ختم نبوت کا قانون اور حکومت کی گھنائونی واردات

موجودہ حکمرانوں نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط اور بلا شرکت غیرے لوٹ مار جاری رکھنے کیلئے گزرے ہوئے سوا چار سالوں کا ہر دن عوام، پاکستان، پارلیمنٹ، آئین، قانون اور ملکی اداروں کے تقدس کو پامال کرتے گزارا، ملکی معیشت کی بربادی ہو یا دہشتگردی کی جنگ میں منافقانہ کردار، اداروں کو بے توقیر کرنے کے غیر ملکی ایجنڈے ہوں یا اسلامیان پاکستان کے مذہبی جذبات کی توہین، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بے گناہوں کا قتل عام ہو یا ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی کا دینی سا لمیت پر حملہ خائن حکمرانوں نے پاکستان کو لا قانونیت، فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ یوں تو خائن اور سفاک حکمرانوں کا ہر جرم جرائم کی تاریخ میں ایک منفرد باب کی حیثیت رکھتا ہے مگر اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی کی خبر آئی جس پر سیاسی، دینی، سماجی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل آیا اور اسلامیان پاکستان نے حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا اعلان کر دیا، عوامی ردعمل میں شدت آتی دیکھ کر حکمرانوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا اور حلف نامہ اصل متن کے ساتھ بحال کرنے کا اعلان کر دیا، وزراء کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ حلف نامہ میں تبدیلی کلیریکل غلطی کے باعث ہوئی حالانکہ دینی حلقوں کی طرف سے جب اس سنگین جرم کی نشاندہی کی جا رہی تھی تو اس دوران بھی وفاقی وزراء حلف نامہ اور اقرار نامہ میں کسی قسم کے فرق نہ ہونے کے حوالے سے دلائل دے رہے تھے اور اس تبدیلی کا دفاع کر رہے تھے۔ بہرحال پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے دو ٹوک انداز میں خبردار کیا کہ حلف نامہ میں تبدیلی محض غلطی نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ یہ قانونی دہشتگردی کی گئی ہے، انہوں نے 13 اکتوبر 2017 کے دن ہنگامی پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی اور پھر اصل متن کی بحالی ایک بڑی واردات پر پردہ ڈالنے کا ہتھکنڈہ تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس تبدیلی کا تعلق کسی کی بحالی اور معافی تلافی کے معاہدے سے ہے، انہوں نے بتایا کہ حکومت نے انتخابی اصلاحات قانون کی آڑ میں 9 قوانین کو مکمل طور پر ختم کر دیا جو 9 قوانین ختم کئے گئے ان میں سے ایک قانون کنڈکٹ آف جنرل الیکشن آرڈر 2002 بھی شامل ہے۔ عوام سمجھ رہے تھے کہ شاید مسئلہ فقط حلف نامہ کی تبدیلی کا تھا اور حکومت نے حلف نامہ اصل متن کے ساتھ بحال کر کے معاملہ حل کر دیا مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہے، جس الیکشن آرڈر 2002 کو ختم کیا گیا اس میں قادیانیوں، احمدیوں کو اقلیت قراردئیے جانے کے ضمن میں کی جانیوالی آئینی ترمیم کی روشنی میں قانون سازی کی گئی تھی، اس قانون کو اول تا آخر ختم کر دیا گیا، الیکشن آرڈر 2002ء کے سیکشن 7(بی) اور سیکشن (سی) کے تحت یہ قانون سازی کی گئی تھی کہ قادیانیز اور احمدیز کا وہی سٹیٹس ہو گا جو آئین پاکستان میں درج ہے اور پھر تفصیل کے ساتھ عبارت دی گئی تھی کہ وہ سٹیٹس کیا ہو گا؟۔ یہ واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ ختم نبوت پر کامل ایمان ہو گا اور اس پرا یمان نہ رکھنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں، حکومت نے چالاکی کے ساتھ اس قانون کو ختم کر دیا اور میڈیا سمیت علماء و زعماء بھی اس واردات سے لا علم رہے، یہ حرکت1973 ء کے آئین کو منسوخ کرنے کے مترادف ہے۔ 1973 کی ذوالفقار علی بھٹو کی اسمبلی نے ترمیم کر کے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا تھا۔ سربراہ عوامی تحریک نے اپنی اس پریس کانفرنس میں واضح کیا حلف نامہ یا اقرار نامہ الگ چیز ہے جب اسلامیانِ پاکستان نے حلف نامہ کی بحالی پر اطمینان کا اظہار کیا تو اس دوران حکمرانوں نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ انکی اصل واردات پر کسی کی نظر نہیں پڑی، مذکورہ قانون کو ختم کر کے احمدیوں، قادیانیوں کا سٹیٹس تبدیل کر دیا گیا، انہوں نے بتایا الیکشن آرڈر 2002 ء کے تحت امیدواروں کیلئے ہی نہیں بلکہ ووٹرز کیلئے بھی یہ لازم تھا کہ اگر کوئی نان مسلم ہے اور اس نے اس کا اظہار نہیں کیا تو اسکا نام بعد ازاں کسی شکایت یا تصحیح کی غرض سے جوائنٹ الیکٹورل لسٹ سے نکال کر سپلیمنٹری لسٹ آف ووٹرز میں ڈالا جا سکے گا اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو نظر ثانی اتھارٹی بنانے کا اختیار حاصل تھا اب الیکشن کمیشن اس اختیار سے بھی محروم کر دیا گیا ہے یعنی موجودہ خائن حکمرانوں نے جو فیصلے بھی کئے اور جو انتخابی نظام وضع کیا وہ آئندہ الیکشن میں جوں کا توں روبہ عمل ہو گا اور الیکشن کمیشن اپنی بے بسی کا اظہار کر رہا ہو گا، ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی اس غیر معمولی اہمیت کی حامل پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ ادارے اس کا نوٹس لیں کرپٹ اشرافیہ نے مختلف فکر کے لوگ بٹھا رکھے ہیں انکا ایک آدمی ایک اینگل سے حملہ کرتا ہے اور دوسرا کسی اور اینگل سے حملہ آور ہوتا ہے، ایک ملکی سالمیت پر اٹیک کر رہا ہوتا ہے دوسرا دینی سا لمیت پر حملہ آور ہوتا ہے، دکھ کی بات یہ ہے کہ ختم نبوت کے قانون کے خاتمے میں پارلیمنٹ بھی پوری طرح شریک ہے، ہم سمجھتے ہیں پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے نا اہل اور بدد یانت عناصر کا مواخذہ ہونا چاہیے، مذکورہ قانون کا خاتمہ بڑا گھنائونا اور گھٹیا عمل ہے، قوم کے ذہنوں کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے، خائن گروہ اپنی چمڑی اور دمڑی بچانے کیلئے فکری پراگندگی پھیلا رہا ہے اور پاکستان کو مذہبی، مسلکی منافرت کا شکار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ قومی لٹیروں کے عدالتوں میں زیر سماعت کرپشن ریفرنسز پر فیصلے نہ ہو سکیں۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 7 سے 9 اکتوبر 2017 کے درمیان منعقدہ سہ روزہ دورہ علوم الحدیث کانفرنس کے موقع پر ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ختم نبوت کے بنیادی تصور کے ساتھ ہونیوالی پارلیمانی دہشتگردی اور اس میں ملوث عناصر کا محاسبہ کیا جائے، اس کانفرنس میں شریک چاروں صوبوں سے آئے ہوئے ہزاروں علماء کرام نے قرارداد کی متفقہ منظوری دی اس قرارداد میں متفقہ جھوٹے شخص کی طر ف سے قائم کی جانیوالی کمیٹی کو بھی مسترد کر دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ یہ تحقیقات سپریم کورٹ کی سطح پر جے آئی ٹی کی طرز پر ہونی چاہئیں یہ دینی سا لمیت پر حملہ ہے اس کے تمام کرداروں کو بے نقاب بھی ہونا چاہیے اور آئین کے برخلاف اقدامات پر باغیانہ اقدام کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے کڑی گرفت کی جانی چاہیے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کی یہ قرارداد اور مطالبہ اہم ہے، امت محمدیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور انکے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گااور اس عقیدے کے بغیر کسی کلمہ گو کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ خائن حکمرانوں نے ایمان کی اساس پر حملہ کیا ہے اگر قومی دولت کی لوٹ مار پرسپریم کورٹ کے حکم پر با اختیار جے ا ٓئی ٹی بن سکتی ہے تو عقیدہ ختم نبوت جیسے حساس معاملے کی تحقیقات کیلئے با اختیار جے آئی ٹی کیوں نہیں بن سکتی؟

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنی 13اکتوبر کی پریس کانفرنس میں ایک اور اہم ایشو کی طرف توجہ مبذول کروائی، انہوں نے بتایا کہ تھانہ فیصل ٹاؤن میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے اہم ریکارڈ جلا دیا گیا ہے اور انہوں نے اس پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تھانہ فیصل ٹاؤن میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے آپریشن میں حصہ لینے والے افسران، اہلکاروں کا مکمل اندراج اور تحریری ریکارڈ تھا، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جو اسلحہ، گولیاں اور گاڑیاںا ستعمال ہوئیں ان کا روزنامچوں میں اندراج تھا، درجنوں تھانوں کی پولیس جس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن آپریشن میں حصہ لیا ان کی آمدروفت اور حکم دینے والوں کا بھی ریکارڈ تھا جسے آگ لگا دی گئی، انہوں نے کہا کہ یہ آگ ایک ایسے موقع پر لگائی گئی جب سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں چل رہا ہے، قاتل حکمرانوں نے ساڑھے 3 سال سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو انصاف سے محروم کررکھا ہے اور وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ وہ پانامہ لیکس کی کرپشن، منی لانڈرنگ اور لوٹ مار کے کیسز کی سزائوں سے تو بچ سکتے ہیں مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن سے نہیں۔ عدالت میں زیر سماعت مقدمہ سے متعلق شواہد کو غائب کرنا یا ضائع کرنا پاکستان پینل کوڈ (PPC) سیکشن 201 اور 204 کے تحت ایک جرم ہے، دیکھتے ہیں کہ اس جرم کے حوالے سے انصاف کے ادارے کیا ایکشن لیتے ہیں اور 14 شہداء کے ورثاء کو کب انصاف ملتا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ حکومت جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کیے جانے کے ضمن میں سنگل بنچ کے فیصلے پر عمل کرنے سے بھی انکاری ہے اور انٹراکورٹ اپیل میں ہے۔ انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کے پہلے روز حکومت وکلاء نے یقین دہانی کروائی تھی کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی مگر اب حکومتی وکلاء روایتی ہتھکنڈوں کے تحت لمبی لمبی تاریخیں لے رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں عدالت میں قاتلوں کی بجائے مظلوموں کی بات سنی جانی چاہیے۔

(چیف ایڈیٹر)

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2017

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top