تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف 2011ء کا نواں دن
شہر اعتکاف میں 30 اگست 2011 کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہزاروں معتکفین و معتکفات سے خطاب کیا۔ نماز فجر کے بعد آپ کا یہ اختتامی خطاب تھا، جو لندن سے بذریعہ ویڈیو کانفرنس ہوا۔ آپ نے سلسلہ تصوف میں"الادب مع الرسول" کے موضوع پر خطاب کیا۔ شیخ الاسلام نے خطاب کے آغاز میں سورۃ البقرہ سے آیت کریمہ تلاوت کی۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہےo
آپ نے کہا کہ "الادب مع الرسول" کا قرآن پاک میں حکم دیا گیا۔ قرآن پاک میں ادب رسول کی پہلی شرط رکھی گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھنے والو، ایمان والو، آقا علیہ السلام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے "راعنا" نہ کہا کرو۔ بلکہ "انظرنا" کہا کرو۔
اب یہود "راعنا" کا لفظ ایسے معنی میں استعمال کرتے، جس کا معنی بے ادبی کا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے گوارا نہ کیا کہ کوئی ایسا لفظ بھی نہ بولو، جس سے ادب رسالت میں کوئی گستاخی کا پہلو نکلے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ کمال ادب سکھایا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو مکہ میں اس وقت 10 لاکھ آبادی تھی، جس میں مسلمان صرف 400 لوگ تھے۔ اب ان حالات میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو پتہ چلا کہ اس کے مخاطب کفار و مشرکین تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب کفار و مشرکین کو اپنا مخاطب بنایا تو انہیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب سکھایا۔
قرآن پاک میں جہاں بھی ادب سکھایا گیا تو وہ مدنی سورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ادب مدینے سے نکلا ہے۔ صحابہ کرام سے پیار بھی ادب مع الرسول ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت سے محبت کرنا بھی ادب مع الرسول ہے۔
طبرانی شریف میں حدیث ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس کو میرا قرب نصیب نہیں ہوگا اور وہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں آ سکے گا۔
آپ نے کہا کہ امام ملاک نے فتویٰ دیا کہ جو شخص مدینہ کی مٹی کو بے کار کہے تو اس کو 30 کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ ارے جس شے کی نسبت شہر مصطفیٰ اور مصطفیٰ سے ہوگی تو اس کو اور کیا چاہیے۔
متفق علیہ حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا کہ باری تعالیٰ مدینہ کی محبت کو مکہ کی محبت سے دوگنا کر دے۔
جب قیامت کا دن قریب آئے گا تو ایمان سمٹتا سمٹتا مدینہ آ جائے گا۔ کیونکہ ادھر آقا علیہ السلام کا ڈیرہ ہے۔
آقا علیہ السلام نے واضح طور پر فرما دیا کہ کوئی شخص اس وقت مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اس کی خواہشات میرے تابع نہ ہو جائیں۔
میری بندگی بھی عجیب ہے، میری زندگی بھی عجیب ہے
جہاں مل گیا تیرا نقش پاء، وہاں میں نے کعبہ بنا لیا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب دین میں فساد کا زمانہ آ جائے تو اس وقت جو میری سنت سے چمٹ جائے گا تو اس کو 100 شہداء کا درجہ ملے گا۔
آج کا دور فساد اور فتنہ کا دور ہے۔ آج اپنی خواہشات کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع کر دینا ہی اصل دین ہے۔ وہ کیسے عاشق ہیں کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن آقا علیہ السلام کی سنت پر عمل نہیں کرتے۔
ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص عملی طور پر میری سنت کے ساتھ وابستگی اختیار کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل کر دے گا۔
جب میرے دین کی قدرو منزلت کم ہونے لگے، جب میرا دین نطر انداز ہونے لگے تو اس زمانے میں جس نے اپنے علم و عمل سے میری سنت کو زندہ کیا، گویا اس نے مجھے زندہ کیا۔ جس نے مجھے زندہ کیا تو وہ جنت میں میرے ساتھ ٹھہرے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمر سے کسی نے سفر میں نماز کی ادائیگی کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے کہا کہ ہم سے کیا پوچھتے ہو، ہم ایک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جانتے ہیں، اور کچھ نہیں جانتے۔
جب کسی کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے ساتھ تعلق قائم ہو جاتا ہے تو پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر سب کچھ لٹا دیتے ہیں۔ جیسے اویس قرنی نے اپنے سارے دانت توڑ ڈالے۔ جب تعلق عشق کا پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ کوئی شے محبوب سے بالا نہیں لگتی۔
مولا علی شیر خدا سے کسی نے کوئی مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ لوگو میں اللہ کا نبی اور نہ مجھ پر اللہ کی وحی آتی ہے۔ میں اللہ کے رسول کی تعلیمات پر عمل کرتا ہوں، جس قدر ہو سکے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ ہے کہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی شان ہی یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے سیدنا داؤد علیہ السلام کو وحی کی کہ مجھ سے محبت کیا کر۔ اور میرے محبوب بندوں سے محبت کیا کرو، اور میرے بندوں کے دلوں میں میری محبت ڈالا کر۔ اور میرے عام بندوں کو میری محبت سکھا۔ سیدنا داؤد علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ میں تو تجھ سے محبت کرتا ہوں، جو تیرے بندے ہیں، ان سے بھی محبت کرتا ہوں لیکن باری تعالیٰ تیرے بندوں کو تیرا عاشق کیسے بناؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میری پیاری باتیں ان سے کیا کر۔ محبت بھرے انداز میں میرا ذکر ان سے کیا کر، محبت بھری باتیں سنتے سنتے وہ محبت کرنے لگ جائیں گے۔
ادب کا سب سے پہلے تقاضا محبت سے شروع ہوتا ہے۔
آپ نے کہا کہ لوگو! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں ڈھل جاؤ، اسی میں نجات ہے۔ اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔
شیخ الاسلام کا خطاب 7 بجکر 20 منٹ پر ختم ہوا۔
تبصرہ