کشتہ عشق رسول ﷺ سے بھرپور شخصیت ۔۔شیخ الحدیث معراج الاسلام رحمۃ اللہ علیہ
تحریر: بشارت علی چوہدری
شیخ الحدیث علامہ معراج الاسلام ۔۔ ایک فرد نہیں ۔ایک تاریخ ہیں ۔۔ وہ بھی ترو تازہ۔۔ شگفتۃ۔۔ ۔ ادب و محبت نبیﷺ سے لبریز۔۔۔۔ الوہی چاشتی سے مرقع۔۔ جو دل کے نہاں خانوں میں ۔۔ خلوص ۔۔ محبت ۔۔وارفتگی ۔۔۔ رواداری۔۔ ۔ احوت ۔۔۔ حسن اخلاق اور سب سے بڑھ کر ۔۔۔اپنے نبی ﷺ کی محبت جگاتی ہے۔۔۔جو زباں میں حلاوت پیدا کرتی ہے۔۔۔جو قلب کو رقت آمیزی سے نوازتی ہے۔۔۔جو آنکھوں کو نمی فراہم کرتی ہے۔۔۔۔ جو آداب مصطفویﷺ کی آئینہ دار ہے۔۔ ۔جو جینے کی امنگ ہے۔۔۔جو اُمید کی ایک کرن ہے۔۔۔صرف یہی نہیں شیخ الحدیث صاحب کی شخصیت عشق نبی ﷺ میں ایسی گوندھی گئی شخصیت ہے جوبھی ان سے اکتساب کرتا ہے۔ عشق نبویﷺ کی چند چنگاریاں انکو بھی میسر آجاتی ہیں ۔۔ جو انکی کتب سے فیض یاب ہوااسکو الفاظ برتنے کا سلیقہ آگیا۔براہ راست ان کی صحبت میں بیٹھا ۔۔۔ مذہبی، روحانی اور اخلاقی قدروں کو سمیٹتا چلا گیا۔تشگان علم نے انکی حیات میں بھی اپنے علم کی پیاس بجھائی اب انکی ظاہری حیات کے بغیر ان کی کتب ان کے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔۔۔فصاحت و بلاغت کے اسرار ورموز ہوں۔۔۔ یا منطق کے دقیق قضیئے ۔۔ صرف و نحو کی پپچیدگیاں ہوں یا اصول حدیث و تحریج کے قواعد و اشکلات ۔۔۔ شیخ الحدیث صاحب کا طرہ امتیاز تھاکہ آسان پیرائے میں طلبہ کے ذہن میں بات ڈال دیتے تھے۔وہ لباس میں بھی نفیس تھے ۔۔۔ گفتگو میں بھی شگفتہ مزاج۔۔۔ ہم نے دوران تلمذ کبھی ان کے چہرے پر ناگواری نہیں دیکھی۔ ۔۔ اتنی شفقت ۔۔ اتنا پیار کی لامحالہ سب انکے احترام کے لئے کھنچے چلے جاتے ہیں۔۔۔مجھے بار ہا ان کی ’’دست بوسی‘‘ اور ’’قدم بوسی‘‘ کا شرف حاصل رہا۔۔۔انکے کمرے کی صفائی کرنا۔انکے کتب کے بیگ کو پکڑ کر پیچھے چلنا میری زندگی کے خوش کن لمحات میں سے ہیں۔مجھے کبھی ــ’’بشارت ـ‘‘ کہ کر پکارتے تو کبھی ـ’’ مبشر‘‘ میںعرض کرتا’’میرانام بشارت ہے‘‘۔وہ فرماتے’’ ایک ہی بات ہے۔‘‘۔۔’’تم ہے تو خوشخبری بشارت کے نام سے ہو یا مبشر کے نام سے۔۔‘‘
مجھے اکثر تلقین کرتے کہ اعینک اتار دو۔ بلکہ وہ خود کلاس میں میں میری عینک اتروا دیا کرتے تھے۔اور سونف، الائچی، گاجر کا جوس پینے کا کہتے کہ اس سے نظر ٹھیک رہیتی ہے۔۔۔کبھی کبھی تو خود گھر سے پراٹھا بنا کر لاتے ساتھ سوجھی کا حلوہ اور کالج کینٹین پر بیٹھا کر کھلاتے اور گاجر کا جوس بھی منگواتے۔۔ ۔ مجھے اپنے منہ سے ایک ہی وقت میں ڈھیر ساری آوازیں نکالنے کی پریکٹس تھی ۔وہ آوازیں اُس انداز میں منہ سے نکلتی کہ ایک قسم کی موسیقی بن جاتی ۔اس منہ کی موسیقی میں غزل کی شکل میں اچھا کلام بھی انہوں نے سنا۔ اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ گلے میں ذکر کی آواز نکالتا اور محمد سرور صدیق یا نذر اقبال کوئی نعت پڑھتے ۔۔۔وہ فن حدیث میں اتھارٹی ہونے کے ساتھ وسیع الذہن اور وسیع القلب انسان بھی تھے۔وہ روحانی اور سلاسل کے اعتبار سے’’ وسیع المشرب‘‘ بھی تھے ۔ کبھی ان کے’’ انہماک ‘‘اور’’ استغراق‘‘ سے گمان ہوتا نقشبندی ہیںکبھی قوالی میں ان کی شرکت اور ذوق انکے چشتی ہونے پر دال لگتا۔۔۔کبھی قادری رنگ نمایاں ہوتا۔۔۔نحو کے اسباق کے دوران اکثر فرمایا کرتے کہ سبق کو سو دفعہ دھرانا ہے۔۔۔ ہاسٹل میں جا کر ۔۔ اگلے دن جب سبق سنتے ۔۔۔اگر کوئی غلطی پائی جاتی تو فرماتے کہ ’’ تم نے سو دفعہ دھرایا تھا‘‘ اگر کہیں’’ نہیں ‘‘تو فرماتے’’ اسی وجہ سے غلطی ہو رہی ہے‘‘۔۔۔
احادیث کے اسباق میں بھی بہت جدید رہتے ۔ ۔۔احادیث کے افادات لکھواتے وقت موجودہ دور پر اس حدیث کا اطلاق بھی واضح فرماتے۔۔۔ زمانہ طالب علمی میں پتہ چلا تھاکہ وہ قرآن پاک کا ترجمعہ بھی کر رہے ہیں۔۔ ۔ابھی زندگی کے آخری آیام میں ان کا یہ کام بھی تکمیل کے مراحل سے گزر کر طباعت سے ہمکنار ہو چکا ہے۔ بیماری کے دوران دو دفعہ شرف ملاقات ملا۔۔قدموں میں بیٹھا۔۔ ۔ نم آنکھوں کے ساتھ پندونصائح سنتا رہا۔۔انہوں نے چہرے اور گردن پر بوسہ دیا۔۔انکے’’ لمس ‘‘کو آج بھی محسوس کر سکتا ہوں۔۔ ۔انکے ہاتھوں سے میرے لئے لکھی گئی تحریر نصیحت سے بھرپور ہے۔ ۔۔ شاید اس میں اصل کامیابی کا راز ہے۔ جسکا مفہوم یہ ہے کہ’’ اپنی اولاد کو محبت رسولﷺ سکھانا‘‘۔
جب وہ تحریر لکھ رہے تھے اور اپنی زبان سے ارشاد فرما رہے تھے ۔تو زبان محبت نبی ﷺ سے سرشار تھی۔۔۔اور انکھیں اشکبار تھیں۔۔ ۔آخری ملاقات گزشتہ سال رمضان میں انکی رہائش گاہ پر ہوئی ۔۔۔تب بھی کمال شفقت فرمائی ۔۔۔پھر بھی محبت رسولﷺ کی ہی تلقین کی۔۔۔ شیخ الحدیث صاحب کی ہستی ہمہ گیر تھی۔۔ ۔انکی شخصیت کے کئی گوشے ابھی آشکار ہوں گے۔۔۔ انکے فیوضات کا سلسلہ جاری رہے گا۔۔۔انکی کتب علم کے پیاسوں کی پیاس بجھاتی رہیں گی۔۔۔ انکے وصال سے امت مسلمہ کا بہت بڑا علمی و روحانی نقصان ہو اور یہ خلا کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔۔۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ حضور شیخ الحدیث علامہ معراج الاسلام کے درجات بلند فرماتے ہوئے حضورﷺ کی خاص قربت میں جگہ عنایت فرمائے اور انکے علمی فیوضات کو سمیٹنے کی ہم سب کو توفیق دے۔ آمین۔
تبصرہ