سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی دہشت گردی کی وہ مثال ہے جس کے سامنے انسانیت شرمندہ ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری
ایک ماہ گزرنے کے باوجود مقتولین کی FIR درج نہ ہونا حکومتی جبر کی واحد مثال ہے
شہیدوں کا خون موجودہ ظالم حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بنے گا
سینٹرل ورکنگ کونسل کے اہم اجلاس سے خطاب
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ 17 جون کو وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر نگرانی ریاستی دہشت گردی کی جو بدترین مثال قائم کی گئی اس کی مثال پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ریاستی دہشت گردی اور حکومتی جبر و بربریت ظلم و درندگی کی یہ وہ داستان رقم کی گئی ہے جس کے سامنے پوری دنیا کی انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ نہتے، بے گناہ، غیر مسلح شہریوں پر بے دردی سے گولیاں برسائی گئیں اور 14 گھنٹے تک آپریشن کر کے معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا۔ یہ سب ان ظالموں نے کیا جو اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔ آج ایک مہینہ گزر گیا 17 جولائی ہوگئی مگر مقتولین کے ورثا ء دھکے کھاتے پھرتے ہیں انکی طرف سے FIRتک درج نہیں کی جارہی۔ پولیس کے درندے جو خود قاتل ہیں جنہوں نے وزیرِاعلی پنجاب کے حکم سے دہشت گردی کرتے ہوئے قتلِ عام کیا نہتے کارکنوں اور شہریوں کا خون بہا یا اورخود قاتل مدعی بنے بیٹھے ہیں۔ قاتل خود ہی ٹریبیونل میں شہادتیں دے رہے ہیں اور قاتل ہی تفتیش کر رہے ہیں مقتولین کے ورثا اور مظلومین کو مجرم قرار دیتے ہیں۔ منصوبہ بندی کرنے والے اور اس سانحہ کا حکم دینے والے وزیرِاعلی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ وزیرِاعلی ہوم سیکرٹری آئی جی، ڈی آئی جی آپریشن SSP اور SHOs بدستور اپنے عہدوں پر براجمان ہیں۔ ان قاتلوں کی موجودگی میں انصاف کیسے ممکن ہے۔ ریکارڈ تبدیل کیا جا رہا ہے کیا دنیا کی جمہوری تاریخ میں اس طرح کی کوئی مثال ہوسکتی ہے۔ وزیرِاعلی کے ہوتے ہوتے انکے ماتحت افسروں میں کوئی شخص انکے خلاف بیان نہیں دے سکتا ہے۔ آئی جی کے ہوتے ہوئے اس کے ماتحت پولیس افسران کیسے اسکے خلاف شہادت دے سکتے ہیں۔ پوری چین آف کمانڈ اور چین آف آپریشن کی موجودگی میں پولیس افسر ان ان کے خلاف بیان دینے کی جرات کیسے کر سکتے ہیں۔ وہ مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کی سنٹرل ورکنگ کونسل کے اہم اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی، صوبائی و ضلعی رہنماء موجود تھے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ظلم کی انتہا ہے کہ وزیرِاعلی کے اپنے بنائے ہوئے جوڈیشل ٹریبونل کو20جون کو جو مراسلہ بھیجا گیا اس میں قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے کا تعین کرنے کا اختیار دیا گیا تھامگر ٹھیک 7 دن کے بعد 27 جون کو نیا مراسلہ ہوم سیکرٹری نے جاری کیا جس میں منصوبہ ساز کے تعین کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹریبونل کے جج سے پوچھتا ہوں کہ اپنے ضمیر کے ساتھ بتائیں کہ آج ایک ماہ گذرنے کے باوجود مقتولین کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی اور نہ ٹربیونل میں ملز موں کو شامل تفتیش کیا گیا۔ مقتولین کی ایف آئی آر درج کیے بغیر قاتل پولیس کی ایف آئی آر پر انکوائری کی جا رہی ہے یہ انکوائری کس طرح انصاف مہیا کرے گی۔ 17 جون کو درجنوں گھرانے اجڑ گئے، بچے یتیم ہو گئے، بیٹیاں بیوہ ہو گئیں اورگولیوں سے چھلنی بیسیوں زخمی زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئے، ہسپتال میں گولیوں سے چھلنی مریض پڑے ہیں جن کو لیگل میڈیکل سر ٹیفکیٹ تک نہیں دئیے جا رہے۔ یہ ظلم اور ریاستی جبر کی انتہا ہے کیا اس کا نام جمہوریت ہے۔ مقتولین کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے کا اختیار بھی اگر ٹربیونل کے جج کو حاصل نہ ہو تو وہ کس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ جب تک وزیر اعلیٰ مستعفی نہیں ہوتے اور تمام ذمہ داران افسران بر طرف نہیں ہوتے، مقتولین کے ورثاء کی FIR درج نہیں ہوتی اس وقت تک کسی قسم کے عدل وانصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف سن لیں خون شہداء رنگ لائے گا۔ شہیدوں کے خون کا قطرہ قطرہ ان کو انکے انجام بد تک پہنچائے گا۔ معصوم شہریوں کے خون کا بدلہ دینا ہوگا، قانون کے مطابق قصاص دینا ہو گا۔ شہیدوں کا خون حکمرانوں کے ظلم و بربریت کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بنے گا۔
تبصرہ