محبتِ حسینؑ وہ خوشبو ہے جو دلِ مؤمن کو معطر رکھتی ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مورخہ: 28 جون 2025ء

محرم الحرام کا ماہِ مقدس ہمیں سیدنا امام حسین علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی اسلام کے لیے دی گئی عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے: شیخ الاسلام کا خطاب
محبتِ حسینؑ، ایمان کی روح ہے اور یہی تعلق انسان کو باطل سے جدا اور حق سے ہم آہنگ کرتا ہے۔

محبتِ حسینؑ دراصل ایمان کی معراج اور دلِ مؤمن کی وہ خوشبو ہے جو ایمان کو تازگی عطا کرتی ہے۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام پیکرِ صداقت، عظمتِ کردار اور وفائے محمدی کا وہ روشن مینار ہیں جن سے محبت کرنا دراصل رسول اللہ ﷺ سے محبت ہے، اور ان سے بغض رکھنا آقا ﷺ سے بغض رکھنے کے مترادف ہے۔ واقعۂ کربلا محض ایک تاریخی سانحہ نہیں بلکہ ایک ایسا ابدی پیغام ہے جو ظالم کے خلاف ڈٹ جانے اور حق کی خاطر جان قربان کر دینے کا درس دیتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو عام انسانی قتل کے زمرے میں رکھنا نہ صرف حقیقت کے منافی ہے بلکہ اذیتِ رسول کے مترادف ہے، جس کی مذمت قرآنِ مجید میں کی گئی ہے۔ جو بھی امام حسینؑ کو اذیت دے، وہ درحقیقت رسول اللہ ﷺ کو اذیت دیتا ہے، اور قرآن کا فیصلہ ہے کہ رسول کو اذیت دینے والا دنیا و آخرت میں ملعون ہے۔ محبتِ حسینؑ، ایمان کی روح ہے، اور یہی تعلق انسان کو باطل سے جدا اور حق سے ہم آہنگ کرتا ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ امام حسینؑ سے محبت اور ان سے عقیدت رکھنا، دراصل ایمان کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت، محبت اور ان کے مبارک طرزِ زندگی کی پیروی بھی ایمان کا حصہ ہے

شیخ الاسلام نے اس بات افسوس کا اظہار کیا کہ بہت سے ایسے مسلّمہ حقائق ہیں جن کے ثبوت اور وضاحت کے لیے گذشتہ 14 سو سال میں کبھی کسی زمانے میں علماء کو ضرورت نہیں پڑی تھی۔ لیکن آج ایسا زوال کا دور ہے کہ مسلّمہ حقائق کو ثابت کرنے کے لیے بھی دلائل درکار ہیں۔

محبتِ اہلِ بیت کو کمزور کرنے کی کوشش:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ آج مختلف قسم کے شبہات اور سوالات پھیلائے جا رہے ہیں تاکہ لوگوں کا اہلِ بیت سے تعلق کمزور ہو جائے اور اُن برکتوں سے محروم ہو جائیں جو نبی کریم ﷺ کے اہلِ بیت کے وسیلے سے لوگوں کو حاصل ہوتی رہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان اعتراضات کا مدلل جواب دیا جائے تاکہ ایمان محفوظ رہے اور محبتِ اہلِ بیت کا رشتہ مضبوط تر ہو۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں، ان میں سے وارد کیا جانے والا ایک اعتراض یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر اہلِ بیتِ اطہار کی نفوسِ قدسیہ؛ جن کی شہادت ہوئی، یہ اَمر نفسِ انسانی کے قتل کا اَمر ہے، یہ فعل حرام تو ضرور ہے مگر اس کو کُفر قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس رویے کی وجہ بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ ایسے شکوک و شبہات کے ذریعے در حقیقت یزید اور اُس حواریوں اور دشمنانِ اہلِ بیت کو تحفظ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور اہلِ بیت علیہم السلام کے دیگر نفوسِ قدسیہ کی شہادت کا حکم کیا عام نفسِ انسانی کے قتل جیسا ہے؟ یا اِس کا حکم ان سے جدا اور بالا تر ہے؟

رسول ﷺ کو اذیت پہنچانے والا آپ ﷺ کو اذیت پہنچانے کے باعث کافر ہو جاتا ہے:

شیخ الإسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ اِن تمام اشکالات و شکوک کا جائزہ سب سے پہلے ہم قرآنِ مجید سے لیتے ہیں۔ شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے حکم قائم کرنے کا مسئلہ نفسِ انسانی کے قتل کا حکم کیا ہے، یہ نہیں ہے بلکہ یہ اذیتِ رسول کا مسئلہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانا کفر ہے۔ کیا سیدنا امام حسین علیہ السلام اور اہلِ بیتِ نبوت اور سیدۂ کائنات سلام اللہ علیہا کے لختِ جگر کو اذیت پہنچانا اذیت ہے یا نہیں۔ اگر یہ رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچانے کا عمل ہے تو اُس کا حکم کیا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًا) [الأحزاب : 53]

اے ایمان والو! نبیِ (مکرّم ﷺ) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھا چکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہوجایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔ یقیناً تمہارا ایسے (دیر تک بیٹھے) رہنا نبیِ (اکرم) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے (اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اللہ حق (بات کہنے) سے نہیں شرماتا، اور جب تم اُن (اَزواجِ مطّہرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لیے اور ان کے دلوں کے لیے بڑی طہارت کا سبب ہے، اور تمہارے لیے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ (ﷺ) کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد ابَد تک اُن کی اَزواجِ (مطّہرات) سے نکاح کرو، بے شک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہے

اس آیت میں اللہ رب العزت نے ایک معیار قائم کر دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو کِس کِس چیز سے اذیت پہنچتی ہے۔ اَب جو رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچائے اُس کا حکم کیا ہے؟ اس کے متعلق اللہ رب العزت فرماتا ہے:

(إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا) [الأحزاب : 57]

بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔

اِس آیت سے یہ واضح ہوگیا کہ اگر کسی نے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی تو اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنی ذات کے ساتھ منسوب کر دیا۔ اَب اللہ تعالیٰ کو جسمانی، روحانی اور ذہنی اذیت پہنچانا ممکن نہیں، اِن تمام احساسات سے اللہ تعالیٰ پاک ہے۔ یعنی جس نے اللہ کے رسول ﷺ کو اذیت پہنچائی اُس نے اللہ رب العزت کو اذیت پہنچائی۔

اللہ تعالی نے اسی آیت میں آگے فرمایا:

لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ

اللہ تعالی نے اُس پر دنیا میں بھی لعنت کی اور آخرت میں بھی اُس پر لعنت ہے، اور اُس کے لیے انتہائی ذلت والا عذاب ہے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ ہر وہ جرم جس کے نتیجے میں انسان جہنم کا حق دار بنے گا اُس کے لیے عذابِ عظیم کے الفاظ قرآن میں وارد ہوئے ہیں۔ یہ کافروں کے لیے بھی ہے اور غیر کافروں کے لیے بھی ہے۔ اس سے اوپر کا درجہ جب اللہ تعالیٰ سخت ترین عذاب دینا چاہے تو عذابِ الیم کا لفظ آتا ہے۔ اور عذابِ الیم کا معنی درد ناک عذاب ہے۔ اور درد ناک عذاب غیر کافر کے لیے عام طور پر نہیں ہوتا۔ اس میں عذاب کی شدّت بڑھ جاتی ہے۔ اگر اس سے بھی مزید شدّت بڑھانا مقصود ہوتا تو عذابِ مہین کے الفاظ آتے ہیں۔ یعنی اہانت انگیز اور ذلت ناک عذاب۔ لہذا اِس آیت سے ثابت ہوا کہ رسول ﷺ کو اذیت پہنچانے والا براہِ راست اُس اذیت پہنچانے کے فعل کے ارتکاب سے کافر ہو گیا۔

واقعہ کربلا کی حقیقت:

شیخ الاسلام نے مزید کہا کہ اِسی طرح ایک شبہ یہ بھی عوام الناس کے قلوب و اذہان میں پیدا کیا جاتا ہے کہ واقعاتِ کربلا اور اہلِ بیتِ نبوی اور عترتِ رسول کی اہانت اور بے حرمتی کے واقعات میں بہت کچھ مَن گھڑت ہے، یہ قصّے اور کہانیاں ہیں، یہ تاریخی واقعات ہیں اور تاریخی واقعات میں بہت کمی بیشی ہوتی ہے۔ لہذا اس پر شدّت کے ساتھ حکم قائم نہیں ہونا چاہیے۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ واقعہ کربلا کیا تاریخ کے قصّے کہانیاں ہیں یا تمام واقعہ کمزور روایات پر مبنی ہے؟ یا یہ مسلّمہ حقائق ہیں جن کی بنیاد احادیثِ صحیحہ ہیں۔ واقعاتِ کربلا کی مؤرخین سے بڑھ کر اِن کی توثیق جلیل القدر ائمۂ حدیث اور فقہاء نے کی ہے۔

اِسی طرح یہ شبہ بھی وارد کیا جاتا ہے کہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کو تو ابن زیاد اور اُس کی فوج نے شہید کروایا، یزید نے براہِ راست آپ علیہ السلام کو شہید کرنے کا حکم نہں دیا تھا۔ لہذا اُس پر واقعہ کربلا کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اَب جائزہ یہ لینا ہے کہ کیا قتلِ امام حسینؑ کی ذمہ داری صرف ابن زیادہ اور اُس کی فوج پر بنتی ہے یا براہِ راست یزید اس واقعہ کا ذمہ دار ہے؟

یہ بھی جائزہ لینا ہے کہ کیا یہ واقعہ یزید کے حکم، مرضی اور منصوبہ بندی سے ہوا تھا یا نہیں؟ پھر اہلِ بیتِ اطہار کے نفوسِ قدسیہ کے جمسوں پر گھوڑے دوڑائے گئے، اور پھر سیدنا امام زین العابدین اور سیدہ زینب کو قیدی بنا کر زنجیروں میں جکڑ کر کوفہ کے بازاروں میں گھمایا گیا، اور پوری دنیا کو دکھایا گیا کہ یہ مسلمانوں کے نبیﷺ کی عترت اور خاندان ہے۔ یہ تمام سر اور جسم رسول کریم ﷺ کی عترت کے ہیں جن کے حقوق کی پاسداری کا حکم خود رسول اللہ ﷺ نے دیا تھا اور اُن کے حقِ حرمت کو قرآنِ مجید کے حق کے ساتھ جوڑا تھا۔

محبتِ حسنین کریمین علیہما السلام رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کی علامت ہے:

شیخ الاسلام نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کو حضور نبی اکرم ﷺ نے چوما اور فرمایا: حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔ اللہ اُسی سے محبت کرے گا جو حسینؑ سے محبت کرے گا۔ (ترمذی، السنن، ابن حبان، الصحیح)

پھر آقا ﷺ نے فرمایا: جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے محبت کی اُس نے میرے ساتھ محبت کی، اور جس نے اِن دونوں کے ساتھ بغض رکھا، اُس نے میرے ساتھ بغض و عناد رکھا۔ شہادتِ امام حسین علیہ السلام کو نفسِ انسانی کے قتل کے تناظر میں نہیں دیکھا جائے گا بلکہ شہادتِ امام حسین علیہ السلام کو اُس تناظر میں دیکھا جائے گا جو آقا ﷺ نے فرمایا ہے۔ یعنی جو حسین علیہ السلام سے بغض رکھتا ہے وہ حضور نبی اکرم ﷺ سے بغض رکھتا ہے۔ جو حسین علیہ السلام کو اذیت دیتا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کو اذیت دیتا ہے۔

حاصلِ کلام:

محبتِ سیدنا حسین علیہ السلام عین ایمان اور دلِ مؤمن کی معطّر خوشبو ہے، جس کے بغیر روحِ وفا نامکمل رہتی ہے۔ واقعۂ کربلا محض تاریخ کا باب نہیں بلکہ حق و باطل کے مابین ابدی خطِ امتیاز ہے، جس نے ظلم کے مقابل ڈٹ جانے اور دین پر جان نچھاور کرنے کا آفاقی سبق عطا کیا۔ امام حسینؑ اور اہلِ بیتِ اطہار پر دست درازی، عام انسانی قتل نہیں بلکہ اذیتِ رسول ﷺ ہے، جس کی مذمت خود قرآن کرتا ہے، اور جس کا مرتکب دنیا و آخرت میں ملعون ہے۔ لہٰذا سیدنا حسینؑ سے محبت دراصل رسولِ رحمت ﷺ سے محبت ہے، اور ان سے بغض رکھنا آقا ﷺ سے بغض کے مترادف؛ ایمان کی سلامتی اور رشد کا واحد راستہ یہی ہے کہ تعلقِ مودّتِ اہلِ بیت کو مضبوط رکھا جائے اور کربلا کے پیغامِ صداقت و استقامت کو زندگی کا شعار بنایا جائے۔

بلاگ: محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر، لائیو اَپڈیٹس سیل، سوشل میڈیا)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top