کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
یوم آزادی کی مناسبت سے خصوصی تحریر
عین الحق بغدادی
آزاد و خودمختار قومیں اپنی آزادی کا جشن بھرپور انداز میں منایا کرتی ہیں۔ آزادی کی خوشیاں منانا یقینا زندہ قوموں کا شیوہ ہے۔ قرآن مجید میں بھی حکم ہے کہ جب کسی نعمت کا حصول ہو تو اْس پر خوب خوشی کا اظہار کرو۔پاکستان کی آزادی بھی ایک بہت بڑی نعمتِ خداوندی اور عظیم فضل ہے کہ اْس نے مسلمانوں کو ایک ایسا خطہ زمین عطا کیا جو معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ پاکستانی ہر سال 14 اگست کو اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں مگر غور طلب نکتہ یہ ہے کہ کس سے اور کیسی آزادی ؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔
چودہ اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ظاہر ہونے والا ملک پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ دو قومی نظریہ کی آسان تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ اس نظریے کے تحت ہندو اور مسلمانوں کو ہر لحاظ سے دو الگ الگ قومیں قرار دیا گیا۔ شاہرائے آزادی پر دو قومی نظریہ وہ پہلا سنگِ میل ہے جسے مشعلِ راہ بنا کر بالآخر مسلمان چودہ اگست 1947ء کو اپنی منزل حاصل کرنے میں سرخرو ہوئے۔ پاکستان کرّہ ارض کا وہ واحد خطہ ہے جس کی بنیاد ایک نظریے پر رکھی گئی اور وقت کی سفّاک طاقتوں سے اس نظریے کو منوانے کے لیے مسلمانانِ ہند نے اَن گنت قربانیاں دے کر قائدِ اعظم اور علامہ محمد اقبال کے تصورِ پاکستان کو عملی جامہ پہنایا۔ قائد اعظم کا تصورِ پاکستان یہ تھا کہ یہاں ایک عوامی حکومت ہو گی۔ انہوں نے اپنے پیغامات میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کومتنبہ کیا تھا جو ظالمانہ اور قبیح نظام کے ذریعے پھل پھول رہے تھے اور اس نظام نے انہیں اتنا خود غرض بنا دیا تھا کہ عوام کی لوٹ کھسوٹ اْن کے خون میں شامل ہوگئی تھی۔
پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے اکتوبر 1947ء کو قائدِ اعظم نے اپنے پہلے خطاب میں فرمایا:
’’میں ایسا پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں جو آزاد انسانوں کا ملک ہو۔جہاں اسلامی اقدار کا تحفظ ہو۔ جو اسلامی ثقافت کا علمبردار ہو۔ جہاں معاشرتی عدل و انصاف فطری بنیادوں پر قائم ہو۔ جس میں لوگوں کی جان ومال محفوظ ہو۔ اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں۔ رشوت ستانی، بدعنوانی ،اقرباء پروری اور نسلی و علاقائی اور صوبائی تعصّب کا وجود نہ ہو‘‘۔
اگر ہم قائد اعظم کے پاکستان میں جائیں تو ہزاروں مشکلات اور غربت کے باوجود ہم امیر ملک تھے۔اس وقت ڈالر کی قیمت 12آنے( 75پیسے) تھی۔برطانوی پائونڈ کی قیمت ایک روپیہ تھی اور ایک روپے کا 6سیر آٹا ملتا تھا،بجلی کا بل سہ ماہی آتا تھا اور 3روپے سے زائد نہ ہوتا تھا۔
قائد اعظم کے پاکستان کا وزیر ہر پہر سوٹ نہیں بدلتا تھا،سرکاری خرچے پر عزیزوں دوستوں اور اپنے چیلو ں کو حج و عمرہ اور بیرونی دوروں پر نہیں لے جایا جاتا تھا۔سرکاری دورے بہت کم افسران کرتے تھے جبکہ آج کے ’’غریب‘‘ وزیر اعظم علاج بھی حکومتی خرچے پر کرواتے ہیں اور دیوالیہ پی آئی اے سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنا فرض سمجھتے ہیں اور بوئنگ 777 کی تمام نشستیں نکال کر وہاں صرف 24 نشستیں لگا کر وزیر اعظم صاحب کو واپس لایا جاتا ہے اور اس عمل کو مکمل کرنے کے لئے اس جہاز کو کئی ہفتے قبل معمول کی پروازوں سے روکنا پڑتا ہے جس سے پہلے سے بے حال پی آئی اے کو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ سارا کچھ اس وقت ہوتا ہے جب ان کا نام کرپشن کے بے تاج بادشاہ کے طور پر لیا جاتا ہے۔
قائد اعظم نے اپنے پاکستان میں سربراہ مملکت ہونے کے باوجود کوئی بیرونی دورہ نہیں کیا جبکہ آج کے پاکستان میں سربراہ مملکت کہلاتا ہی وہ ہے جس کا ملک میں اور پارلیمنٹ کے بجائے بیرونی دوروں پر زیادہ وقت صرف ہو۔ قائداعظم کے پاکستان میں ان کی گاڑی کے آگے صرف 2 موٹر سائیکل ہوا کرتے تھے اور کبھی کبھی وہ بھی نہیں مگر افسوس آج کے پاکستان میں مہنگی گاڑیوں کا ان گنت قافلہ بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں۔
قائد اعظم کے پاکستان میںاقربا پروری بالکل نہ تھی۔ایک بار آپ کے بھائی احمد علی جناح ان سے ملنے آئے۔سیکرٹری کو اپنا کارڈ دیا جس پر لکھا تھا ’’احمد علی جناح، برادر بانی پاکستان‘‘ تو آپ نے اس وجہ سے اسے ملنے سے انکار کر دیا تھا کہ انہوں نے کارڈ پر اپنے نام کے ساتھ بانی پاکستان کا حوالہ کیوں لکھا ہے۔ مگر آج ایک ہی خاندان کے چالیس چالیس لوگ حکومتی نظام چلا رہے ہیں جبکہ ان سب کے پاس کوئی حکومتی عہدے بھی نہیں۔
قائداعظم کے پاکستان میں نسلی و گروہی اور مذہبی تعصبات نہیں تھے مگر ہم لسانی تعصب کی بنیاد پر قائد اعظم کا حاصل کردہ آدھا پاکستان دو لخت کر چکے ہیں اور موجودہ پاکستان کا شیرازہ بکھیرنے کے لئے پوری کوشش کر رہے ہیں۔ مذہبی تفرقہ سازی ، مذہبی فرقہ واریت قائداعظم کے پاکستان کی نہیں افسوس! یہ موجودہ حکمرانوں کی سرپرستی کی وجہ سے آج کے پاکستان کی پہچان ہے۔
الگ وطن کے حصول کا مقصد
وہ کون سی وجہ تھی جس کے لیے ایک نیا ملک بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی؟ متحدہ ہندوستان کے کچھ مسلمان بادشاہ اتنے لبرل ہو گئے تھے کہ وہ آہستہ آہستہ مذہب سے بھی آزاد ہو گئے۔ حتی کہ ہندو مسلم مذہب اْن کے لیے برابر ہو گیا۔ اْن کی مذہب سے اس دوری نے اور ہندو مسلم دشمنی نے چالاک انگریز کے ہندوستان پر قبضے کو آسان بنایا۔ جب انگریز اور ہندو مسلمانوں کے خلاف متحد ہو گئے اور کچھ مسلمان مفاد پرست و جاگیردار بھی اْن کے ساتھ ہو لیے تو ایسی صورت میں مسلم اکابرین کے قلوب و اذہان میں ایک الگ وطن کی آرزو اٹھی جو آہستہ آہستہ تحریک آزادی میں تبدیل ہو گئی۔
مسلمانان ہند کے لیے ایک ایسا الگ وطن جو مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ہو اور جہاں مسلمان مذہبی آزادی کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں، یعنی مذہبی اصول و ضوابط پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔۔۔جہاںکسی اور کی نہیں عوام کی حکومت ہو۔۔۔ استحصال کی بجائے انصاف ہو۔۔۔ عوام کو حصولِ حق کیلئے سڑکوں پر نہ نکلنا پڑے۔۔۔ عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔۔۔ معاشرتی و معاشی ناانصافی کے بجائے دولت کی منصفانہ تقسیم ہو۔
اس ملک کی آزادی کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ کئی والدین نے اپنے لخت جگر اور معصوم بچوں کو کھویا۔ لاتعداد عفت مآب ماؤں بہنوں نے اپنی عزتوں کی قربانیاں دیں۔ تباہی کا ایک ہولناک منظر تھا۔ گویا ہر طرف قیامت صغریٰ برپا تھی۔ جہاں ماں باپ کو اپنی اولادوں اور رشتہ داروں کا علم نہیں تھا۔ اس ہولناک تباہی کے دوران اگر والدین سے اْن کے بچے بچھڑ گئے تو پھر بھی اپنے پیاروں کے صدموں کے بوجھ تلے دبے اپنے نئے وطن کی طرف آزادی کی زندگی گزارنے کے لیے عازم سفر رہے۔ اس ملک کی آزادی کے بدلے ہمارے اجداد نے کتنے ظلم سہے اور کیا قیمت ادا کی، ان سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ مگر ایک واقعہ جو ایک انگریز جان کو نیل نے اپنی کتاب ’’اکنلیک‘‘ میں لکھا ہے اس سے مشکلات و مصائب کا ایک اندازہ سامنے آتا ہے:
’’پندرہ اگست 1947ء بھارت کے یومِ آزادی والے دن سکھوں کے ایک ہجوم نے مسلمان عورتوں کو برہنہ کر کے جلوس نکالا، جو گلی کوچوں میں گھومتا رہا۔ آخر میں جلوس میں موجود تمام عورتوں کی عصمت دری کرنے کے بعد کئی عورتوں کو کرپانوں سے ذبح کیا گیا اور باقیوں کو زندہ جلا دیا گیا‘‘۔
چند سوالات
بالآخر ان قربانیوں کے نتیجے کے طور پر 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان کے لیے ہر سال اْس دن کو یوم آزادی کے تشکر کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ میرا پاکستانیوں سے سوال ہے کہ کیا جن مقاصد کے لیے ہم نے اتنی بڑی قربانیوں کے بعد آزادی حاصل کی تھی وہ مقاصد ہمیں حاصل ہو گئے۔۔۔؟ کیا ہم آج ایک آزاد قوم کہلوانے کے حقدار ہیں؟ کیا آج ہم ہندوؤں اور انگریزوں سے آزاد ہیں یا آج بھی ہمارے حکمران متحدہ ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں کی خصلتوں کے مالک ہیں اور پاکستان سے بڑھ کر انگریز اور ہندو کے وفادار ہیں۔۔۔؟ کیا آج ہم پاکستان میں اسلامی تعلیمات پر آسانی سے عمل پیراہو سکتے ہیں یا اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا قدامت پسندی، اسلامی لباس پہننا اور مسلمانوں جیسی شکل و صورت اپنانا باعث عار و شرمندگی سمجھا جاتاہے۔۔۔؟
کیا ہم نے آزادی کے بعد جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، کرپشن، استحصال، ناانصافی، ظلم، حق تلفی جیسی برائیوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔۔۔؟ یا پھر ان تمام برائیوں کو اپنی Values Core میں شامل کر کے زندگی کا طرہ امتیاز بنا لیا ہے۔۔۔؟ کیا آج کی پاکستانی نسل اسلام کے اصل چہرے سے واقف ہے۔۔۔؟ یا تفرقہ بازی ،انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو ہی وہ اسلام سمجھ بیٹھے ہیں۔۔۔؟کیا آزادی حاصل کرنے کے بعدپاکستان میں پوری قوم کے لیے یکساں نظام تعلیم موجود ہے یا آج بھی غریب کے لیے الگ اور امیر کے لیے الگ نظام تعلیم ہے۔۔۔؟ کیا ہمیں صحت اور علاج معالجے کی بنیادی سہولیات میسر ہیں یا ہم اپنے پیاروں کو اپنے گھروں میں اپنی نظروں کے سامنے سسک سسک کر مرتا دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔۔۔؟ کیا ہم آزادی سے اپنے ووٹ (ضمیر کی آواز) کا استعمال کر سکتے ہیں۔۔۔؟ کیا ہمیں آزادی کے بعد ظالم، جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات حاصل ہے۔۔۔؟
ہر ایک پاکستانی اپنے گریبان میں جھانکے اور سوچے کہ بطور پاکستانی قوم ہماری دنیا میں کوئی مثبت شناخت ہے یا پوری دنیا میں ہم دہشت گرد اور فقیر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔۔۔؟ کیا ہم پاکستان کو اس طرح کا ماڈل ملک بنانے میں کامیاب ہوئے جس طرح بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مفکر پاکستان علامہ اقبال نے سوچا تھا۔۔۔؟ کیا ہمارے اس آزاد ملک میں اقلیتوں کو اْن کے حقوق حاصل ہیں۔۔۔؟
جشنِ آزادی اور ہماری ذمہ داریاں
اگر ایساکچھ بھی نہیں اور یقینا ایساکچھ بھی نہیں تو پھر میرا سوال ہے کہ اے قوم! جشن آزادی کس چیز کا منا رہی ہو؟ جشن آزادی تو اْن چوروں،لٹیروں اور ظالموں کا حق بنتا ہے جو پاکستان کو لوٹ رہے ہیں۔ جنہوں نے کرپشن کے ذریعے اپنی سات نسلوں کے لیے سرمایہ اکٹھا کر کے اس وطن سے کوسوں دور اپنے اپنے وطن قائم کر لیے ہیں۔غریب عوام کا لوٹا ہوا دو سو ارب ڈالر آج بھی سوئس بنکوں میں ہمارا انتظار کر رہا ہے۔کئی سو ارب ڈالر دنیا کے مختلف براعظموں میں آف شور کمپنیوں میں پڑے ہمارے ضمیر جھنجوڑرہے ہیں کہ گھر میں بیٹھ کر غربت کا رونا رونا ہے یا آگے بڑھ کر اپنا لوٹا ہوا مال واپس لاکر اپنی نسلوں کو سنوارنا اور غلامی سے آزاد کرانا ہے۔
گھر کی دہلیز کے اندر غربت کا رونا رونے سے خوشحالی نہیں آئے گی بلکہ اپنا حق لینے کیلئے ایک بار پوری قوم کو سڑکوں پر نکلنا پڑے گا۔ آج بھی ہم تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ غریب آج بھی اس ملک میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہے مگر علاج کی سکت نہیں رکھتا اور ہمارے حکمران اپنے دہشت گردوں کو لاکھوں، کروڑوں روپے دے کر اْس ملک میں علاج کے لیے بھیجتے ہیں جن سے ہمارے اکابرین نے ہمیں آزاد کرایا تھا۔
آج ہمارے حکمران اْس مکار ہندو تاجر کے اس ملک کے ساتھ تجارت کو ترجیح دیتے ہیں جن سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی۔ آج بھی ہمارے حکمران اْسی انگریز کے پٹھو (عمیل) ہیں جس سے قائداعظم نے ہمیں آزاد کیا۔ آج ہمارے حکمرانوں نے اپنے کاروبار کو بچانے کی خاطر کشمیر کی عوام کی جانوں کا سودا کررکھا ہے۔ آج اس آزاد مسلمان ملک میں ہماری ماؤں، بہنوں کی عزت محفوظ نہیں۔ آج اس ملک میں مائیں اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بعد دروازے پر نظریںجمائے بیٹھی ہوتی ہیں کہ اْن کے لال واپس کس حالت میں آئیں گے۔
میرے بھائیو، دوستو، پاکستانیو! 2016ء کے یوم آزادی پر ہمیں سوچنا ہو گا، ضرور سوچنا ہو گا اور فیصلہ کرنا ہو گا کہ اگر اس ملک میں وہ سب کچھ نہیں ہو رہا جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔۔۔ وہ سب کچھ نہیں ہو رہا جو عوام کی بہتری کے لیے تھا۔۔۔ اور وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو حکمران طبقے اور اشرافیہ کی عیاشی کے لیے ہے تو کیا ہمارا کام جشن آزادی منانا ہے یا آزادی کے لیے جدوجہد کرنا۔۔۔؟ جس ملک کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے آباء و اجداد نے جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دیں کیا اْس ملک کو بچانا ہمارا فرض نہیں۔۔۔؟ اگرہے تو ہم نے یہ فرض ادا کرنے کے لیے کیا کردار اداکیا ہے۔۔۔؟ کیا ہم نے کسی پاکستان بچائو مہم یا تحریک کا ساتھ دیا یا پھر ظالمانہ نظام کے خلاف چلنے والی تحریکوں کی مخالفت کی۔۔۔
ظالمانہ نظام کے سامنے کلمہ حق کہنا ایمان کی اعلی علامت ہے اور الحمدللہ تعالیٰ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک نے یہ علامت پوری کی ہے اور کر رہی ہے مگر ہم من حیث القوم ایمان کے کس درجے پر فائز ہیں؟ ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ہم کہیں انجانے میں ریاست بچائو تحریک کی مخالفت کر کے اعلی برائی کا مظاہرہ تو نہیں کر رہے اور ہمیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم پاکستانیت سے نکل کر سیاسی و مذہبی گروہوں میں تقسیم ہو کر انجانے میں اْن لوگوں کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں جو پاکستانی عوام کی آزادی اور حقوق کے حصول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور اگر مخالفت نہیں بھی کرتے تو خاموش تماشائی بنے بنی اسرائیل کی قوم کی طرح سب کچھ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی ہماری جان چھڑائے تو ٹھیک ورنہ ہم تو دو وقت کی روٹی کے لئے مجبور ہیں، اتنا وقت اور پیسہ کہاں کہ ایک بار پھر اس نظام سے چھٹکارے کے لئے دھرنا دیں یا سڑکوں پر نکلیں۔
پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں مکار حکمرانوں اور اشرافیہ سے آزادی اور عوامی حقوق کے حصول کی جنگ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی سرپرستی میں صرف پاکستان عوامی تحریک نے لڑی۔ جس میں 17 جون 2014ء کو جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔ظالم و جابر حکمرانوں نے ہر سطح پر ڈرا کر خاموش کرانے کی پوری کوشش کی مگر قائد انقلاب کی نڈر قیادت میں کارکنان کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی۔ حتیٰ کہ اس جدوجہد میں تاریخ کا طویل ترین دھرنا بھی دیا گیا۔ ہماری اس کوشش کے باوجود عوام خاموش تماشائی بنی رہی۔ مگر قائد انقلاب نے آزادی کی اس جدوجہد کو جاری رکھا اور آج اْن کی کہی ہوئی چیزیں قوم کے سامنے حقیقت بن کر آ رہی ہیں اور حکمرانوں کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے شروع کی جانے والی یہ تحریک آزادی جاری ہے بلکہ اب نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ جس طرح اس ملک کے بنانے میں ہمارے والدین نے قربانیاں دی تھیں اسی طرح اس ملک کو ظلم کے پنجہ استبداد سے چھڑانے کے لیے بھی قربانی پیش کریں۔فیصلہ ہمارا ہے کہ سنت حسینی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں یا بھوک اور بیماریوں سے اپنے پیاروں کو مرتا دیکھتے ہیں۔
اگرچہ اب پاکستان کو بچانے کیلئے پہلے کی طرح کی قریانیوں کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی اگر ہم خاموش تماشائی بنے رہے اور ایک دو وقت کی روٹی اور نوکری کے ڈر کے مارے میدان میں نہ نکلے ،ظالموں سے چھٹکارے کے لیے احتجاج نہ کیا، اپنے آباء کی قربانیوں کی لاج نہ رکھی تو یقینا فرشتے ہماری مدد و نصرت کو نہیں اتریں گے۔ حصول آزادی کے شہداء کی روحیں تڑپ تڑپ کرپوچھ رہی ہیںکہ آپ کون سا جشن آزادی منا رہے ہیں؟کیا ہم نے اس لیے قربانیاں دی تھیں کہ دو فیصد طبقہ عیاشی کرے اور عوام بھوکی مرے؟۔پاکستانیو: سوچیںکیا ہماری رگوں میں وہی غیرت مند خون ہے جس کے ذریعے انگریز و ہندو کے تسلط سے اس ملک کو آزاد کرایا گیا تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر جشن آزادی منانے کا وقت نہیں بلکہ آزادی حاصل کرنے کا وقت ہے۔
کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے
لہٰذا وہ لوگ جو باضمیر و باغیرت ہیں، پاکستانی ہیں اور حصول پاکستان کا مطلب سمجھتے ہیں وہ پہلے اس ملک کو آزاد کرانے میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں شروع کی جانے والی اس تحریک کا ساتھ دیں،ظالم نظام سے چھٹکارا حاصل کریں اور پھر آزادی کا جشن منائیں۔ آج کا یوم آزادی تجدید عہد کا دن ہے، آج کے دن اپنی یادداشتوں کے دریچوں میں جھانکیں، سوچیں اور پاکستان کو بچانے کے لیے اپنی کاوشوں،قربانیوں کاحصہ ڈالیںاوراپنی آنے والی نسلوںکو غلامی اور محرومی سے بچا کر آزادی کا تحفہ دیں۔
تبصرہ