آہ! شیخ الحدیث صاحب الوداع

Shaykh-ul-Hadith Allama Muhammad Miraj-ul-Islamمخدوم ملت، شیخ الحدیث، واقف رموز طریقت، استاذ الاساتذہ، نیر تاباں، یادگارِ اسلاف، عاشق ساقی کوثر، منبع جود و سخا، وارث محراب منبر، وارث علوم حدیث، ولی کامل، جامع ہستی، استاد علامہ محمد معراج الاسلام صاحب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

تمہاری نیکیاں زندہ، تمہاری خوبیاں باقی

اساتذہ الاساتذہ شیخ الحدیت محدث امام المدرسین، شیخ الفقہ و تفسیر، شارح بخاری، مترجم قرآن العظیم، عاشق صادق علم کے بحر بے کراں، روشن روایات کے امین، روشن جیبن اور روشن قلب کے مالک، جرات و خوداری کی علامت، منبع تصوف و طریقت، یادگار اسلاف علم حدیث پہ سند، روشن خیال و افکار عالم با عمل، فدائے ساقی کوثر، کشتہ عشق رسول ﷺ، قال قال رسول ﷺ کے داعی، نفیس و وضع دار ہستی، عاشق رسول ﷺ، اہل بیت کے در پہ صدا لگانے والا درویش، مطہر و طیب ہستی، چلتا پھرتا فرشتہ، رشک خلد، رشک ملائک، رشک فلک، جناب سیدی و اساتذی جناب محترم علامہ معراج اسلام صاحب گزشتہ 60 سالوں سے شیخ الحدیث کی مسند پہ متمکن ہیں۔

دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف اور جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن میں گزشتہ 30 سال سے بخاری شریف اور مسلم شریف کے دورہ حدیث کروا رہے تھے۔ پوری زندگی رمضان المبارک میں قرآن مجید سناتے، یہ معمول تقریبا 70 سال سے تھا۔ اک دوریش ہستی جس نے علم حدیث کی شمع یوں روشن کی کہ آج دینا کے کونے کونے میں ان کے تلامذہ آقا علیہ اسلام کی محبت کے دیپ جلا رہے ہیں۔ ساری زندگی مال و زر کی محبت سے کوسوں دور یہ درویش ہستی مثل امام مالک رضی اللہ عنہ حدیث کی تعلیم میں مصروف رہے۔ کسی سے جھگڑا تو درکنار تلخ لہجے اور انچی آواز میں بات بھی نہیں کی ہوگی۔ مجھے شرف حاصل ہے کہ میں صبح سویرے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن ٹاؤن شپ کے ہاکی کے گرؤانڈ میں جا کر ان کی دست بوسی کرتا اور ان کا بیگ ہاتھ میں پکڑ کےمیٹھی باتیں سنتے ہوئے حدیث کی کلاس میں حاضر ہو جاتا۔ اک بھینی سی خوشبو پورے کمرے میں ان کی آمد سے پھیل جاتی۔ اجلا لباس، سالوں کی ریاضت سے دمکتا مکھڑا، چہرے پہ محبت رسول کی شتابی، دل کو موہ لینے والی مسکراہٹ، دھیمہ لہجہ، پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں آنسو۔۔۔ یہی شیخ الحدیث صاحب کا اثاثہ تھے۔ وہ طلبہ کو امتحان کے لیے خوب تیاری کرواتے، مگر کبھی کسی طالب علم کو فیل نہیں کیا۔ کبھی کسی طالب علم کو نہیں ڈانٹا، کسی معاصر کی عیب جوئی نہیں کی۔ حدیثِ رسول اس درویش کی آخری اور پہلی محبت تھی۔ ہم دوست ہزار بار بھی ملیں یاد نہ رکھتے یاد کروانے پر مسکراتے کہ اچھا آپ وہ ہی ہیں۔ دنیاوی مال و دولت تو ان کے پاس نہ تھا ساری زندگی اعوان ٹاون سے جامعہ تک پبلک بس پر سفر کیا لیکن احترام اور عزت و رفعت کا یہ عالم کہ پوری دینا میں ان کے تلامذہ اور طالب ادب سے دست بوسی کرتے اور سر جھکا کے کھڑے ہوتے۔ ہم نے کئی دفعہ بڑے مشائخ علماء کو ان کے سامنے سر جھکا کے کھڑے دیکھا اور خود شیخ السلام ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو بھی ان کی محبت میں اسیر دیکھا ہے۔ یہ نابغہ روزگار ہستی جب بخاری شریف کی شرح کرتی ہے تو علم کے سمندر لوٹاتی ہے یہ ہستی جب گنبد خضری کے مکین لکھتی ہے تو بڑے بڑے ادبا اور عاشق انگشت بدندان ہو جاتے ہیں۔

میرے شیخ الحدیث کی یہ بھی کرامت ہے کہ آج ان کے طلباء منہاجینز کا سالانہ اجتماع لاہور میں ہو رہا ہے کہ خبر ملی شیخ الحدیث صاحب دنیا میں نہیں رہے۔ کافی عرصے سے علیل تو تھے ہی لیکن میر ا وجدان کہتا ہے کہ یہ سارا اجتماع میرے شیخ الحدیث صاحب کے سفر وداع کے لیے سج رہا ہے اور حضور شیخ الحدیث بھی اسی دن کے منتظر تھے کہ میرے طلباء درود وسلام کی صداوں میں مجھے الوداع کہیں۔ میں یہ تحریر گوشہ دورد میں نم آنکھوں کے ساتھ لکھ رہا ہوں مجھے یقین ہے کہ آج اس ہستی کا اگلے جہاں میں بھی معطر اور روشن چہروں والے استقبال کریں گے ایسا کیوں نہ ہو گا یہی تو وہ لوگ ہیں جو اللہ سے راضی ہیں اور اللہ ان سے راضی ہے۔ میرے کریم آقا کے منظور نظر بھی ہیں اور غوث اعظم کے لاڈلے بھی ہیں۔ آج دنیا میں ساری عمر رسول اللہ کی حدیث پڑھانے والا عالم دلہا بن کے رخصت ہو گا۔

اللہ تعالی اس مقدس ہستی کے طفیل ہمارے احوال پر رحم کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

خدایا رحم کن ایں عاشقان پاک طینت را

طالب شیخ الحدیث
نعیم گھمن

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top