امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (قسط نمبر : 2) - شیخ الاسلام کا معتکفین سے خطاب

مورخہ: 02 اگست 2013ء

اَمر بالمعروف اور نہی عن المنکر (قسط نمبر : 2)

(اعتکاف 2013ء، خطاب نمبر : HD–24)

خطاب : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

مقام : جامع المنہاج، بغداد ٹاؤن لاہور

تاریخ : 2 اگست 2013ء

ناقل : محمد خلیق عامر

فرید ملّت رح رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمده ونصلی ونسلم علی سيدنا ومولنا محمد، رسوله النبی الامين المکين الحنين الکريم الرؤف الرحيم، وعلی آله الطيّبين الطّاهرين المطهرين وصحبه الکرام المتّقين المخلصين المکرّمين وأولياء أمته والصّالحين و علماء ملّته والعاملين وعلينا معهم أجمعين إلی يومِ الدين. أما بعد: فأعوذ باﷲ من الشيطن الرجيم، بسم اﷲ الرحمن الرحيم.

دو تین احادیث بیان کروں گا، غور سے سنیں۔

عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيْقِ أَنَّهُ قَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّکُمْ تَقْرَئُوْنَ هٰذِهِ الآيَةَ: {يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لَا يَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ} [المائدة، 5 / 105]. وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ، أَوْ شَکَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اﷲُ بِعِقَابٍ مِنْهُ.

أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 2، الرقم / 1، وأبو داود فی السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 / 122، الرقم / 4338، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في نزول العذاب إذا لم يغير المنکر، 4 / 467، الرقم / 2168، وأيضًا في کتاب التفسير، 5 / 256، الرقم / 3057، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 / 1327، الرقم / 4005، والبزار فی المسند، 1 / 139، الرقم / 69.

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا خطبہ خلافت دیتے ہوئے فرمایا، جب آپ نے ضمام حکومت سنبھالا اور مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلا خطاب کیا، ابتدا کی امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کی تو اپنے ابتدائی خطبہ خلافت میں ارشاد فرمایا: کہ لوگو! تم نے یہ آیت قرآن مجید کی پڑھی ہو گی کہ اللہ رب العزت نے فرمایا: اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، یعنی اللہ اور اللہ کے رسول نے تمہارے اوپر جو فرائض مقرر کئے ہیں ، جو واجبات مقرر کیے ہیں اور ہدایت و فلاح کے جو راستے تمہیں بتائے ہیں سختی کے ساتھ ان پر عمل در آمد کرو، کسی کی پرواہ کئے بغیر اور اپنا تن من دھن سب کچھ اللہ و رسول کے ان فرمودات کی تعمیل میں لگا دو۔

تم سے کوتاہی نہ ہو تو پھر تمہیں کوئی شخص جو گمراہ ہو گا، جو فتنہ پرور ہو گا، کوئی بڑے سے بڑا گمراہ بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اگر تم اپنی جانوں کو اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کے تابع کر کے رکھو گے۔ کوئی بڑا شیطان بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ آپ نے اپنا خطاب اس آیت کریمہ کے مضمون سے شروع فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا: کہ میں نے اپنے کانوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، یہ کون فرما رہا ہے؟ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ اول، یار غار اور صاحب مزار فرما رہے ہیں: کہ لوگو! میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ رسول پاک نے یہ ارشاد فرمایا: کہ ایک زمانہ آئے گا جب معاشرے میں ظلم ہوں گے، برائیاں ہوں گی، بدی عام ہو گی، خیانت ہو گی، لُوٹ مار ہو گی، کرپشن ہو گی، بے حیائی ہو گی، اللہ اور رسول کی نافرمانی ہو گی، ہر عیب ہو گا، فسق و فجور ہو گا۔ معاشرے کو تباہی و ہلاکت کی راہ پر ڈال دیا جائے گا، ہر سمت ظلم ہو رہے ہوں گے، قتل و غارت گری ہو گی، لُوٹ مار ہو گی، لوگ پریشان ہوں گے، ظالم مضبوط اور طاقتور ہوں گے۔ جب ایسا دور آئے گا، تو کیا ہو گا؟ کہ اگر لوگ ظالموں کو ظلم کرتا ہوئے دیکھتے رہیں اور چپ بیٹھے رہیں، دیکھتے رہیں کہ قومی خزانے پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں، دیکھتے رہیں کہ معصوم جانیں قتل ہو رہی ہیں، دیکھتے رہیں کہ انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔

دیکھتے رہیں کہ اس سوسائٹی کی بیٹیوں کی عزت لُٹ رہی ہے۔ دیکھتے رہیں کہ لوگ غربت کی آگ میں جل رہے ہیں، ہر طرف ظلم ہی ظلم ہے، اندھیر نگری ہے، دیکھیں اور چپ رہیں فَلَمْ يَأْخُذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ، اور اٹھ کر ان ظالموں کے ہاتھ نہ روک لیں، خاموش تماشائی بنے رہیں تو آپ نے فرمایا: کہ آقا علیہ السلام یہ اعلان فرما رہے تھے کہ اگر لوگ خاموش تماشائی رہے، ظلم اور ظالم کا راستہ نہ روکا اور حالات بدلنے کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ نہ لُٹایا تو قریب ہے کہ اللہ تعالی پھر سب لوگوں کو ظالم ہوں یا مظلوم، سب لوگوں کو بلا امتیاز اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا۔ سارے معاشرے کو، پورے ملک کو اللہ اپنے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔

صرف اس جرم کی پاداش میں کہ ظالم تو ظالم ہی تھے، وہ تو ظلم کر رہے تھے، یہ ان کا شعار تھا، مگر باقی مخلوق جو آنکھوں سے تکتی رہی اور ظلم کے خلاف نہیں اٹھی۔ تو ظالم عذاب میں مبتلا ہوں گے ظلم کے باعث اور باقی سارے مظلوم عذاب الہی میں مبتلاء ہوں گے، چُپ سدھارنے کے باعث، خاموش رہنے کے باعث۔ یہ خاموشی کا طرز عمل اللہ اور اللہ کے رسول کو ظلم کے دور میں گوارہ نہیں۔

پھر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔

عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَيُوْشِکَنَّ اﷲُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْکُمْ عِقَابًا مِنْهُ. ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ.

أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 388، الرقم / 23349، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 4 / 468، الرقم / 2169، والبيهقي في السن الکبری، 10 / 93، الرقم / 19986، وأيضًا في شعب الإيمان، 6 / 84، الرقم / 7558.

حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: اُس ذات کی قسم، اُس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، آقا علیہ السلام نے فرمایا: اے میری امت کے افراد! تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم ہر صورت نیکی کو سربلند کرنے کے لیے نیکی کا حکم دیتے رہنا، نیکی کے فروغ، اشاعت و اقامت کی جدوجہد کرتے رہنا اور ہر صورت معاشرے سے ظلم اور برائی اور بدی کے خاتمے کے لیے حکم دیتے رہنا اور جدوجہد کرتے رہنا۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ تعالی تم پر اپنا عذاب بھیجے گا اور سارے معاشرے کو اللہ تعالی اپنے عذاب کی لپیٹ میں اس طرح لے لے گا کہ پھر تم پریشان ہو گے، چیخو گے، اللہ کو پکارو گے، دعائیں کرو گے، ہاتھ اٹھاؤ گے تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: پھر اللہ تمہاری دعاؤں کو نہیں سنے گا۔ ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ. پھر مسجدوں میں دعائیں ہوں گی، گھر گھر میں دعائیں ہوں گی، مظلوم دعائیں کریں گے، بیوہ عورتیں، یتیم بچے دعائیں کریں گے، ہر بندہ دعا کرے گا مگر آقا علیہ السلام نے فرما دیا: فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ. پھر تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا دروازہ بند کر دیا جائے گا.

دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی، کیوں؟ فقط اس لیے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ظلم ہو رہا تھا، امانت کے بجائے خیانت کا دور دورہ تھا، دیانت داری کے بجائے کرپشن کا دور دورہ تھا، ایک لوٹ مار مچی تھی، بے حیائی تھی، بدکاری تھی، شراب خوری تھی، دہشت گردی تھی، ہر طرف اندھیر نگری تھی، تم دیکھتے تھے، جانتے تھے، گھروں میں بیٹھ کر باتیں بھی کرتے تھے مگر گھر سے باہر سڑکوں پر نکل کر ظلم کو روکنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بنتے تھے۔ ڈرو اس وقت سے۔ اے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افراد! کہ کہیں دعاؤں کی قبولیت کا دروازہ بند نہ کر دیا جائے۔

اسی طرح ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت کرتی ہیں، آپ فرماتی ہیں: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، ميرے حجرہ میں آقا علیہ السلام تشریف لے آئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو دیکھا اور چہرہ اقدس کی خاص کیفیت سے میں نے جان لیا کہ کوئی چیز ہے جو آقا علیہ السلام کی طبیعت کو بے چین کر رہی ہے، ابھار رہی ہے۔ میں نے پہچان لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا، پھر کلام کئے بغیر کوئی بات نہیں کی مجھ سے، وضو کر کے فوراً باہر تشریف لے گئے، میں پیچھے دروازے اور پردے کے پیچھے قریب ہو گئی کہ سنوں صحابہ کرام سے آقا علیہ السلام اس خاص حالت میں کیا فرمانے والے ہیں، تو فرماتی ہیں: فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: وضو کر کے نکلے، صحابہ کرام کا اجتماع تھا، میں نے سنا کہ آقا علیہ السلام ان سے خطاب فرمانے لگے اور کیا فرما رہے تھے، فرما رہے تھے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اﷲَ عزوجل يَقُوْلُ: مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَدْعُوْنِي فَـلَا أُجِيْبُکُمْ، وَتَسْأَلُوْنِي فَـلَا أُعْطِيْکُمْ، وَتَسْتَنْصِرُوْنِي فَـلَا أَنْصُرُکُمْ.

أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 159، الرقم / 25294، وابن حبان في الصحيح، 1 / 526، الرقم / 290، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 377، الرقم / 6665، والبيهقي فی السنن الکبری، 10 / 93، الرقم / 19987، وابن راهويه في المسند، 2 / 338، الرقم / 864، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 46 / 298.

فرماتی ہیں: کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: آقا علیہ السلام پر وحی اتری تھی، وحی خفی، جس کو حدیث کہتے ہیں، آپ کے قلب اطہر پر پیغام آیا تھا اللہ کی طرف سے۔ میرے حبیب! صحابہ کی مجلس میں یہ بات ابھی فرما دیں، تاکہ آپ کا پیغام قیامت تک نسلاً بعد نسلٍ امت کو پہنچ جائے۔ اللہ پاک نے فرمایا: لوگو! نیکی کا حکم دو اور نیکی کو سربلند کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہو کر لو۔ نیکی کو سربلند کرنے کے لیے اور نیکی کو پھیلانے کے لیے اور نیکی کا دور دورہ کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہو امر بالمعروف کے باب میں کر لو۔ اور برائی کو روکو اور بدی کو معاشرے سے روکنے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہو کر لو، قبل اس کے اللہ پاک نے مجھے پیغام بھیجا ہے آقا علیہ السلام فرماتے ہیں: قبل اس کے کہ وہ وقت آ جائے کہ پھر تم میری بارگاہ میں دعائیں کرو اور میں تمہاری دعاؤں کو قبول نہ کروں۔ قبل اس کے کہ پھر تم اپنے لیے مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں عطا نہ کروں، قبل اس کے کہ تم مجھ سے مدد مانگو اور میں تمہاری مدد نہ کروں۔ پھر دروازے بند ہو جائیں گے، دروازے بند ہو جانے سے پہلے جو کر سکتے ہو بدی کو مٹانے اور نیکی کو پھیلانے کے لیے کر لو۔

پھر اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔

قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفَ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اﷲُ عَلَيْکُمْ شِرَارَکُمَ. ثُمَّ يَدْعُوْ خِيَارُکُمْ فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ.

أحمد بن حنبل عن حذيفة في المسند، 5 / 390، الرقم / 23360، والبزار في المسند، 1 / 292، الرقم / 188، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 99، الرقم / 1379، وابن أبي شيبه فی المصنف، 7 / 460، الرقم / 37221، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 266، والهندي في کنز العمال، 3 / 31، الرقم / 5520.

آقا علیہ السلام نے فرمایا: لوگو! ہر صورت نیکی کو معاشرے میں پھیلانے، بلند اور طاقتور کرنے کے لیے امر بالمعروف کا فریضہ سرانجام دو. جو کر سکتے ہو نیکی کو پھیلانے کے لیے وہ کرو اور بدی و برائی کو روکنے کے لیے جو کر سکتے ہو روکو۔ کوئی کوشش رہ نہ جائے، کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہو جائے۔ جو ہو سکتا ہے کر لو، اگر نہیں کرو گے تو اللہ تعالی جو بدترین لوگ ہوں گے تمہارے معاشرے کے، بدقماش لوگ، بدمعاش لوگ، سب سے بڑے ڈاکو، چور اور لٹیرے سب سے بڑے ظالم، بددیانت، لوٹ کے کھا جانے والے، جو بدترین شرارکم، وہ لوگ ہوں گے اللہ ان کو تم پر مسلط کر دے گا، تمہارا حکمران بنا دے گا اور یہ اللہ کا عذاب ہو گا۔

ایسے قماش اور کردار کے لوگوں کا مسلمانوں کا حکمران بن جانا اللہ کا عذاب ہے۔ فرمایا: پھر اگر تم اس کو گوارہ کر لو اور حالات کو بدلنے کے لیے جدوجہد نہ کرو تو پھر کیا ہو گا ثُمَّ يَدْعُوْ خِيَارُکُمْ، جو تم میں اولیاء اللہ ہوں گے، صالحین ہوں گے، عبادت گزار ہوں گے، خیر والے لوگ ہوں گے وہ بھی دعا کریں گے تمہارے حق میں، لیکن اللہ پاک انہیں تمہارے حق میں ان کی دعائیں بھی قبول نہیں کرے گا۔ اللہ اپنے محبوب بندوں کی دعا رد نہیں کرتا اس لیے فرمایا: فَـلَا يُسْتَجَابُ لَکُمْ. یہ نہیں فرمایا: فَـلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ. ان کی دعا رد نہیں ہو گی، تمہارے حق میں قبول نہیں فرمائے گا۔ رہ گئی ان کی دعائیں اللہ ان کو اجر کے طور پہ محفوظ کر لے گا ان کے نامہ اعمال میں، ان کو عطا کرے گا، تمہارے حق میں اس لیے قبول نہیں کرے گا کہ تم اٹھ سکتے تھے، تم اپنی جان لگا سکتے تھے، اپنا مال خرچ کر سکتے تھے، جدوجہد کر سکتے تھے، گھر گھر پیغام پہنچا سکتے تھے، یہ پیغام آقا علیہ السلام نے دیا ہے۔ بھری مجلس میں ہر روز میرے آقا صحابہ کرام کو بتایا کرتے تھے، کتنے صحابہ ہیں جنہوں نے روایت کیا۔ سیدنا صدیق اکبر سے لے کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تک اور حضرت حذیفہ بن الیمان سے لے کر حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما تک اتنے صحابہ ہر روز آقا علیہ السلام کا فرمان سنتے کہ لوگو! دروازہ بند ہونے والا ہے، دعائیں اوپر نہیں پہنچیں گی، بند ہو جائیگا دروازہ دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔

صرف اس جرم کی پاداش میں کہ حالات بدلنے کے لیے، نظام بدلنے کے لیے، ظلم روکنے کے لیے، بدی کو مٹانے کے لیے تم نے اپنا اصل کردار جو ادا کر سکتے تھے کیوں نہیں ادا کیا۔ ہماری ذمہ داری کیا ہے کہ جو کچھ ہم سے ہو سکے ہم تگ و دو کریں اور حق کو سربلند کرنے کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ لٹا ڈالیں۔ جمعۃ الوداع کے خطاب میں میں نے بہت ساری احادیث متفق علیہ بیان کی ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: کہ آخری زمانے میں میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی قاء رہے گی جو اہل فتن کے خلاف جہاد کریں گے۔ آقا علیہ السلام نے بار بار فرمایا: کہ اس جماعت کی پہچان یہ ہو گی کہ اس کی مخالفت بھی ہو گی، جسے ہر کوئی اچھا کہے وہ اچھا نہیں ہو سکتا۔

جب انبیاء کو سب نے نہیں مانا تو ہماری مخالفت نہیں ہو سکتی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمیں ہر کوئی اچھا کہے؟ ظالم اور مظلوم دونوں اچھا کہیں۔ یہ اللہ کا نظام و قدرت ہی نہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: کہ اس حق کی جماعت کی مخالفت بھی ہو گی لیکن کوئی اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اس کی پہچان امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی کریں گے اور مردان میدان بھی ہوں گے صرف دعوت ہی نہیں دیں گے، عاشقان مصطفی بھی ہوں گے۔ اپنا جان و مال آقا کی ایک زیارت کے لیے سب کچھ لوٹانے والے ہوں گے۔ پھر ان کا عقیدہ یہ ہو گا کہ عطا خدا کی ہے اور تقسیم مصطفی کی ہے۔

کوشش کرو کہ مجھے اس جماعت کی علامتیں آپ میں نظر آتی ہیں۔ خوش نصیب ہیں ، کوشش کریں کہ آقا علیہ السلام قیامت کے دن آپ کو دیکھ کر فرما دیں: ہاں اس صدی میں یہی لوگ تھے جن کی میں بات کرتا تھا۔ اور لوگو! قیامت تو دور کی بات ہے میں تو یہ دعا کرتا ہوں کہ کوشش کرو اس طرح اللہ کو منانے کی آقا کو منانے کی اور آقا کے معیارات پہ اترنے کی اتنی کوشش کرو کہ بس جس شام موت آئے، قبر میں جائیں تو فرشتے پوچھیں آقا سے اور سامنے آقا کھڑے ہوں دین اور رب کے سوال کے بعد پوچھیں اس ہستی کے بارے میں کیا کہتا تھا، اس کے جواب میں مصطفی فرمائیں: اس سے نہ پوچھو کہ میں کون ہوں، مجھ سے پوچھو یہ کون ہے۔ یہ میرا وہ غلام ہے جو مجھ سے محبت کرتا تھا، میرا تابع دار تھا، اہل فتن سے جنگ کرتا تھا آج مجھ سے پوچھو یہ میرا غلام ہے۔

وما علينا إلا البلاغ

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top