ترقی کے لیے نظامِ تعلیم بدلنا ہوگا
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
انسان کے اندر تین طرح کی حیات پوشیدہ ہے۔ ایک حیات جسدی ہے جس کا تعلق ہمارے جسم اور جان سے ہے۔ اس کا تعلق انسان کے جینے مرنے، گھر بار، کاروبار وغیرہ سے ہے۔ یعنی یہ انسان کی ظاہری حیات سے متعلق ہے۔ دوسری حیات وہ ہے جس کا تعلق ہمارے عقل و شعور کے ساتھ ہے، اُسے حیاتِ شعوری کہا جاتا ہے۔ تیسری حیات وہ ہے جس کا تعلق ہمارے قلب اور روح کے ساتھ ہے، اِسے حیاتِ روحی کہا جاتا ہے۔ حیاتِ جسدی دنیا میں اَمن، بہتر روزگار، مالی و جسمانی آرام، قلبی و ذہنی سکون، سیکیورٹی اور اپنی ذاتی پہچان چاہتی ہے۔ یہ تمام عوامل جب ملتے ہیں تو حیاتِ جسدی اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔
اِسی طرح حیاتِ روحی ہے، حیاتِ روحی اس دنیا میں رہتے ہوئے اللہ تعالی کے حضور اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ تعلق، اِخلاص اور للہیت چاہتی ہے۔ جب اِنسان اس راہ پر گامزن ہوتا ہے تو اُس کی حیاتِ روحی بھی اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔
تیسری حیات حیاتِ شعوری ہے، اس کے درج ذیل تقاضے ہیں؟
- حیاتِ شعوری کا ایک تقاضا تفکر ہے۔ اُس تفکر کے اجزاء میں اقدار اور نظریات پوشیدہ ہوتے ہیں۔
- اِسی حیاتِ شعوری کا ایک تقاضا تفقُّہ ہے۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی آیا کہ اللہ رب العزت جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے اُس کو تفقہ فی الدین عطا کرتا ہے، اس کا تعلق ہمارے دینِ سے ہے۔
- اِسی حیاتِ شعوری کا تیسرا تقاضا تصوّف ہے۔ ہمارے اَفکاروخیالات کا پاکیزہ ہوجانا، نیت میں للہیت و اخلاص پیدا ہوجانا، نیت کا ظاہر کی طرح طاہر اور مطہر ہونا تصوف ہے۔
ان تین تقاضوں کو جو شخص بھی پورا کر ے تو اُس کی حیاتِ شعوری اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ جب کسی انسان کی حیاتِ شعوری اپنے کمال کو چھوتی ہے اور وہ مذکورہ تین تقاضے پورا کرتی ہے، تو پھر اُس کی زندگی میں ایک تحرّک پیدا ہوتا ہے۔ یہ تحرّک اُس کے عمل میں ڈھل جاتا ہے اور پھروہ جس طرح کے افکار اپنے شعور کی سطح پر رکھتا ہے ویسا عمل اُس سے سرزد ہونے لگ جاتا ہے۔ اگر کسی کا شعور تفکر، تفقہ اور تصوف سے خالی ہو تو جو کچھ تحرک کے نتیجے میں اس کی زندگی سے سرزد ہو گا وہ ان تین امور سے خالی ہوگا۔ اگر کسی کا شعور تفکر، تفقہ اور تصوف سے مزین ہے تو زندگی میں جو کچھ بھی کرے گا اس پر تفکر، تفقہ اور تصوف کا رنگ ہوگا۔
یہی وہ تین چیزیں ہیں جو ہم تحریک منہاج القرآن اور منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے فائونڈر لیڈر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے بھی اپنی شعوری حیات کو تفکر، تفقہ اور تصوف سے مزین فرمایا۔ اس لیے پوری زندگی میں اور منہاج القرآن کے قیام سے اب تک 37سال کے اندر آپ کے تمام منصوبوں میں ان افکار کا رنگ اور مخلوق خدا کے لیے کچھ کر گزرنے کا رنگ نظر آتا ہے۔ چاہے آپ منہاج القرآن انٹر نیشنل کی بنیاد رکھ رہے ہوں، چاہے منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کی بنیاد رکھ رہے ہوں، چاہے منہاج ویلفیئر کی بنیاد رکھ رہے ہوں، چاہے منہاج یونیورسٹی کی بنیاد رکھ رہے ہوں، ہر وہ علمی، فکری و فلاحی منصوبہ جس کی بنیاد شیخ الاسلام نے ان افکار پر رکھی ہے آج یہ تمام منصوبہ جات اسی رنگ کے عکاس ہیں۔
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت پاکستان میں چلنے والے 650 سے زائد سکولز اور کالجز اور افریقہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں علمی، فکری، روحانی اور فلاحی پروجیکٹس کی بنیاد میں خلق خدا کی خدمت کا جذبہ سرِ فہرست ہے۔
آج جب ہم تعلیم اور نصاب کی بات کرتے ہیں، تعلیمی نظریے کی بات کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بدقسمتی سے بہت سارے تعلیمی ادارے تجارت کا مرکز بن گئے ہیں۔ تعلیم دینے جیسی عظیم عبادت اور کارِ خیر آج تجارت کا رنگ اختیار کرچکا ہے۔ تعلیمی ادارہ جات آج تجارتی مرکز بن گئے۔ کسی بھی ملک کی بنیاد میں اہم کردار تعلیم اور نظامِ تعلیم ادا کرتا ہے۔ نظام تعلیم میں اہم کردار نصاب ادا کرتا ہے۔ اگر ملک پاکستان کے تعلیمی نظام اورنصاب سے نظریہ پاکستان، اسلامی تعلیمات، اسلامی اقدار کو نکال دیا جائے تو یہ نظام تعلیم اورنصاب اگلی نسلوں کو کچھ فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے۔
بدقسمتی سے آج پرائمری اور مڈل کے نصاب میں سے بہت سارے ایسے موضوعات جو اسلام اور پاکستان کے نمائندہ موضوعات تھے اُن کو نکال دیا گیا۔ پاکستانیوں کی اور سرزمین پاکستان پر بسنے والے نوجوانوں کا اپنے دین، اپنی عظیم تاریخ، اپنی اَفواج، اپنے مجاہدوں اور سپاہیوں کے ساتھ جو محبت کا تعلق تھا ایسے موضوعات کو آج نصاب سے نکالا جا رہا ہے، مگر افسوس کہ اِنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس ماحول میں تعلیمی ادارے تجارتی مرکز بن گئے اور نصاب Non Productive ہو گئے، نہ وہ نظریہ پاکستان پر تعلیم دیتے ہیں اور نہ وہ اسلام کی اَقدار اور اسلام کا درس دیتے ہیں۔
انہی خطرات کے پیشِ نظر 1994ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کی بنیاد رکھی کہ چاہے ملک اور دنیا کی روِش جو بھی ہو، منہاج القرآن کے زیر انتظام چلنے والے ادارہ جات سے نکلنے والا ہر بچہ سب سے پہلے سچا مسلمان ہوگا اور اس کے بعد اپنے ملک وملت کے لیے جان دینے والا پاکستانی بن کر نکلے گا۔ آج الحمد للہ ہم بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت پڑھنے والے ڈیڑھ لاکھ بچے اتنے مضبوط اور پر عزم پاکستانی ہیں کہ میں نہیں سمجھتا کہ ان سے زیادہ جرأت مند، اخلاص و اَخلاق والے پاکستانی کہیں اور پیدا ہوتے ہوں گے۔ تمام تعلیمی ادارہ جات اپنی جگہوں پرخدمات سرانجام دے رہے ہیں، لیکن منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت چلنے والے ادارہ جات کے بارے میں ایک بات میں یقین و اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں کے طلبہ دیگر تمام اداروں کے طلبہ کے مقابلے میں تعلیم، اخلاق، روحانیت، تربیت ہر حوالے سے بڑھ کر ہیں۔ ہمارے طلبہ سائنس، دین، نظریہ پاکستان، بین الاقوامی معاملات، انفارمیشن الغرض ہر حوالے سے قابل اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ کوئی اور تعلیمی ادارہ ایسا نہیں کہ جس کا بچہ بیک وقت دین اسلام پر بھی اُتنی ہی بہترین معلومات رکھتا ہو جتنی سائنس ودیگر مضامین میں رکھتا ہو۔ الحمد للہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان کی سرزمین کو وہ ادارے دیئے ہیں جہاں سے پڑھنے والے طلبہ اسلام پر بھی اُتنی گہری نظر رکھتے ہیں جتنی سائنسز، سوشل سائنسز اور باقی علوم پر رکھتے ہیں۔
پوری دنیا میں ہر قوم نے کئی دہائیاں قبل یہ بات سمجھ لی کہ کسی ملک کو اگر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو اُس کے نظامِ تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہوگی مگر پاکستان میں نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو بہت افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم اُن امور میں سے ہے جس کو حکومتوں نے کبھی اہمیت ہی نہیں دی ہے۔ پالیسیز توبے پناہ بنائی گئیں، کم و بیش پچھلے 70 سال میں 20 ایجوکیشنل پالیسیز کے اعلان کئے گئے، لیکن کسی ایک پر بھی کماحقہ عمل نہ ہوسکا۔
جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو اُس وقت شرح خواندگی 11 فیصد تھی اور آج 70 سال بعد شرح خواندگی 58 فیصد ہے۔ اگر تمام حکومتیں اس پر محنت کرتیں، ہر سال 1فیصد بھی شرح خواندگی بڑھاتے چلے جاتے تو آج اس کو 81% ہونا چاہئے تھا۔ حالیہ بجٹ میں چاروں صوبوں کے لیے رکھی گئی رقوم 720 ارب روپے ہے، اور اگر ان 720 ارب کو صوبوں پر تقسیم کیا جائے تو پنجا ب میں 345 ارب، سندھ میں 202 ارب، بلوچستان میں 50 ارب اور KPK میں 138 ارب رکھے گئے ہیں۔ یہ بجٹ جی ڈی پی کا اڑھائی فیصد بنتا ہے۔
پورے ملک میں 2 لاکھ 60 ہزار 9 سو 3 سکولز ہیں، ان سکولز میں پڑھنے والے طلباء کی تعداد 4 کروڑ 10 لاکھ 18 ہزار 384 ہے اگر اس حساب سے 720 ارب روپے کو ان بچوں پر تقسیم کر دیا جائے تو ایک بچے کے اوپر سالِ رواں میں حکومت فقط 175 روپے خرچ کر رہی ہے۔ اس سے تعلیم کے حوالے سے حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ساڑھے تین کروڑ بچے ہمارے ہاں ایسے بھی ہیںجو سکولز میں نہیں جاتے، وہ چائلڈ لیبرکا شکار ہیں اور اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں شرح خواندگی 60 فیصد اور سری لنکا میں 98 فیصد ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں پچھلے 4 سال سے شرح خواندگی 58 فیصد ہے، اس کے باوجود ایک نااہل حکمران یہ پوچھتا پھرتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ تجھے اِس لیے نکالا کہ پچھلے چار سال میں اس ملک میں 1 فیصد بھی شرح خواندگی نہ بڑھ سکی۔ یہ فقط اس حکومت کاحال نہیں ہے، بدقسمتی سے تمام حکومتوں نے تعلیم کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ جونیجو صاحب کی حکومت میں اقراء سرچارج کے نام سے 4فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا رہا اور دعوی کیا گیا کہ اس کے تحت سینکڑوں ادارہ جات بنائے جائیں گے، لیکن بد قسمتی سے کوئی قابل ذکر تبدیلی نہ آسکی۔
آج مختلف تجزیات اور رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 58 فیصد سکولز ایسے ہیں جہاں پر بنیادی ضرورت عمارت، ٹوائلٹس، فرنیچر تک میسر نہیں۔ کچھ تجزیات کے مطابق 18 فیصد اساتذہ ایسے ہیںجو سکول نہیں جاتے، اس لئے کہ سفارشات اور سیاسی بنیادوں پر اُن کی تقرریاں ہوئی ہیں۔
1959ء میں قومی تعلیمی کمیشن تشکیل دیا گیا جس کے تحت 1969ء تک ملک میں پرائمری تعلیم اور 1974ء تک مڈل تعلیم کوہر فرد کے لیے یقینی بنانا اُس کمیشن کی ذمہ داری تھی مگر اس پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔ اس کے بعد 1969ء میں بنائی جانیوالی نئی قومی پالیسی وجود میں آئی جس میں تعلیم بالغاں پر توجہ دی گئی۔ 1972ء کی تعلیمی پالیسی میں یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کا نظام منظر عام پر لانے کا دعوی کیا گیااور جس کے تحت 1979ء تک تمام لڑکیوں کے لیے اور 1984ء میں پرائمری ایجوکیشن کو لڑکوں کے لیے لازمی بنایا جانا تھا مگر کچھ نہ ہوا۔ اس کے بعد 1973 کے آئین میں آرٹیکل 37/B کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ سیکنڈری تک ایجوکیشن ہر بچے اور بچی کے لیے لازمی قرار پائے گی مگر اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ ان پالیسیوں پر عمل درآمد نہ کرنے کی بناء پر آج حالت یہ ہے کہ ساڑھے 3کروڑبچے سکولز سے باہر ہیں اورجو 4 کروڑ 10 لاکھ بچے سکولز پڑھتے ہیں وہ پست تعلیمی معیار کا شکار ہیں۔
اسی طرح تعلیمی اداروں پر سرکاری اخراجات کو 2010ء کی GDP کا 2.7 فیصد اور 2015 تک 7 فیصد خرچ کیا جانا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا اور آج 2017ء میں تعلیم پر خرچ کی جانے والی رقم اڑھائی فیصد سے نہ بڑھ سکی۔ جنوبی پنجاب میں پچھلے تقریباً 40 سال میں کوئی ایک نئی یونیورسٹی وجود میں نہیں آسکی۔ یہ پاکستان کا نظامِ تعلیم اور اس کی تعلیمی صورتحال ہے۔ پاکستان کی شناخت اور پہچان زراعت ہے مگر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے علاوہ کوئی بڑی زرعی یونیورسٹی وجود میں نہیں آسکی۔ یہ وہ چند ہوشربا اور تکلیف دِہ گوشے ہیں جو ہمیں پاکستان کے نظامِ تعلیم اور اس کے اوپر خرچ ہونیوالے اخراجات سے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔
آج پورے ملک میں 5کروڑ 5 لاکھ شہری ایسے ہیں جو تعلیم یافتہ ہی نہیں ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ، 74 ہزار 520 ہے۔ یقینا ناخواندہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہوگا۔ اس وقت پنجاب میں 38 فیصد، KPK میں 46 فیصد، سندھ میں 48 فیصد، بلوچستان میں 55 فیصد ناخواندہ افراد ہیں۔ اسی طرح خواتین کے متعلق ناخواندگی کی شرح کو دیکھا جائے توپنجا ب میں 46 فیصد، KPK میں 53 فیصد، سندھ میں 65 فیصد، بلوچستان میں 77 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں۔ تمام سیاسی حکمران ایک دوسرے کو اور ایک دوسروں کے ادوار کو الزام تو دیتے ہیں مگر جب خود اقتدار و اختیار کے مالک ہوتے ہیں تو اس سمت کوئی توجہ نہیں دیتے۔ خدارا پورے ملک میں الزام کی سیاست کو بند کر کے نظام تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ جس کے پاس جو صوبہ ہے اگر وہ اپنے صوبے کی ہی شرح خواندگی کو ہی بڑھانے پر توجہ مرکوز کرتا تو آج پاکستان میں تعلیم کے حالات مختلف ہوتے۔ مگر بدقسمتی سے سیاست دانوں کے حالات، مقاصد، ضرورتیں کچھ اور ہیں جبکہ پاکستان کے عوام کی ضروریات اور ترجیحات مختلف ہیں۔ 2009ء کی تعلیمی پالیسی کے مطابق 2015ء تک شرح خواندگی کو 81 فیصد تک پہنچ جانا چاہیے تھا مگر پچھلے ساڑھے چار سال کے اندر شرح خواندگی 58 فیصد پر ہی رکی ہوئی ہے۔
اسی طرح پاکستان میں رجسٹرڈ دینی مدارس کی تعداد 12153 ہے جس کے اندر کم و بیش 15 لاکھ اور 49 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ مگر کوئی پالیسی اور کوئی ادارہ نہیں ہے جو اس چیز کا جائزہ لے سکے کہ ان مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے اور ان مدارس سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ طلبہ اپنی خدمات کہاں سرانجام دیتے ہیں۔
2013ء میں45 ہزار گریجوایٹس پاکستان کی مختلف یونیورسٹیز سے نکلے، جن میں سے 16 ہزار آج تک بے روزگار ہیں۔ یہ سوال اِن حکمرانوں سے کوئی نہیں پوچھتا۔ جب کوئی چیختا ہے کہ مجھے کیوں نکالا تو اُس سے کہو کہ تجھے اس لئے نکالا کہ 2013ء کے 16 ہزارگریجوایٹ نوجوان آج بھی بے روز گار ہیں۔۔۔ پچھلے چار سال میں 58 فیصد شرح خواندگی وہیں پر رُکی ہوئی ہے۔۔۔ پورے ملک کے 48 فیصد تعلیمی ادارے ضروری سہولتوں سے آج بھی محروم ہیں۔۔۔ سوات میں زلزلے کے باعث 40 ہزار لڑکیاں سکولز کی تعلیم سے محروم ہوئیں مگر ان کی تعلیمی بحالی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔۔۔ 170 اسکولز کو بم بلاسٹ سے اڑا دیا گیا، لیکن کوئی اُن سے نہیں پوچھتا کہ اُن 170 سکولز میں سے دوبارہ کتنے سکولز تعمیرکروائے۔ بلوچستان میں 12 ہزار سکولز ایسے ہیں کہ جس میں صرف ایک لیول کے لیے فقط ایک استاد میسر ہے تو سوچیں وہ سکول کیسے چلتا ہوگا۔ پنجاب کے 25 فیصد سکولز جزوی یا کلی بنیادوں پر سہولتوں سے محروم ہیں۔ دوسری طرف حکومتیں پوش علاقوں کے بھاری فیسوں والے سکولوں کو گرانٹ کے نام پر بھاری بجٹ دیتی ہیں۔ یہ پیسہ غریب کے بچوں کا ہے جو امیر کے بچوں کی سہولتوں پر خرچ ہو رہا ہے۔
تعلیم عام کرنے کے لیے اگر مؤثر پلاننگ نہ کی گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ معاشرتی رویوں کو اگر تعلیم کے ذریعے تبدیل نہیں کیا گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یاد رکھیں کہ یہ ذمہ کسی اور کے سر نہیں بلکہ صرف حکومت کے سر ہے، اس لئے کہ یہ کام حکومتوں کے کرنے والے ہیں۔ کوئی اور نہیں حکومتیں ہیں۔ آج تک جو کچھ پاکستان میں نظام تعلیم کے حوالے سے ہوتا رہا ہے اُس کو ڈنگ ٹپائو پالیسی کا نام دیا جاسکتاہے، اس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی نئی نسل کے اندر انتہاء پسندی، دہشتگردی اور جہالت کے جراثیم پیدا ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ہم کیسے ان ہونہاراور نوجوان طلبہ و طالبات سے ملک و قوم کے لئے کچھ کرنے کی امید رکھ سکتے ہیں؟ موجودہ فرسودہ نظام تعلیم ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے قابل ہی نہیں ہے۔ اس لئے اس نظام تعلیم سے بہترین سائنس دان، استاد، ڈاکٹر، انجینئر پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔
الحمد للہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے تعلیمی اداروں میں انتہائی کم فیس میں اعلی معیار کی تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا، ان میں اسلام اور ملک کی محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا۔ یہی وجہ ہے اس ملک کے غریب بچے، خواتین، بزرگ ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک کال پر اپنی جانیں لٹانے کے لیے باہر نکل آتے ہیں کیونکہ انہوں نے اس ملک اور اس کے غریب عوام کی خدمت کی ہے، انہیں باوقار اور غیور قوم کے طور پر جینے اور آگے بڑھنے کا عزم اور حوصلہ دیا ہے۔
طلبہ و طالبات شعوری حیات کے تین تقاضوں تفکر (نظریہ کی پہچان) تفقہ (دین کی پہچان) اور تصوف (اخلاق کی پہچان، اِخلاص، نیت کی پاکیزگی) کو اپنے اندر پیدا کریں۔ یعنی نیت میں اخلاص، اپنے ملک سے پیار، اپنے دین سے پیار، اس دنیا سے پیار اور خلقِ خدا سے پیار۔ یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جس سے کسی بھی انسان کا شعور پروان چڑھتا ہے اور انسانی جسم کو توازن نصیب ہوتا ہے۔
عزیز طلبہ و طالبات! یہ لوگوں کی زندگی کی ابتداء ہے، یہی وہ وقت ہے جہاں پر آپ اپنی ذہنی شعور کی کھیتی میں ان تینوں چیزوں کے بیج بو سکتے ہیں تاکہ جب یہ زمین تیار ہوجائے اور پھل کاٹنے کا وقت آئے تو بیک وقت آپ کے شعور کی کھیتی پر تینوں درخت پروان چڑھ چکے ہوں، پھرچاہے کوئی تفقہ (دین) کا پھل توڑ کر کھائے، تفکر (نظریے) کا پھل توڑ کر کھائے یا تصوف، (اخلاص اور نیت) کا پھل توڑ کر کھائے۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت ان سکولز کا قیام در حقیقت ایک مقصد، ایک نظریے اور ایک وژن کی خاطر ہے۔ آپ لوگوں کو بھی اُسی نظریے اور وژن کو آگے بڑھانا ہے۔
اگر سکولز کا مقصد عام تعلیمی ادارے کی مانند صرف فیس لے کر ایک جماعت سے اگلی جماعت میں ترقی دلوانا ہے تو پھر اِن سکولز کو چلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر ان ادارہ جات سے وہ طلبہ و طالبات پیدا کرنا مقصود ہیں جو شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کا خواب ہے جن میں دین بھی ہو، حب الوطنی بھی ہو، اعلی معیار کے سکالرز اور پروفیشنلز بھی یہاں سے پیدا ہوں تو پھر اِن سکولز کے قیام کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اگر اس حوالے سے کامیابی نہیں تو یاد رکھیں کہ ہم اپنے مقصد کو نہیں پارہے۔ اگر ہم اس مقصد کو سامنے رکھ کر اپنے اسکولز پر محنت کرتے ہیں تو یہی وہ راستہ اور وژن ہے جو درحقیقت شیخ الاسلام نے ہمیں دیا ہے۔
لہذا منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت چلنے والے تمام تعلیمی ادارہ جات، اُن کے پرنسپلز، اُن کے اساتذہ میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کو ہر حوالے اور جہت سے آگے بڑھائیں، طلبہ کی اخلاقی تربیت بھی ہو، وہ پروفیشنلی تعلیم بھی حاصل کریں اور دین کی سمجھ بوجھ بھی اُن کو نصیب ہو۔ اگر ہم پاکستان کو ایک ایسی نسل دینے میں کامیاب ہوگئے جو ان تینوں خصوصیات سے مزین ہو تو پھر کوئی ایسی شے مانع نہیں جو پاکستانی قوم کو پوری دنیا کی سب سے اعلی اور قابل قوم نہ بننے دے۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، نومبر 2017
تبصرہ