ہالینڈ: ڈاکٹر طاہر القادری نے کیا کہا تھا؟

ہالینڈ ( مظہر جاوید شوق) ڈاکٹر طاہر القادری یہ کہتے تھے کہ نظام بدلو، تو اس پر برہم ہونے کی بجائے غور وفکر کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کو ہے الیکشن میں چند ماہ باقی ہیں، اس وقت انتخابی نظام بدلو۔اس بات پر اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ نعرہ وقت کی راگنی اور عام انتخابات کو سبوتار کرنے کی سازش ہے جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری اس کی تردید کرتے رہے اور کہتے رہے کہ وہ جمہوریت اور الیکشن کے حامی ہیں مگر انتخابی نظام میں تبدیلی کے ساتھ۔ صرف اتنی سی گذارش ہے کہ آئین کے مطابق انتخابی سسٹم مرتب کر کے اس کے تحت ا نتخابات کرائے جائیں۔ ایسے انتخابات جن میں ممبران خریدے نہ جائیں، صرف کروڑ پتی ہی انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ملک میں دو پارٹیوں کی سیاسی آمریت اور خاندانی وراثت کانظام قائم ہے اور پڑھے لکھے باصلاحیت نوجوان اس نظام کے تحت ایسے منتخب ایوان کا رکن بننے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے انہیں جمہوری حق دلانے کی با ت کی، مگر ان پر الزامات لگائے گئے کہ وہ غیر ملکی آقاؤں کے کہنے پر کر رہے ہیں وہ کینڈین شہری ہو کر پاکستان کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے ایسے تمام خدشات کو اپنی بے شمار تقاریر اور ٹی وی انٹرویوز میں سختی سے رد کیا اور حلف اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کاکسی ایجنسی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ کسی غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، انہوں نے صرف ملک کے حالات کے پیش نظر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ تبدیلی کے اس نعرے کو ایجنسیوں کا کیس قرار دیا گیا، جبکہ انتخابی اصلاحات کے مطالبہ پر کوئی سنجیدہ اعتراض کرنے کی بجائے اخراجات کی تفصیل طلب کی جارہی ہے۔ گویا کوئی عوامی احتجاج یا اجتماع سرکاری وسائل، تھانیداروں اور پٹواریوں کی مدد سے منعقد کرنا جائز ہے اور اگر یہی کام کسی پارٹی کے کارکن اپنے قائد کی آواز پر اپنے عطیات سے کریں تو ناجائز یہ کہاں کا انصاف ہے؟

ان سیانوں، سیاست کے فرعونوں، معیشت کے قارونوں اور طاقت و اختیار کے نمرودوں کو اس طرف سوچنا چاہیئے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل کر صرف اور صرف We Want Change کا نعرہ کیوں لگا رہے ہیں۔اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی دعوت پر لبیک کیوں کہہ رہے ہیں؟ موجودہ آدم خور سیاسی، انتخابی، سماجی اور معاشی ڈھانچے سے ان کی نفرت کی وجہ کیا ہے؟

آج کا پاکستان تباہی وبربادی کی منہ بولتی تصویر بنا ہوا ہے، ایک رپور ٹ کے مطابق ایک دہائی میں ترقی پذیر ممالک کو جرائم اور ٹیکس چوری کے باعث 6 کھرب کا نقصان ہوا۔ پاکستان اگرچہ ترقی معکوس کر رہا ہے مگرا س کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے متذکرہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سے دس برس میں اڑھائی ارب غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کئے گئے صرف 2010 میں 729 ملین ڈالر باہر بھیجے گئے۔ پاکستان کے اندر اقتصادی تباہی کی طرف اس تیز رفتار سفر کے عوامل میں ان اسباب کا یقینی طور پر گہرا دخل ہے جن کا ذکر نیب کے چیئر مین فصیح بخاری نے حال ہی میں کیا ہے۔ ان کے بقول ملک میں روزانہ سات ارب روپیہ ٹیکس چوری کی مد میں اور اس کے علاوہ پانچ ارب روپیہ کرپشن کی مد میں ملکی خزانہ سے غائب ہور ہا ہے۔ ہمارے ہاں یہ المیہ بدستور موجود ہے کہ ارباب اختیار ہر معاملے میں ملک وقوم کا وسیع تر مفاد دیکھنے کی بجائے وقتی، سیاسی و گروہی مفادات کے حصول کے درپے ہی ہوتے رہے ہیں۔ ملکی سیاست میں متحرک اور بااثر مخصوص خا ندانوں کا چند دہائیوں میں ہی دولت کے انبار سمیٹنے کے باوجود قانون کی گرفت میں نہ آنا اب حیران کن بات نہیں رہا ، یہ کہا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت نے پانچ سال کا عرصہ مکمل کر کے جمہوریت نے اپنا لوہا منوالیا ہے۔اگر پاکستان صرف اس لئے بنا تھا کہ یہاں کسی نہ کسی طرح جمہوریت اپنے پانچ سال پورے کرے تو پھر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت یہ راگ کیوں الاپ رہی ہے کہ ملک برباد ہو گیا۔ بھوک اور افلاس نے لوگوں کی کمر توڑ دی اور،ملک کے اندر پٹواری نظام، ناقص پولیس سسٹم اور ایف بی آر کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔ انبیاء علیھم السلام اور ان کے متعلقین نے ہمیشہ اسی غرض سے جہاد کیا ہے اور اسی جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں، نقصان برداشت کئے ہیں اور جانیں دیں ۔ جہاد کا معنی صرف اور صرف یہ نہیں کہ تلوار اٹھائی جائے اور جارحیت کی جائے بلکہ اس کے علاوہ بھی مختلف شکلوں میں ملک وقوم کی راحت اور آسائش کے لئے بدمست حکمرانوں کے خلاف قلمی، وعوامی شعور کی بیداری اور متعلقہ اداروں کے ذریعے اپنی آواز پہنچائی جاسکتی ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری کی سربراہی میں چلنے والی تنظیم تحریک منہاج القرآن فرقہ واریت سے گریز کا سبق دیتی اور دنیا بھر میں 90 سے زائد ممالک میں مساجداور کمیونٹی سنٹرز کا بہترین انفراسٹرکچرتیار کر چکی ہے۔ تعلیم یافتہ علماء کرام اور سکالرز جن کا عمل اور کردار دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے کی بڑی تعداد دنیا بھر میں خدمات سرانجام دے رہی ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے ان شاگردوں اور دین اسلام کے لئے دی جانے والی خدمات کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے چاہنے والوں کا ایک بڑا وسیع حلقہ پیداکر چکے ہیں۔ اس کی مثال ان کے گذشتہ سال کے دورہ بھارت میں دیکھنے کو ملی جس میں بیس لاکھ سے زائد لوگ ان کے خطاب کو سننے کے لئے موجود تھے۔ تحریک منہاج القرآن کی تنظیم کے اندر یہ خوبی تمام لوگوں کی توجہ کی مستحق ہے بلکہ اس بات کا ثبوت 23 دسمبر 2012ء کو مینار پاکستان پر ہونے والے سیاست نہیں ریاست بچاؤ کے عنوان سے کئے گئے جلسہ میں دیکھنے کو ملی۔اور پھر ملک میں رائج کرپٹ انتخابی نظام کے خلاف اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان اعلیٰ بصیرت کا ثبوت تھا۔اسلام آباد تک چالیس لاکھ افراد کی ریلی نکالنا دہشت گردی کے ماحول میں خطرے کو دعوت دینے کے مترداف تھا۔ اپنے مطالبات کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنا ان کا حق ہے۔ اس وقت تمام مفاد پرست سیاسی بونوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی باتوں کا تمسخر اڑایا اور اپنے خریدے گئے اداروں کے ذریعے ان کی کردار کشی کی مہم چلائی گئی مگر ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی کہی ہوئی ایک ایک بات ثابت ہوئی ہے۔ خواہ وہ انتخابی نظام کے ذریعے کرپٹ عناصر کا اسمبلیوں میں پہنچنا ہویا جعلی ڈگری والوں کا اور پھر وہی چہرے جو گذشتہ ساٹھ سالوں سے اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ یہ باہمی مک مکا کی ہی ایک کڑی ہے۔

اس سارے معاملے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے جو کہا تھا وہ سچ ثا بت ہوا اور آئندہ بھی ہوگا اور یہ آدم خور گدھ سیاسی چہروں کے ذریعے عوام کو نوچتے رہیں گے اگر طاہر القادری کی باتوں کو دھیان سے نہ سنا گیا اور ان پر کان نہ دھرا گیا۔ بہرحال میں دیار غیر میں رہتے ہوئے اپنے تجزیے کے مطابق یہ کہوں گا کہ طاہر القادری نے سچ کہا ہے اور میں ان کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top