بزم منہاج کالج آف شریعہ کے زیر اہتمام ناران کاغان کے سالانہ طویل تفریحی دورہ کے سحر انگیز مناظر

ناران وادی کاغان کا ایک خوبصورت پہاڑی قصبہ ہے۔ یہ ضلع مانسہرہ، خیبر پختونخوا، پاکستان میں دریائے کنہار کے کنارے سطح سمندر سے سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ جھیل سیف الملوک اور یہاں کا سب سے اونچا پہاڑ ملکہ پربت ناران سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی ہے۔ قدرتی مناظر سے بھرپور یہ وادی پاکستان کے خوبصورت ترین علاقوں میں شمار کی جاتی ہے۔

کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے طلبہ کی نمائندہ تنظیم بزم منہاج (سیشن 14-2013) کے زیراہتمام سالانہ تفریحی دورہ کیا گیا۔ جس میں 129 طلباء اور 30 مہمانان گرامی شامل تھے۔ اس تفریحی سفر کا آغاز مورخہ 22 جون رات 3 بجے ہوا۔ سفر کے لیے تین بڑی (اے سی) بسوں کا انتظام کیا گیا تھا، جن میں طلبہ کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے بٹھایا گیا۔

طلباء کی نگرانی اور انتظامی امور سرانجام دینے کے لیے بزم منہاج کے اراکین صدر بزم منہاج میاں غلام ربانی، نائب صدر عدنان اکبر بٹ، جنرل سیکرٹری وقاص شاہد کے علاوہ کالج کے تین اساتذہ صابرحسین نقشبندی، مراد علی دانش، عدنان وحید قاسمی بھی شامل تھے۔

مانسہرہ تک کے 8 گھنٹوں پر مشتمل سفر کے دوران طلباء بسوں میں ہلا گلا کرتے اور سفر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ راستے میں نماز فجر کی ادائیگی کے لیے قافلہ رکا اور بعد ازاں تقریبا دن 11 بجے مانسہرہ پہنچا، جہاں طلباء کو ناشتہ کروایا گیا۔

پہلا منظر

چوں کہ نماز ظہر کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ لہذا ہوٹل کے ساتھ ہی ملحقہ مسجد میں نماز ظہر باجماعت ادا کی گئی۔ جس کے بعد ناران تک کے سفر کا آغاز ہوا۔ یہاں طلباء کو 12 عدد چھوٹی گاڑیوں (ٹیوٹا) میں منتقل کیا گیا۔

5 سے 6 گھنٹے کے اس سفر میں نہایت دلکش مناظر دیکھنے کو ملے۔ قدرت نے اس خطہءِ زمین کو حسن کی بے پناہ دولت سے نوازا ہے جسے دیکھ کر دل بےاختیار پکار اٹھتا ہے:

کرشمہ؛ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجا ست

وادی ناران تک دریائے کنہار ساتھ ساتھ بہتا ہے اور اپنی سحر انگیز طلسماتی اداؤں سے دل و دماغ کو مبہوت کردیتا ہے۔ جگہ جگہ پہاڑوں سے نکلنے والے چشمےدیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے پہاڑوں نےحسین فطرت کے آگے اپنا دامن ِدل وا کر دیا ہے اور فرطِ محبت سے اپنا سینہ چیر کر اسے اپنے خون دل سے سیراب کر رہے ہیں۔ دریائے کنہار کا ٹھنڈا اور دودھ جیسا سفید پانی زندگی اور اس کی تمام رعنائیوں سے بھرپور ہے۔ پرہیبت اور مہیب بلند و بالا پہاڑ فطرت کی عظمتوں اور رفعتوں کی یاد دلاتے ہیں۔ پہاڑ کی چوٹیوں پر برف اور دھوپ کا حسین ملاپ عجیب و غریب ہے۔ یوں دکھائی پڑتا ہے جیسے پہاڑ خدائی نور سے معمور ہیں اور یہ نور فضاؤں میں بکھر رہا ہے اور جمالیات کی اعلی سطحوں کی تخلیق کا عمل اسی نورِ ‘‘ہمہ اوست’’ کے ہاتھوں پیہم جاری و ساری ہے۔ فطرت کا یہ سفر انسانی وجدان کو جلا اور روحانی تمناؤں کو ہوا دیتا ہے۔

نماز عصر و مغرب کی ادائیگی دوران سفر ہوئی اور لگ بھگ عشاء کے وقت یہ قافلہ وادیءِناران جا پہنچا۔ جہاں طلباء کی رہائش کے لیے پہلے سے خیمے لے لیے گئے تھے۔ ہر خیمہ میں 8 طلباء کا گروپ ٹھہرا۔

یہاں قافلہ نے رات کا پہلا کھانا کھایا اور بعد ازاں جو طلباء تھکے ہوئے تھے وہ آرام کے لیے اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے اور کچھ چہل قدمی کے لیے وادی ءِ ناران کی سیر کو نکل گئے۔

دوسرا منظر

اگلی صبح جھیل لولو پت سر اور لالہ زار کا پروگرام تھا۔ جس کا کٹھن سفر جیپ کے ذریعے طے ہونا تھا۔ لہذا طلباء کے ناشتے سے فراغت تک 12 جیپیں بک کروا لی گئیں۔ ہر جیپ میں 15 طلباء سوار ہوئے اور قافلہ دشوار گزار راستوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جھیل لولو پت سر پہنچا۔ پہاڑوں کے درمیان گھری اس جھیل کا پرسکون منظر ۔۔۔۔۔۔۔ اففف ۔۔۔۔۔۔ جیسے پوری کائنات ساکت ہو گئی ہو۔ گھڑی کی سوئیاں مکمل سکوت اختیار کرنے کے بعد جھیل کے مدھم ہچکولوں کے ساتھ رقص کرنے لگی ہوں۔ روح کی پنہائیوں میں سکون کی لہریں اتر کر جیسے ہلکورے لینے لگی ہوں۔

فطرت کے حسن کو دیکھ کر ہوا کی مستی اور آوارگی میں بھی عجیب متانت آچکی ہے کہ ذرا بھی نہیں بہکتی ۔۔۔ ایک ہی ردھم، ساز اور مکمل نظم میں جھیل کے گہرے، ٹھنڈے اور پرسکون پانی کا طواف کر رہی ہے۔ دور پر ہیبت پہاڑ کھڑے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے جھیل کے پرسکون حسن کو سلامی دے رہے ہوں۔

تیسرا منظر

جھیل کی خوبصورتی سے طلباء بے حد محفوظ ہوئے۔ بعض طلباء نے کشتی پر سواری بھی کی۔ اور تقریبا دو گھنٹے جھیل پر گزارنے کے بعد لالہ زار کے لیے روانہ ہوئے۔ لالہ زار تک کا سفر جیپوں پر کیا گیا اور یہ اس تفریحی دورہ کا سب سے دل ہلا دینے والا سفر ثابت ہوا۔ اونچائی کی طرف کیے جانے والے اس سفر نے رونگٹے کھڑے کر دیے اور انوکھے لذت آمیز خوف سے آشنا کیا۔

لالہ زار!!!! شاید وادیءِ ناران کا سب سے خوبصورت مقام ہے۔ آوارہ پن کا مظاہرہ کرتی، گلابی رنگ کے جنگلی گلاب کی خوشبو بکھیرتی، قریب قریب سر پر ٹکے بادلوں کی حد سے زیادہ گھن گرج میں گھری، ڈھلوانوں کے نواح میں پھیلے بھوج پتر کے حسین جنگلات سے لدی، مصوری کے نمونے جیسے مناظر سے رنگی، رنگا رنگ پھولوں کے قدموں تلے آتے رہنے والے ان گنت گچھوں کی آماجگاہ، مدہوشی بھری لطف آمیز دماغ کو تروتازہ کرتی پانچ رنگے جنگلی گلابوں کی خوشبو پر مشتمل، سرسبز گلزاروں میں گھومنے کے بعد سر مستی کی انوکھی کیفیت اور ٹھٹھری ٹھٹھری کائنات میں عالم غنودگی سے آشنا کرنے والی فطرت، غم جہاں اور غم جان سے دور ٹھہرا ٹھہرا بے ساختگی بھرا سہانی گھڑیوں سے بھر پور عالم دکھانے والی جادوگرنی..... خدا نے لالہ زار کو ملکوتی اور طلسماتی حسن سے نوازا ہے۔

پھولوں کی یہ وادی اپنے حسن کی ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی اور ہماری فطرت پسند آنکھیں ہمیشہ اُس لمحے سے دوبارہ شناسائی چاہیں گی۔ جب لالہ زار کی درخشاں خوبصورتی نگاہوں کے فطری حسن کی پیاس بجھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

نماز عصر و مغرب لالہ زار پر ادا کی گئی اور نماز مغرب کے بعد واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔ ناران پہنچنے تک کھانا تیار تھا۔ طلباء نے کھانا کھایا اور نماز عشاء ادا کر کے آرام کے لیے لیٹ گئے۔

چوتھا منظر

اگلا دن جھیل سیف الملوک کی سیر کا تھا۔ جس کے لیے جیپ پہلے سے ہی بک تھیں۔ طلباء نے ناشتہ کیا اور ناشتے کے بعد تقریبا 11 بجے اس سفر کا آغاز ہوا۔ تقریبا ساڑھے 12 کے قریب قافلہ جھیل سیف الملوک پہنچا۔

جھیل سیف الملوک ناران پاکستان میں 3224 میٹر/10578 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ملکہ پربت، اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

جھیل سیف الملوک تک کا سفر کچے راستے پر ہوا۔ اس سفر میں تکلیف دہ امر جیپ میں لگنے والے جھٹکے تھے جنہوں نے جسم کے تمام جوڑ قریب قریب کھول ہی دیے۔ طلسماتی کہانیوں اور دیومالائی کرداروں سے منسوب یہ جھیل عجیب کیفیات سے آشنا کرتی ہے۔ دور کھڑے ہو کر اس جھیل کو نظر بھر کے دیکھنا نامعلوم لذتوں سے آشنا کرتا ہے۔ جھیل سیف الملوک کے ملکوتی جمال کا نظارہ کرتے ہوئے دماغ معلوم اور نامعلوم کی سرحدوں سے ٹکرانے لگتا ہے۔ دماغ میں برقی لہریں دوڑنے لگتی ہیں اور دل بے ساختہ ملکہ پربت کے قدموں میں بیٹھنے لگتا ہے۔ میں جھیل کا نظارہ کرتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا: مجھے معلوم ہے سب کچھ....مگر معلوم ہی سب کچھ نہیں ہے.....کہ اس معلوم کی سرحد کے اُس جانب....فشارِ آگہی کا آسماں ہے....خود فراموشی خموشی کی حسیں اک سر زمیں ہے.....جہاں ظاہر کی آنکھوں سے ابھی معدوم ہے سب کچھ.....مجھے معلوم ہے سب کچھ.....مگر معلوم ہی سب کچھ نہیں ہے......

بزم میں اس چشمِ مخموری کے آگے ساقیا
طاقِ نسیاں پر ترا شیشہ دھرا رہ جائے گا

واپسی کا سفر اسی طرح جیپوں پر طے ہوا۔ خیموں میں واپس آ کر کھانا کھایا گیا اور عشاء کی نماز کے بعد شب برات کی مناسبت سے محفل ذکر و نعت کا انعقاد کیا گیا۔ جمالیاتی مناظر کے ساتھ روحانی کیفیات بھی اپنی حد عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ وادی ناران کی دلفریبیوں نے محفل ذکر میں بھی عجیب ذوق پیدا کر دیا اور طلباء نے نئی کیفیات سے معمور ہو کر ذکر و فکر کی لذتوں سے شناسائی حاصل کی۔ طلباء نے وادی ءِ ناران میں موجود جامع مسجد میں نوافل کی ادائیگی کی سعادت بھی حاصل کی۔

پانچواں منظر

اگلے دن وادیء ناران سےروانگی ہوئی اور شوگران اور سری پائے کی طرف رختِ سفر باندھا گیا۔ طلباء نے صبح اٹھتے ہی سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔ اور ناشتے کے فورا بعد شوگران کے سفر کا آغاز ہوا۔ جس کے لیے (ٹیوٹا ) بک کروائی جا چکی تھیں۔ تقریبا 2 بجے کے قریب قافلہ شوگران پہنچا اور پھر وہاں سے پیدل سری پائے کے لیے روانہ ہوئے۔ دوران سفر بارش شروع ہونے کی وجہ سے بعض طلباء واپس پلٹ گئے۔ سری پائے کا پیدل سفر نہایت دلچسپ اور محنت طلب ثابت ہوا۔ سری کے مقام پر پہنچتے ہی بادلوں نے آ گھیرا اور بارش شروع ہوگئی۔ چاروں طرف مخمور دھند چھا گئی۔ فطرت کے مخمور حسن کو دیکھ کر دل و دماغ پر سرشاری طاری ہو رہی تھی۔ راستہ مزید خطرناک ہو چکا تھا کہ کچے راستے پر پانی کے سبب کیچڑ اور پھسلن ہو گئی تھی۔ اکثر طلباء نے واپسی پر بھی پیدل سفر کو ہی ترجیح دی۔

شام کے وقت یہ قافلہ شوگران سے مانسہرہ کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں ایک معیاری ہوٹل میں رات ٹھہرنے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ہوٹل پہنچتے ہی کھانے کا انتظام کیا۔ کھانے کے فورا بعد طلباء نے آرام کیا چوں کہ کافی لمبے سفر سے لوٹے تھے اور اگلے دن لاہور کے لیے مزید سفر کرنا تھا۔

چھٹا منظر

آخری دن کی صبح ہوٹل عثمانیہ میں ہوئی۔ صبح اٹھتے ہی طلباء نے واپسی کے لیے سامان پیک کرنا شروع کر دیا۔ اتنے دیر میں ناشتے کا بندوبست ہو گیا۔ ناشتے کے بعد چائے کا انتظام تھا۔ لہذا چائے پی کر یہ قافلے ہوٹل سے دو قدم پر قائم نیازی اڈے پہنچا۔ جہاں تین بڑی اے سی کوچز پہلے سے بک کروائی جا چکی تھیں۔ لہذا مکمل قافلہ اپنے آخری سفر جو کہ لاہور کے لیے تھا۔ روانہ ہوا اور تقریبا رات 10 بجے کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز لاہور پہنچا۔ جہاں چکن بریانی اور کولڈرنک کا بندوبست پہلے سے کیا جا چکا تھا۔طلباء نے پہنچتے ہی کھانا کھایا اور آرام کے لیے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔

رپورٹ: سید محمد ریحان الحسن گیلانی

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top