حضور نبی اکرم ﷺ کی مجلس میں اَدب کی عظمت اور آواز بلند کرنے کے نتائج: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کی بارگاہ میں آواز بلند کرنا بے ادبی قرار دیا ہے، جس سے انسان کو اپنے اعمال کی بربادی کا شعور تک نہیں ہوتا: شیخ الاسلام کا خطاب
رسول اللہ ﷺ کا اَدب اور احترام اسلام میں بے حد اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ نہ صرف امتِ مسلمہ کی رہنمائی کا ذریعہ ہے، بلکہ آپ ﷺ کی تعلیمات اور اخلاقی اقدار انسانیت کے لیے ایک مکمل نمونۂ حیات ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ کی محبت کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و احترام کا تقاضا ہے کہ ہم اُن کی سیرت کو اپنی زندگی میں نافذ کریں، اُن کی تعلیمات پر عمل کریں، اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں۔ آپ ﷺ کا ادب صرف لفظوں تک محدود نہیں بلکہ آپ کی سنت، اخلاق، اور کردار کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ قرآن اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اَدب کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم ان کی تعلیمات کو اپنے دل و دماغ میں بسائیں اور اس کے ذریعے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کریں۔
رسول اللہ ﷺ کے اَدب کی اہمیت:
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضور نبی اکرم ﷺ کے اَدب سے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ﴾[الحجرات، 49/ 2]
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (ﷺ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو‘‘
اس لیے کہ یہ عام اَدب نہیں ہے بلکہ یہ خاص اَدب ہے۔ اور یہ اَدب حد سے بڑھ کر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اَدب اس لیے حد سے بڑھ کر ہے کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر تم نے اپنی آواز نبی ﷺ کی آواز سے اونچی کر دی تو:
﴿أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ﴾[الحجرات: 2]
’’تمہارے سارے اَعمال (ایمان سمیت) غارت کر دیئے جائیں گے اور تمہیں شعور بھی نہیں ہوگا۔‘‘
حضور ﷺ کی بارگاہ میں آواز بلند کرنا اعمال کو تباہ کردیتا ہے:
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ: یہ صرف اَدب کی بات نہیں ہے کہ آواز بلند کرنے سے انسان کے اعمال اور ایمان پر اثر پڑتا ہے۔ صرف ایک بے ادبی کی وجہ سے، جو کہ آواز کا بلند کرنا ہے، انسان کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ حضور ﷺ کی مجلس میں آواز بلند کرتے ہیں، تو یہ آپ کی بے ادبی کی علامت بن سکتی ہے۔ اسی طرح، مسجدِ نبوی میں مواجہہ شریف کے سامنے بھی وہی ادب لازم ہے، جسے ہر مسلمان کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔
اگر بارگاہِ نبوت میں آواز اونچی کر دی تو اعمال اور ایمان برباد ہو گیا۔ اَب جب یہ معاملہ ہو گیا تو آپ قرآنِ مجید میں ملاحظہ کریں گے کہ بہت سی جگہوں پر یہ ذکر ہوا کہ فلاں کام کرنے سے اعمال برباد ہو جاتے ہیں، مگر یہ ساتھ ذکر نہیں ہوا کہ: وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ: کہ تمہیں یہ شعور بھی نہیں ہوگا کہ تمہارے اعمال برباد ہو گئے ہیں۔
وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ کا فلسفہ:
قرآنِ مجید میں درجنوں مقام ہیں، جہاں اَعمال ضائع ہو جانے اور برباد و ہلاک ہو جانے کا ذکر ہے مگر ہر جگہ یہ نہیں ہے کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلنے دیا جائے گا کہ اعمال اور ایمان برباد ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ: بے ادبیٔ رسول کے لیے کہا، کہ تمہیں شعور بھی نہیں ہوگا اور تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔
اس لیے کہ اگر شعور ہو جائے کہ میں حضور ﷺ کی بے ادبی کر بیٹھا ہوں، تو پھر تو وہ شخص فورًا توبہ کر لے گا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے جو میرے حبیب ﷺ کا بے ادب ہو جائے اُسے شعور بھی نہ ملے تاکہ بدبخت کو توبہ کی توفیق بھی نہ ملے اور اپنے انجامِ بَد کو پہنچے۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مزید کہا کہ اس آیت کی روشنی میں یہ نکتہ سمجھیں کہ جب سزا اور گرفت بہت سخت ہو جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکم بھی بہت سخت ہے۔ یعنی جب سزا اتنی شدید ہو کہ نہ صرف سزا دی جائے بلکہ انسان کو اپنے اعمال کی بربادی کا شعور بھی نہ ہو، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سزا کا درجہ بہت بلند ہے۔ جب سزا اتنی بڑھ جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکم بھی اتنا ہی زیادہ اہم اور شدید ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی بے ادبی کا معاملہ بھی انتہائی حساس اور اہم ہے۔
حاصلِ کلام:
رسول اللہ ﷺ کا ادب اور احترام اسلام میں بے حد اہمیت رکھتے ہیں، اور اس کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آپ ﷺ کی بارگاہ میں آواز بلند کرنے کو اس قدر سنگین قرار دیا ہے کہ اس سے انسان کے تمام اعمال اور ایمان تباہ ہو جاتے ہیں، اور اُسے اس کا شعور بھی نہیں ہوتا۔ یہ اَدب صرف ظاہری نہیں بلکہ اس کی گہرائی میں آپ ﷺ کی محبت، تعلیمات، اور سیرت کو اپنی زندگی میں شامل کرنا شامل ہے۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)
تبصرہ