حج اطاعتِ الٰہی اور عشقِ حقیقی کی معراج ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو عبادات و معاملات ہر دو قسم کے اعمال میں بندوں کی نیت اور اخلاص کو خاص اہمیت دیتا ہے۔ جب بندہ دل کی گہرائیوں سے اللہ کے حضور سرِ تسلیم خم کرنے کا عہد کرتا ہے تو یہی اطاعت اصل بندگی ہے، اور یہی بندگی حج اور قربانی کا اصل پیغام ہے۔
جب بندہ احرام باندھتا ہے تو وہ دنیا کی زیب و زینت، وقتی آسائشوں اور ذاتی ترجیحات کو ترک کر کے ایک نئی روحانی کیفیت میں داخل ہوتا ہے۔ اس کی سادہ پوشاک اعلان کرتی ہے کہ وہ دنیاوی تفاخر اور شخصی تمیز سے نکل کر رب کے حضور بطور ایک عاجز بندہ حاضر ہوا ہے۔
حج کے مناسک دراصل اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کی ادائیں ہیں، جنہیں ہر کوئی اختیار نہیں کر پاتا۔ یہ وہ عبادات ہیں جن کے ذریعے انسان اللہ کے قرب کی جستجو کرتا ہے۔ طواف، سعی، وقوفِ عرفہ اور رمیِ جمرات صرف اعمال نہیں بلکہ عشقِ الٰہی کی منازل ہیں، جن پر چل کر بندہ اپنی بندگی کو مکمل کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا روحانی سفر ہے جس میں بندہ دنیا و مافیہا سے کٹ کر رب کی بارگاہ میں بے خودی کے ساتھ حاضر ہوتا ہے۔
ان مناسک کی اصل حقیقت عقل کی گرفت سے باہر ہے۔ چاہے ان کے فوائد تلاش کیے جا سکتے ہوں، مگر ان کا جوہر اطاعت میں پنہاں ہے۔ سچی عبادت وہی ہے جو خالص اللہ کے حکم پر کی جائے، نہ کہ عقل و منطق کی بنیاد پر۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ذٰلِكَ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ
"یہی (حکم) ہے، اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اللہ یا اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقوٰی میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقوٰی نصیب ہوگیا ہو)۔" (سورۃ الحج، آیت 32)
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ جب بندہ اللہ کی نشانیوں کا ادب و احترام کرتا ہے — چاہے وہ کعبہ ہو، صفا و مروہ، قربانی کے جانور ہوں یا دیگر شعائرِ حج — تو وہ دراصل دل کے تقویٰ کا عملی مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے، یہی کیفیت اسے اللہ کے قریب لے جاتی ہے۔
آج کا نوجوان اکثر ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ وہ پوچھتا ہے: "اس عبادت کا فائدہ کیا ہے؟" لیکن عبادت فائدے کے لیے نہیں، محض رب کے حکم پر کی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی رضا کے لیے اپنے جگر گوشے کو قربان کرنے کا جو جذبہ دکھایا، وہ عقل سے بالا تر تھا۔ یہ عشق کی معراج، بندگی کا کمال اور تسلیم و رضا کی انتہا تھی۔ قربانی دراصل اسی سنتِ ابراہیمی کی تجدید ہے — یہ اعلان کہ "اے رب! میں تیری رضا کے لیے اپنی خواہشات قربان کرتا ہوں۔"
اسی طرح حج میں طواف کے ابتدائی تین چکروں میں مردوں کے لیے تیز قدم اور سینہ تان کر چلنا سنتِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔ اس کی عقلی توجیہ ممکن نہ بھی ہو، لیکن سچا عشق یہی کہتا ہے: "یہ رسول اللہ ﷺ کا عمل ہے، اور یہی میرے لیے کافی ہے۔"
حج ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل نظامِ حیات ہے۔ اس میں ہر عمل کا معیار اللہ کی رضا ہے۔ جب بندہ دنیاوی امور کو بھی اسی نیت سے انجام دے کہ یہ رب کی خوشنودی کا ذریعہ بنیں، تو وہی معمولی کام بھی عبادت بن جاتے ہیں۔ یہی شعور نئی نسل کو دیا جانا چاہیے تاکہ وہ رسم و رواج سے نکل کر عبادت کی اصل روح کو پا سکے — یعنی اللہ کے لیے جینا اور مرنا۔
حج محض ایک رسمی عبادت یا جسمانی مشقت نہیں، بلکہ یہ صبر، عاجزی، قربانی اور فنا فی اللہ کی جامع تربیت ہے۔ یہ بندے کو رب کی اطاعت میں ڈھالنے اور اُس کے حضور جھکنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی عبادات کو محض عقل سے نہیں، بلکہ عشق، اخلاص اور عاجزی سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، یا ربّ العالمین۔
تبصرہ