منہاج القرآن اصلاحِ احوالِ امت کی عالمگیر تحریک
راضیہ نوید
اللہ رب العزت نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کا سلسلہ شروع کیا اور ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش پیغمبروں کو ہدایت انسانی کا فریضہ سونپا گیا۔ ہر نبی علیہ السلام کی تبلیغ کے لیے امت، علاقہ، زبان، قوم وغیرہ کو متعین کیا گیا اور ہر نیا آنے والا پیغمبر گزشتہ پیغمبرانہ تعلیمات کا تسلسل ٹھہرا مگر یہ سلسلہ نبوت رسالت مآب خاتم النبیین رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم ہوا اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تاقیامت قائم و دائم رکھنے کا اعلان ہوا کہ اب قیامت تک نہ کوئی نبی مبعوث ہوگا اور نہ کوئی کتاب نازل ہوگی گویا کہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام میں ہر دور میں پیش آمدہ مسائل کا حل رکھ دیا ہے مگر انبیاء کے سلسلہ نبوت کے اختتام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے امت محمدی میں سے صالحین، اولیاء کرام، بزرگان دین اور مجددین کا انتخاب فرمایا جو ہر دور میں امت کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ ان کی ذمہ داری یہ ہوگی کہ تجدید و احیاء دین کا عظیم مشن سونپا جائے گا اور حالات و واقعات کے پیش نظر امت مسلمہ کو رہنمائی ملے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّةًط فَلَوْلَا نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ.
’’اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔‘‘
(التوبة، 9: 122)
درج بالا آیت مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ ایک جماعت یا گروہ ضرور موجود رہتا ہے جو فہم و فراست اور بصیرت کے ساتھ رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس فریضہ کی انجام دہی کے لیے کسی شخصیت کا انتخاب فرماتا ہے۔ اس حوالے سے حدیث میں ذکر ملتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان الله جل جلاله یبعث لهذه الامة علی راس کل مائة سنة من یجدد لها ینها.
’’اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص کو پیدا فرمائے گا جو اس (امت) کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
(ابواداؤد، کتاب الملاحم، باب مایذکر فی قرن المائة، 4/ 109، الرقم: 4291)
عصر حاضر میں قیادت، جدوجہد کے دائرہ کار، تنظیمی نیٹ ورک اور فورمز کے پیمانے پر کسی شخصیت اور جماعت کو پرکھا جائے تو یہ دعویٰ شک و شبہ سے بالاتر نظر آتا ہے کہ اس دور کے مجدد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن ہی مجددانہ تحریک اور جماعت ہے۔ شیخ الاسلام نے جب اس جماعت کا دائرہ کار متعین فرمایا تو اسے کسی خاص علاقے، افراد یا زبان وغیرہ سے منسلک کرنے کی بجائے امت کی سطح پر متعین فرمایا۔ اس میں آپ نے درج ذیل امور کو شامل فرمایا:
- اصلاح احوال امت
- تجدید و احیاء دین
- فروغ تعلیم و بیداری شعور
- عالمگیر اتحاد
- دعوت و افکار اسلامیہ کی تشکیل نو
- بین المذاہب رواداری اور امن عالم کا قیام
- فلاح و بہبود انسانی
درج بالا مقاصد کی انجام دہی کے لیے آپ نے مختلف اوقات میں مختلف فورمز کی بنیاد رکھی تاکہ کام کوتیز تر کیا جاسکے۔ ان فورمز میں منہاج القرآن ویمن لیگ، منہاج القرآن یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج القرآن علماء کونسل، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی اور دیگر کئی ذیلی ادارے شامل ہیں۔
شیخ الاسلام نے حالات کی نزاکت اور وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ایسے دور میں منہاج القرآن ویمن لیگ (5 جنوری 1988ء) کی بنیاد رکھی جب ایک طرف لبرل ازم کا علَم بلند کرنے والے پوری قوت اور منصوبہ بندی کے ساتھ عورت کو ان کے معاشرتی، فلاحی، مذہبی اور سیاسی کردار سے انکاری تھا گویا یوں عورت دو انتہاؤں کے درمیان اپنے وجود کی شناخت اور کردار کے تعین میں متزلزل تھی مگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عورت کو اصل اسلامی اصولوں کی روشنی میں شناخت، مقام اور کردار عطا فرمایا کہ وہ اپنے حجاب اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ معاشرے اور ریاست کی ترقی میں ایک اہم اور صحت مندانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکے اور اس کی ذاتی شناخت بھی قائم رہے۔
تجدید و احیاء دین کی عالمگیر تحریک میں منہاج القرآن ویمن لیگ کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں خواتین کی جدوجہد اور شراکت کے بغیر کوئی تحریک اور جماعت اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے لہذا اسی کے پیش نظر ویمن لیگ کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ معاشرے میں جب عقیدہ صحیحہ پر گرد پڑی تھی اور خصوصاً عقیدہ رسالت کو مبہم بنایا جارہا تھا تب منہاج القرآن ویمن لیگ نے اپنی قیادت کے زیر سایہ عقیدہ رسالت کی قدرو منزلت، اس کی عظمت و رفعت، عقیدہ محبت و عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصل عقیدہ کے احیاء میں اپنا کردار ادا کیا۔ روحانی و وجدانی محافل، شب بیداریوں اور حلقہ جات ذکر و فکر کے ذریعے خواتین کا صاحبِ گنبد خضریٰ سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال کیا۔
منہاج القرآن ویمن لیگ عالمگیر سطح پر قرآن و سنت کی تعلیمات کی ترویج میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ ویمن لیگ کی تعلیم و تربیت یافتہ اسلامی سکالرز نہ صرف سرزمین پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں جہاں پر خواتین اکتسابِ علم کرکے نہ صرف اپنی انفرادی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال رہی ہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ان کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تصوف ایک کاروبار بن چکا تھا۔ اسلامی تعلیمات اور شریعت کی پیروی سے بڑھ کر اسے ایک خاص لباس، وضع قطع وغیرہ کے ساتھ منسلک کیا جارہا تھا۔ پورے معاشرے کو ضعیف الاعتقادی نے اپنے پنجے میں جکڑ رکھا تھا اور خواتین بالخصوص اس کا شکار ہورہی تھیں لہذا منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیر اہتمام اعتکاف، شب بیداریوں اور روحانی اجتماعات کے ذریعے خواتین میں تصوف کا احیاء کیا گیا۔
شیخ الاسلام نے جب تعلیمی میدان میں روایتی و عصری علوم کو یکجا کرکے ایک نئے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی تو کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز کے ساتھ ساتھ طالبات کے لیے منہاج کالج برائے خواتین کی بھی بنیاد رکھی جو ویمن لیگ کے زیر نگرانی کام کرتا رہا اور اس سے فارغ التحصیل تربیت یافتہ طالبات معاشرے میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قلبی و حبی تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے گوشہ درود جہاں 24 گھنٹے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ درود و سلام پیش کیا جاتا ہے اس میں ایک حصہ خواتین کے لیے مقرر کیا گیا تاکہ وہ بھی اکتساب فیض کرسکیں۔
منہاج القرآن ویمن لیگ فلاحی میدان میں بھی بے مثال خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ دین اسلام جو خدمت انسانیت اور فلاح و بہبود پر مذہب، نسل، حسب، نسب اور رنگ سے بالاتر ہوکر خدمت کرنے پر زور دیتا ہے اس کی عملی تصویر ویمن لیگ WOICE کی صورت میں پیش کررہی ہے جہاں معاشرے کے مظلوم، بے سہارا، معذور اور ضرورت مند افراد کی مدد کے ساتھ ساتھ خواتین کو خود کفالت کی منزل حاصل کرنے میں ہر طرح سے معاونت فراہم کی جارہی ہے۔
نپولین نے ایک مہذب معاشرے کی تشکیل کے لیے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔ ویمن لیگ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ معاشرے کے نونہالوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کا فریضہ احسن طریقے سے سرانجام دینے کے لیے Eagers کے زیر اہتمام اپنی خدمات پیش کررہی ہے تاکہ معاشرے کی بہترین ترقی کے لیے مستقبل کی قیادت تیار کی جاسکے۔
ویمن لیگ معاشرے کے ایک نہایت اہم جزو نوجوانوں اور طالبات کے کردار کو بھی بخوبی جانتی ہے جن کی تربیت کا پہلو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا مگر مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ سسٹرز کے زیر انتظام ان کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی تربیت فراہم کرنے کی سعی کی جارہی ہے تاکہ معاشرے کو ایک تربیت یافتہ نسل فراہم کی جاسکے۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پندرہ سو سال قبل خواتین کو امور سلطنت میں کردار عطا فرمادیا تھا لیکن وقت کی دھول پڑنے سے یہ کردار بھی دھند لاگیا۔ ویمن لیگ نے سیاسی میدان میں بھی اپنی خدمات کے ذریعے خواتین کے سیاسی کردار کو زندہ کیا اور آج ہمیں اس خدمت کے طفیل دیگر مذہبی جماعتوں کی خواتین بھی سیاسی خدمات سرانجام دیتے نظر آتی ہیں۔
الحمدللہ تعالیٰ! منہاج القرآن ویمن لیگ کی تین دہائیوں پر مشتمل تجدیدی و احیائی خدمات خواتین معاشرہ کو نئی جہتیں متعارف کروا رہی ہیں۔ جدید دعوتی و تربیتی ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے خدمت دین کا جو تصور پیش کیا جارہا ہے وہ ویمن لیگ کا ہی خاصہ ہے اور وہ وقت اب دور نہیں کہ یہ تجدید و احیائی تحریک امت مسلمہ کو ایک جہت اور مقصد حیات دینے میں کامیاب ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، جنوری 2020ء
تبصرہ