محبت کے راستے پر چلنے کی ابتدا توبہ سے ہوتی ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین القادری

نظر آنے والے گناہوں کا علاج نظر آنے والے نیک اعمال سے کیا جاتا ہے
معاشرے کا سکون اس لئے اجڑ گیا کہ غالب ترین اکثریت کے دلوں پر نفس کا قبضہ ہوچکا  ہے
رات کی تاریکی میں مصلے سے دوستی لگا کر اللہ سے معافی مانگنا برے اعمال سے چھٹکارے کی واحد سبیل ہے
بُرے خیالات کی گرفت نہ کیجائے تو بری فطرت تک لے جاتے ہیں
ڈاکٹر حسین محی الدین القادری کا مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے ماہانہ اجتماع سے خطاب

دل کے گھر کو محبت الہٰی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے معمور کرنے کی جدوجہد ہر مسلمان کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ محبت کے راستے پر چلنے کی ابتدا توبہ سے ہوتی ہے۔ سابقہ گناہوں کا اعتراف کر کے گریہ و زاری اور ندامت و شرمندگی سے اللہ سے معافی مانگنا اور گناہوں سے ہمیشہ کیلئے برات کرنا توبہ ہے۔ اللہ کے حضور عام مسلمان کا اعتراف گناہ کرنا توبہ کہلاتا ہے، جبکہ اولیاء کرام اور عرفاء کی توبہ ’’انابہ‘‘ کہلاتی ہے اور انبیاء کرام کی توبہ کو’’ اوبہ‘‘ کہتے ہیں۔ نظر آنے والے گناہوں کا علاج نظر آنے والے نیک اعمال سے کیا جاتا ہے۔ رات کی تاریکی میں مصلے سے دوستی لگا کر اللہ سے معافی مانگنا اور گریہ و زاری کرنا ہی برے اعمال سے چھٹکارے کی واحد سبیل ہے۔

ان خیالات کا اظہار تحریک منہاج القرآن کی فیڈرل کونسل کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین القادری نے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے ماہانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جس میں ہزاروں مردوخواتین نے رات گئے تک شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ اولیاء کرام کی توبہ اللہ کی خوشنودی اور رضاکے حصول کیلئے اور انبیاء کا یہ عمل صرف اللہ کے حکم کی بجا آوری کیلئے ہوتا ہے۔ جبکہ عام مسلمان توبہ گناہوں سے نجات کیلئے کرتے ہیں۔ ہر شخص کو چاہیے کہ ہمہ وقت اپنا محاسبہ جاری رکھے اور برے خیالات کے آنے کو معمولی نہ سمجھے۔ اس پر محاسبہ کرے کہ بُرا خیال کیوں آیا؟ اگر اس پر تشویش نہیں ہو گی تو خیال تصور میں بدلے گا، تصور عمل کا روپ دھارے گا، برے اعمال سے توبہ نہ کی تو وہ عادت بن جائیں گے اور بری عادات انسان کی فطرت بن جائیں گی۔ بُرے خیالات کی گرفت نہ کیجائے تو بری فطرت تک لے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر حسین محی الدین القادری نے کہا کہ انسان کا دل تخت کی مانند ہے۔ نفس اور روح اس پر قبضہ کرنے کیلئے برسر پیکار رہتے ہیں اگر دل پر نفس کا قبضہ ہوجائے تو اعمال نفس کے تابع ہو جائیں گے اور گناہ سرزد ہوں گے اور اگر دل پر روح کا قبضہ ہو جائے تو نیک اعمال بلا ارادہ ہوجائیں گے اور معاشرے کیلئے وہ بندہ سلامتی اور خیر کا باعث بن جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے کا سکون اس لئے اجڑ گیا کہ غالب ترین اکثریت کے دلوں پر نفس کا قبضہ ہوچکا اور المیہ یہ ہے کہ اس قبضے سے نجات کا شعور بھی اٹھ گیا ہے۔ توبہ ہی وہ واحد راستہ ہے جو قلب بیما رکو صحت یاب کرسکتا ہے۔ دل سے نفس کا قبضہ چھڑانے کیلئے روح کو طاقتور کرنا ہوگا اور یہ توبہ اور ریاضت و مجاہدہ کے بغیر ممکن نہیں۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top