جب تک ام الفساد اور اصل الفساد کا خاتمہ نہیں ہو گا رد الفساد کامیاب نہیں ہو گا: ڈاکٹر طاہرالقادری
دہشتگردوں کے وجود ختم کرنے سے نہیں جڑیں کاٹنے سے دہشتگردی ختم ہو گی
لاہور (26 فروری 2017) پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ جب تک ام الفساد اور اصل الفساد کا خاتمہ نہیں ہو گا آپریشن رد الفساد کامیاب نہیں ہو گا۔ پاکستان میں دہشتگردی میں اگر ہمسائیہ ملک ملوث ہیں تو انہیں بے نقاب کرنا حکومت کے سوا اور کس کی ذمہ داری ہے، وجود ختم کرنے سے نہیں دہشتگردی کی جڑیں کاٹنے سے امن آئے گا ورنہ سانپ انڈے دیتا رہے گا اور بچے پیدا ہوتے رہیں گے۔
انہوں نے اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے میرا تبصرہ ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ والا ہی ہے، میں اس حواے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھ رہا تا ہم اللہ سے دعا ہے کہ میری رائے کے بر عکس عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ آ جائے، مجھے لگ رہا ہے پانامہ لیکس حکمرانوں کا انتخابی مواد بنے گا اور وہ اس سے الیکشن میں فائدہ اٹھائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے اپنی شفافیت ثابت کر دی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق فوجی عدالتوں کو توسیع دینے کے حوالے سے حکومت نے جو ترمیمی ڈرافٹ تیار کیا ہے اس میں سے مذہبی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی دہشتگردی کے الفاظ نکال کر وہاں پر ریاست کے خلاف بھیانک اقدامات کو شامل کیا جا رہا ہے، اگر ایسا ہوا تو پھر فکری اور نظریاتی دہشتگردی کو آئینی و قانونی تحفظ ملے گا اور حکومت کے خلاف اختلاف رائے کا اظہا ر کرنے والے اس ترمیم کی زد میں آئینگے جس سے حکومت اپوزیشن کو کچل کر رکھ دے گی۔ اس مبینہ ڈرافٹ کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اور دہشتگردی کا گٹھ جوڑ پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ کلبھوشن کا نام سن سن کر کان پک گئے مگر وزیراعظم لب کھولنے کیلئے ابھی تک تیار نہیں۔ موجودہ حکمرانوں کولانے اور بچانے میں انڈیا کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران اگر سمجھتے ہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کروا رہا ہے تو پھر یہ اسکا نوٹس کیوں نہیں لیتے۔ پاکستان کی سلامتی اور بقا کی خاطر انتہائی اقدام سے گریز کیوں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دہشتگردی کے تین چہرے ہیں ایک چہرہ غیر ملکی،دوسرا وفاقی حکومت اور تیسرا پنجاب حکومت ہے، یہ انتہا پسند اور کالعدم تنظیموں سے مل کر الیکشن لڑتے ہیں اور حکمرانوں کو انکی بھر پور سپورٹ حاصل ہے۔
تبصرہ