قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین رضی اللہ عنہ علمِ لدنی کے بحرِ بیکراں
محمد عمر حیات الحسینی
میں نے اپنی عمر میں بہت سے بزرگ دیکھ ڈالے اور تذکرے بھی بہت سے بزرگوں کے اس تفصیل سے پڑھے اور سنے کہ گویا انہیں دیکھ بھی لیا۔ ان میں عابد وزاہد بھی تھے، چلہ کش و خلوت نشین بھی اور صاحب کشف و کرامات بھی۔ لیکن اللہ کے ان برگزیدہ بندوں میں سے قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رضی اللہ عنہ کا مثل نظر سے کوئی نہیں گزرا اور نہ سننے میں آیا۔
حیاتِ مبارکہ کے چند گوشے
حضور پیر صاحب رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے چند ان گوشوں کو اس موقع پر پیش کررہا ہوں جن کا ہمارے اکثر علماء و مشائخ کے ہاں فقدان نظر آتا ہے:
1۔ اعتدال و توازن کے پیکر
میں نے آپ کو صحت و مرض، قوت و ضعف، حزن و نشاط کے ہر موقع پر دیکھا ہے، اس لیے آنکھوں دیکھی شہادت دے رہا ہوں۔ تفاوتِ درجات اکثر بزرگوں میں ہوا کرتا ہے۔ کوئی کسی خصلت میں بہت بڑا ہوا ہے اور کوئی کسی دوسرے وصف میں، مگر زندگی کے ہر معاملہ میں توازن و اعتدال کی جس جھلک کا نظارہ حضور پیر صاحب کی ذات میں مجھے دیکھنے میں ملا، کسی اور میں نہ پایا۔
ہر کام اپنے وقت پر۔۔۔ ہر چیز اپنی مقررہ جگہ پر۔۔۔ کھانے پینے، چلنے پھرنے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے الغرض ہر ایک کے ضابطے، سب کے آداب۔۔۔ ہر گفتگو ایک مقصد لیے، بے مقصد گفتگو جیسے جانتے ہی نہیں۔ زبان پر اتنا قابو میں نے کسی بزرگ میں نہ پایا۔ رسوم سے اجتناب۔۔۔ نمائشی تعلقات سے احتراز۔۔۔ دوسروں کو زحمت سے بچانے کا کامل اہتمام۔۔۔ بندوں کی خدمت عبادت کے درجے میں۔ بس یہی خصوصیات مجلسِ طاہریہ کی دیکھنے میں آئیں۔
توازن و حکمت حضرت مرشدی رضی اللہ عنہ کے ریشے ریشے میں بسی ہوئی تھی۔ زندگی کے ہر شعبے میں یہ صفت نمایاں تھی۔ اپنی زندگی میں کوئی ہستی، مرشد، مربی و مصلح ان سے برتر مجھے نظر نہیں آیا۔ شیخ المشائخ اور قدوۃ الاولیاء جس کسی نے ان کا لقب اول بار پکارا، وہ بجائے خود بھی ایک عارف اور ترجمانِ حقیقت تھا۔ میں نے بزرگ اور بھی دیکھے ہیں، کسی اور سے قلب اتنا متاثر و مرعوب نہیں ہوا، کسی کی درویشی اپنے دل میں بیٹھی ہے تو وہ حضرت مرشدی رضی اللہ عنہ کی تھی۔ اتنے انکسار و تواضع کے ساتھ ایسی بابرکت صحبت و حکمت، معرفت سے لبریز ایسی باتیں کہیں اور نہ دیکھنے میں آئیں اور نہ سننے میں۔ حضرت مرشدی رضی اللہ عنہ کی صحبت میں طبیعت کو وہ کیف اور لطف آیا جس کے لیے دوسروں کے آستانے پر مدتوں گدائی کرنا پڑتی ہے۔
2۔ اہلِ دین کیلئے متواضع و منکسر المزاج
حضرت والا رضی اللہ عنہ جہاں اہلِ دنیا اور اہلِ دول کے سامنے بڑے خود دار اور غیور واقع ہوئے تھے، وہاں اہلِ دین کے ساتھ غایت درجہ متواضع اور منکسر المزاج تھے۔ علمائِ حق سے جھک کر اور فروتنی سے ملتے تھے اور ان کی نہایت تعظیم کرتے تھے۔ علماء و مشائخ میں سے دو شخصیات سے بے حد محبت تھی اور حضرت والا رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ والہانہ معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ ایک غزالی زماں حضرت علامہ سید سعید احمد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ کاظمی اور دوسرے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب۔ ان آنکھوں نے بارہا دیکھا کہ حضرت والا رضی اللہ عنہ شیخ الاسلام کی پذیرائی فرمایا کرتے تھے، ان کے بڑے مرتبہ شناس تھے۔ میں نے انہیں شیخ الاسلام کے انتظار میں بیتاب اور ہمیشہ ان کے حوصلے بلند کرتے دیکھا ہے۔
حضور پیر صاحب رضی اللہ عنہ ہر موقع پر شیخ الاسلام کی راہنمائی فرماتے، آپ حاضرِ خدمت ہوتے تو تحریکی مصروفیات کی جزئیات تک کے بارے میں استفسار فرماتے۔ یہ ہمارے حضرت والا رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ حضرت والا رضی اللہ عنہ چھوٹی سے چھوٹی بات کو سمجھا کرتے تھے، البتہ کسی کی چھوٹی باتوں کو کریدا نہیں کرتے تھے۔ انسان میں بیک وقت خیرو شر کی طاقتیں موجود ہیں، کہیں خیر غالب ہے تو کہیں شر۔ آپ کا اصول تھا کہ جہاں خیر غالب ہو، اس سے محبت کرو اور جہاں شر غالب ہو، اسے ترک کردو۔ حضرت والا رضی اللہ عنہ کی کسی سے محبت و نفرت اسی اصول کے گرد گھوما کرتی تھی۔
حضرت والا رضی اللہ عنہ بڑے وسیع النظر اور وسیع القلب تھے۔ عبادات و احکام میں فقہ حنفی اور مسلکِ اہلسنت کے پابند ہونے کے باوجود دوسرے مسالک کے علماء و مشائخ سے آپ رضی اللہ عنہ کے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ حضرت والا رضی اللہ عنہ سب کا احترام اور سب کی قدر کرتے تھے۔
حق بات کو برملا کہا کرتے تھے۔ برملا اہلِ حکومت پر تنقید کرتے، اس میں کسی مصلحت اندیشی اور مداہنت سے کام نہیں لیتے تھے۔ آپ حضرت اقبال رضی اللہ عنہ کے اس شعر کا کامل نمونہ تھے:
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
3۔ ’’بے نفسی‘‘ کی کیفیت
حضرت والا کے فضائلِ اخلاق میں ’’بے نفسی‘‘ کو سب سے نمایاں مقام حاصل تھا۔ اپنے دامن کو ہمیشہ طبقاتی و گروہی تعصب سے پاک و صاف رکھنا اور اظہارِ حق میں تحسین و ملامت کی قطعاً پرواہ نہ کرنا آپ رضی اللہ عنہ کا شعار تھا۔ اپنے معاصرین کی قدر کرنا اور ان کے کمال کا اعتراف کرنا وہ وصفِ عالی ہے جو ہر زمانے میں مفقود رہا ہے مگر حضرت والا رضی اللہ عنہ میں یہ نادر وصف بدرجہ اتم موجود تھا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر حضرت والا رضی اللہ عنہ اپنے چھوٹوں کے کمالات کو بھی بڑی فراخ دلی سے تسلیم کرتے اور اعلانیہ اس کا اظہار فرماتے تھے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، حضرت والا رضی اللہ عنہ کے مرید مخلص تھے۔ اس لیے وہ حضرت والا کی ہمیشہ تعظیم و تکریم بجا لاتے جیسے ایک مرید کو کرنا چاہئے لیکن چونکہ وہ ایک بڑے ادارے کے سربراہ و قائد ہیں اس لیے حضرت والا رضی اللہ عنہ کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی کہ ان کی عزت کریں۔ وہ مناظر آنکھوں میں پھر رہے ہیں جب مرشد و مرید کی محفلوں میں تعظیم و تکریم میں مسابقت کی کوشش ہوتی اور بالآخر حضرت والا رضی اللہ عنہ کو اپنا منصب قبول کرنا ہی پڑتا اور شیخ الاسلام دست بوسی و قدم بوسی کی سعادت سے بہرہ ور ہوکر ہی رہتے۔
4۔ علمی و دینی تقاضوں کی بجا آوری
حضرت والا رضی اللہ عنہ عقائد و نصوص و حدودِ دین کے بارے میں ویسے ہی غیور و حساس واقع ہوئے تھے جیسے علماء حق و مشائخ۔ جب آپ تحریفِ دین کی کوشش یا دین کی ترجمانی میں کوئی بے اعتدالی، آزادی یا غلط اجتہاد دیکھتے تو ضرور تنقید فرمایا کرتے۔
حضرت والا رضی اللہ عنہ درسیات کے ماہر معلم ہی نہیں بلکہ ایک ’’صاحبِ نظر‘‘ عالم اور محقق بھی تھے اور تاریخِ علومِ عصریہ سے بھی راست اور کامل واقفیت رکھتے تھے۔
حضرت والا رضی اللہ عنہ خدمتِ دین کے لیے جدید راہوں کو اختیار کرنے کے قائل تھے۔ اس سلسلہ میں سلف کے اقوال یا طرزِ عمل کو رفیق کار بناتے اور پھر متاخرین کے اختلاف یا معاصرین کے اعتراض کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ حضرت والا رضی اللہ عنہ قدیم لٹریچر کو جدید ضروریات کے لیے برتنے کا فرمایا کرتے تھے۔
حضرت والا رضی اللہ عنہ نے سیاست کے خار زار سے اپنا دامن بچائے رکھا مگر ملت کی علمی اور دینی ضرورتوں سے کبھی لاتعلق و غافل نہیں رہے اور فی زمانہ جس جس محاذ پر علمی مورچوں کے قیام کی ضرورت تھی، حضرت والا رضی اللہ عنہ نے شیخ الاسلام قبلہ و دیگر علماء سے برابر کام لیا۔ حضرت والا رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ نے دین کے ہر شعبے میں جو عظیم خدمات لیں ان کی نظیر گزشتہ کئی صدیوں میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ مسلمانوں کی دینی ضرورت کا شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر حضرت والا رضی اللہ عنہ نے مفصل یا مختصر گفتگو نہ فرمائی ہو۔ حضرت والا رضی اللہ عنہ کے ملفوظات اپنے دور کی دینی ضروریات پر مشتمل ہیں اور زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں دین کی تعلیمات کو آپ نے کسی نہ کسی شکل سے واضح کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔
5۔ علمِ لدنی کا بحرِ بیکراں
حضرت والا رضی اللہ عنہ عراق کے مایہ ناز اساتذہ سے فیض یافتہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ جامد مولویت کو ( جو مسائلِ حاضرہ سے بے خبر ہو) ناقص تصور فرماتے تھے۔ گفتگو کے دوران جب مسائلِ حاضرہ پر مجتہدانہ روشنی ڈالتے تو ’’بیچارہ مولویوں نے سمجھا ہی نہیں‘‘ کا جملہ اکثر مسکراہٹ کے ساتھ آپ کی زبان سے ادا ہوجاتا تھا۔ حضرت والا رضی اللہ عنہ کا حافظہ مثالی تھا، ذہن بہت اخاذ، فکر بہت دور رس اور بڑی مجتہدانہ تھی۔ انتقالات ذہنی بہت دقیق ہوا کرتے تھے۔
حضرت والا رضی اللہ عنہ جب عصرِ حاضر کے فقہی، معاشی، سیاسی مسائل پر رطب اللسان ہوتے تو علماء دنگ رہ جاتے۔ بچپن ہی سے اساتذہ آپ کے علمی استعداد کے معترف ہوگئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی گفتگو میں علوم و معارف اور استنباط و استخراج کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوا کرتا تھا۔ آپ اپنے جد امجد قطب الاقطاب حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز رضی اللہ عنہ کے علوم و معارف کے حقیقی امین تھے۔
حضرت والا رضی اللہ عنہ کسی بھی موضوع پر جب گفتگو فرماتے تو اتنا مواد بیان کردیتے جو آسانی کے ساتھ کسی ایک کتاب میں نہیں مل سکتا۔ ایسی نئی باتیں بیان فرماتے جن کی طرف عام طور پر ذہن نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑا نکتہ رس اور نکتہ آفریں ذہن عطا فرمایا تھا۔ قرآنِ حکیم کی وہی آیات، صحاح کی وہی احادیث اور تاریخ کے وہی بیانات جو ہم بیسیوں بار پڑھ چکے ہیں، حضرت والا رضی اللہ عنہ ان سے ایسے حقائق ثابت کردیتے اور ان سے ایسے عجیب لیکن صحیح نتائج نکالتے کہ حیرت ہوتی اور علمِ لدنی کا ایسا بحرِ بیکراں ہوتا کہ آپ رضی اللہ عنہ، حضور غوث الاعظم کے علمی جانشین دکھائی دیتے۔
میرے نزدیک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اندازِ استدلال میں حضرت والا رضی اللہ عنہ ہی کا فیضان دکھائی دیتا ہے کہ خطابات میں تاثیر ہے اور استدلال میں ثقاہت ہے۔ یہ سب حضرت والا رضی اللہ عنہ کی نگاہِ فیض کا نتیجہ ہے۔ حضرت والا رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھنے والے یہ محسوس کرلیتے تھے کہ آپ عالموں میں عالم تھے، ادیبوں میں ادیب، مؤرخوں میں مؤرخ، فقہیوں میں فقیہ، محدثوں میں محدث، مفسروں میں مفسر ہیں۔ حضرت والا رضی اللہ عنہ کی مجلس میں وہ لطف حاصل ہوتا کہ جس کی بنا پر کہنا پڑتا ہے کہ
وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے
تعلیمات حضور پیر صاحب رضی اللہ عنہ
حضور پیر صاحب رضی اللہ عنہ کی کوئی مجلس وعظ و نصیحت اور اصلاحِ احوال و اعمال کی تاکیدسے خالی نہ ہوتی تھی۔ جو بھی حاضری دیتا، اس کے احوال کو ملاحظہ فرماتے ہوئے کوئی نہ کوئی ایسا ارشاد ضرور صادر فرماتے جو قلب و نظر کے احوال میں انقلاب بپا کردیتا۔ ذیل میں چند ملفوظات عالیہ درج کئے جارہے ہیں:
1۔ انسانیت سازی کی ضرورت
حضرت والا رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’بزرگ بننا ہو، قطب بننا ہو، غوث بننا ہو تو کہیں اور جاؤ لیکن اگر انسان بننا ہو تو یہاں آؤ۔‘‘
حضرت والا رضی اللہ عنہ کا پہلا سبق ہی یہ تھا کہ
’’پہلے آدمی بنو۔ کیا بزرگی ڈھونڈتے پھرتے ہو؟ آدمیت سیکھو، بزرگی بیچاری تو ایک دن میں ساتھ ہو لیتی ہے۔ مشکل چیز تو شرافت اور شعورِ انسانیت ہے۔‘‘
2۔ فرائض و واجبات کی ادائیگی کی تاکید
کیفیات، مکاشفات، ذوقیات، کرامات اور تصرفات کو تو چھوڑیئے ایک درجہ میں حضرت والا رضی اللہ عنہ ان کو اہمیت دینے کے مخالف ہی رہے مگر معمولاتِ یومیہ مثلاً: تہجد، نوافل، ذکر و اذکار اور اوراد و وظائف جو مستحبات کے قبیل سے ہیں، ان کے چھوٹ جانے پر بھی کسی سالک پر کبھی چیں بجبیں نہ ہوتے تھے۔ کسی عذرِ شرعی سے معمولات چھوڑنے پر کبھی مواخذہ نہ فرماتے تھے لیکن اگر کوئی بے اصولی کی بات کرتا یا بے فکری کا ثبوت دیتا، حقوقِ شریعت کا تارک ہوتا، معاملات میں بدانتظامی برتتا، یا سلیقہ اور ڈھنگ سے کام نہ لیتا یا ناحق کسی کی ناگواری کا باعث ہوتا تو حضرت والا رضی اللہ عنہ فوراً تیور بدل لیتے۔ سخت اور تیز لہجہ اپنا لیتے اور فوراً اصلاح فرماتے۔
تمام اہلِ مجلس کو عموماً اور سالکین کو خصوصاً اس طرف توجہ دلاتے کہ فرائض اور واجبات کی پابندی ضروری ہے۔ حضرت والا رضی اللہ عنہ کے ہاں تصوف و سلوک کا حاصل ہی یہ تھا کہ فرائض اور واجبات ادا ہوجائیں، احکام کی تکمیل ہوجائے، حقوق العباد کی اہمیت واضح ہوجائے۔ اگر درویشی کا حاصل یہی ہے تو یہ سب کچھ اسی طرح حضرت والا رضی اللہ عنہ فرماتے تھے۔
3۔ ریا کی مذمت
حضرت والا رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے:
’’ام الوظائف تو یہ ہے کہ اعمال ریا سے خالی ہوں۔ خالق سے نظر ہٹ کر مخلوق پر جم جانا بلکہ مخلوق کا وجود تسلیم کرنا ہی ریا ہے۔ یہی وہ شرک ہے جس کو رات کی تاریکیوں میں چیونٹیوں کے رینگنے سے زیادہ باریک اور نازک بتایا گیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہی ہے کہ بندہ اپنے آپ سے بھی بے نشان ہو جائے اور دوسروں سے بھی۔ ریا کے حملے بڑے باریک ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی تواضع کے نام پر بھی ریا شامل ہوجاتی ہے۔‘‘
4۔ ترکِ اسباب کا حکم
حضرت والا رضی اللہ عنہ سے ترکِ اسباب کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
’’اسباب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اسباب کی حیثیت گویا حجاب کی سی ہے۔ جس نے ان اسباب کو حجاب سمجھا وہ ان ہی اسباب کی راہ سے حق تک پہنچا اور جس نے ان ہی اسباب پر تکیہ کیا، وہ محروم ہوا۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
بندہ چونکہ سبب سے پیدا ہوا ہے، اس لیے بغیر سبب کے وہ جی نہیں سکتا۔ عالم کو اسباب کی زنجیر میں جکڑا گیا ہے۔ اسی لیے اسباب سے ترکِ تعلق کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ بندے کی حقیقت کے منافی ہے۔ البتہ بندہ ایک سبب کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرسکتا ہے۔ اسباب کو ترک کرکے زندگی نہیں گزار سکتا۔ کم از کم سانس لینے سے تو کوئی نہیں بچ سکتا، یہ بھی تو سبب ہے۔
5۔ سخت لب و لہجہ سے اجتناب
حضرت والا رضی اللہ عنہ تقریر و تحریر میں سخت لب و لہجہ کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تقریر اس لیے پسند فرمایا کرتے اور توجہ سے سنا کرتے کہ ان کی تقریر میں لب و لہجہ کی مولویوں جیسی درشتی نہیں۔ فرمایا کرتے:
تقریر و تحریر میں لب و لہجہ کی شدت پسندیدہ چیز نہیں۔ اس سے تقریر و تحریر کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ بات پرانی کہی جائے گی مگر لباس نیا ہو۔ یہ ہرگز پسندیدہ نہیں ہے کہ جو حق ہے اس میں کوئی کمزوری یا لچک آنے پائے۔ مگر حق پیش کرنے کا انداز بہت ہی خوشگوار اور دل پذیر ہو، بہت ہی دلنشین اور دلچسپ ہو تاکہ عوام و خواص اس کو ذوق و شوق سے سن کر فائدہ حاصل کرسکیں۔
قدوۃ الاولیاء حضور پیر صاحب رضی اللہ عنہ کی گفتگو میں جاہ و جلال اور فصاحت و بلاغت کا کمال دونوں قائم رہتے تھے۔ نکتہ آفرینی آپ پر بس تھی۔ تراھم رکعا سجدا کی معنوی تابش نے آپ کی جبیں سجدہ گزار کو انوارِ الہٰیہ کا تجلی خانہ بنا رکھا تھا۔ آپ کے میکدہ چشم سے عرفانِ خداوندی کی شرابِ طہور برستی تھی۔ حضرت والا رضی اللہ عنہ پیکرِ شفقت و محبت تھے اور سب سے بالکل ایک سی محبت کرتے تھے۔ ہر مرید یہی کہتا جتنی شفقت مجھ سے تھی کسی سے نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ ایک مثالی انسان تھے اگر آپ کے اطوارِ کرم اور مقدارِ عنایت پر لکھا جائے تو صفحات کی وسعتیں سمٹ کر رہ جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کے درجات کو بلند فرمائے اور آپ رضی اللہ عنہ کے روحانی فیوضات سے ہمارے قلوب و اذہان کو مستنیر و مستفید فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اگست 2018ء
تبصرہ