سانحہ ماڈل ٹاؤن : پہلی بار اہم تصویری، ویڈیو ثبوت انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش
فوٹو گرافر قاضی محمود نے تصویری ریکارڈ عدالت میں پیش کیا، تین
کیمرہ مینوں نے بھی گواہی دی
رات 10 بجے سے لیکر دوپہر 2 بجے تک ماڈل ٹاؤن میں موجود تھا اور ظلم کی لمحہ بہ لمحہ
داستان کیمرے میں محفوظ ہے:
فوٹو گرافر قاضی محمود تصاویر کا پلندا لیکر عدالت پہنچ گئے، مزید سماعت 6 ستمبر کو
ہو گی
لاہور (31 اگست 2016) سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے سلسلے میں عوامی تحریک کے مزید 4 گواہوں نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اپنا بیان قلمبند کروایا۔ فوٹو گرافر قاضی محمود الاسلام سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے تصاویر کا پلندا لیکر عدالت پہنچ گئے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ میں 16 جون کی رات 10 بجے سے لیکر 17 جون دوپہر 12 بجے تک جائے وقوعہ پر موجود رہا اور پنجاب پولیس کے مظالم کی لمحہ بہ لمحہ تصاویر میرے کیمرے میں محفوظ ہیں اور انہوں نے اس موقع پر افسران اور اہلکاروں کی فائرنگ کرنے کی تصاویر بھی جمع کروائیں۔ دیگر تین گواہوں قیصر محمود کیمرہ مین، شیراز ملک کیمرہ مین اور کاشف سعید نے بھی اپنا بیان قلمبند کروایا اور سانحہ کے ویڈیو کلپس جمع کروائے۔ ویڈیو کلپلس میں ڈی آئی جی آپریشن راناعبدالجبار اور دیگر افسران وقوعہ کے روز منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں موجود ہیں۔ کیمرہ مینوں نے متعدد پولیس افسران، کانسٹیبلوں کی فائرنگ کرنے کے ویڈیو ثبوت بھی عدالت میں پیش کیے۔ مزید سماعت 6 ستمبر کو ہو گی۔
پاکستان عوامی تحریک کے وکلاء رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ، نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، سردار غضنفر حسین ایڈووکیٹ اور چودھری شکیل ممکا نے بعدازاں عدالت کے احاطہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق اہم تصویری اور ویڈیو ثبوت عدالت کے ریکارڈ پر لائے ہیں۔ حکمران اور پولیس افسران ان شواہد سے کسی صورت انکار نہیں کر سکتے۔ پولیس کی طرف سے جو چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کروایا گیا ہے اس میں پولیس افسران نے یہ کہا ہے کہ وہ جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے۔ ان ثبوتوں سے ان کا جھوٹ بے نقاب کیا ہے۔ فوٹو گرافر قاضی محمود الاسلام نے کہا کہ تصاویر بناتے ہوئے ایک اہلکار نے سب مشین گن کا بریسٹ مارا مگر اللہ کو میری زندگی منظور تھی میں دیوار کی آڑ لینے پر بچ گیا۔ قاضی محمود الاسلام پولیس اہلکاروں کے مظالم بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گیا۔
تبصرہ