ہے، اس طرح کوئی نظام نہ بن سکا اس لیے معاشرے نے اسے رد کر دیا۔ اس کے بعد Utilitarianismکی بات کی گئی جس کا بنیادی تصور اس بات کے گرد گھومتا ہے کہ اگر مقصد پورا ہوتا ہے تو طریقہ جو بھی اپنایا جائے درست ہے۔ یہ ماڈل بھی خلاف اسلام ہے اور اب مغرب کو بھی اس کے نقائص کا ادراک ہو چکا ہے۔ اگر مقصد پیسہ کمانا ہے تو بینک لوٹ کر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے گو کہ یہ غلط ہے مگر مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔ تیسرا نظام Universalism ہے جس میں دلچسپ امر یہ ہےکہ اس طریقہ کار میں آخری نتیجہ کی بجائے ارادے کے صحیح ہونے کو اولیت دی جاتی ہے چاہے طریقہ کار بھی غلط ہوا اور بھلے نتیجہ بھی درست نہ آئے۔ ایسا نظام بھی قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ اسلام نیت، عمل او رنتیجہ تینوں کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ یہ نظام درست ہے یا غلط، اس لیے یہ نظام بھی اسلامک بزنس ڈاکٹرائن سے مماثلت نہیں رکھتا ۔ چوتھا ماڈل Distributive Justice کا ہے جو اسلامی نظام تجارت کے قریب ہے اور کسی حد تک نافذ بھی ہے۔پاکستان میں بھی یہ نظام چل رہا ہے مگر اس کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ زیادہ منافع کے حصول میں مانع ہوتا ہے۔ یہ نظام مالک اور ملازم دونوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ اس لیے سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام(Socialist economy) دونوں اسلامی کاروباری نظام کے قریب نہیں ہیں۔ اول الذکر بزنس مین کے حقوق کو تحفظ دیتا ہے اور موخر الذکر صرف کارکنوں کے حقوق کی بات کرتا ہے جبکہ اسلام نے ہمیشہ میانہ روی کی بات کی ہے۔ Distributive Justice میں مالک اور ملازم دونوں کو محنت کا اجر ملتا ہے اور کسی کا حق نہیں مارا جاتا۔ اگرمعاشرہ متاثر نہ ہو رہا تو اسلام فرد کے حقوق کو تحفظ دے گا، اگر متاثر ہوتا ہو تو پھر تحفظ نہیں دے گا۔ اگر کئی فرمز (Firms) مل کر کوئی ایسا کام کر رہی ہیں جس کا معاشرے کو فائدہ کی بجائے نقصان ہو رہا ہے تو اسلام اس کی سپورٹ نہیں کرتا اور اگر کوئی ایک فرم معاشرے کو فائدہ دے رہی ہے تو اسلام اس ایک فرم کو فائدہ پہنچائے گا، اسلامی جمہوری نظام آنکھیں بند کر کے جمہوری نہیں ہے۔ اگر اکثریت کسی غلط بات پر جمع ہو جاتی ہے تو اسلام ایسی ’’جمہوریت‘‘ کو قطعاً Supportنہیں کرتا، اسلام کچھ حدود و قیود لگا کے جمہوریت کی حمایت کرتا ہے۔
اسلامک بزنس Ethicsکے کلچر کو کمپنیز اور کارپوریٹ لیول پر فروغ دینے کے لیے ضروری ہےکہ کمپنیز اہم اقدامات کریں جن میں سے ایک Moral Advocateکی صورت بھی ہے۔ Moral Advocate کی پوزیشن کو ہر کمپنی میں پیدا کیا جائے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ کمپنی میں اچھا اخلاقی رویہ فروغ پا رہاہے۔ Moral Advocateکمپنی کا مالک خود بھی ہو سکتا ہے جس کی ذمہ داری ہو کہ وہ کمپنی کے اندر اسلامی اقدار اور تجارتی اخلاقیات کے ماحول کو یقینی بنائے او رکمپنی کے ملازمین کو اسلامی بزنس کی اخلاقیات سکھائے۔ یہ کاوش تب کامیاب ہوگی جب کمپنی کا CEOان اخلاقیات کو خود پر بھی لاگو کرے۔ اسلامی تجارتی نظام میں کسٹمر کا حق مالک کا فرض ہے۔ ایک مسلم آرگنائزیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کسٹمر کے ساتھ زیادتی نہ ہو کسٹمر کے حقوق میں پراڈکٹ کوالٹی اور Cost efficiency دونوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اسلام Cost efficiency اور time efficiency کی بات صرف کمپنی کے لیےنہیں بلکہ کسٹمر کے لیے بھی کرتا ہے یہ بات مغرب کو سالہاسال کے تجربات کے بعد اب سمجھ آئی ہے مگر اسلام چودہ صدیاں قبل اس کے اصول وضع کر چکا ہے۔
ویسٹرن بزنس ماڈل لا محدود خواہشات اور محدود وسائل کا تصور دیتا ہے۔ ایسے معاشرے، ملک اور امت کو کون شکست دے سکتا ہےجو لا محدود وسائل کے لئے محنت کرے مگر خواہشات کو ایک حد سے بڑھنے نہ دے۔ اسلام کے اس ماڈل کو اپنا لیا جائے تو انڈسٹری اور ملک ترقی کرے گا اور منافع میں سے غریب عوام کو بھی حصہ ملے گا اور وہ بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر معاشرے میں باعزت مقام حاصل کر سکیں گے۔ زیادہ بچت کرنے سے معاشرے کے پسے ہوئے غریب طبقوں کو خوشحالی دی جاسکتی ہے۔ اسلام کا بزنس کا تصور یہ ہے کہ سرمایہ مالک، ملازم اور غریب عوام تینوں میں تقسیم ہو اور معاشرہ ایک فلاحی ریاست کا نظارہ پیش کرے، بزنس کے اسلامی ماڈل میں دیانت داری اور مستقل دیانت داری کا بنیادی تصور اور خواہشات کو محدود کر کے وسائل کو لامحدود کرنے کی محنت وہ سنہری اصول ہیں جن پر عمل کر کے مسلم بزنس مین دنیا میں ترقی کی معراج کو چھوسکتے ہیں۔
تبصرہ