وفاقی وزیر خزانہ کے اعداد و شمار زمینی حقائق کے برعکس ہیں، عوامی تحریک کا جوابی حقائق نامہ
موجودہ معاشی پالیسیاں جاری رہیں تو پاکستان آئندہ 40 سال تک غیر
ملکی قرضے ادا کرتا رہے گا
ڈالر کی شرح مبادلہ 110روپے ہونے کے ذمہ دار بھی موجودہ حکمران ہیں
محصولات میں اضافہ کی وجہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں بلکہ شرح میں ظالمانہ اضافہ ہے
موجودہ شرح نمو 4.3فیصدہے جو 34سالہ تاریخ کی کم ترین شرح نمو ہے
لاہور (19 مارچ 2016) پاکستان عوامی تحریک نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے معاشی کارکردگی پر مبنی اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہوئے حقائق نامہ جاری کیا ہے۔ حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ وزیر خزانہ کا مضمون کسی سیکشن افسر نے روایتی فائلوں کو سامنے رکھ کر مرتب کیا جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں، حقائق نامہ پاکستان عوامی تحریک کے سینئر مرکزی رہنما ڈاکٹر حسن محی الدین کی سرپرستی میں مرتب کیا گیا دیگر ممبران میں خرم نواز گنڈاپور، ڈاکٹر ایس ایم ضمیر، حنیف مصطفوی، فیاض وڑائچ، بشارت جسپال، نوراللہ صدیقی شامل تھے۔ عوامی تحریک نے اپنے حقائق نامہ میں وفاقی وزیر خزانہ کے دعوؤں کا شق وار جواب دیتے ہوئے کہا کہ
- نومبر 2013 ء میں ڈالر کی شرح مبادلہ 110 روپے ہونے کے ذمہ دار اسحاق ڈار تھے، برسراقتدار آتے ہی ایک بڑی تعداد میں ڈالر بیرون ملک شفٹ کیے گئے
- محصولات کے ہدف میں اضافہ کی وجہ کھربوں روپے کے نئے ظالمانہ ٹیکسز ہیں، ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بجائے محصولات کی شرح بڑھائی گئی
- بجٹ خسارے کو کنٹرول کرنے میں حکومت کی معاشی پالیسی کا کوئی عمل دخل نہیں، خسارہ کم کرنے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی کمی نے اہم کردار ادا کیا
- زرعی شعبہ کو قرضے دینے کا ہدف 6سو ارب ضرور ہے مگر قرضوں کی فراہمی ہدف سے ہر سال 40 فیصد کم رہی، قرضے دینے کے اعلان ضرور ہوئے مگر دئیے نہیں گئے
- ترقیاتی بجٹ کا ہدف بھی محض ہدف رہتا ہے عملاً اس کے استعمال کی شرح 60فیصد سے کم ریکارڈ ہوئی، ہدف اور استعمال کے فرق کو عام آدمی اچھی طرح سمجھتا ہے
- ترسیلات میں اضافہ کا کریڈیٹ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو جاتا ہے
- قرضوں کی مینجمنٹ کا یہ عالم ہے کہ حکومت نے کشکول توڑنے کا نعرہ لگا کر 3برس میں غیر ملکی قرضوں میں 5ارب 30 کروڑ ڈالر اور ملکی قرضوں میں 28 سو ارب کا اضافہ کیا
- سالانہ شرح نمو میں اضافہ کے حوالے سے غلط اعداد و شمار دئیے گئے، زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان جنوبی ایشیاء کا وہ واحد ملک ہے جس کی سالانہ شرح نمو نہ صرف کم ترین 4.3فیصد پر ہے بلکہ یہ شرح نمو 34 سالہ کم ترین سطح پر ہے۔
- حقائق نامہ کے مطابق وزیر خزانہ نے اپنے اعداد و شمار میں تاثر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں بے پناہ قرضے لیے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے پہلے وزیر خزانہ بھی اسحاق ڈار ہی تھے جنہوں نے متعدد بیانات کے ذریعے پاکستان کی معیشت کا بیڑہ ڈبودیا، کم سے کم قرضے لینے کا موقف لطیفہ ہے، یہ واحد حکومت ہے جس نے 3 سال کے مختصر عرصہ میں سب سے زیادہ اندرونی و بیرونی قرضے لینے کا ریکارڈ قائم کیا
- جب ملک میں پیداواری شعبے زوال پذیر ہیں، زرعی شعبہ نیم مردہ ہے، کارپوریشنز تاریخ کے بلند ترین خسارے پر ہیں، لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال ابتر ہے، بیروزگاری عام ہے، صنعتی شعبہ کی پیداوار میں مسلسل کمی کا رجحان ہے تو پھر کس اقتصادی، پیداواری، معاشی سرگرمی کے نتیجے میں 20 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر حاصل ہوئے؟ یہ سب کمرشل اور مہنگے قرضوں کے مرہون منت ہیں، معیشت کی بہتری اور استحکام کے سب سے بڑے انڈی کیٹر صنعتی و زرعی شعبہ کی پیداوار، ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور فنانشل ڈسپلن ہیں مگر ان تینوں شعبوں میں حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے اور نتیجتاً غربت، مہنگائی اور لاء اینڈ آرڈر کی دگرگوں صورتحال ہے۔
حقائق نامہ میں بتایا گیا کہ اب صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس پنشنرز کو دینے کیلئے پنشن اور یوٹیلٹی سٹورز کو دینے کیلئے سبسڈی کی رقم نہیں ہے، تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ناگفتہ بہ حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ اگر موجودہ معاشی پالیسیاں جاری رہیں تو مزید قرضے نہ بھی لیے گئے تو پھر بھی پاکستان آئندہ 40 برس تک موجودہ قرضوں کی ادائیگی کے شیطانی جال میں جکڑا رہے گا۔
حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ کرپشن میں کنٹرول کی بجائے حالیہ سالوں میں اضافہ نظر آیا، سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کرپشن کے 160 میگا سکینڈلز پر کارروائی کا آغاز نہیں ہوا، 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کی آڑ میں بدعنوانیاں ہیں، سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے 200 ارب ڈالر واپس لانے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، یوروبانڈ کے اجراء میں ہونیوالی بے ضابطگی کا کوئی جواب دینے کیلئے تیار نہیں، ایل این جی کی امپورٹ، میٹرو، اورنج ٹرین کے قرضے اور معاہدے الگ سے سوالیہ نشان ہیں۔
تبصرہ