ایکشن پلان کے قومی ڈاکومنٹ کیساتھ حکومت نے 18 ماہ شرمناک سلوک کیا: ڈاکٹر طاہرالقادری

اختلافات کے باوجود ایکشن پلان کی حمایت کی مگر اس قومی اتفاق رائے کا مذاق اڑایا گیا
نیا ٹائم فریم نیا دھوکہ ہے، مسئلہ کشمیر پر سیاست ہورہی ہے، وزیراعظم کا کردار سوالیہ ہے، ٹیلیفونک خطاب
بے گناہوں کے قاتل حکمرانوں کو ملکی مفاد عزیز نہیں، ہزارہ کمیونٹی خواتین کی ٹارگٹ کلنگ قابل مذمت ہے
وکلاء پینل کو جوڈیشل کمیشن رپورٹ استغاثہ کیس کا حصہ بنانے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کرنیکی ہدایت

لاہور (5 اکتوبر 2016) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ایکشن پلان کے قومی ڈاکومنٹ کے ساتھ حکومت نے 18 ماہ شرمناک سلوک کیا۔ نیا ٹائم فریم نیا دھوکہ ہے حکمران دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ نہیں چاہتے۔ مسئلہ کشمیر پر بھی سیاست ہورہی ہے جس کا مقصد پانامہ لیکس کے احتساب اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قصاص سے توجہ ہٹانا ہے۔ وزیراعظم کا کردار سوالیہ ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کی خواتین کی ٹارگٹ کلنگ قابل مذمت اور حکومت کی نااہلی ہے۔ کرپٹ اور بے گناہوں کے قاتل حکمران ملکی مفاد کا تحفظ نہیں کر سکتے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سنٹرل کور کمیٹی کے ممبران سے ٹیلیفون پر کیا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کور کمیٹی کے ممبران کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کو انسانی حقوق کے فورمز پر اٹھانے کے حوالے سے وکلاء سے ہونے والی مشاورت کے بارے تفصیل سے آگاہ کیا اور بتایا کہ کیس کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اہم آڈیو، ویڈیو تحریری، تقریری مواد کو اس کیس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے قصاص سے کم پر کوئی بات نہیں ہو گی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے جسٹس باقر علی نجفی کی رپورٹ کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں دائر استغاثہ کے ریکارڈ کا حصہ بنائے جانے کے خلاف فیصلہ کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کے حوالے سے وکلاء کو ہدایات جاری کیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم شہدائے ماڈل ٹاؤن کو انصاف دلوانے کیلئے اتمام حجت کے طور پر تمام قانونی ذرائع اختیار کررہے ہیں۔ بے گناہوں کے قتل عام کے بعد انصاف کے خون پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔

انہوں نے قومی ایکشن پلان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حکومت سے تمام تر اختلافات کے باوجود ایکشن پلان کے قومی ایجنڈے کو سپورٹ کیا تھا کیونکہ ملک اور قوم کا مفاد ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے مگر کرپٹ اور قاتل حکمرانوں نے اس قومی اتفاق رائے کا مذاق اڑایا اور اس قومی ڈاکومنٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اب ان پر کسی صورت اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 16 دسمبر سانحہ اے پی ایس کے بعد ایکشن پلان تشکیل دیتے وقت قوم کو امید دلائی گئی تھی کہ اس کی ہر شق پر عمل کر کے پاکستان کو دہشت گردی، انتہا پسندی، معاشی دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے پاک کیا جائیگا مگر عملاً ایسا نہیں ہو سکا اور مسلسل 18 ماہ قوم اور ملکی اداروں کیساتھ کھیل کھیلا جاتا رہا۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد سال 2015ء میں سانحہ شکار پور ہوا، پشاور میں پاک فضائیہ کے کیمپ پر حملہ ہو، ا جیکب آباد میں محرم کے جلوس پر حملہ ہوا، پختونخوا میں نادرا آفس پر حملہ ہوا اسی طرح سال 2016ء میں کوئٹہ پولیس مرکز میں خودکش حملہ ہوا، شبقدر کچہری میں خودکش دھماکہ ہوا، کوئٹہ سول ہسپتال میں خودکش دھماکہ ہوا، سانحہ گلشن پارک لاہور ہوا۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد 30 سے زائد دہشتگردی کے بڑے واقعات ہوئے جن میں سینکڑوں شہری شہید اور زخمی ہوئے۔ قومی سلامتی کے اداروں کے افسران اور اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا مگر حکمران نہ صرف اس پر خاموش رہے بلکہ میگا کرپشن کرتے رہے۔ اب پھر قومی ایکشن پلان کی شقوں پر عملدرآمد کے ٹائم فریم کی باتیں کر کے قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ اجلاس منعقد کرنے کا تکلف صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں آرمی چیف ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں ورنہ قوم بھول جاتی کہ کوئی ایکشن پلان بھی بنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ن لیگ دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں برسراقتدار آئی ہے یہ کبھی بھی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہیں کرینگے کیونکہ ان کا اور انتہا پسندوں کا ایجنڈا ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن وہ واحد تحریک ہے جس نے قوم کو امن نصاب دیا۔ انتہا پسندی اور دہشت گردوں کی خارجی فکر کے بارے میں قوم بالخصوص نوجوانوں کو ایجوکیٹ کیا۔ 600 سے زائد صفحات پر مشتمل خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ دیا۔ دحکمران اس خارجی فکر کے خاتمے اور مقابلے میں سنجیدہ ہوتے تو ہمارے اس تحقیقی کام سے استفادہ کرتے۔ ان کی ترجیحات میں ملکی بقاء، پائیدار امن کا قیام اور عوام کے جان و مال کا تحفظ نہیں ہے انہیں صرف اپنی سیاست، کرسی اور میگا کرپشن عزیز ہے۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top