علم محض اَلفاظ یا معلومات کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ نور ہے جو انسان کے باطن میں مثبت تبدیلی پیدا کرتا ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
علم انسان کو عجز و انکساری کا پیکر بناتا ہے
علم انسان کی روحانی بالیدگی کا سرچشمہ ہے۔ یہ صرف معلومات کا ذخیرہ نہیں بلکہ دل و دماغ کو منور کرنے والا وہ نور ہے جو انسان کے کردار، فکر اور رویے میں انقلابی تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ حقیقی علم وہی ہے جو انسان کی روح کو روشن کرے اور اُسے خیر و شر کی تمیز عطا کرے۔ قرآنِ مجید نے عالم اور جاہل کو برابر قرار نہ دے کر علم کی فضیلت کو واضح کیا ہے، کیونکہ علم انسان کو شعور عطا کرتا ہے، اسے خیر و شر کی پہچان دیتا ہے اور اسے عجز و انکساری کا پیکر بناتا ہے۔ ایک صاحبِ علم شخص نہ صرف اپنے لیے فائدہ مند ہوتا ہے بلکہ اپنے علم سے دوسروں کی زندگیوں کو بھی روشن کرتا ہے، جبکہ جہالت اندھیرے کی مانند ہے جو انسان کو اپنی ذات اور مقصدِ حیات سے بے خبر رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے حصولِ علم کو ہر مرد و عورت پر فرض قرار دے کر اس کی اَبدی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔منہاج القرآن گذشتہ چار دہائیوں سے فروغِ علم میں کوشاں ہے۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی پاکستان کے ہر کونے میں علم کا نور تقسیم کر رہی ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ:
منہاج ایجوکیشن سوسائٹی پاکستان میں علم، اخلاق اور خدمتِ انسانیت کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ یہ ادارہ صرف تعلیمی ڈگریز تک محدود نہیں بلکہ فکری، روحانی اور اخلاقی تربیت کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھتا ہے۔ اِس سوسائٹی کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو علم کے نور سے خود بھی منور ہوں اور دوسروں کے لیے بھی روشنی کا ذریعہ بنیں۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کا نظامِ تعلیم کردار سازی، اَمن اور رواداری کو بنیاد بناتا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ یہ ادارہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کر رہا ہے۔
علم نورِ باطن کی تجلی اور روح کی بیداری کا ذریعہ
علم کی تعریف کے متعلق پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: جو کچھ ہم اپنے حواس یعنی نگاہ اور سماعت کے ذریعے حاصل کرتے ہیں، اور پھر جس لطیف کیفیت کا ظہور ہمارے دل و دماغ کی وسعتوں پر ہوتا ہے، وہی دراصل "علم" ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم کو نور کہا جاتا ہے۔ جس طرح ہمارا ظاہری جسم آگ، پانی، ہوا اور مٹی سے مرکب ہے مگر اس کے اندر ایک پوشیدہ حقیقت پائی جاتی ہے جسے ہم "روح" کہتے ہیں، اور وہ روح درحقیقت نور ہے؛ بالکل اسی طرح وہ الفاظ جو ہماری آنکھوں کو دکھائی دیتے ہیں یا کانوں سے سنائی دیتے ہیں، وہ صرف علم کا ظاہری جسم ہیں۔ ان الفاظ کے پسِ پردہ جو حقیقت چھپی ہوتی ہے، وہی نور ہے، اور وہی نور حقیقی علم کی اصل روح ہے۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں، اعلیٰ ڈگریز بھی لے لیتے ہیں، لیکن ان کی شخصیت میں کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ یہ کیفیت ایسے ہی ہے جیسے قرآنِ مجید میں نماز کو برائیوں سے روکنے والی عبادت قرار دیا گیا ہے، لیکن بہت سے نمازی ایسے ہوتے ہیں جن کی نماز ان کے کردار پر کوئی اَثر نہیں ڈالتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نماز کے ظاہری جسم کو تو اپنا لیا، مگر وہ نور جو نماز کے باطن سے پیدا ہو کر انسان کی روح میں اُترتا ہے، وہ اُن کے اندر پیدا نہ ہو سکا۔ دراصل یہی نور انسان کی اصل تبدیلی کا سرچشمہ ہوتا ہے، جو اُسے راست کردار اور سچے اخلاق کی طرف گامزن کرتا ہے۔
علم انسان کو عجز و انکساری کا پیکر بناتا ہے
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ تعلیم کا اَصل مقصد اِنسان کو عجز و انکساری کا پیکر بنانا ہے، مگر افسوس کہ آج کی تعلیم ہمیں اخلاقی بلندی کے بجائے اخلاقی پستی کی طرف لے جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام مشاہدہ ہے کہ جب کوئی شخص چند کتابیں پڑھ لیتا ہے یا چند ڈگریاں حاصل کر لیتا ہے، تو اس کا انداز تکلّم، رویہ اور برتاؤ دیگر لوگوں کے ساتھ مختلف ہو جاتا ہے۔ اگر تعلیم انسان کے اندر عاجزی، انکساری اور انسان دوستی پیدا نہ کرے، تو ایسی تعلیم محض الفاظ کی منتقلی ہے، وہ علم نہیں کہلاتی جو دل و دماغ کو روشن کرے اور باطن کو نور سے منور کرے۔ الفاظ کا یہ ظاہری بوجھ تبھی علم بن سکتا ہے جب وہ اندر کی دنیا کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: علم محض ایک لفظ نہیں بلکہ ایک مفہوم ہے جو چند بنیادی تقاضوں کا حامل ہے۔ اگر ہم ان تقاضوں کو سمجھ لیں تو یہی علم ہمارے باطن میں نور پیدا کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: جب ہم علم کی بات کرتے ہیں تو لفظِ علم چند چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ہم اُن تقاضوں کو سمجھ جائیں تو وہ علم ہمارے اندر نور پیدا کرے گا۔ وہ تقاضے اور خصوصیات کون یہ ہیں:
1 - علم انسان میں یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ حاصل شدہ معلومات کو درست طور پر محفوظ اور منظم رکھ سکے۔
2 - علم کسی ایسے شخص کے پاس نہیں ٹھہرتا جو اس کے اہل نہ ہو، یعنی جس کے اندر سیکھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی استعداد نہ ہو۔
3 - علم جب کسی اہل شخص میں راسخ ہو جاتا ہے تو وہ اشیاء کی ابتدا و انتہا، اسباب و نتائج اور حقیقت و مغز تک رسائی حاصل کرنے لگتا ہے۔
گفتگو کے اختتام پر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے پاکستان کے تعلیمی نظام پر بصیرت افروز تجزیہ پیش کیا اور بتایا کہ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کس طرح ملک کے طول و عرض میں تعلیم و تربیت کی شمعیں روشن کر رہی ہے، جہاں صرف معلومات نہیں بلکہ نورِ علم کو منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ نئی نسل علم کے ساتھ ساتھ کردار و اخلاق میں بھی روشن مثال بنے۔
حاصلِ کلام:
علم انسان کی روحانی بالیدگی، کردار سازی اور فکری بیداری کا ذریعہ ہے، جو صرف معلومات کی منتقلی نہیں بلکہ دل و دماغ میں نور کی تجلی پیدا کرتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے مطابق حقیقی علم وہی ہے جو انسان کو عجز و انکساری عطا کرے، اس کے باطن کو منور کرے اور اسے خیر و شر کی پہچان عطا کرے۔ اگر علم انسان کی شخصیت میں مثبت تبدیلی نہ لائے تو وہ صرف الفاظ کا بوجھ ہے، نورِ علم نہیں۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی اسی تصورِ علم کی بنیاد پر پاکستان میں تعلیم، اخلاق اور خدمتِ انسانیت کے فروغ میں مصروف عمل ہے، جہاں تعلیم کو روحانی، فکری اور اخلاقی تربیت کا ذریعہ بنا کر نئی نسل کو باکردار اور باوقار انسان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تبصرہ