قربانی کی روح اپنے نفس، خواہشات، اور دنیاوی محبتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر قربان کرنا ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
جب دل میں خدا کی محبت ہو اور قربانی کا عمل محض رسمی نہ ہو، تو یہی خلوص گناہوں کی مغفرت کا سبب بنتا ہے: صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل
قربانی کا عمل محض ایک رسمی عبادت نہیں، بلکہ اخلاص، محبتِ الٰہی اور قربِ خداوندی کا وہ عظیم مظہر ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی صورت میں امتِ محمدیہ پر واجب قرار پایا۔ یہ واقعہ بظاہر ایک باپ کی اپنے بیٹے کی قربانی کے خواب پر عمل کی داستان ہے، مگر دراصل یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب سے قیمتی چیز قربان کر دینے کے جذبے کا امتحان ہے۔ قربانی کی روح جانور کے ذبح کرنے میں نہیں، بلکہ اس دل کی کیفیت میں ہے جو خدا کی محبت میں ہر شے وار دینے کو تیار ہو۔ یہی وہ اخلاص ہے جو قربانی کو مقبول بناتا اور گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ بنتا ہے۔
قربانی کی حکمت
منہاج القرآن انٹرنیشنل کے صدر پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے حالیہ شائع ہونے والے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ قرآنِ کریم نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کا جو قربانی کا واقعہ بیان کیا ہے، اُس کی نسبت سے حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے ہر صاحبِ نصاب فرد پر قربانی واجب کی گئی۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمل امتِ محمدیہ کے لیے کیوں لازم ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے یہ امت قربانی کے عمل میں اسی اخلاص، وفا اور محبت کا مظاہرہ کرے جو سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام نے کیا۔
قربانی کا اصل مقصود کیا ہے؟
ڈاکٹر حسین محی الدین نے کہا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو خواب میں ذبح کرتے دیکھا اور اُن سے مشورہ کیا، تو بیٹے نے رضامندی کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امتحان کے موقع پر ایک مینڈھا نازل فرمایا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان بچا لی۔ یہاں اصل پیغام یہ تھا کہ خدا بندے کے دل کا حال دیکھتا ہے — یہ کہ بندہ اپنی عزیز ترین شے بھی اللہ پر قربان کرنے کو تیار ہے یا نہیں۔
جانور کی قربانی اور دل کی کیفیت
صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ جب ہم عید کے دن جانور قربان کرتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم صرف ایک جانور ذبح کر رہے ہیں؛ بلکہ اصل قربانی تو اپنے نفس، خواہشات، اور دنیاوی محبتوں کی ہے۔ چھری جانور کی گردن پر چلتی ہے، مگر اصل میں دل کا رشتہ کاٹا جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب اللہ بندے کے اخلاص سے راضی ہوتا ہے۔
قربانی اور گناہوں کی مغفرت
جب دل میں خدا کی محبت ہو اور قربانی کا عمل محض رسمی نہ ہو، تو یہی خلوص گناہوں کی مغفرت کا سبب بنتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث بیان کی جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی عمل نہیں کیا۔ وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا، اور اس کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقامِ قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔‘‘ (ابن ماجه، رقم: 3126)
حاصلِ کلام
قربانی کا عمل محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک روحانی مشق ہے، جس میں بندہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس، مال، آرام اور خواہشات کو قربان کرنے کا عہد کرتا ہے۔ یہی جذبہ، یہی نیت، اور یہی روحِ قربانی ہے جو بندے کو اللہ کے قریب کر دیتی ہے۔
تبصرہ