طاہر القادری کی طاہر باتیں
معروف نقاد، محقق، اور دانشور ڈاکٹر سید شبیہ الحسن کی خصو صی تحریر :
اس کائنات رنگ و بو میں اللہ نے قسم قسم کی مخلوقات خلق کی ہیں اور ہر مخلوق کو کسی خاص صفت کے باعث دوسری مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔ ان نمائندہ مخلوقات میں انسان کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ ’’احسن‘‘ تخلیق کا تاج پہن کر اس دنیا میں نمودار ہوا اور اسکی علمی وجاہتوں کو دیکھ کر ملائکہ سجدہ ریز ہوگئے بلاشبہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں ’’آدمیت‘‘ کے جوہر تو موجود تھے لیکن رفتہ رفتہ ان میں انس و محبت کے جذبات واحساسات بھی داخل ہوگئے اور آدمیت کے جذبہ سے مالا مال ’’آدمی‘‘ انسانیت کے جذبو ں سے رونق افروز ہو کر ’’انسان‘‘ بن گیا۔ آدمی سے انسان بننے میں اس اشرف المخلوقات کو کتنا عرصہ لگا اس کا احاطہ تو سردست ممکن نہیں لیکن آج کے ’’آدمی‘‘ کو ’’انسان‘‘ بننے میں شاید سینکڑوں برس درکار ہونگے اور بقول غالب
بس کہ دشوار ہے ہر کا م کا آسان ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
دانشمندوں نے اس انسان اور آدمی کی حقیقت پر غور کیا لیکن افسوس ہے کہ چاند، سورج اور ستاروں کو تسخیر کرنے والے، زمین کی پاتال تک پہنچ جانے والے اور ذرے سے کائنات تلاش کرلینے والے ہنوز اپنی حقیقت سے بے خبر ہیں آدمی کی اپنے آپ سے خبری ہی اسے کسی ’’با خبر‘‘ کی خبر دیتی ہے اور وہ اپنے ارادوں کی شکست سے کسی ’’ارادہ ساز‘‘ کی فتح کا اعلان کرتا ہے۔ اپنی حقیقت سے بے خبر انسان جب تمام وسائل اور ہتھیار کے باوجود اپنی ذات پر پڑے پردے نہیں اٹھا سکتا تو خدائے سخن بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ
حقیقت نہ میر اپنی سمجھی گئی
شب وروز ہم نے تامّل کیا
صاحبان فہم و ذکا نے اس کا ئنات میں چلنے پھرنے اور سانس لینے والے انسانوں کو تین گروہوں میں منقسم کیا ہے اور احساس دلایا ہے کہ ہر ذی نفس کو چاہیے کہ وہ اپنا ذاتی محاسبہ کرے کہ وہ کس گروہِ انسانی میں شامل ہے پہلا گروہ ان انسانوں پر مشتمل ہے جو اس دنیا میں آتے ہیں، کھاتے، پیتے ہیں اور دنیا کو لطف و انبساط کا مرکز گردانتے ہیں۔ شہنشاہ بابر کی طر ح ان کی حیات کا بنیادی مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
لہذا نہ تو ان کا کوئی مقصد حیات ہوتا ہے اور نہ کوئی اصولِ حیات۔ ان کی مثال اس خس و خاشاک کی ہوتی ہے جو سمندر کی لہروں پر رواں دواں ہوتا ہے اور جہاں وقت کا سمندر اسے لے جاتا ہے وہ بے بسی کے ساتھ اس کے ہمراہ چلتا جاتا ہے۔ اس گروہِ انسانی کی مثال ان جانوروں سے بھی دی جاسکتی ہے جو اس دنیا میں اپنی زندگی گزارتے ہیں اور حلال و حرام سے بے بہرہ اور مقصد حیات سے غافل رہ کر دنیا سے روانہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے بد نصیب انسان ذہن تو رکھتے ہیں لیکن ان کا ذہن کسی اور کیلئے سوچتا ہے۔ انکے قدم متحرک تو ہوتے ہیں لیکن سفر کسی اور کا ہو رہا ہوتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ بے حس و حرکت انسان مقصد حیات سے غافل ہوکر اپنی زندگی ہی میں کسی دوسرے کی حیات بسر کر رہے ہوتے ہیں بقول رئیس امروہوی
ہم اپنی زندگی تو بسرکر چکے رئیس
یہ کس کی عمر ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
انسانو ں کا دوسرا گروہ ان افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو اپنا ایک مطمع نظر اور مقصد حیات رکھتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے شبانہ روز محنت بھی کرتے ہیں۔ ان کی یہ کدو کاوش انکی ذاتی ترقی تک محدود ہوتی ہے۔ وہ شخصی مفاد کو ہمیشہ پیش نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کی سوچ کا محور و مرکز اپنی ذات ہوتی ہے۔ وہ ذاتی ترقی اور ذاتی مفادات کے لئے ہر چیز قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے ذہن میں صرف ایک بات ہوتی ہے کہ وہ جائز و ناجائز کسی بھی طریقے سے اپنا مقصد حاصل کرلیں۔ ان کے نزدیک دنیاوی جاہ و منصب حاصل کرنا سب سے بڑا مقصد حیات ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ ’’دین‘‘ بھی قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار دکھائی دیتے ہیں بقول سید وحید الحسن ہاشمی
وہم و گماں کے دشت میں حیراں ہے آدمی
اک مستقل خیال پریشاں ہے آدمی
خود اپنی زندگی سے گریزاں ہے آدمی
ہر دم شکارِگردش دوراں ہے آدمی
دوش نظر سے چادر غیرت اتار کے
دنیا لیے ہے دین کی توفیق ہارکے
اس قسم کے افراد کسی نہ کسی طر ح منزل آشنا تو ہو جاتے ہیں لیکن جب کوئی شخص ان سے استدعا کرتا ہے کہ وہ اس کے لیے بھی خضرِ طریقت بن جائیں اور اسے بھی منزل سے ہم کنار کر دیں تو یہ لوگ دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو خود بڑی مشکل سے منزل آشنا ہوئے ہیں اب ان کے اندر یہ دم خم نہیں کہ وہ کسی دوسرے کیلئے بھی جدوجہد کر سکیں۔ ذاتی مفادات کے طوق میں جکڑے ہوئے یہ خودغرض بندے کسی دوسرے کیلئے کسی بھی صورت میں مفید اور کار آمد نہیں ہوسکتے۔
اس کا ئنات میں ایک تیسرا گروہ انسانی بھی ہے۔ یہ ان چنیدہ افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو خو د بھی منزل آشنا ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی منزل تک پہنچانے کی صلاحیت اور عزم و حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہ جلب منفعت اور رفع موت سے بیگانہ ہو کر طالبانِ شوق کو منزل مراد تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور اس پر خطر راہ میں آ کر انہیں اپنے تن، من، دھن کی قربانی بھی دینا پڑے تو وہ اس سے گریز نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی بے لو ث، بے غرضی اور انسان دوستی کا وقار آج بھی قائم ہے بقول سید وحید الحسن ہاشمی
کتنا نظر فروز ہے یہ جذبہ حسیں
یہ کیفیت ہے عشق کی صہبائے انگیں
انسان ہے اسی کی بدولت فلک نشیں
اس کے طفیل عرش سے بالا ہوئی زمیں
حق انکے ساتھ ہے جومٹے ہیں برائے حق
ٹھری ہے ایک نفس کی قیمت رضائے حق
اس تیسرے گروہ میں وہ جلیل القدر افراد شامل ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں جو ذاتی مفادات کوقومی و ملی مفادات پر قربان کر دیں۔ بلاشبہ جب کوئی فرد فریدالنفس کو آفاق میں تبدیل کر دیتا ہے تو کائنات کی ہر نعمت اس کے قدمو ں پر نثار ہوجاتی ہے۔ یہی چیدہ افراد قائد انسانیت، فخر قوم، محسنِ ملت، قائد اعظم، رہبر ملت، محسنِ انسانیت، قائد عوام اور قائد انقلاب کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں ان برگزیدہ اور نیکوکاروں کی بدولت انسان اور انسانیت کا وقار قائم ہے اور انہی ذوات مقدسہ کو دیکھ کر فرشتے آج بھی آدمی بننے کی آرزو کرتے ہیں۔
لاعلم تھے ملک ہدفِ بے بسی بنے
پچھتا رہے ہیں ہم بھی نہ کیوں آدمی بنے
اس پر ہجوم اور نفوس انسانی سے بھری دنیا میں ہر گر وہ اپنے اپنے طور پر سرگرم عمل ہے تاہم آخر الذکر گروہ میں ایک ایسا فرد اپنے افعال و اعمال اور اقوال کی بدولت چشمِ اقوام میں تارا بن کر جگمگا رہا ہے جسے لوگ طاہرالقادری کے اسمِ گرامی سے موسوم کرتے ہیں۔ اس فرد کے ایک ہاتھ میں قلم ہے جو صفحہء قرطاس پر حق و صداقت کی کہانیاں رقم کر رہا ہے۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں دینوی شان وشوکت کا علم ہے جو نفوس انسانی کیلئے سمت نمائی کا فریضہ ادا کر رہا ہے۔ اسکے منہ میں ایسی سیف زبان ہے جو مسلسل دشمنان دین کے حلقوم کاٹ رہی ہے اور اللہ تعالی کا جیتا جاگتا معجزہ یہ ہے کہ نہ تو علم و قلم کے بار سے اس شخص کے کاندھے شل ہوتے ہیں نہ اس کی تیغ زبان کی کاٹ میں کمی آتی ہے۔ یہ فرزانہ دنیاوی معاملات سے بے خبر ہو کر دیوانہ وار صحرائے زندگی میں اذان صداقت بلند کر رہا ہے۔
شاید کوئی بندہء خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
ڈاکٹر طاہرالقادری کی عظمت کا راز محض اس امر میں پوشیدہ نہیں ہے کہ وہ ایک عالم باعمل اور شعلہ بیان مقرر ہیں یا وہ ایک صاحب طر زِ اسلوب نگار مصنف ہیں یا انہوں نے صاحبان فہم و ذکا سے اپنی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا اعتراف کرا لیا ہے یا وہ دنیا کے تخت و تاج کو ٹھکرا کر علمی مسند پر متمکن ہوگئے ہیں بلکہ میرے نزدیک تو طاہرالقادری ہر من ہیمز کے ایک ناول کے اس ہیرو کی طرح ہے جو ایک موقع پر اپنے تمام رقیبوں پر یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں اور قدرتوں کے باوجود اس کو اس لیے زیر نہیں کر سکتے کہ اس کے پاس تین ایسی صلاحیتیں ہیں جو کسی دوسرے کے نصیب میں نہیں اولاً اس کے پاس علم ہے اور اس کے رقیب علمی صلاحیتوں سے بے بہرہ ہیں وہ محبت کی خاطر بھوکا رہ سکتا ہے جبکہ اس کے مدّ مقابل خوردونوش کے رسیا ہیں۔ ثانیاً وہ انتظار کر سکتا ہے جبکہ اس کے مخالفین ’’نو نقد نہ تیرہ ادھار‘‘ کے قائل ہیں۔ اگر آپ طاہرالقادری کی پوری زندگی کا منظرنامہ مرتب کریں تو وہ اسی مثلث پر استوار نظر آئے گا یعنی علمی استعداد، مقاصد جلیلہ کی خاطر ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کرنا اور خو ف و مایوسی سے دامن بچا کر اچھے وقت کا انتظار کرنا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اگر آپ طاہرالقادری کے ہم عصر رقیبوں کا بنظر غائر مطالعہ فرمائیں تو وہ ان تینوں صلاحیتوں کے فقدان کے باعث دنیا میں زبوں حال پھر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اعمال مقاصد کے تابع ہوتے ہیں اور جسکا مقصد جتنا ارفع ہوتا ہے اس کے اعمال بھی اتنے ہی رفیع الشان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ طاہرالقادری معاشرے میں حق و صداقت کی روشنی پھیلانے کے متمنی ہیں۔ وہ اہل دنیا کی نگاہوں میں اسی لیے قدر و منزلت کے حقدار قرار پائے ہیں کہ انہوں نے سچ کی فرمانروائی کے لئے اپنوں کو خفا اور بیگانوں کو تو ناخوش کر لیا لیکن حق و صداقت کے علم کو سرنگوں نہ ہونے دیا۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو بھی کہہ نہ سکا قند
عصر حاضر میں ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ان میں سب سے اہم مسئلہ ملک میں بڑھتی ہوئی ’’دہشت گردی ‘‘ہے۔ اس دہشت گردی نے ایک جانب تو ہمارے معاشرے سے ’’اعتماد‘‘ کی فضا ختم کر دی ہے اور دوسری جانب ہمیں ایک ایسے دوراہے پر لاکر کھڑا کردیا ہے جس کے آگے کا راستہ بند ہوگیا ہے۔ اس صورت حال کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نوجوان نسل ایک جانب تو مذہب سے متنفر ہو رہی ہے اور دوسری جانب معاشی بدحالی نے اسے منفی حربوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اہل مغرب بھی اس صورت حال کا شکار ہوں لیکن وہ سائنس او ر ٹیکنالوجی کی برق رفتار تر قی سے غافل نہیں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہاں حالات کی خرابی کے باوجود سائنسی ایجادات بھی ہو رہی ہیں اور فکر و نظر کے نئے نئے زاویے بھی اجاگر ہو رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہم ذہنی انجماد کا شکار ہوکر محض دقیانوسی خیالات پر اکتفا کر بیٹھے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارا فکری سفر بھی رک گیا ہے اور سائنسی ترقی کی رفتار بھی معدوم ہوگئی ہے۔ اس ابتر اور غیر یقینی صورت حال میں ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی ایسا بندہ بشر سامنے آئے جو اخلاص کا پیکر بن کر بے سمت گامزن نوجوانوں کے سر پر دست شفقت رکھے اور انہیں دینی اور دنیوی تعلیم سے آراستہ کرکے یہ پیغام دے کہ
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ڈاکٹر طاہرالقادری ربع صدی سے یہ فریضہ بطریق احسن انجام دے رہے ہیں۔ وہ نوجوانوں کی فکری آبیاری بھی کرتے ہیں اور ان کی سمت نمائی بھی۔ ا ب تو یہ بات بلا شک و بلا تردُد کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے فکری تربیت یافتہ نوجوان پوری دنیا میں اپنے حق پرست اور دیندار استاد کے افکار و نظریات کی تشہیر و تبلیغ میں مصروف عمل ہیں۔ ان نوجوانوں پر یہ راز منکشف ہو چکا ہے کہ وہی شجر تناور ہوتے ہیں جن کی جڑیں زمین میں پیوست ہوتی ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ایسے شجرِ سایہ دار ہیں جن کے سائے میں علم و ادب کے شائقین سُستا رہے ہیں۔
عصر حاضر میں ایسے خود ساختہ دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں کی کمی نہیں جو اس امر پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ معاشرے میں علم و مذہب اور دانش و برہان کی تمام تر ترقی کا دارو مدار ان ہی کی ذوات مقدسہ پر ہے۔ اس قبیل کے دانشور خود تو فکری اعتبار سے تہی مایہ ہوتے ہیں مگر دوسروں کے افکار عالیات کو اپنے نام سے پیش کرنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے خوشامدانہ طرزِعمل کے باعث ایک جانب تو حکومت کے منظور نظر ہوجاتے ہیں اور دوسری سمت ذرائع ابلاغ پر ان کا قبصہ ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک خاص طرح کی ’’سوچ‘‘ معاشرے میں پھیلانے کی کو شش کرتے ہیں اور جو لوگ ان سے سرِمو ’’اختلاف‘‘ کرتے ہیں وہ انہیں رسوا کرنے کا مو قع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ آپ ذرا غور فرمائیے کہ گزشتہ ربع صدی میں کونسی بڑی اسلامی یا علمی تحریک ظہور پذیر ہوئی ہے؟ میرے خیال میں ہمارے معاشرے کی علمی و اسلامی فضا کی تبدیلی اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب حقیقی دانشور نظری اور عملی ہر سطح پر حق و صداقت کا اظہار کریں۔ یہ امر انتہائی امتنان کا باعث ہے کہ جھنگ جیسے پسماندہ خطے سے ایک شخص طاہرالقادری کے نام سے جلوہ گر ہوتا ہے اور تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی استعداد اور صلاحیتوں کے باعث علمی و اسلامی افق پر ایک آفتاب کی طرح جگمگانے لگتا ہے۔ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعہ ایک ایسی سچی اور کھری تاریخ مرتب کرتا ہے جومعاشرے کوایک نئی نہج عطا کرتی ہے۔ اس کی تحریریں اور تقریریں نوجوانوں کو عزم و حوصلہ عطا کرتی ہیں اور وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرنے کے قرینے تلاش کرلیتے ہیں۔ دانشمند کہتے ہیں کہ جب کسی خطے میں کوئی بڑی شخصیت ظہور پذیر ہوتی ہے تو زمین کی تقدیر بھی بدل جاتی ہے۔ اسکی بہترین مثال یہ ہے کہ جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم مدینہ میں آئے تو وہ منورہ ہوگیا۔ جب یہی قدوم مکہ پہنچے تو وہ مکرمہ ہوگیا اور جب یہی قدوم عرش نشین ہوئے تو وہ معظمہ ہوگیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چراغ الفت سے اپنا چراغ مودت روشن کرنے والے طاہر القادری کو بھی اللہ کی جانب سے یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ آج جھنگ شہر ان کے نام اور کام سے جگمگا رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جو شخص اپنے دل میں چراغ الفت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلا لیتا ہے وہ اِدھر اُدھر کی روشنی سے گریز ہی کرتا ہے اور طاہرالقادری تو اس نظریے کے قائل تھے کہ
دل میں روشن کرلیا ہے حبّ احمد کا چراغ
ہم کبھی لیتے نہیں ہے در بدر کی روشنی
اسی طرح طاہرالقادری کا سطحی سیاست سے کنارہ کش ہوکر علم اور دین کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنا توفیق ایزدی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں انسان حصول زر کے لیے اپنی عزتِ نفس بھی قربان کردے اور جہاں حصول اقتدر کیلئے خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین پس پشت ڈالنے سے بھی گریز نہ کیا جائے وہاں اس مرد حُر نے دنیاوی تاج و تخت کو ٹھوکر مار کر سنتِ حر رضی اللہ عنہ ادا کی اور اہل دنیا کو یہ بصیر ت افروز پیغام دیا کہ
بتا رہا ہے ریاست کو حُر (رض) کا ٹھکرانا
کرے ضمیر ملامت تو نوکری کیا ہے
اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات انسان کو جسم و روح کے حسین امتزاج سے خلق کیا ہے۔ یہ امر انتہائی ملال انگیز ہے کہ انسان بدنی مطالبات و مطائبات کا تو خاص خیال رکھتا ہے لیکن روحانی معاملات کی طر ف سے چشم پوشی اختیار کر لیتا ہے۔ اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان جسمانی طور پر تو تنومند ہوتا جاتا ہے لیکن روحانی طور پر اسے زوال آجاتا ہے۔ یہ امر بھی انتہائی باعث تشویش ہے کہ جسمانی ضعف کو دور کرنے کے لئے انسان نے طبّی دنیا میں کئی ادویا ت ایجاد کرلی ہیں لیکن روحانی کمزوری کا علاج کسی طبیب کے پاس نہیں ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا وصفِ خاص یہ ہے کہ وہ کبیدہ خاطر روحانی مریضوں کا تسلی بخش علاج کرتے ہیں۔ وہ اپنے افکارِ عالیات سے دوا کشیدہ کرتے ہیں اور روحانی مرض کے شکار مریض کو ایسی دوا دیتے ہیں کہ مرض ہلاک اور مریض روبہ صحت ہوجاتا ہے۔ اصل بات محض اتنی ہے کہ اگر معالج کو مرض کا علم ہو جائے تو مریض چند دنوں میں شفایاب ہو جاتا ہے اور اگر میسحا کو مرض کی نوعیت معلوم نہ ہو سکے تو مریض واقعی اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔ طاہرالقادری وہ عیسیٰ نفس ہیں جو روحانی طور پر خستہ حال مریضوں کو غذائے فکری عطا کرکے روبہ صحت کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ جب فرد یا قوم روحانی تنزل کا شکار ہوتو طاہرالقادری جیسے روحانی معالج کی اور زیادہ ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی زندگی کو انتہائی منضبط طریقے سے بسر کیا ہے اور انکے وضع اور جلیل القدر کاموں کو دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ یہ ایک فرد نہیں بلکہ مستقل ادارہ ہے اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ طاہرالقادری کے افکار و نظریات نے سینکڑوں طاہرالقادری پیدا کردیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ طاہرالقادری کو طویل عمر عطا فر مائے تاکہ وہ حق اور سچ کی علمبرداری کرتے رہیں۔ مجھے امید ہے کہ جب وہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے اپنے فکری وارثوں کو دیکھتے ہوں گے تو ایک اطمینان قلب کی کیفیت سے لطف اندوز ہوکر زیر لب کہتے ہوں گے :
سچ کو سچ لکھا ہے ہم نے کس لیے پچھتائیں گے
رات کو سورج کے جلوے چاند ہی کہلائیں گے
تبصرہ