سیدنا امام حسین علیہ السلام کی سوچ ’’حق ہی طاقت ہے‘‘ کے اصول پر قائم ہے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ ﷲِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ.
’’اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں، (وہ مُردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‘‘
(البقره، 2: 154)
خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس ہستیوں کی شہادت نے میدانِ کربلا کو جو مقام و مرتبہ اور عالمِ اسلام و عالمِ انسانیت کو جو سوچ و فکر عطا کی ہے، اس فلسفہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ واقعہ محض واقعہ نہ رہے بلکہ ایک ابدی حقیقت کے طور پر سمجھ میں آجائے۔ واقعہ کربلا کے اندر دو فلسفے آپس میں ٹکراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف یزید کا فلسفہ اور اس کی سوچ و فکر تھی اور دوسری طرف امام حسین علیہ السلام کا فلسفہ اور ان کی سوچ و فکر ہے۔ اسی فلسفہ اور سوچ و فکر کی بناء پر امام حسین علیہ السلام کے نظریہ و فلسفہ کو ’’حسینیت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور یزید کا فکر و فلسفہ ’’یزیدیت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
واقعۂ کربلا کے پسِ منظر میں یزید کی سوچ و فکر یہ تھی کہ طاقت ہی حق ہے یعنی جس کے پاس طاقت ہے وہ حق پر ہے۔ اسی کی پیروی، تابعداری اور معاونت کی جائے اور اس سے ہر صورت سمجھوتہ کرتے ہوئے اس کا ساتھ دیا جائے۔ گویا طاقت کی تائید کرکے اور اس سے تائید لے کر زندگی گزاری جائے۔
یزید کی اس فکر کے برعکس امام حسین علیہ السلام کی سوچ و فکر یہ تھی کہ طاقت حق نہیں بلکہ حق ہی طاقت ہے۔ لہذا نہ تو طاقت کی پرستش کی جائے اور نہ ہی اس کا ساتھ دیا جائے، بلکہ حق کا ساتھ دیا جائے۔ حق کا ساتھ دیتے ہوئے اگر طاقت علمبردارانِ حق کو کچل بھی دے، تب بھی یہ گھاٹے اور خسارے کا سودا نہیں بلکہ اس صورت میں راہِ حق کے مسافر زندہ و جاوید ہوجاتے ہیں۔
ان دو فلسفوں کے ٹکرائو نے امتِ مسلمہ اور عالمِ انسانیت کو یہ بات سمجھادی کہ واقعۂ کربلا کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام شہید ہوکر بھی زندہ ہیں، جبکہ یزید تخت بچا کر بھی مردہ ہوگیا۔ امام حسین علیہ السلام نیزے کی نوک پر چڑھ کر بھی جیت گئے جبکہ یزید تخت پر براجمان رہ کر بھی ہارگیا۔ گویا شہادتِ امام حسینؑ نے ہار اور جیت کا مفہوم ہی بدل دیا۔
امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام اور یزید کے فکر و فلسفہ میں فرق یہ ہے کہ یزید بربریت کا نام ہے۔ جبکہ امام حسین علیہ السلام انسانیت کا استعارہ ہیں۔۔۔ یزید خیانت ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام امانت ہیں۔۔۔ یزید ظلم ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام عدل ہیں۔۔۔ یزید جبر ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام صبر ہیں۔۔۔ یزید سراسر جفا ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام سراسر وفا ہیں۔۔۔ یزید مطلق العنانی کا نام ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام مساواتِ ایمانی کا نام ہیں۔۔۔ یزید بے حیائی و لوٹ مار کا نام ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام سراسر تقویٰ اور ایثار کا نام ہیں۔ لہذا ان دو کرداروں میں یزید باطل کردار کا نام تھا اور امام حسین علیہ السلام حق کے کردار کانام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم و جبر، خیانت و کرپشن، بربریت و خونریزی اور دہشت گردی کی طاقت ’یزیدیت‘ ٹھہری اور اس کے برعکس صبر، جرأت، عدل، امن اور انسانیت کی خوشبو و کردار ’حسینیت‘ قرار پائی۔
کردارِ یزید کی تین جہات
یزید سراسر بے حیائی، لوٹ مار اور کرپشن کا نام تھا، اس کے کردار کی تین جہات (Dimentions) ہیں:
- سیاسی کرپشن
- مالی کرپشن
- اخلاقی کرپشن
1۔ سیاسی کرپشن
یزید نے اسلام کی تاریخ سے انحراف کرتے ہوئے سیاسی کرپشن کی بنیاد بایں طور رکھی کہ اس نے نظامِ خلافت کی اقدار کو پامال کردیا۔ خلافتِ راشدہ اصل میں سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملی سیاسی نظام تھا، جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو اپنی سنت کی صورت میں عطا فرمایا۔ اس نظام کے بارے میں فرمایا:
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَهْدِیِّیْن.
’’تم پر میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت اختیار کرنا لازم ہے۔‘‘
(سنن ترمذی، کتاب العلم عن الرسول الله، باب ماجآء فی الاخذ بالسنة...، 5: 44، الرقم: 2676)
اگر ہم سیرتِ مصطفی، سنتِ مصطفی، تعلیماتِ مصطفی حتّٰی کہ قرآن و سنت کے عملی نظام کو دیکھنا چاہیں تو یہ نظام خلافتِ راشدہ کا نظام تھا۔ یزید نے اس خلافتِ راشدہ کی اقدار کو پامال کرکے اسے بدترین ملوکیت، سفاکیت ،کرپٹ آمریت اور دہشتگردی سے بدل دیا۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ جہاں خلیفۂ راشد سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو دجلہ کے کنارے بھوک سے مرنے والی بکری کے بچے کا بھی فکر تھا، اس نظام کو اس حد تک بدل دیا گیا کہ یزید نے خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس نفوس بھی میدانِ کربلا میں کچل دیئے۔ امام حسین علیہ السلام خلافتِ راشدہ کی اصل اور حقیقی اقدار کے امین، محافظ اور وارث تھے۔ آپ علیہ السلام خلافتِ راشدہ کی اقدار کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے تھے، انہیں تمکن دینا چاہتے تھے اور ان اقدار پر امت کا مستقبل سنوارنا اور استوار کرنا چاہتے تھے۔
یزید کی سیاسی کرپشن یہ تھی کہ اس نے خلافتِ راشدہ اور نظامِ رسالت کی تمام اقدار کو پامال کرکے بدترین، کرپٹ اور سفاک آمریت کے نظام کو رائج کیا۔ اس نے اوپر سے لے کر نیچے تک خاندانی بادشاہت قائم کی اور اس بادشاہت کے نتیجے میں باکردار، پختہ، نیک سیرت، عمر رسیدہ، تجربہ کار، دیانتدار، ایماندار، باشعور اور غیرتِ ایمانی رکھنے والے تمام افراد اور بزرگ صحابہ و تابعین کو ان کے مراتب و مناصب سے ہٹا کر ان کی جگہ اپنے خاندان کے لونڈوں کو ذمہ داریاں سونپ دیں۔
یزید نے باشعور اور ایمانی غیرت رکھنے والوں کو برطرف کرنے کے بعد، ہر جگہ اپنا حلقۂ یاراں قائم کرکے کرپٹ و سفاک خاندانی بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ گویا اس نے اس سیاسی کلچر ہی کو بدل ڈالا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سنت، ریاستِ مدینہ اور خلافتِ راشدہ کی صورت میں امت کو عطا فرمایا تھا۔
اس سیاسی کرپشن کے نتیجے میں چونکہ بدترین آمریت کی بنیاد رکھی گئی لہذا عامۃ الناس سے اختلافِ رائے اور احتجاج کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ حتی کہ شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے بعد اہلِ مدینہ نے احتجاج کیا تو یزید نے افواج بھیج کر مدینہ طیبہ کو تاخت و تاراج کردیا اور نہ صرف مدینہ منورہ بلکہ مسجدِ نبوی پر قبضہ کرکے اس میں گھوڑے، اونٹ اور خچر باندھ دیئے، جس کی وجہ سے تین دن تک مسجدِ نبوی میں اذان اور نماز معطل رہی۔
یزید کے اس عمل کو مؤرخین، علماء اور محدثین نے بلا اختلاف بیان کیا ہے۔ جس نے بھی اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کو بیان کیا ہے، ان میں سے کسی ایک چھوٹے سے امام نے بھی یزید کے اس مذموم فعل کے ارتکاب کا انکار نہیں کیا۔ یزید نے فوج کو مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کی غرض سے بھیجا اور حکم دیا کہ تین دن تک مدینہ تمہارے اوپر حلال ہے یہاں جو چاہو کرو، قتل عام کرو، لاشیں گرادو، خون کے دریا بہادو، عزتیں لوٹ لو، یہ سب تمہارے اوپر مباح کرتا ہوں، لیکن ان تمام سے ہر قیمت اور ہر صورت میری بیعت قبول کرائو۔ اس واقعہ میں بہت سے صحابہ و صحابیات اور تابعین شہید ہوئے۔
بعد ازاں اہلِ مکہ نے احتجاج کیا تو یزید نے مکہ کی طرف بھی افواج بھجوائیں جنہوں نے مکہ معظمہ کو تاخت و تاراج کردیا۔ اس حملہ میں نہ صرف مکہ معظمہ بلکہ مسجد نبوی اور روضۂ رسول کی بے حرمتی کی طرح کعبۃ اللہ کی بھی بے حرمتی کی گئی۔ کعبۃ اللہ پر تیر برسائے گئے، آگ لگائی گئی، جس کے نتیجے میں غلافِ کعبہ اور کعبہ کا بہت سارا حصہ جل گیا۔
جب کعبۃ اللہ جل رہا تھا، اسی دوران یزید دمشق میں بیٹھ کر اپنے ایک مرنے والے کمانڈر کی جگہ دوسرے کمانڈر کی تعیناتی کی ہدایات جاری کررہا تھا۔ اس وقت اس کو قولنج کی تکلیف ہوئی اور وہ تڑپ تڑپ کر مرگیا اور واصلِ جہنم ہوا۔
بعض لوگوں کو مغالطہ ہے کہ شاید اس نے توبہ کرلی ہو مگر توبہ کے احتمال کا گمان رکھنے والے اس بات کو کیوں پیشِ نظر نہیں رکھتے کہ یزید کی موت اس وقت واقع ہوئی ہے جب اس کے حکم پر کعبہ معظمہ کی حرمت کو پامال کیا جارہا تھا اور وہ اس سلسلہ میں خود براہِ راست ہدایات جاری کررہا تھا۔ ایسے بدبخت کو اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق نہیں دیتا اور نہ ایسے شخص کی توبہ قبول ہوتی ہے۔
ان واقعات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یزید نے کتنی بدترین آمریت نافذ کر رکھی تھی کہ اس نے اپنے سیاسی نظام کو بچانے کے لیے نہ صرف واقعہ کربلا بپا کیا، بلکہ مسجدِ نبوی اور حرم پاک کی حرمت کو بھی پامال کیا۔ گویا پہلی صدی کے آخری نصف حصے میں یزید نے اُس سیاسی کلچر کو بہت حد تک تبدیل کردیا جس کی بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھی تھی اور خلافتِ راشدہ کی صورت میں جس نظام کو ایک عروج و کمال حاصل تھا۔
2۔ مالی کرپشن
یزید نے اپنے دورِ حکومت میں نہ صرف سیاسی کرپشن کی بنیاد رکھی بلکہ مالی کرپشن کی بھی بنیاد رکھی۔ خلافتِ راشدہ میں تو عدل کا ایسا نظام تھا کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں خلیفۂ وقت کے سامنے ایک عام آدمی بھی کھڑا ہوکر یہ پوچھ سکتا تھا کہ مالِ غنیمت کی ایک چادر سے ہمارا لباس تو نہیں بنا، آپ کا کرتہ کیسے بن گیا۔۔۔؟ وہاں تو ایک یہودی، امیرالمومنین پر ایک زرہ کا مقدمہ بھی کرسکتا تھا کہ یہ زرہ میری ہے اور سیدنا علی المرتضیٰ علیہ السلام خلیفۃ المومنین ہونے کے باوجود جسٹس کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ قاضی شریح نے حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ زرہ آپ کی ہے تو گواہ پیش کریں۔ آپ علیہ السلام کے پاس گواہ صرف سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام تھے۔ جج نے کہا: بیٹے کی گواہی، باپ کے حق میں قبول نہیں۔ گواہی نہ ہونے کی بنا پر زرہ یہودی کو دے دی گئی۔ یہودی نے جب عدل کا یہ عالم دیکھا تو کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا اور کہا: زرہ حضرت علی علیہ السلام ہی کی ہے، میں نے غلط مقدمہ کیا تھا، لیکن میں عدل و انصاف کے حوالے سے اسلام کا یہ کردار دیکھ کر مسلمان ہوتا ہوں۔
آقا علیہ السلام یہ نظام امت کو دے کر گئے تھے اور اس پر عملدرآمد بھی تھا۔ یزید نے اس نظام کو بری طرح پامال کردیا اور دیانت و امانت کی جگہ خیانت و بددیانتی نے لے لی۔ قومی اور سرکاری خزانہ ذاتی عیاشی کی نذر ہوگیا۔ شہنشاہانہ اندازِ سلطنت اختیار کیا گیا اور حکمرانوں نے عیاشی کی زندگی بسر کرنا شروع کردی۔ یزید نے قومی خزانے کو لوٹا اور اپنی عیاشی، امارت، شہنشاہیت، بادشاہت اور اپنی مستیوں پر بے دریغ لٹانا شروع کردیا۔
3۔ اخلاقی کرپشن
یزید نے سیاسی اور مالی کرپشن کے ساتھ ساتھ جس تیسری کرپشن کی بنیاد رکھی، وہ اخلاقی کرپشن تھی۔ اس نے دینی، اسلامی اور اخلاقی اقدار کو مٹایا اور اسلامی روایات، شرم و حیاء اور حلال و حرام کو پامال کیا۔ اس نے حدودِ الہٰیہ کو توڑتے ہوئے بدکاری و بے حیائی کے امور کو علی الاعلان رواج دیا۔
ان تینوں سیاسی، مالی اور اخلاقی کرپشن کے مجموعہ کا نام یزید ہے۔ وہ ایک شخص تھا مگر آنے والی نسلوں کو ایک پورا نظام دے گیا۔ یہ پورا نظام یزیدیت کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ یاد رکھیں! جس کے طرزِ زندگی، طرزِ حکمرانی، طرزِ سلطنت اور طرزِ حکومت میں ان چیزوں کی جھلک نظر آئے، وہ اپنے دور کا یزید ہے اور جو ان پلیدیوں سے ٹکرائے اور اپنے دور کے یزید اور نظامِ یزیدیت کو للکارے وہ اپنے دور کا غلامِ حسین، حسینیت کا پیروکار، حسین کا وفادار اور حسینی لشکر کا سپاہی ہے۔
یزید نے نظامِ سلطنت کو اپنی ذاتی خواہش کا نام دے رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے انسانی حقوق، انسانی آزادی، اخلاق و شرافت کی اقدار، دین اور احکامِ شریعت، نظامِ احتساب اور عدل و انصاف کا قتل عام کیا اور سارے کے سارے نظام کو اپنے حرص و ہوس کی بھینٹ چڑھادیا۔ یاد رکھیں! آج کل دکھائی دینے والی اس طرح کی جملہ برائیاں اور خرابیاں سب باقیاتِ یزید ہیں۔
برائی کے خاتمہ کی تین سطحیں
حضور علیہ السلام نے فرمایا:
مَنْ رَأی مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْیَغَیِّرُهٗ بِیَدِهٖ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهٖ، وَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهٖ، وَذَلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَان.
’’تم میں سے جو شخص خلافِ شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کاکمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان النهی عن المنکر)
اس حدیث مبارکہ کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برائی کے خاتمہ کے درج ذیل تین معیار مقرر کئے:
1۔ برائی کو ہاتھ سے روکنا
تم میں سے جو شخص برائی، ظلم و جبر، بے حیائی، لوٹ مار، بدی، کرپشن اور دین کی حدود کی خلاف ورزی کو ظاہراً دیکھے تو اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ اس کو روکے اور اس نظام کو جو ظلم و جبر، بدی و بے حیائی اور لوٹ مار و حرام پر قائم ہے، پوری ہمت کے ساتھ اسے بدل دے۔ برائی کے خاتمہ کا یہ پہلا اور آئیڈیل معیار ہے۔
2۔ برائی کے خلاف آواز بلند کرنا
برائی کے خاتمہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرا درجہ بھی عطا فرمایا۔ اس دوسرے درجہ کو ذکر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے کمزور لوگوں کا خیال فرمایا، کیونکہ ہر ایک میں جرأت و طاقت نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر کوئی مضبوط دل اور اعصاب کا مالک ہوتا ہے۔ شعر و شاعری اور جوشِ خطابت میں ٹکرانا آسان مگر میدان میں اتر کر ٹکرانا اور اپنی جانیں قربان کردینا مشکل ہوتا ہے۔ ظلم و جبر سے ٹکرانے کی جرأت و ہمت صرف اسے نصیب ہوتی ہے جس کے مَن میں اللہ تعالیٰ نے حسینیت کا چشمہ کھول دیا ہو اور اسے حسینیت کے نور سے روشن کردیا ہو۔ جب حسینیت مَن میں داخل ہوجائے تو بندہ خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، بزدل نہیں ہوسکتا۔ اس میں بے حسی، بے ضمیری، بے غیرتی، بے حیائی، ڈر، خوف اور کسی قسم کی مصلحت نہیں ہوتی۔ وہ کمزور ہوکر بھی دنیا کا طاقتور ترین ہوتا ہے کیونکہ اس کی طاقت اپنی نہیں ہوتی بلکہ کردارِ امام حسین علیہ السلام اور فکرِ حسین علیہ السلام کی بدولت طاقت نصیب ہوتی ہے۔
حضور علیہ السلام نے یہ خیال فرمایا کہ بتقاضائے بشریت کچھ لوگ کمزور دل والے بھی ہوتے ہیں جو ٹکرانے کی ہمت نہیں رکھتے، ایسے لوگوں کی اکثریت ہے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے رعایت فرمائی کہ جو برائی اور بدی کے خاتمے کے لیے ان سے ٹکرانے کی ہمت نہیں رکھتا وہ زبان سے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کرے اور اس کی مذمت کرے۔
3۔ برائی کو دل سے برا جاننا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برائی کے خاتمہ کا تیسرا درجہ اور پیمانہ بھی دیا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو مفاد کی طاقت کے آگے کمزور پڑ جائیں گے اور زبان سے للکارنے کی ہمت بھی کھو بیٹھیں گے۔ کئی لوگ مالی مفاد کی وجہ سے باطل کے آگے کھڑے نہیں ہوسکیں گے اور چندوں، پرمٹوں، ڈویلپمنٹ فنڈز اور گلی کوچوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی لالچ میں کمزور ہوجائیں گے اور انہیں زبان سے بھی حق بات کہنے اور برائی کو برائی کہنے کا حوصلہ نہیں ہوگا۔ یہ اس ڈر میں رہیں گے کہ کہیں طاقتور انہیں طاقت اور بدمعاشی کے ذریعے معاشرتی و معاشی حوالے سے تباہ نہ کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے تیسری گنجائش دے دی اور فرمایا کہ اگر بدی اور برائی کو زبان سے بھی للکار نہ سکو، مذمت نہ کرسکو اور کلمۂ حق ادا کرنے سے بھی خوف زدہ ہوجائو یا مفادات کے اسیر ہوجائو، تو پھر برائی کے خلاف دل سے نفرت ضرور کرو۔ باطل اور برے لوگوں کی غلامی، وفاداری اور ان کی تابعداری نہ کرو اور نہ ہی ان کا ساتھ دو۔
اس تیسرے درجے پر عمل کرنے کے حوالے سے فرمایا:
ذَالِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَان.
’’یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
یعنی اس کے بعد ایمان کی اور کوئی کمزور ترین حالت نہیں ہوسکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درجہ کو بھی ایمان کے اندر رکھا، ایمان سے خارج نہیں کیا۔ اس لیے فرمایا کہ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ یعنی یہ ایمان کی Bottom لائن، آخری حد ہے۔
عملاً ایمان سے خارج ہونے والا کون ہے؟
برائی کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کے انتہائی نچلے درجہ کے بعد جو درجہ آتا ہے وہ طاقت سے ٹکرانے، زبان سے للکارنے اور دل میں برا جاننے کے بجائے ظالم کے ساتھ مل جانا ہے اور یہ ایمان سے خارج کرنے والا عمل ہے۔ یعنی بدی اور ظلم و جبر کا ساتھ دینا اضعف الایمان سے بھی نچلا درجہ ہے۔ کمزور ترین حالتِ ایمان کے بعد اس حالت کو کسی صورت داخلِ ایمان نہیں سمجھا جاسکتا۔ ایمان کی شرعی، اعتقادی، اصولی اور فنی بحث سے قطع نظر اس درجہ میں تو عملی ایمان کی کوئی شکل نظر ہی نہیں آرہی۔ کیونکہ ایمان کی آخری حد، Bottom لائن پر آنے کا مطلب ہے کہ عملی ایمان کے حوالے سے صفر پر آگئے، اس کے بعد پھر منفی گنتی شروع ہوجاتی ہے۔
امام حسین علیہ السلام: راہِ عزیمت کے مسافر
یزید کے دورِ حکومت کی خرابیوں اور خرافات کو دیکھ کر کچھ لوگ خوفزدہ یا مفاد زدہ ہوکر یزیدیت کے حمایتی بنے اور اس کے ساتھ مل گئے۔ یہ کوفہ اور دمشق میں رہنے والے لوگ تھے جبکہ عوام کی باقی بھاری اکثریت دو پوزیشنز پر رہی:
- فبلسانہ کی پوزیشن
- فبقلبہ کی پوزیشن
اس صورت حال میں امام حسین علیہ السلام کی انفرادیت کیا ہے؟ پورا خانوادہ قربان کرانے اور مظلومانہ شہادتیں دینے کے حقائق اپنی جگہ مگر ان تمام حقائق سے ہٹ کر امام حسین علیہ السلام کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ جہاں امت کی بھاری اکثریت فبلسانہ (زبان سے برا کہنے) اور فبقلبہ (دل سے برا جاننے) کے درجے میں گئی، وہاں آپ علیہ السلام فلیغیرہ بیدہ کے مقام پر فائز ہوئے۔
بہت سے لوگوں نے یزید کی تائید بھی کی، بہت سوں نے مصلحت، رخصت اور خاموشی کا راستہ بھی اختیار کیا مگر امام حسین علیہ السلام نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا۔ رخصت کا راستہ جائز تھا مگر عزیمت کا راستہ افضل تھا۔ جائز پر گناہ نہیں مگر فضیلت بھی نہیں جبکہ عزیمت میں فضیلت ہے۔ پس امام حسین علیہ السلام جائز کرنے والوں میں سے نہیں بلکہ افضل کرنے والوں میں سے ہیں۔ اس عمل سے آپ علیہ السلام ساری فضیلتیں سمیٹ کر لے گئے۔
قرآن مجید نے بھی اضطرار کی حالت میں رخصت اور خاموشی کی اجازت دی ہے۔ فرمایا:
فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْهِ.
’’پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں۔‘‘
(البقره، 2: 173)
گویا اضطرار کی حالت میں اجازت و رخصت ہوتی ہے مگرامام حسین علیہ السلام صاحبِ اجازت نہیں بلکہ صاحبِ فضیلت ہوئے۔ اجازت کا طریق بہت سوں نے اپنایا مگر فضیلت کا طریق امام حسین علیہ السلام کے حصے میں آیا۔ یہ راہِ عزیمت تھی جو امام حسین علیہ السلام نے اپنائی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی ہستیاں جنہوں نے اس معاملہ پر راہِ رخصت کو اپنایا، آج ان کی شہادتوں اور تاریخوں کا بھی علم نہیں۔ ان کے مراتب اپنی اپنی جگہ بلند ہیں مگر امام عالی مقام علیہ السلام کی شہادت اس انفرادیت کی بناء پر اتنی معروف ہے جتنی سیرتِ محمدی معروف ہے۔ اس لیے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت دراصل سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب ہے جس کا ذکر قیامت تک نہیں مٹ سکتا۔
’’میں حُسین سے ہوں‘‘
امام عالی مقام کی شہادت باقی شہادتوں سے کتنی خاص اور مختلف ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آقا علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو اپنے دین کا پیکر قرار دیا اور فرمایا:
اَلْحُسَیْنُ مِنِّیْ وَاَنَا مِنَ الْحُسَیْن.
’’ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔‘‘
(جامع ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین علیهما السلام)
حسین علیہ السلام مجھ سے ہے، مراد یہ ہے کہ حسین علیہ السلام کا صدور مجھ سے ہے یعنی مجھ سے نکلا ہے۔ میں حسین علیہ السلام سے ہوں یعنی میرا ظہور حسین علیہ السلام سے ہوگا، یہ اپنے وجود سے دنیا کو دکھائے گا کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہیں اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین کیا ہے۔۔۔؟ حسین علیہ السلام ایسی قربانی اور ایسی شہادت دے گا اور ایسے کردار کا اظہار کرے گا کہ اس دن دنیا کو میری سنت کی حرمت کا اندازہ ہوگا اور اس دن پتہ چلے گا کہ میری حقیقت کیا ہے۔۔۔؟ وہ صبر کسی عام انسان کو میسر نہیں ہوگا جو صبر میدانِ کربلا میں حسین علیہ السلام کے وجود سے ظاہر ہوگا، درحقیقت وہ حسین علیہ السلام کا صبر نہیں بلکہ وہ میرے صبر کا ظہور ہوگا۔۔۔ وہ استقامت جو میدان کربلا میں حسین علیہ السلام کے کردار سے ظاہر ہوگی وہ حسین علیہ السلام کی اپنی استقامت نہیں بلکہ وہ میری استقامت کا ظہور ہوگا۔۔۔ وہ کمال جو میدان کربلا میں حسین علیہ السلام کے وجود سے ظاہر ہوگا، وہ اس کی اپنی ذات کا نہیں بلکہ وہ میری ذات کا کمال ہوگا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ جو شہادت، حسین علیہ السلام کو ملے گی، وہ ظاہراً دیکھنے میں شہادتِ حسین ہوگی مگر وہ میری شہادت کی عکاسی ہوگی۔۔۔ جیسے قیامت تک میری سیرت کا بول بالا رہے گا، اسی طرح قیامت تک حسین علیہ السلام کی شہادت کا بول بالا رہے گا۔۔۔ کیونکہ وہ شہادت ظاہراً حسین علیہ السلام کی شہادت ہوگی مگر باطن میں میری شہادت ہے۔ یعنی میری شہادت اللہ نے میرے حسین علیہ السلام کے وجود پر قائم کردی ہے۔
حسین علیہ السلام میرے دین کی عزت اور حرمت کا معیار مقرر کردے گا۔۔۔ حسین علیہ السلام عزت اور ذلت کے معیار کے فرق کو واضح کرے گا۔۔۔ حسین علیہ السلام واضح کرے گا کہ عظمت کا معیار کیا ہے اور کمینگی کا معیار کیا ہے۔۔۔؟ دین سے تمسک اور وفاداری کا معیار کیا ہے اور دین سے غداری کا معیار کیا ہے۔۔۔؟ امانت کا معیار کیا ہے اور خیانت کا معیار کیا ہے۔۔۔؟ کس کردار کی پیروی کی جائے اور کس کردار سے نفرت کی جائے۔۔۔؟ باطل سے کس طرح لڑا اور ٹکرایا جائے اور کس طرح سب کچھ لٹایا جائے۔۔۔؟ یہ سبق قیامت تک آنے والی نسلوں کو میرا حسین علیہ السلام سمجھا دے گا۔
ہمارے ہیں حسین علیہ السلام!
امام حسین علیہ السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید محبت و پیار کی بنیادی وجہ ہی یہ تھی۔ احادیثِ صحیحہ اور دیگر اعلیٰ درجہ کی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب امام حسین علیہ السلام کے بچپن میں ہی اللہ کی طرف سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مظلومیت کی حالت میں شہادت کی خبر سنائی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آقا علیہ السلام آنسو بہارہے ہیں اور ہچکی کے ساتھ رو رہے ہیں۔ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے شہید ہونے کی خبر دی۔
اسی طرح حدیثِ صحیح سے ثابت ہے کہ آقا علیہ السلام میدانِ کربلا میں روحانی طور پر خود موجود تھے اور جملہ شہدائے کربلائے معلی کاخون ایک بوتل میں سنبھال رہے تھے۔
(ان جملہ احادیث مبارکہ کی تفصیلات مع شروحات و تعلیقات مطالعہ کے لیے شیخ الاسلام کی تصنیف ’ذکر مشہد الحسین علیہ السلام من احادیث جدالحسین‘ کا مطالعہ فرمائیں)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امام عالی مقام سے اس تعلق اور امام عالی مقام کے مقام و مرتبہ کے پیش نظر شہادتِ امام حسین کا پیغام یہ ہے کہ آپ علیہ السلام سے بے پناہ عشق و محبت کرنا، آپ علیہ السلام کی مؤدت میں جینا اور مرنا ایمان کی جان ہے۔
جب سے امت اور ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت آئی ہے اور اس کا غلبہ ہوا ہے، ہم نے اپنے درمیان بہت بری تقسیمیں کر رکھی ہیں۔ مسلکِ تشیع کی ساری ترجیح چونکہ محرم اور شہادت امام حسین پر ہوتی ہے اور وہ اسے اپنے انداز کے ساتھ مناتے ہیں۔ اہلِ سنت اس انداز کے ساتھ نہیں مناتے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ فرقہ وارانہ سوچ نے ایسی تقسیم کردی ہے کہ ہم نے امام حسین علیہ السلام کو شیعوں کا بنادیا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام صرف شیعوں کے ہیں۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے، ایسا سوچ کر ہم اپنے آپ کو ایمان سے محروم کردیں گے، اس لیے کہ امام حسین علیہ السلام کسی ایک طبقے کے نہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں۔۔۔ امام حسین علیہ السلام اسلام کے ہیں۔۔۔ امام حسین علیہ السلام دینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں۔۔۔ امام حسین علیہ السلام دین کا پیکر ہیں۔۔۔ امام حسین علیہ السلام سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر ہیں۔۔۔ امام حسین علیہ السلام شریعت مصطفی اور غیرتِ مصطفی کا پیکر ہیں۔۔۔ امام حسین علیہ السلام دین مصطفی کی آبرو ہیں۔۔۔ امام حسین علیہ السلام قرآن و سنت کی عزت و حرمت ہیں۔۔۔ امام حسین علیہ السلام کسی ایک مکتبِ فکر کے نہیںہیں بلکہ امام حسین علیہ السلام ہر ایک کے ہیں۔۔۔ امام حسین علیہ السلام سب کے ہیں۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
اس فرقہ وارانہ سوچ نے ہمیں بڑی نعمتوں سے محروم کردیا ہے۔ ہم نے ایک خود ساختہ تقسیم کررکھی ہے کہ صحابہ فلاں کے ہیں، اہل بیت فلاں کے ہیں، خدا فلاں کا ہے، نبی فلاں کا ہے، توحید فلاں کی ہے، رسالت فلاں کی ہے، اولیاء فلاں کے ہیں، امام حسین علیہ السلام فلاں کے ہیں، اس فلاں فلاں نے ہمیں برباد کردیا ہے۔ اس سوچ سے ہمیں نکلنا ہوگا۔ آقا علیہ السلام نے تفریق کی سوچ نہیں دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل بہتر ٹکڑوں میں بٹ گئے تھے، میری امت میں تہتر ٹکڑے ہوں گے مگر جنت اور ہدایت کی راہ پر وہی ہوگا جو سوادِ اعظم کو تقسیم نہیں کرے گا۔
لہذا یاد رکھ لیں کہ محبتِ حسین علیہ السلام، عظمتِ حسین علیہ السلام، تعلقِ حسین علیہ السلام، مودتِ حسین علیہ السلام، تعظیمِ صحابہ علیہ السلام، تکریمِ صحابہ علیہ السلام، اتباع صحابہ علیہ السلام، محبت و اتباعِ اہلِ بیت علیہ السلام یہ سب ایک ہے۔ یہ مختلف رخ ہیں مگر سارے چشمے آقا علیہ السلام کی بارگاہ سے ہی پھوٹے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یَاأَیُّهَاالنَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا: کِتَابَ ﷲِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَیْتِي.
’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری) میرے اہلِ بیت (ہیں)۔‘‘
(سنن ترمذی، کتاب: المناقب عن رسول الله، باب: فی مناقب اهل بیت النبی، 5: 662، الرقم: 3786)
یہ سب احادیث ہماری کتابوں میں ہیں۔ خارجیت نے ہمارے ذہن خراب کردیئے ہیں کہ اہلِ بیت کا نام لیا تو فوری شیعہ کا فتویٰ لگ جائے گا۔ اگر اہل بیت شیعوں کے ہیں تو پھر ہم بخاری و مسلم کو بھی چھوڑ دیں، اس لیے کہ محبتِ اہلِ بیت کی احادیث سے صحیح بخاری و مسلم اور صحاح ستہ بھری پڑی ہیں۔ اگر ہر اس چیز کو چھوڑ دیا جس میں محبتِ اہلِ بیت کا پیغام ہے تو پھر دین کہاں سے لائیں گے۔۔۔؟ یاد رکھیں! یہ شیعوں کی بنائی ہوئی احادیث نہیں ہیں بلکہ یہ تو بخاری و مسلم اور صحاح ستہ کی صحیح احادیث ہیں۔ اس سوچ سے نکل کر وحدت کی طرف آنا ہوگا۔
حسینی کردار کو اپنانے کی ضرورت
شہادتِ امام حسین علیہ السلام کا دوسرا پیغام یہ ہے کہ حق و باطل کے وہ دو فکر و فلسفے جن کا آغاز امام عالی مقام کی عظیم الشان شہادت سے ہوا تھا، وہی دو فکر و فلسفے آج تک چلے آرہے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں ان دو فکرو فلسفہ میں سے کس کا ساتھ دینا ہے۔۔۔؟ ایک سوچ و فکر یہ ہے کہ ڈر کر اور خوفزدہ ہوکر مفاد کے پیچھے لگ کر یزیدیت کے تابع ہوجائیں۔ اس صورت میں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ دو دو ٹکے کے یہ مفادات یہیں رہ جانے ہیں، قبر میں بھی نہیں جانے۔ قیامت کے دن ان مفادات میں سے کوئی مفاد کام نہیں آئے گا۔ یزیدیت سے دوستی کرنے والو۔۔۔! یزیدیت سے وفا نبھانے والو۔۔۔! یزید کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے والو۔۔۔! دین کا نام لے کر دین بیچنے والو۔۔۔! یہ دین فروشی قیامت کے دن کام نہیں آئے گی۔ قیامت کے دن حسین علیہ السلام سے محبت کام آئے گی۔ یزیدیت کا کردار قیامت کے دن لعنت کا طوق بن کر متبعینِ یزید کی گردنوں میں ہوگا جبکہ حسینیت کا کردار قیامت کے دن شفاعت بن کر غلامانِ حسین علیہ السلام کے سروں پہ سایہ فگن ہوگا۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، ستمبر 2018ء
تبصرہ