حضورئ رِسالت بطریقِ اتباع و محبت
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری
نسبتِ رسالتِ محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ربط و تعلقِ رسالتِ محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری بنیاد اتباع پر قائم ہے اور باطنی بنیاد محبت ذات مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قائم ہے۔ جب تک یہ دونوں سمتیں اکھٹی نہیں ہوتیں اس وقت تک نہ تو ظاہری نسبت ملتی ہے اور نہ ہی باطنی محبت نصیب ہوتی ہے۔ ان دونوں سمتوں کے قائم و دائم رہنے کے نتیجے میں ارتضيٰ و ارتقاء نصیب ہوتا ہے۔ بارگاہِ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت و فیوضات کے حصول کے لئے ظاہری و باطنی دونوں تعلق کا مضبوط و مستحکم ہونا ضروری ہے۔ کوئی ایک تعلق/سمت کمزور ہونے کے سبب حضوری رسالت صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی کمی واقع ہوجائے گی۔
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اَلنَّبِيُ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ.
’’یہ نبیِ (مکرّم صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں۔‘‘
(الاحزاب: 6)
اس آیت کریمہ میں در حقیقت نسبت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ربطِ رسالت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات اقدس کے ساتھ نسبت اور ربط و تعلق کی بنیادی طور پر دو شکلیں ہیں:
- تعلق صوری
- تعلق معنوی
نسبت اور غلامی کے ظاہری تعلق کو تعلق صوری کہتے ہیں اور باطنی تعلق کو تعلق معنوی کہتے ہیں۔ آیئے! اس تعلق کی تفصیلات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
حضورئ رسالت کی ظاہری بنیاد
آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ظاہری ربط اور ظاہری نسبت کو قائم و دائم کرنے کی اصل بنیاد اتباعِ رسالتِ محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اﷲ رب العزت نے اس سلسلہ میں متعدد ارشادات فرمائے۔ ارشاد فرمایا:
يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوا اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَo
’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول( صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اور اس سے رُوگردانی مت کرو حالاں کہ تم سن رہے ہوo‘‘
(الانفال، 8: 60)
دوسرے مقام پر فرمایا:
قُلْ اَطِيْعُوا اﷲَ وَالرَّسُوْلَ.
(آل عمران، 3: 32)
’’آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول ( صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو۔‘‘
ایک مقام پر اتباع کی صورت میں رحمت کی نوید سناتے ہوئے فرمایا:
وَ اَطِيْعُوا اﷲَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo
’’اور اللہ کی اور رسول (صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
(آل عمران: 132)
ایک اور مقام پر حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع کو اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲ.
’’جس نے رسول ( صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
(النساء، 4: 80)
اسی بات کو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنے فرامین سے واضح فرماتے ہوئے امت کی اپنی اتباع و اطاعت کی طرف رہنمائی فرمایا۔ ارشاد فرمایا:
مَنْ اَطَاعَنِی فَقَدْ اَطَاعَ اﷲ، وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اﷲ.
’’جس نے میری اطاعت کی تو گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو گویا اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔‘‘
(صحيح بخاری، 3:1080، باب يقاتل من ورآء الامام ويتقی به)
آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت اور غلامی کے ظاہری تعلق کے حصول کے چار مراحل ہیں:
- اتباع
- کمالِ اتباع
- کمالِ اتباع پر مواظبت اختیار کرنا
- کمالِ اتباع پر مواظبت میں استقامت اختیار کرنا
اتباع
اگر آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت طیبہ، اسوہ حسنہ، تعلیمات، جمالِ مصطفی سے وارفتگی اور تعلقِ غلامی کی نسبت مل جائے تو ظاہری تعلق کا پہلا مرحلہ طے ہو جاتا ہے اور اس کو اتباعِ رسول صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں۔
کمالِ اتباع
اتباع کے بعد دوسرا مرحلہ اس اتباع میں کمال کا حصول ہے کہ اس انسان کی زندگی اس فرمان الہٰی کے مطابق اتباع رسول صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قالب میں ڈھل جائے کہ
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَة.
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہِ (حیات) ہے۔‘‘
(الاحزاب، 33: 21)
یعنی جب اس اتباع میں دوام اور اکملیت مل جائے تو تعلق بڑھنے کے ساتھ ساتھ اتباع میں بھی کمال ملتا جاتا ہے۔ اﷲ رب العزت نے فرمایا:
فَـلَا وَرَبِّکَ لَا يُوْمِنُوْنَ حَتّٰی يُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْ اَنْفُسِيَمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًاo
’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیںo‘‘
(النساء، 4: 65)
اس آیت میں کمالِ اتباع کی طرف اشارہ ہے کہ جب عاشق مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اتباع رسالت کے رستے سے مرحلے طے کرتا ہے اور حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات و صفات، انوار و تجلیات، صورت و سیرت میں فنا ہوتا چلا جاتا ہے تو اس کا اپنا کچھ نہیں رہتا، اس کی پسند و ناپسند مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسند و ناپسند کے تابع ہو جاتی ہے حتی کہ اس کا اعتقاد، افکار، تخلیات اور تصورات تک تمام کا تمام مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع ہو جاتا ہے۔ پھر اس بندے کو مزاجاً، قولاً، فعلاً حتيٰ کہ طبعاً بھی متابعیت ملتی ہے۔ جب اس عاشق اور محب مصطفی کو اس طرح کی کامل متابعیت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہو جائے تو اسے کمال اتباع کہتے ہیں۔
کمالِ اتباع نصیب ہوجانے کے بعد پھر وہ نادانستہ بھی کوئی عمل حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کے خلاف نہیں کرتا۔ یعنی اس مرحلہ پر اس کا مزاج، ذوق، شوق، ترجیحات اور پسند تک حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسند میں فنا ہو جاتی ہیں۔ پھر اسے اعتقادی فنائیت بھی مل جاتی ہے اور عملی، فکری، ذوقی، طبعی اور فعلی فنائیت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ اتباع مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح کی جامعیت، کاملیت اور تمامیت مل جائے تو پھر بندہ نسبت اور غلامی کے ظاہری تعلق کے اگلے مرحلہ مواظبت علی کمال اتباع میں منتقل ہو جاتا ہے۔
کمال اتباع پر مواظبت اختیار کرنا
ظاہری تعلق کے اس مرحلہ میں آق صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنے والا آپ صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات، چہرہ والضحيٰ اور زلف عنبریں میں فنا ہوتا ہے۔ وہ حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار کو تلاش کرتا پھرتا ہے جہاں اُسے آق صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقشِ پا یا کوئی بھی نسبت مل جائے اسی جگہ سرتسلیم خم کرلیتا ہے۔
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی مجھے ہوش کب تھا سجود کا
تیرے نقش کفِ پا کی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں
حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبین کو ڈھونڈتا پھرتا ہے جہاں حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشق مل جائے اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ الغرض وہ حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبتوں کے پیچھے مارا مارا پھر رہا ہوتا ہے۔ پھر یہ مواظبت کسی واقعہ، کسی خاص دن، رسم کے ساتھ محدود نہیں رہتی بلکہ دوام اختیار کرجاتی ہے۔
مواظبت میں استقامت اختیار کرنا
کمال اتباع میں مواظبت کے بعد اس عاشق کی ساری زندگی حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے تابع ہوجاتی ہے۔ اس کا سونا، جاگنا، چلنا، پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، جدوجہد کرنا، لکھنا، پڑھنا، سمجھنا اور سوچنا الغرض اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ متابعیت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قائم و دائم ہو جاتا ہے اور اس وقت اس کو مواظبت اتباع مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں استقامت نصیب ہو جاتی ہے۔
کمالِ اتباع پر فائز شخصیات
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ شخصیات ہیں جن کو اتباع میں کمال درجے کی مواظبت و مداومت مل گئی۔ ان کی زندگی کا مقصد اتباع و اطاعت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا اور رضائے مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصول تھا۔ سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
إِنَّ اﷲَ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّداً صليٰ الله عليه وآله وسلم وَلَا نَعْلَمُ شَيْئاً، فَإِنَّمَا نَفْعَلُ کَمَا رَأَيْنَهُ يَفْعَلُ.
(ابن حبان، الصحيح، 4: 301، الرقم: 1451)
یعنی ہم تو صحرا کے بدو تھے، بھٹکتے پھرتے تھے۔ خدا نے کرم کیا کہ اپنا مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں عطا کر دیا۔ اب ہم حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو جو عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں پس اس کی پیروی کرتے چلے جاتے ہیں، اسی طرح ہمارا اسلام کامل ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہمیں نہ کعبہ کی خبر تھی اور نہ صوم و صلاۃ کی خبر تھی، جو خبر حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دیتے رہے اس کی متابعیت میں زندگی بسر کرتے رہے۔
ذہن نشین رہے کہ جو متابعیت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں زندگی بسر کرتا ہے تو اﷲ رب العزت ان کو آزماتا بھی ہے کہ ان کی متابعیت اپنے کمال کو پہنچی ہے یا ابھی سفر کر رہی ہے۔ تحویل قبلہ کے وقت مسلمانوں کو آزمایا گیا اور اس آزمائش کا ذکر قرآن مجید میں یوں فرمایا:
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِيْ کُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَيْهِ.
’’اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول ( صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔‘‘
(البقرة، 2: 143)
اللہ تعاليٰ بھی آزماتا ہے کہ یہ صحابہ جو دن رات صحبت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مجالست مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ، بارگاہ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عبدیت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں زندگی بسر کرتے ہیں، ان کا مرکز و محور ذاتِ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے یا کچھ اور ہے؟ خدا نے چاہا کہ آزمائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنا رخ قبلہ اول بیت المقدس کی طرف رکھتے ہیں یا متابعیت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کعبہ کی طرف پھیر لیتے ہیں۔ الغرض خدا نے ان کی محبت، اتباع، پیروی اور متابعیت کو آزمایا۔ عاشقین اس مرحلہ سے کامیابی سے گزرے جبکہ منافقین کا نفاق ظاہر ہوگیا۔
یہ وہ صحابہ تھے جن کا ہر عمل حضورئ رسالت کے بغیر نامکمل تھا اور ہر وہ عمل جس میں حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع نہ پاتے اس کو عبث سمجھتے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پر سفیر کے طور پر مکہ جاتے ہیں تو وہاں کفار مکہ انہیں اجازت دیتے ہیں کہ اتنے عرصہ بعد آئے ہو، کعبۃ اﷲ سامنے ہے اگر چاہو تو طواف کر لو۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ماکنت لافعل حتی يطوف به رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم.
’’میں اس وقت تک طواف کعبہ نہیں کرسکتا جب تک حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا طواف نہ فرمائیں‘‘۔
یعنی تم نے عثمان کے ایمان کو سمجھا ہی نہیں۔ یہ وہ عثمان ہے جس کو کعبے کی خبر مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے اور وہ اس چہرہ والضحيٰ کے بغیر کعبے کا طواف کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ الغرض صحابہ حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے۔ سیدنا موسيٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
صحابہ کرم اللہ وجہہ الکریم کی متابعیت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عالم یہ ہے کہ ہم سالم بن عبد اﷲ کو دیکھتے ہیں کہ وہ راستوں میں چلتے ہوئے کچھ مقامات کو تلاش کر رہے ہیں۔ کوئی مقام نظر آتا ہے تو وہاں دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ کہا: میں نے یہاں پر ابن عمر کو دو نفل پڑھتے ہوئے دیکھا تو ان سے پوچھا کہ ابن عمر! یہاں دو رکعت کیوں پڑھیں؟ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بھی معلوم نہیں، پس میں نے اپنے محبوب محمد مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا، میں تو محبوب کی اداؤں کو دہراتا ہوں اور یہی میری صحابیت ہے۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو دیکھا گیا کہ آپ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے کھڑے پانی پی رہے ہیں۔ عرض کیا: امیر المومنین! یہ کیا کر رہے ہیں کچھ لوگ تو اس عمل کو مکروہ جانتے ہیں۔ فرمایا: مجھے اس سے غرض نہیں کہ لوگ مکروہ جانیں یا نہ جانیں، مجھے غرض ہے تو صرف اس سے کہ میں نے اپنے محبوب صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہاں کھڑے ہو کر پانی نوش کرتے ہوئے دیکھا۔ مجھے اس سے غرض ہے جو میرے محبوب کے ہاں قبول ہے اور جو میرے محبوب کے ہاں مقبول نہیں وہ میرے ہاں بھی متروک ہے۔
حضورئ رسالت کی باطنی بنیاد
حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبتِ غلامی کا باطنی تعلق محبت سے استوار ہے۔ ظاہری تعلق کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ باطنی تعلق کو بھی مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ضروری ہے۔ اس باطنی تعلق کے حصول کے چار مرحلے ہیں:
- محبتِ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
- تعظیم و توقیر مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
- استظہار صورت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
- اتصال حقیقت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
محبت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
اہل محبت کے شب و روز کا مطالعہ کریں تو محبتِ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سمجھ آتی ہے۔
حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے بالوں کی ایک لٹ تھی جسے وہ ساری زندگی نہ کٹواتے تھے۔ وہ بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ جب وہ نماز ادا کرتے تھے تو وہ زمین کو چھوتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پوچھنے پر مجبور ہو گئے کہ اے ابو محذورہ! اس لٹ کو کٹواتے کیوں نہیں؟ فرمایا: یہ میرے وہ بال ہیں جن پر میرے محبوب محمد مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست اقدس لگا ہے لہذا اسے میں ساری زندگی نہیں کٹوا سکتا۔
غزوہ تبوک کے موقع پر ایک رات میں حضور کے خیمہ مبارک کے باہر حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چوکیدار بن کر ڈیوٹی دے رہا تھا کہ سامنے والے خیمے سے عبد اللہ نامی ایک صحابی اونچی اونچی آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے جسے میں ساری رات سنتا رہا۔ صبح ہوئی تو بارگاہ رسالت صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اﷲ صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر میرے ماں باپ قربان جائیں، عبداللہ ساری رات اونچی آواز سے تلاوت کرتا ہے، یہ ریاکار محسوس ہوتا ہے۔ آپ صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبردار! اسے ریاکار مت کہو، یہ تو میرا عاشق ہے۔ چند دن ہی گزرے تھے کہ وہ قاری صحابی جن کا نام عبد اﷲ تھا، ان کا وصال ہوگیا۔ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلا کر فرمایا:
اِرْفَقُوا بِهِ، رَفَقَ اﷲُبِهِ.
اپنے اس ساتھی کی بڑی شفقت و محبت سے تکفین و تجہیز کرو۔ کفن دینے کے بعد حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اس کی لحد میں اُترے، اس کا سر اپنے دست اقدس میں لے کر قبلہ رخ کیا اور اس کی تدفین اپنے دست اقدس سے کی۔ بعد ازاں اپنے ہاتھ اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں یوں عرض کیا:
اَللّٰهُمَّ إِنِّی اَمْسَيْتُ عَنْهُ رَاضِيًا، فَارْضَ عَنْهُ.
مولا! میرا یہ عاشق اُس حال میں یہاں سے جا رہا ہے کہ تیرا محبوب محمد مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے راضی ہے پس تو بھی اس سے راضی ہوجا۔
محب کی محبت اور عاشق کا عشق تب کامل ہے کہ جب آقا صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اس کے بارے میں فرما دیں کہ یہ میرا ہے۔
سیدنا عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں:
وَلَوَدِدْتُ اَنِّی مَکَانَهُ. لَيْتَنِی کُنْتُ صَاحِبَ الْحُفْرَةِ.
(ابو نعيم، حلية الاولياء، 1: 122)
حضرت عبداللہ کی اس پُر فخر تدفین پر اور حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس کے لئے دعا پر وہیں پر ایک خواہش نے جنم لیا کہ کاش اس کی جگہ میں ہوتا۔ میرا سر بھی حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس میں ہوتا اور حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود میری تدفین فرماتے۔
حتی کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ بھی حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صحابی رسول صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کمال شفقت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ
لَوَدِدْتُ اَنِّی صَاحِبُ الْحُفْرَةِ.
’’کاش یہ صاحب قبر میں ہوتا‘‘۔
تعظیم و توقیر مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
محبت جب فنائیت کے مرحلہ پر پہنچتی ہے تو صرف محبت نہیں رہتی بلکہ تعظیم و توقیر میں ڈھل جاتی ہے۔ پھر محب و عاشق ہر حال میں محب و عاشق رہتا ہے، حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے ہوں تو تب بھی محب و عاشق ہے، حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہری پردہ فرما جائیں تو تب بھی محب و عاشق ہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دور خلافت میں اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابی رسول حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلاتے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وظیفہ تین ہزار درہم مقرر کیا اور حضرت اسامہ بن زید کے لیے ساڑھے تین ہزار درہم کا وظیفہ مقرر کیا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجبور ہو کر کہنے لگے: اے ابا جان! کیا میں آپ کو محبوب نہیں؟ فرمایا: ہاں، تو میرا لخت جگر ہے، محبوب کیوں نہیں۔۔۔ عرض کیا: کیا میں غزوات میں سبقت نہ لے جاتا تھا؟ معرکوں میں جیتتانہ تھا۔ کیا میں دشمنوں کے سر قلم نہیں کرتا؟ فرمایا: ہاں، یہ سب اوصاف آپ میں ہیں۔ عرض کیا تو پھر اسامہ بن زید کو مجھ سے زیادہ وظیفہ کیوں؟ فرمایا: یہ قانون و قاعدہ کی بات نہیں بلکہ محبت کی بات ہے۔ زید تمہارے باپ سے زیادہ میرے آق صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب تھا اور زید کا بیٹا اسامہ میرے بیٹے سے زیادہ آق صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب تھا۔ اب میں حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب کو دیکھوں یا اپنے محبوب کو دیکھوں۔ اب میرا بیٹا بیشک مقبول اور محبوب ہوگا مگر محبوب مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اُن کے محبوبوں کے سامنے کسی کی محبت و رشتہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
استظہار صورت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
باطنی نسبت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصول کا تیسرا مرحلہ استظہار صورت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب عاشق تعظیم کے بعد فنائیت کی طرف سفر کرتا ہے تو صورتِ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گم ہو جاتا ہے، پھر وہ زلف عنبرین، چشمانِ مقدس، لب و رخسارِ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ، گنبد خضری اور بارگاہ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور کرتا ہے۔ نسبت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسے فناء ہوتا ہے کہ ہر وقت بارگاہ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی رہتا ہے، اسے کسی اور شے کی خبر نہیں رہتی بلکہ ہر وقت اس کی نظر مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رہتی ہے۔
امام قسطلانی سے پوچھا گیا کہ عاشق کی اتباع کیا ہے؟ امام قسطلانی نہ تو صحابی ہیں نہ ہی تابعی بلکہ وہ تو بعد میں آنے والے امام ہیں۔ آپ نے فرمایا:
اِتِّبَاعُ هٰذَا النَّبِیِّ الْکَرِيْمِ.
امام قسطلانی نے یہاں ’’وہ نبی‘‘ نہیں کہا بلکہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ جو نبی ہیں ان کی اتباع‘‘۔ گویا اگر کہنے والے کے سامنے چہرہ مصطفی نہ ہو تو وہ هٰذَا النَّبِيُ نہیں کہتا بلکہ وہ ذَاکَ النَّبِيُ (وہ نبی) کہتا ہے۔
عاشق نماز میں جاتا ہے تو اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُهَا النَّبِيُ کہتا ہے اس لئے کہ حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے سامنے ہوتے ہیں اور وہ حالت نماز میں حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرکے آپ صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتا ہے اور الصلاۃ معراج المومنین کی کیفیت سے مستنیر ہوتا ہے۔
صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اویس رضی اللہ تعالیٰ عنہ و بلال رضی اللہ عنہم کے راستے پر گامزن رہنے والا ذَاکَ النَّبِيُ نہیں بلکہ هٰذَا النَّبِيُ کہتا ہے اور جو ابوجہل و ابولہب کے راستے پر ہو وہ ’’ذاک النبی‘‘ (وہ نبی) کہتا ہے۔
پوچھا کہ فَاتِّبَاعُ هٰذَا النَّبِیِّ الْکَرِيْمِ کیا ہے؟ فرمایا:
اگر اتباع، تصورِ نسبت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل ہو تو پھر اس اتباع میں حیات القلوب ہے۔۔۔ حضور کی اتباع میں نور البصائر (بصیرتوں کا نور) ہے۔۔۔ شفاء الصدور اور لذت الارواح ہے۔۔۔ پھر یہ اتباع وہشت زدہ لوگوں کے لئے محبت اور بھٹکے ہوئے لوگوں کے لئے صراط مستقیم کا درجہ رکھتی ہے۔
استظہار صورت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دلوں کو حیات اور سرور اس لئے ملتا ہے کہ سامنے چہرہ وَالضُّحٰی، وَاللَّيْلِ زلفیں اور مَا زَاغَ الْبَصَرُ والی آنکھیں ہوتی ہیں۔ اس لئے اللہ رب العزت نے فرمایا:
يٰايُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا ِﷲِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا يُحْيِيْکُمْ.
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول ( صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول ( صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو۔‘‘
(الانفال، 8: 24)
یعنی جب میرے آق صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں بلائیں اور تم حاضر ہوجائو گے تو وہ تمہیں بلا کر تمہارے مردہ دل زندہ کردیں گے اور بُعد کو قربت میں بدل دیں گے۔
سیدنا ابراہیم ں نے اپنے یقین میں پختگی کے لئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا کہ تو مردہ کو زندگی کس طرح دے گا؟ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ
فَخُذْ اَرْبَعةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَيْکَ.
’’سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو۔‘‘
(البقرة، 2: 260)
یہاں فَصُرْهُنَّ إِلَيْکَ سے مراد یہ ہے کہ إِجْعَلْ لَهُمُ الْمُشْتَاقِيْنَ لَکَ يَا إِبْرَهِيْمُ.
اے ابراہیم! انہیں اپنا عشق، اُنس، مجالست اور اپنی صحبت کا فیض دے دیں، پھر اُن کے ٹکڑے کر کے پہاڑوں پر چھوڑ آئیں۔ پھر انہیں اپنی طرف بلائیں۔ جب ابراہیم ں نے نداء دی تو وہ پرندے زندہ ہو کر قدمین ابراہیم علیہ السلام میں آگئے۔
بتانا یہ مقصود تھا کہ جس جان میں عشق و محبت اور اُنسِ نبی ہوگا وہ جان کبھی مردہ نہیں ہوتی۔ اگر پرندے عشق ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ زندہ ہو کر قدم ابراہیم علیہ السلام میں آ سکتے ہیں تو عشق مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عاشق زندہ کیوں نہیں ہوسکتا۔ پس جس کو استظہار صورت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مل جائے، تصور مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مل جائے تو ان کے مردہ دل بھی زندہ ہوجاتے ہیں۔
استظہار صورت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم اللہ رب العزت نے خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر عطا کی۔
- ارشاد فرمایا:
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَآءِ.
’’(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں۔‘‘
(البقرة، 2: 144)
یعنی میں خدا ہو کر چہرہ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا ہوں مگر تم امتی اور عاشق ہو کر صورت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور نہیں کرتے۔
- پھر فرماتاہے:
وَلَا تَمُدَّنَ عيْنَيْکَ
’’اور آپ دنیوی زندگی میں زیب و آرائش کی ان چیزوں کی طرف حیرت و تعجب کی نگاہ نہ فرمائیں۔‘‘
(طه، 20: 131)
یعنی میں خدا ہو کر نگاہ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتا ہوں مگر تم اُمتی و عاشق ہو کر نگاہ مصطفی کا تصور نہیں کرتے۔
پھر فرماتا ہے:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی.
’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔‘‘
(النجم، 53: 11)
یعنی میں خدا ہو کر دل مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتا ہوں، تم مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہوکر بھی ان کے قلب کا تصور نہیں کرتے۔
- فرمایا:
مَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰیo
’’(اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں۔‘‘
(طه، 20: 2)
یعنی میں خدا ہو کر بھی محبوب کے کھڑے ہونے کی فکر کرتا ہوں۔ ان کے قدم مبارک متورم ہو جائیں تو مجھے فکر ہوتی ہے اور تم اُمتی ہو کر قدمین مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور نہیں کرتے۔
- فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘
(التين، 95: 4)
یعنی میں خدا ہو کر تقویم مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتا ہوں، تم عاشق مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو کر حضور کی تقویم کا تصور نہیں کرتے۔
فرمایا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘
(القلم، 68: 4)
یعنی میں خدا ہوکر خلق مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتا ہوں، تم عاشق ہو کر خلق مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور نہیں کرتے۔
- فرمایا :
لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِيْ سَکْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ.
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بےشک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔‘‘
(الحجر، 15: 72)
یعنی میں خدا ہوکر حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر کا ذکر کرتا ہوں اور تم عاشق مصطفی ہو کر عمرِ مصطفی کا تصور نہیں کرتے۔
اتصالِ حقیقتِ محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
نسبتِ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی تعلق کے حصول کا آخری مرحلہ اتصال حقیقت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ مقام جنہیں مل جاتا ہے، وہ ابو العباس المرسی ہو جاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ
لَوْ حُجِبَ عَنِّی رَسُوْلُ اﷲِ طُرْفَةَ عَيْنٍ مَا اَعْدَدْتُ نَفْسِيْ مِنْ زُمْرَةِ الْمُسْلِمِيْنَ.
’’جس لمحے چہرہ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے، میں اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھتا۔‘‘
امام نیشا پوری، اپنی کتاب شرف المصطفيٰ میں حضرت ابو سفیان ثوری کا واقعہ روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں کعبۃ اللہ کا طواف کر رہا تھا کہ ایک نوجوان کو دیکھا کہ کعبۃ اللہ کے صحن میں طواف کرتے ہوئے ہر قدم پر حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیج رہا ہے۔ میں عرض کرتا ہوں: اے نوجوان! یہاں لوگ لبیک لبیک کہہ رہے ہیں اور تو حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیج رہا ہے۔ حالانکہ یہ اس کا مقام نہیں ہے؟
اس نوجوان نے کہا کہ مجھے اس کی خبر نہیں۔ بس میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ایک روز میں کعبۃ اللہ میں اپنی والدہ کے ہمراہ آیا۔ صحن کعبہ میں قدم رکھا تو میری والدہ طواف کعبہ کی تاب نہ لا سکیں اور زمین پر گر گئیں۔ میں نے پریشان ہو کر ہاتھ اٹھا کر عرض کیا مولا! جو تیری بارگاہ میں آ جائے اس کا یہ حال ہوتا ہے؟ یہ کہنے کی دیر تھی کہ ایک چاند سے مکھڑے والی ہستی نمو دار ہوئی۔ انہوں نے دست اقدس سے میری والدہ کے چہرے کی طرف اشارہ کیا، ان کا چہرہ چمک اٹھا اور وہ زندہ ہوگئیں۔ وہ ہستی جانے لگیں تو میں نے ان کی کملی کو تھام لیا اور عرض کیا: اے چاند کے مکھڑے والے! یہ تو بتاتے چلیں کہ آپ کون ہیں؟ فرمایا: میں وہی محمد صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جن پر تیری والدہ ہر وقت درود بھیجتی ہے۔
عرض کی: یا رسول اللہ! کچھ نصیحت بھی کرتے جائیں۔ فرمایا: تیرے لئے نصیحت یہ ہے کہ اگر اتصالِ حقیقت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور استظہار صورت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیے تو ہر لمحہ اور ہر سانس کے ساتھ مجھ پر درود و سلام بھیجتے رہو تو کامل رہو گے۔
حضرت عبد اللہ الدولاسی روایت کرتے ہیں کہ یہ 373 ہجری کی بات ہے کہ ایک عارف باللہ مجھے کعبۃ اللہ میں ملے۔ مجھے فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں بڑی نمازیں پڑھی ہیں۔ مگر وہ ظنی القبول ہیں، مجھے پتہ نہیں کہ وہ قبول بھی ہیں یا نہیں۔ لیکن ایک نماز میں نے ایسی پڑھی ہے کہ جو قطعی القبول ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ نماز ضرور قبول ہے۔ میں نے عرض کیا: وہ کون سی نماز ہے؟ فرمایا: ایک دفعہ میں نماز فجر پڑھنے کے لئے تکبیر تحریمہ کہہ کر صحنِ کعبہ میں ہونے والی جماعت میں شریک ہوا۔ میں نے دیکھا کہ وہ امام جن کے پیچھے میں نے نماز کی نیت کی تھی، اب وہ امام نہیں ہیں، جب ان نئے امام پر نگاہ ڈالی تو چہرہ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر آ رہا تھا۔ گویا اس امام کی امامت بھی فنائے امامت مصطفی ہو گئی تھی۔ میں نے دیکھنا چاہا کہ مقتدی کون ہے؟ خدا کی عزت کی قسم، جب مقتدیوں کو دیکھا تو اُدھر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھ کر حیران ہوگیا۔ میں اِدھر چہرہ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا اور اُدھر چہرہ عشرہ مبشرہ اور دیگر صحابہ کو دیکھتا۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام پہلی رکعت میں سورہ المدثر اور دوسری رکعت میں عم یتسالون کی تلاوت فرماتے ہیں۔ نماز سے فارغ ہوئے تو منظر بدل گیا۔
جن کی نماز نمازِ مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا ہو۔۔۔ جن کی صفات صفات مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فناء ہوں۔۔۔ جن کا عرفان عرفان مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں۔۔۔ جن کا استظہار، ترجیحات، پسند، اوڑھنا بچھونا حضور صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا ہو پھر وہ عام امام نہیں رہتے بلکہ وہ امامِ وقت اور امامِ امت ہوتے ہیں۔۔
تحریک منہاج القرآن اسی استظہار صورت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق و نسبت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک ہے۔ عشق و محبت مصطفی، کمال اتباع مصطفی و مواظبت علی اتباع مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں آگے بڑھ رہی ہے اور یہ قافلہ بڑھتا رہے گا، یہ عشاق سفر کرتے رہیں گے اور امت میں نسبت مصطفی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصول کی ظاہری و باطنی بنیادوں کو مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرتے رہیں گے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، دسمبر2015
تبصرہ