قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا روحانی پہلو
طیبہ کوثر
تاریخ عالم کے مطالعہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ تاریخ انسانی میں بہت سے ایسے عظیم لیڈر گزرے ہیں جن کے مخلصانہ اور مدبرانہ کارنامے اپنی انفرادیت اور تنوع کے اعتبار سے دنیا بھر میں رشک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ جو اس دنیا فانی سے پردہ کر جانے کے باوجود امر ہو جاتے ہیں اور ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ و تابندہ ہو جاتا ہے۔ جو جہدِ مسلسل کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بناتے اور دوسروں کی خاطر جینے کو جینا قرار دیتے ہیں۔ جو خود زمانے کی تلخیاں اور سختیاں برداشت کر کے دوسروں کو آرام پہنچانے کو حقیقی زندگی شمار کرتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کے بانی قائدِ اعظم کا شمار بھی ایسے ہی عظیم لیڈروں میں ہوتا ہے۔
قائدِ اعظم اپنے افکار و نظریات، بلندی کردار اور کارناموں کے اعتبار سے ایک بھرپور تاریخ بھی ہیں اور نشانِ منزل بھی۔ آپ نے خداداد صلاحیت و بصیرت اور سیاسی جد و جہد سے عظیم مفکر علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان کے خاکے میں حقیقت کا رنگ بھرا۔ آپ نے اپنے خونِ جگر اور خونِ تمنا سے ناممکن کو ممکن بنانے اور شبِ غلامی کو سحر آزادی میں بدلنے کی دن رات سعی کی۔ جس کے نتیجے میں ایک اسلامی مملکت وجود میںآئی جسے دنیا پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔
قائدِ اعظم ملتِ اسلامیہ کے درد سے معمور ایسے سچے اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے جن میں مصور پاکستان علامہ اقبال کے مرد مومن کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ آپ نے نہ صرف حصول پاکستان کی جد و جہد میں اسلامیان ہند کی رہنمائی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کی بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی تمام امور میں اسلامی تعلیمات کو پیشِ نظر رکھا۔ آپ کی سحر انگیز شخصیت ہمہ جہت خوبیوں کا مرقع ہے۔ جس کا ہر ہر پہلو روشن و تابناک ہے تاہم زیرِ نظر تحریر میں آپ کے روحانی پہلو پر اختصاراً روشنی ڈالی جائے گی تاکہ آپ کی اسلامی زندگی موجودہ پاکستانی عہدیداران کے لیے مشعلِ راہ بنے۔
قائدِ اعظم کا قرآن سے تعلق:
قائدِ اعظم قرآنِ حکیم کو اپنا آخری اور قطعی رہبر سمجھتے تھے۔ آپ کی قرآن حکیم سے گہری دلچسپی اور قرآن فہمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے قرآنِ حکیم کو پڑھنے اور اسے ضابطۂ حیات بنانے کے حوالے سے نومبر 1939ء میں عید الفطر کے موقع پر مسلمانوں کے نام اپنے پیغام میں فرمایا:
مسلمانو! ہمارا پروگرام قرآن مجید میں موجود ہے۔ ہم مسلمانوں کو لازم ہے کہ قرآن پاک کو غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی۔
آپ نے مسلمانانِ ہند کو اعداء کی غلامی سے نکالنے اور ان میں وحدت پیدا کرنے کے لیے قرآن حکیم کا سہارا لیا۔ دسمبر 1943ء میں کراچی میں مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
وہ کون سا رشتہ ہے جس کے ساتھ منسلک ہونے سے تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے، وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟
پھر خود ہی جواب میں فرمایا:
وہ بندھن، وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہوتی چلی جائے گی۔
قائدِ اعظم کے پیشِ نظر قیامِ پاکستان کا مقصد اسلامی تعلیمات کا نفاذ تھا۔ پاکستان کے قیام سے قبل جولائی 1947ء میں قیامِ پاکستان کے ممکنہ مسائل کے حوالے سے ایک نشست میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائدِ اعظم سے پو چھا کہ ’’پاکستان کا دستور کیسے بنایا جائے گا؟‘‘ تو قائدِ اعظم نے فرمایا:
پاکستان کا آئین قرآن مجید ہو گا۔ میں نے قرآن پڑھا ہے۔ میرا پختہ یقین ہے کہ قرآنی آئین سے بڑھ کر کوئی آئین نہیں ہو سکتا۔ میں نے مسلمانوں کا سپاہی بن کر پاکستان کی جنگ جیتی ہے۔ میں قرآنی آئین کا ماہر نہیں۔ آپ اور آپ جیسے دوسرے علماء کو میرا مشورہ ہے کہ آپ لوگ مل بیٹھ کر نئے قائم ہونے والے پاکستان کے لیے قرآنی آئین تیار کریں۔
محمد متین خالد، اسلام کا سفیر: 237
مذکورہ بالا قائدِ اعظم کے افکار اور فرمودات سے آپ کی قرآن سے عملی محبت واضح ہوتی ہے۔ آپ قرآن کو باعثِ ہدایت و روشنی سمجھتے تھے اور قوی یقین رکھتے تھے کہ اس نور سے اکتسابِ عمل کرنے والے اور اس کی اتحاد پرور تعلیمات کی پیروی کرنے والے ہی منزل مقصود کو پا کر عروسِ آزادی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔
قائدِ اعظم کا جذبہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
قائدِ اعظم کی زندگی کا ایک اہم اور قابلِ قدر گوشہ جذبہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے والہانہ عقیدت و محبت تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جذبہ عشق نے قدم قدم پر آپ کی رہنمائی کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی محبت کا پہلا شعوری اظہار lincoln's inn میں داخلے کے وقت نظر آتا ہے۔ lincoln's inn کے بیرونی دروازے پر قدیم قانون دانوں کے ناموں میں سرِفہرست حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام دیکھ کر آپ نے اسی وقت اس ادارے میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا جو کہ آپ کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گہری محبت و عقیدت کا زندہ و جاوید ثبوت ہے۔ بعد ازاں 1947ء میں آپ نے کراچی میں وکیلوں کے اجتماع میں lincoln's inn میں اپنے داخلہ لینے کی وجہ کا برملا اظہار یوں کیا:
ایک مسلمان کی حیثیت سے میرے دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی، جن کا شمار دنیا کے عظیم مدبروں میں ہوتا ہے، بہت عزت تھی۔ ایک دن اتفاقاً میں lincoln's inn گیا اور میں نے دروازے پر ’’پیغمبرِ اسلام‘‘ کا نام کھدا دیکھا۔ میں نےlincoln's inn میں داخلہ لے لیا کیونکہ اس کے دروازے پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک دنیا کے عظیم قانون سازوں کی فہرست میں لکھا تھا۔
محمد حنیف شاهد، قائدِ اعظم اور اسلام)
قائدِ اعظم امت مسلمہ کی تمام مشکلات اور پریشانیوں کا حل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ اطہر کی تقلید میں سمجھتے تھے۔ آپ کا ایمان تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے سے ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ آپ نے 14 فروری 1948ء کو شاہی دربار سبی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔
(رئیس احمد جعفری، خطبات قائدِ اعظم: 581)
قائدِ اعظم کا باطن حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار تھا۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر آپ نے فرمایا:
آج ہم کروڑوں انسانوں کے قائد اور عظیم ترین انسانوں کے ممدوح کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جو ایک بزرگ ترین معلم، مدبر اور قانون ساز تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک عظیم حکمران بھی۔ اسلام صرف چند رسوم، روایات اور مذہبی اصولوں کا نام نہیں بلکہ مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی اور دیگر مسائل کی رہبری کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اسلام کی بنیاد صرف ایک خدا پر ہے، انسان، انسان میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور بھائی چارہ اسلام کے مخصوص اصول ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اس زمانے کے لحاظ سے نہایت سادگی تھی، کاروبار سے لے کر حکمرانی تک ہر معاملہ میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور سچی بات تو یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا انسان دنیا نے کبھی پیدا نہیں کیا۔ انہوں نے تیرہ سو سال پہلے ہی جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔
(محمد شریف بقاء، قائد اعظم اسلامی افکار: 46)
قائدِ اعظم کے مذکورہ اقوال اور کردار سے آپ کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عقیدت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ آپ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پابند شریعت مسلمان سے کسی طور کم نہ تھے۔
قائدِ اعظم کا تعلیماتِ اسلام سے لگاؤ:
قائدِ اعظم کو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے گہرا لگاؤ تھا۔ اسلام سے متعلقہ آپ کے جذبات و احساسات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے ہر مقام پر تعلیماتِ اسلام سے اپنی محبت کو واضح کیا۔ 1947ء میں ہر پہلو سے اسلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
اگر کوئی چیز اچھی ہے تو عین اسلام ہے۔ جو چیز اچھی نہیں ہے وہ اسلام نہیں کیونکہ اسلام کا مطلب عین انصاف ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں منظم اور بااصول قوم کے طور پر زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہوئے فرمایا:
کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے لوگ ہمارا مدعا پوری طرح نہیں سمجھتے۔ جب ہم اسلام کا ذکر کرتے ہیں تو اسلام محض چند عقیدوں، رواجوں اور روحانی تصورات کا نام نہیں۔ اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی زندگی، کردار اور معیشت تک کے معاملات میں ایک نظم و ضبط پیدا کرتا ہے۔
(کرم حیدری، قائد اعظم کا اسلامی کردار: 101)
1947ء میں عید الفطر کے موقع پر ماہ رمضان کے اصولوں کی روشنی میں مسلمانوں کو اخلاقی نظم و ضبط کی آگہی دیتے ہوئے فرمایا:
رمضان کا مہینہ، روزہ داری، عبادت اور اللہ سے اپنا تعلق استوار کرنے کا مہینہ ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ بنیادی طور پر تو یہ ایک روحانی ضابطہ ہے جو مسلمانوں پر نافذ کیا گیا ہے۔ لیکن اس فرض کی بجا آوری میں اخلاقی نظم و ضبط کے بارے میں اس کی قدر و قیمت نمایاں ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں جو معاشرتی اور طبعی فوائد حاصل ہوتے ہیں، وہ بھی کم نہیں ہوتے۔
(محمد شریف بقاء، قائدِ اعظم اسلامی افکار: 3)
عبادات کی حقیقی روح کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے 13 نومبر 1939ء کو عید کے پیغام میں فرمایا:
ہر روز پانچ مرتبہ ہمیں اپنے محلوں کی مسجد میں جمع ہونا پڑتا ہے۔ پھر ہر ہفتے کے دوران ہمیں جمعہ کے دن جامع مسجد میں یکجا ہونا پڑتا ہے۔ پھر سال میں دو بار ہمیں عیدین کی نماز کے لیے سب سے بڑی مسجد یا شہر سے باہر میدان میں اکٹھا ہونا پڑتا ہے اور ان سب کے بعد حج ہے جس کے لیے دنیا بھر کے مسلمان ہر ملک سے سفر کر کے زندگی میں کم از کم ایک بار پہنچتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہماری نمازوں کی ترتیب نہ صرف ہمیں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مربوط رکھتی ہے بلکہ اس طرح ہمیں دوسری اقوام کے لوگوں کے ساتھ بھی ملنا جلنا پڑتا ہے۔
(رئیس احمد جعفری، خطبات قائد اعظم: 164)
اسلام کے ساتھ آپ کی گہری وابستگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب کبھی آپ نے اظہارِ فخر کیا تو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت پر کیا قیامِ پاکستان کے بعد 17 اپریل 1948ء کو پشاور کے ایک قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
جو کچھ میں نے کیا ہے، اسلام کے خادم کی حیثیت سے کیا ہے اور جتنا کچھ میری بساط میں تھا، اس کے مطابق اپنی ملت کی مدد کرتا رہا ہوں۔ میری مسلسل کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کر دوں اور مجھے توقع ہے کہ عظیم اور شاندار پاکستان کی تعمیر نو اور ترقی کا عظیم کام جو ہمارے سامنے ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا محسوس کریں گے کہ حصولِ پاکستان سے جو ہم خدا کے فضل و کرم سے حاصل کر چکے ہیں کہیں زیادہ ہمیں اب اتحاد اور استقامت کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس مشن میں میری پوری مدد کریں گے۔ میں ہر مسلمان سے خواستگار ہوں کہ وہ اپنی سی کوشش کرے اور مسلمانوں میں مکمل اتحاد پیدا کرنے کے لیے میری امداد اور تائید کرے اور مجھے اس بات پر پورا اعتماد ہے کہ آپ اس کام میں پاکستان کے کسی دوسرے فرد یا علاقے سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ ہم مسلمان ایک خدا، ایک کتاب یعنی قرآن حکیم اور ایک نبی پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے ہمیں ایک ملت کی صورت میں متحد ہونا چاہیے۔ آپ اس پرانی ضرب المثل سے واقف ہیں کہ اتحاد میں قوت ہے اور نفاق سے ہم گر جاتے ہیں۔
(آغا اشرف، مرقع قائد اعظم: 65)
مذکورہ بالا فرمودات سے آپ کی اسلام سے وابستگی اور قوت ایمانی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ نے مسلمانوں کی روحانی، ثقافتی، معاشی، سماجی اور سیاسی زندگی کو اسلامی معیارات کے مطابق پروان چڑھانے کا کام کیا۔
قائدِ اعظم کی گریہ و زاری:
قائدِ اعظم بہت بڑی شخصیت ہونے کے باوجود نہایت عاجزی و انکساری کا پیکر نظر آتے تھے۔ آپ اکثر خلوت میں خشیتِ الٰہی سے سر بسجدہ گریہ و زاری کرتے۔ مولانا حسرت موہانی قیامِ پاکستان سے پہلے دہلی گئے اور قائدِ اعظم سے ملنے ان کی رہائش گا پر پہنچے۔ شام کا وقت تھا، مولانا نے اپنی آمد کی اطلاع کرانے کے لیے ملازمین سے کہا مگر ہر ایک نے معذوری ظاہر کی کہ ہم ان کے پاس نہیں جا سکتے۔ اس وقت وہ کسی سے ملاقات نہیں کریں گے۔ مولانا اپنی دُھن اور ارادے کے بڑے پکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بغیر ملے نہیں جائیں گے۔ نمازِ مغرب کا وقت تھا، مولانا نے کوٹھی کے لان میں نماز ادا کی اور وہیں ٹہلنے لگے پھر سوچا کہ کسی طرح قائدِ اعظم کا پتہ چلا کر بلا اطلاع وہاں پہنچ جائیں۔ یہ سوچ کر کوٹھی کے برآمدوں میں گھوم رہے تھے کہ ایک کمرے سے کسی کے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ مولانا حسرت موہانی نے خیال کیا کہ قائدِ اعظم اس کمرے میں ہیں اور کسی سے گفتگو میں مصروف ہیں۔ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک کھڑکی سے اندر جھانکنے کی کوشش کی اور جو کچھ دیکھا وہ مولانا کے الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں:
اندر کمرے میں فرش پر مصلیٰ بچھا ہوا تھا، قائدِ اعظم گریہ و زاری میں مصروف تھے۔ زیادہ فاصلے کی وجہ سے ان کے الفاظ صاف سنائی نہ دیتے تھے لیکن اندازہ ہوتا تھا کہ ان پر رقت طاری ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدے میں گرے بہت بے قراری کے ساتھ دعا و التجا کر رہے ہیں۔
(آغا اشرف، مرقع قائد اعظم: 63)
قائدِ اعظم کا مومنانہ کردار:
قائدِ اعظم مومنانہ کردار کا عظیم نمونہ تھے۔ آپ حق بات پر استقامت کے ساتھ ڈٹ جاتے اور اس سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہ ہٹتے تھے۔ اسلام کی خدمت میں آپ کا کردار مخلصانہ اور وفادارانہ تھا۔ آپ کی حُسن سیرت اور کردار کی پختگی کے بارے میں محترمہ فاطمہ جناح یوں بیان کرتی ہیں کہ:
ان کا خلوص، اعلیٰ صلاحیت، دیانت داری، کردار کی پختگی، انسانی حقوق اور انسانی سرشت کے وقار پر ان کا حقیقی اعتقاد، ان کا عظیم شعورِ انصاف، کمزوریوں اور محرومیوں کا شکار بنائے جانے والے لوگوں سے ان کی دل سوزی، ان کی میانہ روی اور توازن ایسی خصوصیات تھیں جنہوں نے ان کو اپنے عوام کا مثالی قائد بنا دیا۔ یقینِ محکم اور ناقابل تسخیر جرأت دو ایسی خصوصیات تھیں جنہوں نے پاکستان کے خواب کو تعبیر آشنا بنانے کے لیے ناقابلِ عبور رکاوٹوں کو سر کرنے میں قائدِ اعظم کی مدد کی۔ سالہا سال کے تجربات اور غور و فکر کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندوستان کے سیاسی مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ اس برصغیر کو تقسیم کیا جائے۔ یہ نتیجہ اخذ کرنے کے بعد وہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے فیصلہ سے متزلزل نہیں ہوئے۔ انہیں خدائے پاک، اخلاقی قوت اور اسلام کی شیرازہ بند قوت پر بے پناہ بھروسہ تھا۔ انہیں اپنے عوام پر بھی اعتماد تھا۔
(محمد متین خالد، اسلام کا سفیر: 51)
قائدِ اعظم کے مومنانہ کردار کی اس سے بڑھ کر گواہی کیا ہو گی کہ حصولِ پاکستان کو وہ اپنا کارنامہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ آپ فرماتے:
یہ مشیت ایزدی ہے۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ جس قوم کو برطانوی سامراج اور ہندو سرمایہ دار نے قرطاس سفید سے حرفِ غلط کی طرح مٹانے کی سازش کر رکھی تھی آج وہ قوم آزاد ہے۔ اس کا اپنا ملک ہے، اپنا جھنڈا ہے، اپنی حکومت ہے، اپنا سکہ ہے، اپنا آئین ہے اور اپنا دستور ہے۔ کیا کسی قوم پر اس سے بڑھ کر خدا کا کوئی اور انعام ہو سکتا ہے۔ یہی وہ خلافت ہے جس کا وعدہ خدا نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تھا کہ اگر تیری امت نے صراطِ مستقیم کو اپنے لیے منتخب کر لیا تو ہم اسے زمین کی بادشاہت دیں گے۔ خدا کے اس انعام عظیم کی حفاظت ہر پاکستانی مرد و زن، بچے، بوڑھے اور جوان پر فرض ہے۔ جب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میری قوم آج آزاد ہے تو میرا سر عجز و نیاز کی فراوانی سے بارگاہِ رب العزت میں سجدہ شکر بجا لانے کے لیے فرطِ انبساط سے جھک جاتا ہے۔
موجودہ پاکستانی عہدیداران کے لیے لمحۂ فکریہ:
مذکورہ بالا تحریر کی رو سے قرآن حکیم کی عظمت، حضور سے عشق و محبت اور اسلامی تعلیمات کا احترام جتنا قائد اعظم کے دل میں تھا اتنا عصر حاضر کے کسی پاکستانی عہدیدار کے دل میں شاید ہی ہو۔ بظاہر انہوں نے اپنے گرد مذہبی تقدس کا ہالہ نہیں بنایا تھا مگر انہوں نے ہمیشہ عوام کے مذہبی جذبات کی پاس داری کی۔ وہ مذہبی رسومات کی نمائش نہیں کرتے تھے مگر دین کی محبت و عقیدت کے جذبہ سے بھر پور سرشار تھے۔ ان کا رجحان، شعور اور نصب العین تعلیمات اسلامی کے عین مطابق تھا۔ وہ جب بھی بات کرتے تو اسلام کے آفاقی اصولوں، مساوات، اخوت، حریت، عدل و انصاف، حق، وقار، خودداری، یگانگت، برداشت، یقین، تنظیم اور ایثار پر زور دیتے۔ انہوں نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے جان و مال کی پرواہ کیے بغیر ایک عظیم تاریخ رقم کی۔> مگر صد افسوس موجودہ پاکستانی مملکت کے عہدیداروں نے اسلامی تعلیمات کو پس، پشت ڈال کر اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو اپنے دست سفاک سے برباد کر دیا ہے۔ انہوں نے ذاتی و گروہی مفادات کی بھینٹ چڑھ کر ملکی معیشت، سیاست، حکومت اور اسلام کی اساس کو بُری طرح کمزور کر دیا ہے۔ کرپٹ رہنماؤں نے ہوس اقتدار کے نشے میں مست ہو کر ملتِ اسلامیہ کی اقدار کو پامال کر کے بے حیائی، ظلم و جبر، غداری، منافقت، جھوٹ، ضمیر فروشی کو عام کر دیا ہے اور عوام کے حقوق پامال کر کے جمہوریت اور آئین کی دھجیاں اڑا کر وطنِ عزیز کو اشرافیہ کی اسٹیٹ بنا دیا ہے۔
ان ان سنگین حالات میں پاکستان کو اسلام کا حقیقی قلعہ بنانے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی عہدیداران، قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں اپنے دگرگوں احوال کا جائزہ لے کر قائد سے عہدِ وفا کریں اور اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں سے توبہ کرتے ہوئے قائد کی دی گئی امانت کی حفاظت کریں جو کہ تقاضائے دین بھی ہے اور پاکستان کی بقاء، ترقی اور تحفظ کرتے ہوئے پھر سے اسی جذبہ کو بیدار کریں جس کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تاکہ قائداعظم کا پاکستان مسلم ریاست کے طور پر دنیا میں ابھر سکے۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2019ء
تبصرہ