سیدنا عمر بن خطابؓ کے اسلام لانے پر آسمان والوں نے بھی خوشیوں کا اظہار کیا: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے دین کو عزت، وقار اور تمکّن عطا فرمایا: شیخ الاسلام کا خطاب
حضرت عمر بن خطابؓ اسلام کی تاریخ کی وہ درخشندہ شخصیت ہیں جنہوں نے عدل، شجاعت اور اپنی فہم و بصیرت کی ایسی روشن مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ خلیفہ دوم تھے اور آپ کے دور خلافت کو "دورِ عدل" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کے ذریعے اسلام کو نہ صرف سیاسی استحکام ملا بلکہ ریاستِ مدینہ ایک طاقتور اور منظّم ریاست کی صورت میں ابھری۔ حضرت عمرؓ کی فہم و فراست، دینی غیرت، رعایا کے حقوق کا تحفظ اور اسلامی اصولوں کی سختی سے پاسداری آپؓ کے مقام و مرتبے کی دلیل ہیں۔
حضرت عمر بن خطابؓ کا مقام ومرتبہ:
حضرت عمر بن خطابؓ کا مقام و مرتبہ احادیثِ نبویہ کی روشنی میں نہایت بلند و عظیم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کی شخصیت کو متعدد بار سراہا اور آپ کے ایمان، بصیرت اور عدل کی گواہی دی۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا" (ترمذی)۔ اِسی طرح ایک اور روایت میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "بے شک جب سے حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا ہے شیطان جب بھی اُن کے سامنے سے گزرتا ہے تو اپنا سر جھکا لیتا ہے۔(طبرانی، المعجم الکبیر) یہ حضرت عمرؓ کی ایمانی ہیبت اور قوتِ حق کی علامت ہے۔ ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہ صرف نبی کریم ﷺ کے خاص رفقاء میں شامل تھے بلکہ آپ کی دینی بصیرت، فہمِ قرآن، اور عدل کو خود رسول ﷺ نے پسند فرمایا۔ اِسی تناظر میں شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سیدنا عمر بن خطابؓ کی شان کے متعلق خطاب کیا اور آپ کے رعب و ایمانی دبدبہ کو واضح کیا۔
شیاطینِ جن و اِنس کا سیدنا فاروقِ اعظم سے بھاگنا:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ہم ایک روز آقا ﷺ کی بارگاہ میں بیٹھے تھے، اچانک بچوں کے رونے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں، حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے اپنے پاس بلا لیا اور پھر جب آوازیں غائب ہو گئیں تو میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ، یہ تمام آوازیں کیسی تھیں؟ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: إني لأنظرُ إلى شياطين الإنس والجنِّ قد فرُّوا من عمرَ. (جامع الترمذی) میں دیکھ رہا ہوں کہ حضرت عمر فاروقؓ ادھر سے گزر رہے تھے اور جن و اِنس کے شیاطین اُن کے ڈر سے ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ اور یہ آوازیں حضرت عمرِ فاروق کے خوف سے شیاطین کے بھاگنے کی آ رہی تھیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیاطینِ جن و انس سیدنا عمر فاروقؓ کے رعب و دبدبۂ ایمانی کے ڈر سے بھاگ جاتے تھے۔
اللہ تعالی نے حضرت عمرؓ کو حفاظتِ دین کی ذمہ داری سونپی:
حضرت عمر فاروقؓ کا وہ رعب و دبدبہ تھا کہ آپ کے اسلام لانے سے اہلِ آسمان نے خوشیوں کا اظہار کیا۔ آپ کی وجہ سے اسلام کو وقار و تمکّنت ملِا۔ یہ سب اس لیے تھا کہ اللہ تعالی نے آپ کو حفاظتِ دین اور اِقامتِ دین کی ذمہ داری سونپنی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے باعث دین کو تمکّنت و منزلت عطا کی:
حضور نبی اکرم ﷺ نے دین کے غلبے اور وقار کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حضرت عمر بن خطابؓ کو مانگا اور فرمایا: اے اللہ، عمر بن خطابؓ کے ذریعے اسلام کو عزت ووقار عطا فرما۔(حاکم، المستدرک) سیدنا عمر فاروقؓ نے دین کے وقار و تمکّن کو زمین پر اس طرح بپا کیا کہ آپ سر زمینِ مدینہ میں چٹائی پر سو رہے ہوتے تھے اور روم کا قیصر اور ایران کا کسرٰی اپنے تخت پر جاگتے ہوئے جلالِ فاروقی کے ڈر سے کانپ رہے ہوتے۔ اللہ تعالی نے آپ کے ذریعے دین کی تمکّنت اور غیرت و حمیت کو بحال فرمایا۔
حاصلِ کلام:
حضرت عمر بن خطابؓ کا رعب و دبدبہ، ایمانی غیرت اور دین کے تحفظ کے لیے ان کی فطری بصیرت ایسی نمایاں خصوصیات ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ نے خود بیان فرمایا۔ احادیثِ نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطینِ جن و انس بھی آپؓ کے جلالِ ایمانی سے خائف ہو کر راہِ فرار اختیار کرتے تھے۔ آسمانوں پر آپؓ کے اسلام لانے پر خوشی منائی گئی، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے دین کو عزت، وقار اور تمکّن عطا فرمایا۔ نبی کریم ﷺ کی دعاؤں کا اثر تھا کہ حضرت عمرؓ نہ صرف اسلام کے محافظ بنے بلکہ دین کو زمین پر غالب کرنے والے عظیم سالار بھی ثابت ہوئے، جن کی ہیبت سے قیصر و کسرٰی بھی لرزاں رہتے تھے۔
بلاگ: محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر، لائیو اَپڈیٹس سیل، سوشل میڈیا)
تبصرہ