دنیا کے بدلتے حالات اور دینی تحریکوں کا کردار

ڈاکٹرحسین محی الدین قادری

دنیا کے بدلتے حالات اور دینی تحریکوں کے کردار کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں گزشتہ دو تین سو سال کی تاریخ کے اوراق پلٹنا ہوں گے تاکہ ہمیں اتنے عرصے میں موجود جماعتوں، تحریکوں اور ان کی فکر کے بارے میں معلوم ہوسکے اور ہم یہ جان سکیں کہ وہ کیا عوامل و اسباب تھے جن کی بناء پر وہ تحریکیں اور جماعتیں معاشرے میں نتائج و اثرات پیدا کرنے میں ناکام رہیں:

فکری اعتبار سے گزشتہ دو صدیوں کی دینی تحریکوں کی اقسام

گزشتہ دو تین سو سال سے احیائے اسلام کے لیے جتنی بھی جدوجہد ہوتی رہی ہیں، ہم انھیں سمجھنے کے لیے چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

1۔ تحریکوں یا جماعتوں کا ایک طبقہ سلفی تحاریک پر مشتمل تھا۔ پوری دنیا میں چاہے عرب ہو یاعجم سلفی تحاریک کا بنیادی تصور یہ تھا کہ اسلام یا اُمتِ مسلمہ آج اِس لیے کمزور اور زوال پذیر ہے کہ ہم قرآن و سنت، شریعت ،یعنی دین کی اصل شکل سے ہٹ گئے ہیں۔ امت میں بدعت کا تصور وجود میں آگیا ہے اور اسلام کے اصل traditional تصور سے ہم ہٹ گئے ہیں۔ اِس وجہ سے ہم اِس زبوں حالی کا شکار ہیں۔

اس طبقہ کو ہم Traditionalist approach رکھنے والے لوگ کہتے ہیں۔ اُنہوں نے ماڈرن ازم، اجتہاد، ترقی اور نئی چیزوں کو rejectکیا اور Traditional approach کے ساتھ اپنے آپ کو ایک جگہ پر محصور کرلیا۔ اِس فکر کی حامل بہت سی تحریکیں مختلف ممالک افریقہ ،سعودی عرب اور دیگر ممالک میں اُٹھیں۔ سوڈان، لیبیا اور مصر میں یہ تحریک اخوان المسلمین کی شکل میں سامنے آئی۔

2۔ اِن کے برعکس ایک دوسرا طبقہ اُٹھا جو کہ نہایت سیکولر تھا۔ یہ طبقہ دوسری انتہا پر تھا۔ اُس طبقے نے جو تحریکیں قائم کیں، انھیں ہم سیکولر تحریکیں کہہ سکتے ہیں۔ اُن تحریکوں میں عالمِ مشرق کے اہلِ علم بھی تھے اور عالمِ مغرب میں مقیم مستشرقین سے متاثر ہونے والے بھی تھے۔ ان شخصیات نے اسلام کا تنقیدی جائزہ (critically analysis) لینا شروع کیا اور سلفی تحاریک کے برعکس وہ دوسری حد پر پہنچ گئے۔

سلفی تحاریک کے نزدیک بالکل روایتی (traditional) ہوجانا حل تھا جبکہ سیکولر تحاریک جو اگرچہ اسلام کے وجود سے ہی نکلی تھیں لیکن وہ اس حد تک آزاد خیال ہو گئے کہ قرآن وسنت کے حجّت ہونے کو بھی چیلنج کرنے لگے اور احادیثِ مبارکہ کی اہمیت، فقہاء اور مذاہب کی ضرورت پر بھی سوال اُٹھانے لگ گئے۔ الغرض اُنہوں نے اسلام کی تقریباً ہر ہر چیز کوچیلنج کرنا شروع کردیا۔

3۔ تیسرا طبقہ لبرل تحاریک کا ہے۔ ان تحریکوں میں اسلامی تاریخ کے معروف نام شامل ہیں۔ اس میں سیدجمال الدین افغانی کا نام سرفہرست ہے۔مصر کے اندر عبد الرحمن ہیں۔ کہیں امام حسن البنانظر آتے ہیں۔ برصغیر میں سرسید احمد خاں نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال کے افکار بھی اُنہی خطوط پر ہمیں چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں۔ لبرل movements کا ایک پورا تسلسل ہے۔ ان کے نزدیک امتِ مسلمہ کے زوال کا مسئلہ ’’سیاسی‘‘ ہے۔ اِن میں سے کئی شخصیات نے اپنے آپ کو سیاسی اور انقلابی جدوجہد کے ساتھ جوڑ لیا۔ یہاں سے تصورِ انقلاب بھی وجود میں آجاتا ہے۔

سلفی تحریکوں کے ہاں انقلابی مزاج نہ تھا۔وہ literary موضوعات کے اوپر اپنے آپ کو traditionalکرتے چلے گئے۔ Secular movements نے بھی Theology، intellectual اورAcademic discussion کو اپنی شناخت بنایا۔ لبرل movements نے کہا کہ ہم اسلام کو بین الاقوامی سازشوں اور بین الاقوامی طاقتوں سے آزاد کرائیں گے۔ پس اس مقصد کی خاطر لبرل movement نے مختلف چیلنجز کرنا شروع کردیئے۔ قومی سطح پرگورنمنٹ کو بھی چیلنج کیا۔اُن کے پیش نظر بنیادی مسئلہ اسلام کا کمزور ہوتا ہوا تشخص تھا، اُنہوں نے اُس کا حل سیاسی طرزِ فکر کے ساتھ سوچا۔ اُن کا وژن وسیع تھا۔ اُنہوں نے اس حوالے سے بہت سے پہلوؤں کو غور سے دیکھا اور اُس پر کام کیا۔

اس کی مثال سیدجمال الدین افغانی ؒہیں کہ اُنہوں نے زوال کا حل اُمتِ مسلمہ کے اتحاد کو قرار دیا۔ جسے Islamic paganism کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسئلے کا حل یہ ہے کہ اُمتِ مسلمہ متحد ہو جائے، سارے مسلم ممالک جمع ہوجائیں اور مل کر ایک بہت بڑی سیاسی قوت بن جائیں۔ عالمِ مغرب یادیگر اقوام جنھیں یہ تحاریک؛ اسلام کے لیے خطرہ سمجھ رہے تھے، اُنہوں نے ان طاقتوں کو چیلنج کرنے میں مسئلہ کا حل سمجھا۔

اِن میں سے کچھ لوگ مکمل طور پر سیاسی جدوجہد کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ کچھ شخصیات جنہوں نے تھوڑی اور جامعیت کا اظہار کیا، مثلاً: سرسید احمد خاں اور علامہ اقبال وغیرہ وہ امت کو زوال سے نکالنے کے لیے دیگر solutions کی طرف گئے۔

4۔ سلفی تحریک، سیکولر تحریک اور لبرل تحریک کے بعد چوتھا طبقہ جو مختلف ادوار میں اُمتِ مسلمہ کے زوال کو عروج میں بدلنے کی جدوجہد کررہا تھا، ان کے ذریعے جو تحریک چلی وہ ’’علم کی islamisation‘‘ کی تحریک ہے۔ یہ ایک الگ طرح کی movement تھی۔ جو مسلسل امتِ مسلمہ کے مختلف ملکوں میں چلتی رہی ہے۔

1977ء میں مکہ مکرمہ میں کانفرنس ہوئی۔ پوری اُمتِ مسلمہ کے ممالک سے intellectual اور ادارے شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں یہ بات سامنے آئی کہ ہمارے پاس Scientific knowledge نہیں ہے، پچھلے طویل عرصے سے اُمتِ مسلمہ علم سے کٹ کر رہ گئی ہے، ہم Scientific تحقیقات اور ترقی سے دور ہوچکے ہیں۔ پس اُمتِ مسلمہ کے زوال کی وجہ disconnectivity of knowledge ہے۔

کانفرنس میں شریک اُمتِ مسلمہ کے مفکرین نے فیصلہ کیا کہ امت کے زوال کو عروج میں بدلنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمِ مغرب میں ہونے والی آج تک کی تمام تحقیقات کو Islamic کیا جائے۔یعنی ان تحقیقات کو قرآن وسنت کے مطابق کیا جائے اور اُس کے اندر اسلامک پہلوؤں کو شامل کرکے اُس علم کو اپنی اقدار اور اپنی تعلیمات کے اندر ڈھالیں۔

جماعتوں اور تحاریک کی حکمتِ عملیوں کے تجزیہ کا پیمانہ

محترم قارئین! دنیا بھر کے اداروں، جماعتوں یا تحریکوں کی جدوجہد، انہیں پیش آنے والے حالات و واقعات، ان کے رد عمل اور نتائج کا تجزیہ کرنا چاہیں تو ہمیں کسی پیمانے کا سہارا لینا پڑے گا۔

ہم بین الاقوامی سطح پر مختلف اداروں اور جماعتوں کی تاریخ کو Science of Management کے نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں movements کی Management پر تحقیق کے حوالے سے مختلف theories منظر عام پر دکھائی دیتی ہیں۔ movementsکی Management کے حوالے سے ایک اہم Approach کو Shifting the burden کا نام دیا جاتا ہے۔ہم اِ س کے مطابق موازنہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ جو مختلف تحریکیں یاmovements چلتی رہی ہیں، اِس پیمانے پر اُن کا معیار کیا ہے؟

Shifting the burden Approach کے مطابق جب کوئی مسئلہ کسی کو پیش آتا ہے، چاہے وہ تحریک ہے ، movement ہے، ملک ہے، قوم ہے یا ملت، تو اسے deal کرنے کی دو طریقے ہیں:

ایک طریقہ کو Short term solution کہتے ہیں اور دوسرے طریقہ کو permanent and long term solution کہتے ہیں۔ Short term solution اور Approach کے تحت وہ حل symptom based ہوتا ہے۔ مثلاً: کسی مریض کو بخارہوا تو ہم نے بخار کی گولی دے دی، لیکن ہم نے Test کروا کر یہ چیک نہیں کیا کہ اسے بخار ہونے کی وجہ کیا ہے؟کیا وہ عام تھکاوٹ کا بخار ہے یا جسم کے اندر پائی جانے والی کوئیinfection ہے جو بخار کی صورت میں نمودار ہو رہی ہے۔ Short term solution یہ ہوگا کہ اِس بخار کو ختم کر دیا جائے۔ جبکہ اس مسئلہ کیlong term Approach یہ ہوگی کہ بخار جس وجہ سے ہورہا ہے، اُس کی تحقیق کی جائے، اُس انفیکشن کو جسم سے ختم کیا جائے تاکہ آئندہ کبھی اس وجہ سے بخار نہ ہو۔

قارئین! اِن دونوںApproach کے تحت پوری دنیا کے اندر تحریکوں،اقوام، ملکوں یا اُمتِ مسلمہ کی زندگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ مختلف ادوار میں، مختلف تحریکیں وجود میں آتی رہی ہیں اور مختلف شخصیات کام کرتی رہی ہیں، کیا وہ symptomsکو Addressکر رہی تھیں؟ یا infection کی اصل وجہ کو Addressکر رہی تھیں؟اگر تو تحریکیں symptom کوAddress کرتی رہی ہیں تو پھر ہمیں یہ بات سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ وہ تمام مسائل آج بھی جوں کے توں اُمتِ مسلمہ میں موجود ہیں۔ اُمتِ مسلمہ بتدریج تسلسل کے ساتھ زوال کا شکار ہوتی جار ہی ہے اور پچھلی کئی صدیوں سے زوال تک جانے کی رفتار تیز ہوتی جارہی ہے۔ بدقسمتی سے پچھلے دو سوسال کے اندر یہ زوال disaster میں تبدیل ہوگیا ہے۔

Symptom based solution اور long term solution کو اس مثال سے بھی بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی اسکالر اُمت کی اصلاح کے لیے long term solution کے لیے کتاب لکھ رہاہے جبکہ دوسری طرف کوئی مبلغ اپنی شہرت یا کسی اور مقصد کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے ہر روز اسلام کے حوالے سے کوئی نئی عجیب سی بات کر دیتا ہے اور اس عمل کے لیے اُس کے صرف پانچ منٹ صرف ہوتے ہیں۔ اب وہ اسکالر جو اُمت کے وسیع تر مفاد اور long term solution کے لیے بہت ہی اہم ریسرچ یا academic کام کر رہا ہے، وہ اپنا سارا کام سائیڈ پر رکھ دیتا ہے اور دوسرے مبلغ کی شرارت پر مبنی تین منٹ کے ویڈیو کلپ کے جواب کی تیاری شروع کر دیتا ہے اور اُس کا پورا دن اُس کے جواب کی تیاری کی نظر ہوجاتا ہے اور پھر وہ جواب دیتا ہے۔ بعد ازاں سوشل میڈیا کا کوئی اور کردار اٹھتا ہے اور وہ کوئی اور بات کردیتا ہے اور وہ شریف آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے اہلیت دی ہے اور وہ ایک long term solution کے لیے کچھ محنت کررہا ہے، وہ پھر اُس کے جواب دینے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ یوں اُس کی زندگی کے قیمتی سال ضائع ہوجاتے ہیں جبکہ پانچ پانچ منٹ کے کلپ upload کرنے والوں کا کچھ نہیں جاتا۔

تحریکوں اور جماعتوں کی زندگی میں symptomsاور ایشوز آتے رہتے ہیں۔ ایشوز movement کی زندگی میں قدرتی طور پر آتے بھی ہیں اور پیدا بھی کیے جاتے ہیں۔ ایشوز مقصد سے ہٹانے کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ وہ اُن میں مصروف ہوکر اپنے اصل مقصد سے ہٹ جائیں۔ یہ دنیا کا نظام ہے اور ایسا ہر تحریک کے ساتھ تاریخ کے اندر ہوتا چلا آیا ہے۔

اب اُس تحریک کی قیادت اور اُس تحریک کی حکمت عملی پر منحصر ہے کہ وہ اُن symptom میں مبتلا ہو کر اپنی اصل راہ کو بھول جائے یا اُمتِ مسلمہ کے مسائل کے long term solution کی طرف واپس آجائیں اور اپنے آپ کو بے جا مصروف نہ کریں۔ اگر Approach symptom based ہو تو کبھی بھی اصل مرض کی تشخیص نہیں ہوسکتی اور بالآخر مریض موت کے گھاٹ اُتر جاتا ہے۔ چاہے وہ مریض کوئی ادارہ ہو، چاہے وہ مریض کوئی movement ہو، یا کوئی ملک ہو، یا کوئی قوم ہو، یہاں تک کہ کوئی تہذیب (civilization) ہو۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس Approach کی حاملcivilizations کے وجود تک مٹ چکے ہیں۔

Short & long term حل کے درمیان میں ایک تیسرا راستہ بھی موجود ہے۔ کئی بار long term solution وقت لیتے ہیں، مسئلہ کا علاج جلد ممکن نہیں ہوتا تو ایسی صورت حال میں دونوں طریقہ کار کو اختیار کرنا مناسب ہے۔ جس مریض کو بخار ہے اسے بخار کی گولی بھی دے دی جائے تاکہ اُس کا بخار فوری نیچے آجائے اور ساتھ اُس کی انفیکشن کو بھی ختم کیا جائے یعنی دونوں Approach بیک وقت لے لی جائیں تاکہ اصل مرض کی تشخیص بھی ہو اور اُس کے بنیادی اسباب تک بھی پہنچا جائے اور اُن کا خاتمہ کر دیاجائے۔

دینی جماعتوں اور تحریکوں کا ردعمل اور اس کے نتائج

مختلف تحریکوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ solutionکی جدوجہد میں بعض تحریکیں ہمیں علامات (symptom) کا علاج کرتے دکھائی دیکھتی ہیں اور بعض جماعتیں مسائل کے long term solution کے لیے جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔کئی شخصیات سے symptomکو Address کرنے کی کوشش میں long term solutionsصرفِ نظر ہوگئے۔جس کے نتیجے میں چیزیں complicate ہو تی چلی گئیں۔ کئی بار جذبات میں اور مشکلات کی رو میں بہتے ہوئے امن کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے جس کا خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔

آیئے! تاریخ کے اوراق سے چند تحریکوں اور جماعتوں کے ساتھ اس تناظر میں پیش آنے والے حالات کا جائزہ لیتے ہیں:

(1) تحریک اخوان المسلمین

تحریک اخوان المسلمین کی جدوجہد کا جائزہ لیں تو اس تحریک کے بانی امام حسن البناؒ اہل اللہ میں سے تھے اور جلیل القدر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ یقیناً مزاجاً متشدد نہیں ہوں گے۔ وہ ایک فکری شخصیت تھے۔اُنہوں نے اُس وقت کے حالات میں اُمتِ مسلمہ کی غیرت اور حمیت کو زوال پذیر دیکھا تو multidimensional solution مہیا کیا اور 1928ء میں تحریک اخوان المسلمین کی بنیاد رکھی۔ اُس تحریک کا بنیادی مقصد تعلیم کے ذریعے اُمتِ مسلمہ میں شعور اور غیرت پیدا کرنا، اسلام کی اقدار اور تعلیمات کا احیاء کرنا اور اُمت کے ٹوٹے ہوئے تعلق کو جُوڑنا تھا لیکن اس جدوجہد کے دوران مختلف واقعات رونما ہوتے رہے جیسا کہ ہر تحریک کی زندگی میں ہوتے ہیں۔ اُس دوران فلسطین اور اسرائیل کامسئلہ سامنے آگیا۔ ملک کے اندر ظلم کے کئی واقعات پیش آئے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب خوب غورو فکر اور حکمتِ عملی سے آگے بڑھنے کی ضرورت تھی۔ اُس وقت پیش آنے والے واقعات symptom تھے، وہ long term problems نہیں تھے جبکہ جس کام پر اخوان المسلمین گامزن تھی، وہ حقیقی طور پر long term solution تھا کہ اُمت مسلمہ کے وقار کو بہتر کرنے کا حل فروغِ تعلیم و شعور کے ذریعے کیا جائے، Scientific،academic development، research based approachکے ساتھ آگے بڑھا جائے اور اُمت کا تعلق دین اور مارڈن لٹریچر کے ساتھ بحال کیا جائے لیکن درمیان میں ایشوز اور واقعات کے نتیجے میں اس تحریک نے تشدد پر مبنی سخت stand لے لیا اور تشدد کے معاملے میں جوابی تشدد کی راہ اختیار کی لی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جماعت اپنے اصل مقصد (جدید و قدیم تعلیم، ترقی اور شعور کے ذریعے اُمت کا احیاء) کے جس long term solution کے لیے کوشش اور محنت کر رہی تھی، اس نے وقتی مسائل میں مبتلا ہوکر ا پنی شناخت کومتشدد جماعت میں تبدیل کردیا۔

اِسی دوران امام حسن البنا کو شہید کردیا گیا۔تحریک کی قیادت کی شہادت نے جماعت کے اندر تشدد کو مزید بڑھا دیا۔ نتیجتاً افسوس کہ آج وہ دہشت گردجماعت کے طور پر پوری دنیا میں جانی اور پہچانی جاتی ہے اور اُس سے وابستہ رہنے والے لوگ بھی Controversial ہوچکے ہیں۔

(2) سید قطب شہید

لبرل movement کے تسلسل میں ایک اور نام سید قطب شہید کا ہے۔ سیدقطب کی جدوجہد کے بہت سارے پہلو تھے۔ وہ انتظامی صلاحیتیں رکھنے والے نہایت ذہین اور مدبرشخصیت کے مالک تھے۔ ان کے نزدیک traditionality اسلام کی conservative approachہے، وہ ایک لبرل نقطہ نظر اور شناخت کے ساتھ اس امر کے لیے کوشاں تھے کہ ویژن کو روشن کیا جائے، لوگ تعلیم، ماڈرن ترقی اور اجتہاد کی طرف آئیں۔ اسلام جو ایک تالاب (محدود) کی شکل اختیار کرچکا ہے، وہ پھر سے بین الاقوامی شناخت کی حامل ایک طاقتور تہذیب بنے۔ کسی تحریک یا جماعت کی جدوجہد کے دوران جب مخالفت میں حکومت کی طرف سے یا دیگر عناصر کی طرف سے پُرتشدد واقعات رونما ہوں تو یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جہاں پر تحریکی زندگیوں کے اندر قیادت نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس نے کس حد تک رد عمل دینا ہے اور کہاں سے واپس لوٹ کر اپنے long term solutionکی طرف کوشش کرنی ہے۔

سید قطب بھی اپنے زمانے میں رونما ہونے والے مختلف واقعات میں شامل ہوتے ہوتے اپنے افکار میں متشدد ہوتے گئے۔ نتیجتاً انہیں کئی بار جیلوں میں جانا پڑا۔ یہاں تک کہ انہیں پھانسی دے دی گئی۔ یوں ان کی مکمل شخصیت ایک Visionary and Liberal Approach سے متشدد Approach میں تبدیل ہوگئی۔ اُسی کا اثر ہے کہ آج بہت ساری دہشت گرد تنظیمیں سید قطب کے افکار سے رہنمائی لیتی ہیں اور اپنے متشدد رویے کو درست سمجھتی ہیں۔ اس طرح وہ ایسی تحریکوں کے فکری والد بن گئے۔

(3) سرسید احمد خان

ہمارے معاشرے میں بہت سی مثالیں ہیں کہ کیسے تحریکیں trap ہوجاتی ہیں اور مشکلات کا شکار ہوکر اصل کام یعنیlong term solution سے اُن کی نظر ہٹ جاتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسی شخصیات بھی نظر آتی ہیں کہ جنہوں نے وقتی واقعات میں اپنی توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توجہ long term solution پر ہی مرکوز رکھی۔ اس کی ایک مثال سر سید احمد خان کی ہے۔ آپ برصغیر پاک و ہند کی کئی تحریکوں کے فکری بانی تصور کیے جاتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں جب برطانوی راج قائم ہوگیا تو بہت سارے مدارس، علماء اور دانشوروں نے انگریزوں کے راج کو اپنے اوپر، اپنی فکر، دین اور ایمان پر بہت بڑا حملہ تصور کیا۔ انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور انگریز کے خلاف مزاحمتی جدوجہد شروع کردی۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو گورنمنٹ سے علیحدہ کرلیا، برطانیہ کے متعارف کردہ British ایجوکیشن سسٹم کو چیلنج کیا کہ ہم اِس کو اختیار نہیں کریں گے، انگلش زبان نہیں سیکھیں گے اور اپنے مدارس کو اُسی نظام پر چلائیں گے جس پر وہ پہلے چل رہے تھے۔ پہلے اُن مدارس کے اندر ریاضی ، تاریخ، سائنس اور دیگر دنیاوی علوم کہیں نہ کہیں پڑھائے جاتے تھے مگر اب کیونکہ اسلامی دنیا سے وہ literature produce ہونا بند ہو گیا تھا اور اب زیادہ تر ان علوم اور مضامین پر یورپین کام کر رہے تھے، لہذا مدارس میں پہلے سے رائج دنیاوی علوم کی کتب اور مضامین کو اس لیے پڑھانا بند کر دیا کہ یہ تمام لٹریچر یورپ کی طرف سے آتا ہے۔ انھوں نے اِن تمام دنیاوی علوم کا باب اپنے مدارس پر بند کردیا۔ احتجاج کرتے ہوئے اس فکر کے علمبرداروں نے یہ نہیں سوچا کہ ہم اِن کتابوں سے اپنے طلبہ کو دور کرکے اپنی اگلی نسلوں کوجہالت میں مبتلا کر دیں گے۔ اُنہوں نے اُس وقت ایک جذباتی فیصلہ کیا کہ ہم اِن کا بائیکاٹ کریں گے۔ یہ نہیں سوچا کہ اِس بائیکاٹ کا نقصان کس کو ہوگا؟ نتیجے میں اپنے آپ کو خود محدود کرلیا اور دیوار سے لگایا لیا۔ یہ ایک symptom تھا۔ بہت ساری شخصیات اُس symptom میں مبتلا ہو کر رہ گئیں۔

سر سید احمدخان کی نظر نے کچھ اور دیکھا۔ اُنہوں نے دیکھا کہ اِس وقت aggressive ہو کر جواب دینا حل نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ اِس وقت برصغیر پر اپنا راج قائم کر چکے ہیں۔ سر سید احمد خان نے اُس وقت اُن سب کے درمیان long term solutionکی طرف سوچا۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر اِس خطے کے اندر اُمتِ مسلمہ کی بقاء چاہتے ہو تو نوجوانوں کو روزگار بھی چاہیے ہوگا اور روزگار اسے ملے گا جو انگریزی زبان سیکھے گا، لہذا انگریزی زبان سیکھو۔

جذباتی فیصلوں کے نسلوں پر اثرات

اس وقت علماء کا مؤقف یہ تھا کہ جو انگریزی سیکھے گا، وہ British راج کو سپورٹ کرے گا۔ یہ جذباتی بات تھی اور سننے والوں کو اچھی لگتی تھی۔ جیسا کہ آج کل کی دنیا میں کوئی واقعہ ہوتا ہے جو یقیناً ہمارے مذہبی جذبا ت کو مجروح کرتا ہے تو اس کے ردِ عمل میں پاکستان اور کئی ملکوں میں تحریکیں شروع ہوجاتی ہیں اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں چیز کا بائیکاٹ کردیا جائے۔ چند لوگوں کے بائیکاٹ سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں نقصان پہنچا رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ جب تک اجتماعی طور پر کوئی کام نہیں کیا جاتا، تب تک وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔

اگر حقیقی معنوں میں بعض کمپنیوں، اداروں یا organization کا بائیکاٹ کرنا ہو تو پھر جو روزمرہ کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں، کیمرہ اور موبائل اور دیگر آلات ضروریہ، جن کے بغیر آج ہم زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے، تو یہ تمام آلات کن کی ایجاد اور کن کی Production ہیں؟ اگر سوفیصد بائیکاٹ کیا جائے تو پھر اِن ساری سہولیات سے بھی سبکدوش ہوجائیں۔ علاوہ ازیں ہم سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ فیس بک، یوٹیوب انھیں کون لوگ چلاتے ہیں؟ ایک طرف ہم اُن ہی لوگوں کے آلات اور ایجادات کے ذریعے اپنے احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں اور دوسری طرف اُن ہی کی بنائی گئی صرف چند ایک چیزوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر احتجاج کرنا ہے تو پہلے اُن تمام ذرائع کا بھی بائیکاٹ کریں جن کے ذریعے ہم زندگی کے بقیہ معاملات کو چلا رہے ہیں۔ اگر ایسا کریں تو اُس کے بعد اُمتِ مسلمہ کے پاس احتجاج ریکارڈ کروانے کا کوئی پلیٹ فارم ہی نہیں ہوگا۔ اب بائیکاٹ کے مطالبے کے بعد اگر یہ چیزیں ہماری زندگی سے نکل جائیں تو ہم کتنی جہالت میں چلے جائیں گے۔

انگریزوں کے برصغیر پر تسلط کے بعد اُس زمانے کی کچھ ضرورتیں تھیں، نیا ایجوکیشن سسٹم وجود میں آرہا تھا، جس کے ذریعے سے نوکریاں ملنی تھیں۔ مغل بادشاہت کے اندر ہر جگہ مسلمان بیٹھے ہوئے تھے۔ کبھی کسی نے سوچا تھا کہ اچانک وہ نوکریاں کیسے ختم ہوگئیں ۔ایک تحریک کے نادانی پر مبنی فیصلوں کی وجہ سے اُمتِ مسلمہ کے اندر بے روزگاری آ گئی ۔ اُنہوں نے فتوے جاری کردیئے تھے کہ ہم نے اِن کو سپورٹ نہیں کرنا، ہمارے لوگ انگریزی نہیں سیکھیں گے، ہمارے لوگ اِن کے پاس نوکری نہیں کریں گے۔ نتیجتاً اُمتِ مسلمہ میں اچانک معاشی بدحالی آگئی۔

دوسری طرف وہ اقوام جو انڈیا میں رہتی تھیں، وہ انگریزوں کے قریب ہوگئے اور ترقی کرنے لگے۔ اِسی زمانے کے اندر وہ معاشی اور اقتصادی طور پر بھی مستحکم ہوگئے، اُن کے ایجوکیشن سسٹم بھی بہتر ہوگئے جبکہ وہ فنڈنگ جو اُس زمانے میں مدارس کو جایا کرتی تھی، وہ بھی بند ہوگئی۔ ان جذباتی فیصلوں کی وجہ سے ہم نے اپنے نصیب اور قسمت کے اوپر خود تالے لگا لیے۔

اِس دور میں سرسید احمدخان نے علی گڑھ movement کی بنیاد رکھی۔ اُنہوں نے کہا کہ اُمتِ مسلمہ کے مسائل کا اصل حل تعلیم کے اندر ہے۔ نوجوانوں کو صحیح معنوں میں ماڈرن ایجوکیشن کے ساتھ اسلامی اخلاق، تعلیم اور تربیت کے ذریعے اِس طرح تیار کیا جائے کہ ایسا Out stander human source مسلمانوں کے علاوہ کسی قوم کے پاس نہ ہو تو اُمتِ مسلمہ کا کھویا ہوا وقار بھی لوٹے گا اور اُمتِ مسلمہ کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ اُنہوں نے تشخیص کیا کہ تعلیم اور تربیت دو ایسے امور ہیں کہ جو اُمتِ مسلمہ کو اِن مشکل حالات میں بچا سکتے ہیں۔

یہ علی گڑھ movement کے نتائج تھے کہ علی گڑھ یونیورسٹی وجود میں آئی ، پھر علی گڑھ تحریک نے ایسا پلیٹ فارم دیا جس پر مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ پھر اسی تحریک کے تحت کئی ادارے وجود میں آئے۔ قیامِ پاکستان کی تحریک میں جو بھی قیادتیں اور شخصیات میسر آئیں جو قائداعظم کے دست وبازو بن کر پاکستان بنانے میں مدرگار اور معاون بنے، وہ شخصیات اور قائدین علی گڑھ movement نے مہیا کیے جبکہ بائیکاٹ کرنے والے لوگ جو اُس وقت پیچھے ہٹ گئے تھے، وہ وہیں رہ گئے۔

اُس زمانے میں یہ لگتا تھا کہ شاید علی گڑھ تحریک اپنے مقاصد سے ہٹ گئی ہے۔اُن پر علماء نے بہت سے فتوے بھی لگائے اور کہا کہ یہ انگریزوں کو سپورٹ کرتے ہیں، اُن کے خلاف نہیں بولتے، بزدلی کا ثبوت دیتے ہیں اور مسلمانوں اور انگریزوں کی دوستی کروانا چاہتے ہیں۔ اِس قسم کی باتیں ہوتی تھیں لیکن سرسید احمد خان کی نگاہ مستقبل کی نسلوں پر تھی کہ اگلا دور کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟

امت کے علمی زوال کا ذمہ دار کون؟

اس موقع پر یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ ہمارے ہاں عموماً یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ ماڈرن سائنسز کو نہ اپنانے کی ذمہ دار صرف اس دور کی قیادت ہے۔ ایسا نہیں ہے، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ماڈرن سائنسز کو ترک کرنے میں پرانے تمام ادوار کا حصہ ہے۔ discontinuity کے اس الزام سے کوئی مبرأ نہیں ہے۔ اسلامی دنیا پر جتنے بھی حکمران رہے، مغل ہوں یا عثمانی ہوں، ہر ایک نے اُمتِ مسلمہ کے زوال میں اپنا ایک کردار ادا کیا ہے۔ اسلام کا وہ سنہری دور جب دنیا کی اکثر ایجادات کے موجد مسلمان سائنسدان تھے، Surgical equipment کی ایجاد، کاغذ کی ایجاد، space development، Astor liberties، ہوائی طیارہ اور پہلی پرواز، دنیا کی پہلی یونیورسٹیز القراوییوں، الزیتونہ، الازہر، جامعہ نظامیہ بغداد، جامعہ نظامیہ دمشق کا قیام اور اسلام کی تاریخ میں اِن کا کردار اور اِن کے لٹریچرز، یہ تمام کام مسلمانوں کے ابتدائی آٹھ نو سو سال کا ہے۔

پچھلے سات آٹھ سو سال کے اندر اُمتِ مسلمہ یہ سارے کام چھوڑ چکی تھی۔ وہ زمانہ جس کے اندر مذکورہ کام ہوئے اور اِن سے بھی بڑھ کر مسلم سائنسدانوں کی طرف سے اعلیٰ ایجادات ہوئیں اور نئے نئے علوم و فنون منظرِ عام پر آئے، یہ سب کچھ آٹھ نو سو سال پہلے بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانہ میں ہوا۔ بعد ازاں عثمانی آگئے، اِنہوں نے تقریباً پونے سات سو سال تک حکومت کی، برصغیر میں مغل آگئے اور انھوں نے تقریباً ساڑھے تین سو سال حکومت کی۔ الغرض یہ سارے طبقات جن سے ہم کئی بار بہت زیادہ متاثر ہوجاتے ہیں، اِن ادوار میں کوئی Scientific development نہیں ہوئی۔ کوئی ایک بڑی قابلِ ذکر یونیورسٹی بھی اُمتِ مسلمہ کے ریکارڈ پر مغل اور عثمانیوں کے زمانے میں نہیں آئی۔ اِن کے رجحانات تاریخی عمارتوں، مساجد اور محلات بنانے کی طرف تھے۔ اِن کے یہ ادوار امتِ مسلمہ کو علمی زوال کا شکار کرنے کے ذمہ دار تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوئی تو وہ خود اُس کے ذمہ دار تھے، اگر مغل سلطنت ختم ہوئی اور British راج قائم ہوا ہے تو یہ لوگ اِس کے ذمہ دار تھے کیونکہ کوئی علمی اور سائنسی ترقی نہیں کررہے تھے۔ یہاں تک کے اسلحہ سازی کے کام بھی دوسری اقوام کو سونپ رکھے تھے۔ جن اقوام کو ہم نے اپنی آرمی اور ملکی و قومی دفاعی راز سونپ رکھے ہوں تو جب کبھی اُن کے مفاد پر کوئی ٹھیس آئے اور وہ ہمارا سب کچھ جانتے ہوں توکیا ہم اُن سے محفوظ ہوں گے؟ یہی عثمانی اور مغل سلطنت کے ساتھ ہوا۔ ہم کہتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ کا یہ زوال پچھلے چھ سو سال کے اندر آیا تو اِن پچھلے چھ، سات سو سال میں اُمتِ مسلمہ پر جو جو جہاں جہاں حکمران تھا، وہ سب اس کے ذمہ دار ہیں، اُن سب سے سوال کیاجانا چاہیے:

مجھے رہزنوں سے غرض نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے

جب اُمتِ مسلمہ زوال کاشکار ہو رہی تھی تو جو جو رہبر تھا، ہر ایک ذمہ دار ہے اور جو جتنا بڑا رہبر تھا، وہ اُتنا ہی بڑا ذمہ دار ہے۔

دہشت گردی کے مسئلہ پر تحریکوں کا رد عمل اور اس کے نتائج

مختلف شخصیات اور تحریکوں کی تاریخ کے مختصر سے مطالعہ کے بعد آیئے اب آج کے دور کا جائزہ لیتے ہیں کہ جب عالمی سطح پر انتہاپسندی اور دہشت گردی کی لہر وجود میں آئی جس نے پوری اُمتِ مسلمہ کو گھیرے میں لے لیا تو مسلمانوں کے اندر اس حوالے سے کئی سوچیں اور تحریکیں وجود میں آئیں۔ کئی ایسے لوگ تھے جو عالمِ مغرب سے اُمتِ مسلمہ کا دفاع کرنے چلے کہ ہم تحفظ کریں گے، ظلم ہو رہا ہے، کسی نے کشمیر کا حوالہ دیا، کسی نے دوسرے کسی اور ملک کا حوالہ دیا، اس طرح مختلف تحریکیں وجود میں آگئیں لیکن یہ تحریکیں بذاتِ خود انتہاپسندی پر مبنی تھی انہوں نے symptoms دیکھیں کہ ظلم ہوا ہے تو جواب میں جذباتی ہو کر اُنہوں نے کہا کہ ہم بھی اسی طرح کا جواب دیں گے لیکن کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ چالیس، پچاس سال بعدپوری اُمتِ مسلمہ کے اوپر دہشت گردی کا چارج لگ جائے گا۔ ان لوگوں اور تحریکوں کا ردعمل long term approachنہیں تھی۔ مسئلے کا حقیقی حل اُس وقت کچھ اور ہو سکتا تھا یا کیا جانا چاہیے تھا لیکن تشدد کے جواب میں تشدد کی approach کو فیصلہ کن سمجھا گیا اور اسے اختیار کر لیا گیا۔ اُس وقت شاید کچھ وقت کے لیے کوئی کامیابی مل گئی ہو لیکن آج پوری اُمتِ مسلمہ دہشت گردی کے الزام سے دوچار ہے۔ اب کیا کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے کہ پچھلی دہائیوں میں جن لوگوں نے اپنی اِس فکر کے تحت جذبات کے ساتھ جانیں دیں، اُس کا امت کو کیا فائدہ ہوا؟

تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی زندگی کے کم وبیش بیس سال اُمتِ مسلمہ پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے الزام مٹانے کے لیے صرف کیے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بہت حد تک اُس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ شیخ الاسلام کا یہ اقدام ایک long term approach اور solution کی بات تھی۔ اُس کے برعکس بعض طبقوں نے خلافت کی بات کی، کسی نے کوئی نعرہ لگایا، کسی نے کوئی نعرہ لگایا، نتیجتاً ساروں کو دہشت گردی کے چارج مل گئے۔

موجودہ دور کی دینی جماعتوں اور تحریکوں کا کردار اور اُن کے اثرات

پاکستان کے اندر پچھلے کچھ عرصے سے آقاeکی محبت اور ناموسِ رسالت کے حوالے مختلف تحریکیں وجود میں آئی ہیں اوران میں سے کئی جماعتیںکچھ واقعات کے ظہور میں آنے کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ حضو رنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں گستاخی سے اُمتِ مسلمہ کی دل آزاری ہوئی، اُمتِ مسلمہ کو دکھ ہوا، تکلیف پہنچی، نتیجتاً یہ تحریکیں اور جماعتیں وجود میں آ گئیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کے دور میں تحریکوں کو کیا کرنا چاہیے؟ symptomکو کس حد تک Addressکیاجانا چاہیے اور مسئلہ کا long term حل کیسے تلاش کرنا چاہیے؟ ایسا تو نہیں کہ کہیں ہم trap ہو رہے ہوں؟ جب ان تمام معاملات سے نگاہ اوجھل ہوگئی تو نتیجتاً یہ ہوا کہ وہ لوگ جو آقا ﷺ کی محبت کے نام پر یا ناموسِ رسالت کے لیے نکلے تھے، اُ ن سے سڑکوں پر اشتعال اور غصے سے ظلم وستم ہوا، املاک کا نقصان ہوا، حتی کہ لوگوں کی جانیں گئیں مگر اُن سب کی زبان پر نعرہ آقا ﷺ کی محبت اور تحفظِ ناموسِ رسالت تھا۔ ان جماعتوں کے اس طرح کے رد عمل کا نتیجہ کچھ دنوں بعد یہ ہوا کہ اُس جماعت کو دہشت گرد اور کالعدم تنظیم یا تحریک ڈکلیئر کردیا گیا۔

اب غور طلب بات یہ ہے کہ نادان دوستوں کے جذبات کے تحت کیے گئے اس عمل کے نتیجہ میں ناموسِ رسالت کا نعرہ بھی بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا، اس لیے کہ یہ اُس تنظیم یا تحریک کا نعرہ ہے جسے دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ اب پانچ سال یا دس سال بعد پاکستان کے اندر یا باہر کوئی عام آدمی جو آقا ﷺ سے محبت رکھنے والا ہے، وہ جذبات کے اندر یا کسی مشکل گھڑی یا ظلم کے اندر یہ نعرہ لگاتا ہے یا کوئی آدمی کسی بھی اسٹیج پر کبھی آقا ﷺ کی محبت کے لیے نکلنا چاہے تو بعض لوگوں کی نادانی نے یہ کام آسان کر دیا ہے کہ اِن لوگوں کو بھی دہشت گرد ڈکلیئر کر دیا جائے۔

سمجھانا یہ مقصود ہے کہsymptomاور long term solutionمیں فرق ہے۔ کوئی ایک مسئلہ رونما ہوتا ہے، اس پر تحریکیں و تنظیمیں جذباتی ہوجاتی ہیں۔ اُس کا حل ہم جذباتی طریقے سے سوچتے ہیں۔ غور طلب مقام یہ ہے کہ وہ واقعہ ایک trap بھی ہوسکتا ہے، وہ تحریک کو long term مقاصد سے ہٹانے کی ایک سازش بھی ہو سکتی ہے۔ لہذا آج کے دور میں دینی تحریکوں کو اپنے فریضہ اور ذمہ داری پر غور و فکر کرنا ہوگا۔ کیونکہ آج کیے گئے ہر فیصلے اور اقدام کا خمیازہ ہمارے بعد آنے والی دس، بیس، نسلیں بھگتیں گی۔ یہ فیصلہ آج کی دینی تحریکوں نے کرنا ہے کہ وہ کس طرح کی سنجیدہ سوچ کو لے کر چلنا چاہتی ہیں۔

تعلیم و تربیت کی ناگزیریت

سید جمال الدین افغانی ؒ سے لے کر سرسید احمدخان اور علامہ اقبال تک تمام شخصیات نے بنیادی توجہ تعلیم وتربیت کی طرف مبذول کی ہے۔ ہر ایک تحریک اور شخصیت نے long term solutionتعلیم و تربیت کو قرار دیا ہے۔ لہذا تحریک کے دوران ان دونوں اُمور یعنی ’’تعلیم وتربیت‘‘ سے نگاہ نہ ہٹنے پائے۔ یہ بات درست ہے کہ راہ میں بہت سارے ایشوز آتے ہیں اور واقعات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ دیر ان چیزوں کو Address کرنا پڑتا ہے لیکن فوکس ہمیشہ long term solutionکی طرف رہے، اس میں اُمت کی فلاح ہے۔

تعلیم کے ساتھ تربیت انتہائی ضروری ہے۔ اخوان المسلمین اور دیگر تحاریک کی حکمتِ عملی سے یہ بات واضح ہے کہ جب ورکرز کو صرف اور صرف جذبات پر تیار کیاجارہا ہو اور انھیں صبر و تحمل نہ سکھایا جائے، اخلاقیات نہ سکھائی جائیں اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے صرف جذبات سے بھردیاجائے توپھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب کوئی بڑا حادثہ کسی تحریک کے ساتھ ہوجائے تو نتیجتاً ورکر آؤٹ آف کنڑول ہوجاتا ہے اور پھر تشدد پر آمادہ ہوجاتا ہے، اپنے اوپر دہشت گردی کا چارج بھی لگا لیتا ہے اور بالآخر اس نظریہ اور اُس تحریک کا وجودبھی ختم ہوجاتا ہے۔

امام حسن البنا کو شہید کیاگیا، نہ صرف شہید کیا گیا بلکہ اُن کے سارے لوگوں کو قید کردیا گیا۔ قید کرنے کے بعد حالات یہ تھے کہ جب اُن کے جنازے کو قبرستان تک لے جانا تھاتو کسی ایک شخص کو بھی اُن کی میت کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی۔ اُن کے بوڑھے والد اور گھر کی عورتیں کندھا دے کر اُن کی چارپائی کو قبرستان تک لے گئے۔جب حکمت نہ رہے تو اِس طرح کے مشکل حالات درپیش آتے ہیں۔ بہت ساری تحریکوں کے اندر ہم ایسے حالات دیکھتے ہیں، اس بناء پر یہ چیز واضح ہوجاتی ہے کہ تربیت کیوں ضروری ہے؟

کوئی تحریک یا جماعت کی قیادت جہاں دین کی حمیت، دین کی غیرت، دین کی محبت، اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے لیے جینا، مرنا اور محنت کرنے کے لیے جذبہ اپنے کارکنان میں پیدا کرتی ہے وہاں اُس کے ساتھ ضروری ہے کہ اُس ورکر کی روحانی تربیت بھی کی جائے۔ روحانی تربیت یہ ہے کہ پہلے فکر پیدا کی جائے، پھر اُس کو تعلیم سے آشنا کیاجائے اور پھر روحانی تربیت سے گزار کر انھیں صبر، توکل، رضا، امن اور اخلاق کا پیکر بنایا جائے۔

ہماری بہت ساری لبرل movement جو اسلام کی بقاء اور دفاع کے لیے اُٹھی ہیں، اُن میں روحانی تربیت کا پہلو نظر نہیں آتا۔ اِن ساری تحریکوں کی تاریخ دیکھ لیں، اِن میں مختلف عقائد رکھنے والے ہوں گے، بعض تصوف کے ماننے والے ہیں لیکن وہ تصوف اُن کی روزمرہ کی زندگی میں کارفرما نہیں ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب مشکل حالات آجائیں تو پھر انسان کا نفس، اُس کے جذبات، غصہ اور جارجیت اُس کو جس سمت لے جائیں، وہ شخص اُسی طرف چلا جاتا ہے۔

اِس کے برعکس اگر کسی تحریک کے کارکن یا رفقاء کی نظریاتی تربیت کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت بھی ہوئی ہو، اُس کو صبر کے جام بھی پلائے گئے ہوں، اُس کو صبر کرنا بھی سکھایاگیا ہو، اُس کو اللہ کی رضا پرراضی رہنا بھی سکھایا گیا ہو، اُس کو ایثار اور قربانی بھی سکھائی گئی ہو، اُس کو مشکل حالات پراللہ کی رضا پر خاموش ہوجانا بھی سکھایا گیا ہو تو یہ اُس کی روحانی تربیت ہے۔ ایسے تربیت یافتہ کارکنان اگرکسی موقع پر خدانخواستہ بغیر رہنمائی (unguided) کے رہ جائیں تو اُن کے باطن میں پوشیدہ روحانی تربیت کے جواہر اُن کے گائیڈ بن جاتے ہیں جو اُن کو آؤٹ آف کنٹرول اور بے لگام نہیں ہونے دیتے۔

یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے عظیم رفقاء، وابستگان اور ورکرز کے بارے میں ہرکوئی حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ دھرنے کے دنوں میں اس قدر نظم وضبط اور تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیسے ممکن ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہمارے رفقاء میں سے کسی تک براہِ راست قائد کی آواز نہیں بھی پہنچتی تو اُس کا کردار تربیتِ قائد نے اس قدر سنوار دیا ہوا ہے کہ اس نے کوئی ایسا کام نہیں کرنا جو تحریک کے مزاج کے منافی ہو۔ ایسا اِس لیے ہے کہ اُسے صرف جذبات ہی کی خوراک نہیں دی گئی بلکہ روحانی تربیت بھی کی گئی ہے۔ انھیں کہیں کسی میدان میں تنہا بھی چھوڑ دیں، تب تھی انھیں پتہ ہے کہ ہم نے اپنی جدوجہد میں کسی کے ساتھ ظلم نہیں کرنا، ہم نے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے لیے اور حق کے لیے جو جدوجہد کرنی ہے، اس جدوجہد میں جان تو دے سکتے ہیں مگر کسی کی جان لے نہیں سکتے۔یہ سوچ اور شعور ان کارکنوں میں اُس روحانی تربیت نے پیدا کیا ہے جس کے باعث وہ نظم وضبط میں رہتے ہیں۔ تحریک کے کارکنان اگر کسی جگہ پر جاکر دھرنا بھی دیتے ہیں تو وہ عوامی املاک کو نقصان نہیں پہنچاتے، چاہے انھیں کوئی روکنے والا ہو یا نہ ہو، کیونکہ وہ اپنے باطن میں ایک امن پسند انسان بن چکے ہیں۔ انھیں امن پسند انسان اُن کی روحانی تربیت نے بنایا ہے۔ اُمتِ مسلمہ کی زندگی کی بنیاد یہی تعلیم اور تربیت ہے، یہ دوایسی چیزیں ہیں جو قوموں کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

اسے اس مثال سے سمجھیں کہ بچے چھوٹے ہوتے ہیں، انھیں خشیت الہٰی یا خوفِ الہٰی کا تصور نہیں ہوتا۔ اُن کے نزدیک وہی خوف ہے جو نظر آتا ہے۔ اُن کے نزدیک والدین کا خوف ہوتاہے کیونکہ والدین اُنہیں نظر آرہے ہیں لیکن جیسے جیسے وہ بچہ اٹھارہ، انیس، بیس سال کا ہو جاتا ہے اور اُس کے والدین بوڑھے ہوجاتے ہیں تو اب اُس کو سامنے نظر آنے والا خوف تنگ نہیں کرتا۔ اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اُس کے بالغ ہونے سے پہلے پہلے اپنے خوف سے ہجرت کروا کر اُس بچے کے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کردیں۔ اگر کسی اولاد میں والدین اپنے خوف کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر اسے دنیا کے کسی صحرا میں بھی اکیلا چھوڑ دیں تو تب بھی وہ بچہ کبھی غلط کام نہیں کرے گا۔ اگرچہ اب اُس کے سامنے والدین نہیں ہیں لیکن اب اُس کے دل میں خوفِ الہٰی ہے جو اُس کے لیے کافی ہوجائے گا۔ یہ خوفِ الہٰی، روحانی تربیت سے داخل ہوتاہے۔

یہی صورت حال کارکن کی ہے کہ کوئی اُس کو کنڑول کرنے والا یا گائیڈ کرنے والا پاس نہ بھی ہو، اُسے اُس کی قیادت کی آواز نہ بھی پہنچ رہی ہو مگر اُس کے خمیر میں ہے کہ وہ کسی کی املاک کانقصان نہیں کرسکتا، وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتا،کسی کی حق تلفی نہیں کرسکتا،کسی کی چوری نہیں کرسکتا اور لوگوں کو ہمیشہ امن وامان دینے والا ہے۔ روحانی تربیت سے خدا خوفی اُس کے اندر پیدا ہوگئی ہے، اب اسے جہاں بھی چھوڑ دیں گے وہ کسی کے لیے نقصان کا باعث نہیں بنتا۔

قارئین محترم! ذرا سوچئے! اُمتِ مسلمہ میں تعلیم وتربیت کی کمی ہے۔ تعلیم جس میں سب سے پہلے قرآن وسنت ہے، پھر اُس کے ساتھ جدید سائنسی تعلیم ہے یعنی دین کے ساتھ دنیا کی تعلیم کا امتزاج اور اُس کے ساتھ تربیت کا عمل دخل۔ ایسے بندے کو دنیا میں کہیں بھی لے جائیں، اس کی تربیت اسے غلط کام نہیں کرنے دے گی اور تعلیم دنیا کے ہر محاذ پر Professionally اسے بلند کر دے گی۔ یہ دو چیزیں اگر اُمتِ مسلمہ کے ہر فرد میں پیدا ہوجائیں توخود بخود ترقی اُس کے قدم چومے گی اور اُمتِ مسلمہ زوال سے نکل آئے گی۔ اگر تربیت کا عمل دخل نہ ہو توچوری، ملاوٹ، قتل وغارت، جھوٹ اور نفسانی معاملات انسان پر حاوی ہوجائیں گے۔ پھر بندہ صرف نام کا مسلمان ہوگا اور اُمتِ مسلمہ زوال سے عروج کی جانب گامزن نہیں ہوسکتی۔

تحریک منہاج القرآن کا کردار

محترم قارئین! میں نے عرض کیا کہ اُمتِ مسلمہ جب سے زوال کا شکار ہوئی ہے، اس کا سبب آج بھی جوں کا توں ہے اور اُس کا حل آج بھی وہی ہے جو حل آج سے سو سال پہلے تھا۔ جس حل کی بات سرسید احمد خان کر رہے تھے، جس کی بات علامہ محمد اقبال نے کی، آج بھی علاج اور دوا اِس کی وہی ہے اور وہ راز ’’تعلیم وتربیت‘‘ ہے۔ اگر حکمرانوں میں غیر ت جاگ جائے، کوئی ملک علم کی تحریک کو لے کر چلنے والا بن جائے تو پھر صورت حال مختلف ہو جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیکڑوں سال کی تاریخ میں اسلام کے تحفظ، اسلام کی بقاء اوراسلام کے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کے لیے حکومتوں نے کبھی بین الاقوامی سطح پر کوئی تحریک نہیں چلائی۔ انفرادی سطح (Individual) پر اللہ رب العزت جنھیں غیرت عطا فرماتاہے، وہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی خاطر محنت اور کوشش کرتے ہیں اور اپنی حدود کے ساتھ چلتے ہیں کیونکہ اُن کے اوپر Localاور International pressures بھی ہیں۔

اِس دور میں تحریک منہاج القرآن کی انفرادیت یہ ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری مدظلہ العالی نے جس تحریک کی بنیاد رکھی، اس نے اصل مسائل کے حل کی طرف توجہ دی۔ آپ نے تحریک منہاج القرآن کی بنیاد تعلیم وتربیت پر رکھی اور اُس کی عظیم مثال یہ ہے کہ شیخ الاسلام اور منہاج القرآن گزشتہ 41 سال میں ہر محاذ پر Symptom Address کرتے رہے ہیں لیکن تحریک اور تحریک سے تعلق رکھنے والے تمام احباب کی تعلیم وتربیت پر اصل توجہ مرکوز رکھی ہے۔ کیونکہ اگر ایک خاندان سنورتا ہے تو اس خاندان میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے اور پھر سنورنے کا یہ سلسلہ تدریجاً آگے بڑھتا رہتا ہے اور اخلاقی روحانی تربیت کے ذریعے معاشرے میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ لازمی بات ہے کہ یہ لمبے سفر ہیں، شارٹ ٹرم چیزیں نہیں ہیں۔

بے صبری اور غیر ضروری رد عمل

ایک اور بڑا مسئلہ تحریکوں کے اندر بے صبری کا ہے۔ ہم لوگ نتائج کے لیے بے صبر ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیں ہماری زندگی ستر، اسی سال کی ہے اور اللہ رب العزت کے لیے یہ عرصہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہم لوگ اپنی زندگی اور اپنی عمر کے حساب سے دیکھتے ہیں کہ کام کرتے اِتنا طویل عرصہ ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ قوم کی تقدیر کب بدلے گا؟ یاد رکھیں! افراد کی ظاہری زندگی اور عمر کے مطابق اللہ تعالیٰ قوموں کی تقدیر نہیں بدلتا، قوموں کی زندگیاں سیکڑوں اور ہزاروں سال پر محیط ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اپنے نظام ہیں۔ انسان نے جدوجہد کرنی ہے۔ بے صبری تحریکی زندگیوں کو بہت نقصان پہنچاتی ہے کیونکہ بے صبری کی وجہ سے غلط فیصلے ہوتے ہیں اور جب غلط فیصلے ہوتے ہیں تو نتیجتاً تحریک کی بہت ساری جدوجہد تشدد (militancy) کی طرف چلی جاتی ہے۔ تحریکوں کی زندگی میں بے صبری ایک سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ صبر اور برداشت پیدا کرنے کے لیے دینی تحریکوں کو اپنے ورکرز کی روحانی تربیت کرنی چاہیے۔

تحریکی زندگی میں جذبات ضروری ہیں لیکن صرف جذبات تحریکوں کی زندگی کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اِسی طرح تحریکوں کو ایسے نعرے جن کا تعلق ہماری مذہبی اقدار،روایات اورحساس امور کے ساتھ ہے، ایسے نعرے کبھی اپنی سیاسی جدوجہد کے اندر نہیں لانا چاہیے۔ جیسا کہ ہم اس کی مثال ماضی قریب میں اپنے ملک میں دیکھ چکے ہیں۔ ہماری ایک چھوٹی کمزور بات کی وجہ سے دین کا ایک بڑا مسئلہ متنازعہ بن گیا۔ آج بہت حساس حالات ہیں، اِس میں ان چیزوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

تحریک منہا ج القرآن کی شناخت مذہبی شناخت ہے۔ ہم اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ ، احیائے اسلام اوراِحیائے دین کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن 2013ء اور 2014ء کے دھرنوں کی جدوجہد ایک سیاسی نوعیت کی تھی۔ شیخ الاسلام نے اس پوری جدوجہد کے دوران اپنا ایجنڈا، اپنے خطابات اور اپنی گفتگو ہر چیز کو سیاسی گفتگو کے دائرے میں رکھا۔ کرپشن کی بات کی،آئین پاکستان کے آرٹیکلز کے نفاذ کی بات کی، غریب عوام کے حقوق کی بات کی، آپ نے خالصتاً ان ایشوز کے اوپر فوکس رکھا۔ حتی کہ شناخت مذہبی رکھنے کے باوجود مذہبی نعرہ (slogan) کو اُس تحریک کا حصہ نہیں بنایا۔ یہ کام حکمت والی عظیم قیادت ہی کرسکتی ہے کہ جس کو احساس ہو کہ میں نتائج بھی حاصل کروں اور مجھے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ اور دین کے اہم یا حساس امور کو بھی متنازعہ نہیں بنانا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت ساری تحریکیں ایسی ہیں کہ جو اپنی زبان ہی یہ رکھتے ہیں اور ایجنڈا میں مذہب کو اِتنااستعمال کرتے ہیں کہ نوجوان نسل مذہب سے بیزار ہوتی چلی جا رہی ہے۔

اِس کے علاوہ بعض تحریکوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں سیاسی طور پر hijack بھی کر لیا جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ لیڈر شپ کے ذریعے یا بعد میں آنے والی لیڈر شپ کے ذریعے کوئی شعوری اور عمداً ہائی جیک کرے۔ نہیں، بلکہ حالات و واقعات اِس طرح کے ہوتے ہیں،traps اِس طرح کے بنائے جاتے ہیں کہ احساس بھی نہیں ہوتا اور کسی ایک سمت پر وہ نکل جاتے ہیں۔ آج دینی تنظیموں اور تحریکوں کو اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ پہلے ادوار سے کئی بڑھ کرتحریکوں کو سیاسی ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

آج کے زمانے کے اندر جو دینی تحریکیں ہیں، اُنھیں symptomکو Address کرنا چاہیے لیکن long term approach جو تحریک کے مقاصد میں سے ہو، اُس کو کبھی نظر انداز نہ کریں اور اپنے وقت کا ستر فیصد حصہ اُسی پر مرکوز رکھیں جبکہ تیس فیصد اپنی انرجی اور وسائل symptom پر خرچ کریں۔

آج کے دور میں دینی تحریکوں کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم و تربیت کو بطور long term solution اپنائیں۔ تعلیم وتربیت کے ذرائع سکولز، یونیورسٹیز، کالجز، جامعات اور مدارس ہیں۔ تربیت کے لیے بہت ساری دینی،علمی، روحانی سرگرمیاں ہیں، جیسے منہاج القرآن کی بہت ساری سرگرمیاں ہیں۔ اسی طرح تعلیم و تربیت کے سامان میں سوشل میڈیا بھی ہے، خطابات بھی ہیں، کتابیں بھی ہیں، کانفرنسز بھی ہیں، سیمینارز بھی ہیں لیکن تعلیم وتربیت، فکری اور اخلاقی آبیاری، روحانی تربیت اور علمی طور پر Professionally ترقی کرنا، یہ کسی بھی تحریک کے لیے اشد ضروری ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے معاشرے کی ہر جہت سے تعلیم و تربیت کا اہتمام کرکے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ تحریک منہاج القرآن اس صدی کی تجدیدی تحریک ہے۔ تحریک منہاج القرآن اللہ تعالیٰ کے کرم اور انعام، آقا ﷺ کی توجہات سے شیخ الاسلام کی ہدایات میں رواں دواں ہے اور نہایت ہی حکمتِ عملی سے اُمتِ مسلمہ کے اصل مسائل کو Address کرنے میں مصروف عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ اس تحریک کو قائم و دائم رکھے اور اس کے ذریعے احیائے اسلام، تجدید دین اور اصلاحِ احوال کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2021ء

تبصرہ

ویڈیو

پیش آمدہ مواقع

Ijazat Chains of Authority
Top