شہدائے ماڈل ٹاؤن کے خون کے قطرے قطرے کا حساب لیں گے
17 جون 2014 ء کے دن ظالم نظام کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں میں دو بہنیں شازیہ مرتضیٰ اور تنزیلہ امجد بھی شامل تھیں، تیسری برسی کے موقع پر ہم اپنی ان بہنوں کیلئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اس کے ساتھ ساتھ ہم شہید بہنوں کے اہل خانہ کے عزم اور استقامت کو بھی سلام پیش کرتے ہیں کہ وہ تین سال سے انصاف بشکل قصاص کی جدوجہد میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے شانہ بشانہ برسر پیکار ہیں،انشاء اللہ تعالیٰ انصاف ہو گا ،قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے اور مصطفوی انقلاب کا سویرا ظلم کے سیاہ دھبوں کو مٹائے گا اور پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہو گا اور ریاست پاکستان حقیقی معنوں میں غریب اور کمزور شہریوں کیلئے ماں کی آغوش ثابت ہو گی ،جس میں کوئی ظالم دولت، طاقت اور ریاستی اختیار کے بل بوتے پر کسی کا استحصال نہیں کر سکے گااور دو شہید بہنوں کی قربانیوں سمیت 14 شہدائے ماڈل ٹاؤن اور شہدائے اسلام آباد کا خون رنگ لائے گا، اللہ کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے مگر اندھیر نہیں ۔شہید بہنوںسمیت 14 شہداء کے قاتل شریف برادران ہیں جن کے خلاف آج بھی ایف آئی آر درج ہے اور وہ غیر جانبدارانہ تفتیش کی طالب ہے، جس دن شہدائے ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر پر غیر جانبدار جے آئی ٹی تشکیل پائی وہی دن قانونی اعتبار سے قاتلوں کے چہرے سے نقاب ہٹنے کا پہلا دن ہو گا ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اندوہناک واقعات کے گواہ پاکستان کے 19 کروڑ عوام ہیں جنہوں نے قومی الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ریاستی قتل و غارت گری کے تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اس کے باوجود قاتلوں کو سزا دینے کیلئے منصفوں کو ثبوت نہیں مل رہے، شہدائے ماڈل ٹاؤن کی قاتل مقتدر ’’اشرافیہ ‘‘ہے، یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ اشرافیہ کا تشکیل دیا گیا جوڈیشل کمیشن بھی اس کی گواہی دے رہا ہے، آج تیسری برسی کے موقع پر ہم ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ جسٹس علی باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو شائع کیا جائے تاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے قاتلوں کو کٹہرے میں لایا جا سکے، 17 جون 2014 ء کے دن پنجاب کے قاتل اعلیٰ نے اعلان کیا تھا کہ میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دے رہا ہوں اور کمیشن کا جو فیصلہ آئے گا میں اسے تسلیم کروں گا اور اگر کمیشن نے میری طرف اشارہ کیا تو استعفیٰ دے دوں گا، آئیے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا ایک پیرا گراف پڑھتے ہیں جس میں قاتلوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ کا حصہ ہے جسٹس علی باقر نجفی لکھتے ہیں کہ’’سانحہ ماڈل ٹاؤن انتظامیہ کی ناکامی تھی جس میں پولیس کی طرف سے نہتے افراد پر گولیاں چلائی گئیں، اس سانحہ میں اس قدر وسیع پیمانے پر پولیس کی طرف سے فائرنگ کسی ذمہ دار اتھارٹی کے حکم کے بغیر کرنا ممکن نہیں تھا ‘‘ رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے ٹربیونل میں داخل کیے گئے حلف نامے میں تضاد ہے، وزیراعلیٰ نے کمیشن میں داخل حلف نامے میں کہا کہ اس واقع کی اطلاع ملتے ہی انہوں نے متعلقہ اتھارٹیز کو اس بات کا حکم دیا کہ پولیس کو فوری طورپر ہٹا لیا جائے مگر سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور وزیراعلیٰ کے سابق پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ نے اپنے حلف ناموں میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ وزیراعلیٰ نے ان کو کوئی ایسا حکم دیا۔ قارئین دختران اسلام کی معلومات کیلئے یہاں رقم کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خصوصی ہدایات اور سرپرستی میں قانونی جنگ کس مقام پر کھڑی ہے، اس حوالے سے عرض ہے کہ آپ کے علم میں ہے کہ پولیس نے شہدائے ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا تھا یہ ایف آئی آر عدالت کے حکم پر بھی درج نہ ہو سکی تو پھر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر ایف آئی آر درج ہوئی ۔حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر عوامی تحریک کے کارکنان کے خلاف درج کروا دی تھی ،پولیس کی معیت میں درج ایف آئی آر نمبر 510 میں الزام لگایا گیا کہ عوامی تحریک کے 14کارکنوں کو عوامی تحریک کے 42کارکنوں نے شہید کیا اور دھوکہ دہی کیلئے 5پولیس اہلکاروں کو بھی فائرنگ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور چالان بھی عدالت میں پیش کر دیا ،انسداد دہشتگردی کی عدالت نے دونوں ایف آئی آرز پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع کر دی ،سربراہ عوامی تحریک نے اے ٹی سی کی برق رفتار کارروائی سے بھانپ لیا کہ کیس کو داخل دفتر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ،لہذا انکی ہدایت پر استغاثہ دائر کر دیا گیا۔ استغاثہ مارچ 2016 میں دائر کیا گیا اور فوجداری مقدمات اور ٹرائل کورٹ کے بہترین وکلاء کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ۔استغاثہ دائر ہونے کا قانونی فائدہ یہ ہوا کہ اے ٹی سی پولیس کے چالان اور ’’حکومتی ساختہ‘‘ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں جو فیصلہ سنانا چاہ رہی تھی اسے بریک لگ گئی۔ استغاثہ کے تحت10ماہ تک عوامی تحریک کے 56گواہان نے اپنے بیانات قلمبند کروائے ،بیانات ریکارڈ کروانیوالوں میں مرکزی رہنما خرم نواز گنڈا پوراور فیاض وڑائچ بھی شامل تھے ۔استغاثہ منظور ہو چکا ہے جس میں آئی جی پنجاب سمیت ماڈل ٹاؤن آپریشن میں حصہ لینے والے تمام پولیس افسران اور اہلکاروں کو طلب کیا گیا ہے ،عوامی تحریک کی طرف سے شریف برادران کو طلب نہ کیے جانے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا ہے فی الوقت پوری توجہ قانونی جنگ پر مرکوز ہے اس جنگ میں بھی قدم قدم پر یزیدی سوچ اور مزاحمت کا سامنا ہے تاہم قائد محترم کا فیصلہ ہے کہ اتمام حجت کیلئے قانونی جدوجہد کے تمام تقاضے پورے کیے جائینگے ،قصاص تحریک کے پہلے مرحلہ میں شہر شہر احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں ،دوسرے مرحلہ کا اعلان قائد انقلاب مناسب وقت پر کرینگے ،قائد انقلاب کا یہ اعلان ہے کہ آخری سانس تک شہدائے ماڈل ٹاؤن کے قصاص کیلئے جدوجہد کی جائیگی اور قاتلوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائیگا یہ اعلان اور عہد عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن سے وابستہ بچے بچے کا بھی ہے کہ ہم اپنی دو بہنوں تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ سمیت تمام شہید بھائیوں کے خون کا حساب لیں گے۔ (چیف ایڈیٹر)
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جون 2017
تبصرہ