صدقہ صرف مال دینا نہیں بلکہ دل کی سخاوت اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بےلوث محبت کا اظہار ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل کا ’صدقہ و خیرات اور صوفیاء کرام کی تعلیمات‘ کے موضوع پر خطاب
تحریر: محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر - لائیو اپڈیٹس سیل، سوشل میڈیا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو نہ صرف انفرادی عبادات پر زور دیتا ہے بلکہ معاشرے کی فلاح و بہبود اور انسانیت کی خدمت کو بھی اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے۔ اسلام کے بنیادی اَرکان اور تعلیمات میں صدقہ و خیرات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ یہ عمل محض مالی معاونت تک محدود نہیں بلکہ اس کے گہرے روحانی، اخلاقی اور معاشرتی اثرات ہیں۔
قرآن و سنت میں صدقہ و خیرات کا حکم:
قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ میں صدقہ و خیرات کا ذکر کثرت سے آیا ہے۔ دین کے بنیادی اَرکان (جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج) کے ضمن میں بھی صدقہ و خیرات کی اہمیت کو یوں اجاگر کیا گیا ہے کہ ہر مسلمان اسے اپنی زندگی کا لازمی حصہ تصور کرے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ایک خطاب میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’قرآن و سنت میں اسلام کے بنیادی ارکان میں سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کا ذکر کیا گیا ہے، جو صدقہ و خیرات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کو Motivate فرمایا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے نتیجے میں مالی خیرات لازمی کرے۔‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے محبوب بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ. (آل عمران، 3: 92)
’تم نیکی کی حقیقت کو اُس وقت تک ہرگز نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جانتا ہے۔‘
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ حقیقی نیکی اور روحانی بلندی پسندیدہ مال خرچ کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
صدقہ و خیرات کے فضائل و برکات:
صدقہ و خیرات کے بے شمار فوائد و برکات ہیں جن کا تذکرہ احادیث مبارکہ میں ملتا ہے۔ یہ عمل فرد اور معاشرے دونوں کے لیے خیر کا باعث بنتا ہے:
1. مال میں اضافہ: بظاہر صدقہ کرنے سے مال کم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالتا ہے اور اسے کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ. (مسلم، الصحیح، رقم: 2588)
’صدقہ مال میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا، بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ ہی بلند فرماتا ہے۔‘
2. اللہ کے غضب اور بری موت سے حفاظت: صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور ناگہانی آفات و مصائب سے بچاتا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِیئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ عَنْ مِیْتَةِ السُّوْءِ. (ترمذی، السنن، رقم: 664)
’بے شک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔‘
3. عمر میں اضافہ اور تکبر کا خاتمہ: صدقہ دینے والے کی عمر میں برکت ہوتی ہے اور یہ عمل اس کے دل سے تکبر اور غرور کو ختم کرتا ہے۔ حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ صَدَقَةَ الْمُسْلِمِ تَزِیْدُ فِي الْعُمْرِ، وَتَمْنَعُ مِیْتَةَ السُّوءِ، وَیُذْهِبُ اللهُ بِهَا الْکِبْرَ وَالْفَخْرَ. (طبرانی، المعجم الکبیر، 17: 22، رقم: 31)
’مسلمان کا صدقہ عمر میں اضافہ کرتا ہے، بری موت کو روکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے تکبر و فخر کو ختم کر دیتے ہیں۔‘
4. برائی کے ستر دروازے بند ہونا: صدقہ انسان کو بہت سی برائیوں اور بدبختیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَلصَّدَقَةُ تَسُدُّ سَبْعِیْنَ بَابًا مِنَ السُّوْءِ. (طبرانی، المعجم الکبیر، 4: 274، رقم: 4402)
’صدقہ برائی اور بدبختی کے ستر دروازے بند کر دیتا ہے۔‘
صدقہ و خیرات اور صوفیاء کرام کا طرزِ عمل:
صوفیاء کرام اور اولیائے عظام کی تعلیمات اور عملی زندگی میں صدقہ و خیرات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ ان کے نزدیک صدقہ صرف مال دینا نہیں بلکہ دل کی سخاوت، روح کی پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بے لوث محبت کا اظہار تھا۔
صوفیاء کرام کی خانقاہیں صرف ذکر و اذکار اور مراقبہ کے مراکز نہیں تھیں بلکہ فلاحِ انسانیت کا عملی نمونہ تھیں، جہاں ضرورت مندوں، مسافروں اور ہر آنے والے کو بلا تفریق کھانا کھلایا جاتا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا۔ ان کے نزدیک فقر، قناعت اور ایثار کے ساتھ ساتھ مستحقین کی مدد ہی روحانیت کا کمال ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے صوفیاء کے اس وصف کو بیان کرتے ہوئے کہا:
’صوفیاء کے ہاں مال و دولت جمع نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ پورا سال خیرات کا عمل اتنا زیادہ کرتے ہیں کہ سال کے اختتام پر وہ اکثر صاحبِ نصاب ہوتے ہی نہیں۔ کیونکہ وہ لوگ مال و دولت اکٹھا کر کے رکھنے والے نہیں ہوتے، جو کچھ اُن کی ضرورت سے زائد ہوتا ہے وہ راہِ خدا میں بانٹ دیتے ہیں۔‘
یہ عمل صوفیاء کی روحانی تربیت کا لازمی حصہ تھا جس سے ان کے اندر انسانیت کا درد جاگتا اور ان کا دل خدا اور اس کی مخلوق کے قریب ہوتا۔
صدقہ کی قبولیت کیلئے اخلاص کی ناگزیریت:
صدقہ و خیرات کی حقیقی روح اخلاص میں پنہاں ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کی رضا کے بجائے شہرت، ریاکاری یا احسان جتلانے کی نیت سے صدقہ کرتا ہے تو وہ اپنے عمل کا اجر ضائع کر دیتا ہے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ ریاکاری اور احسان جتانے والا صدقہ بےجان مٹی کی طرح ہے جو ایک بارش سے بہہ جاتی ہے اور پیچھے سخت پتھر رہ جاتا ہے، یعنی عمل کا کوئی پھل نہیں ملتا۔ لہٰذا، صدقہ کرتے وقت صرف اور صرف اللہ کی رضا پیشِ نظر ہونی چاہیے۔
حاصل کلام:
صدقہ و خیرات اسلام کا ایک نہایت بابرکت عمل ہے جو نہ صرف معاشرے کے محتاج طبقے کی مدد کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ صدقہ کرنے والے کو روحانی، اخلاقی اور دنیاوی برکات سے بھی نوازتا ہے۔ قرآن و سنت میں اس کی فضیلت بار بار بیان کی گئی ہے اور صوفیاء کرام نے اپنی زندگیوں میں اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صدقہ و خیرات کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنائیں اور اسے صرف فرض یا ذمہ داری سمجھ کر نہیں بلکہ محبت، ہمدردی اور خلوصِ نیت سے انجام دیں، صرف اللہ کی رضا کے لیے تاکہ ہم اس کے بے پناہ فضائل و برکات سے بہرہ مند ہو سکیں اور دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی پا سکیں۔
تبصرہ