معرفت اللہ تعالیٰ کی پہچان ہوتی ہے، جس کو اللہ کی پہچان ہو جائے وہ عارف بن جاتا ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
رویّہ سوچ سے جنم لیتا ہے اور رویّے ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا باعث بنتے ہیں: شیخ الاسلام
معرفت، محض عِلم یا معلومات کا نام نہیں بلکہ یہ دل کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کا نام ہے۔ جس دل میں معرفت کا نور اُتر جائے، اُس کے رویّے میں نرمی، انکساری اور خلقِ خدا کے لیے رحمت کی جھلک نمایاں ہو جاتی ہے۔ عارف کا دل بغض، خودغرضی اور تکبّر سے پاک ہو جاتا ہے۔ وہ ہر انسان میں ربّ کی نشانی دیکھتا ہے اور اُس کے ساتھ حسنِ سلوک کو عبادت سمجھ کر ادا کرتا ہے۔ معرفت انسان کو دوسروں کے لیے آسانی، محبت اور خیر کا ذریعہ بنا دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ عارف کا رویّہ ہر حال میں عاجزی، شفقت اور حلم سے مزیّن ہوتا ہے۔
سخاوتِ دل اور معرفتِ نظر کا روشن منظر:
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محمد بن عبد اللہ بن جعفرؒ فرماتے ہیں:
ایک روز میں اپنے گھر سے نکلا اور ایک کھجوروں کے باغ کی طرف جا نکلا۔ وہاں میں نے ایک خاموش، باوقار اور نورانی چہرے والے نوجوان کو دیکھا۔ اُس کے چہرے پر معرفت کی ایسی روشنی تھی جو عارفانِ حق کا خاصہ ہوتی ہے۔ وہ تنہا بیٹھا تھا، مگر تنہائی میں بھی اُس کا وقار، اُس کی خاموشی گویا گفتگو کر رہی تھی۔ میں کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا اور محسوس کیا کہ وہ دو تین دن سے فاقہ کشی میں ہے۔
میرے پاس کھانے کے لیے تین روٹیاں تھیں، میں نے وہ تینوں روٹیاں اُس نوجوان کے سامنے رکھ دیں۔ اُس نے شکریہ ادا کیا اور ابھی کھانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ اچانک ایک بھوکا کتا وہاں آ گیا۔ وہ سیدھا آ کر اُس کے سامنے بیٹھ گیا اور حسرت بھری نگاہوں سے اُس جوان کی طرف دیکھنے لگا۔
اُس جوان نے ایک روٹی کتے کو دے دی، کتے نے وہ روٹی کھا لی۔ روٹی کھانے کے بعد کُتے نے اپنا سر اٹھایا اور جوان کی طرف دیکھا، جوان نے دوسری روٹی بھی اُس کی طرف پھینک دی۔ کتے نے وہ روٹی بھی کھا لی۔ روٹی کھانے کے بعد کُتے نے پھر اپنا سر اُٹھایا اور اُس جوان کی طرف دیکھا، اُس نے تیسری روٹی بھی اُس کی طرف پھینک دی۔ کُتے نے تیسری روٹی بھی کھا لی اور کھانے کے بعد وہاں سے چلا گیا۔
محمد بن عبد اللہ بن جعفرؒ کہتے ہیں: میں نے نوجوان سے حیرت سے پوچھا: تم نے ساری روٹیاں اُسے دے دیں؟ خود کے لیے کچھ نہ رکھا؟ تم اب کیا کھاؤ گے؟ نوجوان مسکرایا، نگاہ آسمان کی طرف کی اور بولا: اللہ کی توفیق پر شکر کروں گا۔
پھر اُس جوان نے نرمی سے کہا:
مَا هِيَ بِأَرْضِ كِلَابٍ إِنَّهُ جَاءَ مِنْ مَسَافَةٍ بَعِيدَةٍ جَائِعًا.
غزالی، اِحیاء علوم الدین، ج3، ص 258
یہ زمین ہمارے علاقے کی ہے، یہاں دُور دُور تک کوئی کتا نہیں آتا۔ یہ کتا کہیں بہت دُور سے آیا ہے۔ بھوک نے اسے یہاں تک کھینچ لایا۔ جب میں نے پہلی روٹی دی تو اُس کے انداز سے معلوم ہوا کہ وہ ابھی سیر نہیں ہوا۔ دوسری دی، تو پھر بھی بھوک باقی تھی۔ تیسری بھی دے دی، تب جا کر اُس کے چہرے پر سیرابی کے آثار ظاہر ہوئے۔ میرا دل گوارا نہیں کرتا تھا کہ وہ بھوکا واپس جائے۔
پھر اُس جوان نے کہا کہ: ہمارے اس علاقے میں دور دراز تک کوئی کتا نہیں رہتا۔ اَب یہ کتا کہیں دور سے آیا تھا، اور بھوک اِس کو یہاں تک لے آئی تھی۔ اِس کو کہیں کھانا نہیں ملا تھا اور یہ روٹی کی تلاش کرتا ہوا یہاں آیا، میں نے ایک روٹی پھینکی اور میں نے پہچان لیا کہ ابھی یہ سیر نہیں ہوا ہے، پھر دوسری روٹی پھینکی، پھر دیکھا بھوکا ہے تو تیسری روٹی بھی اُس کو دے دی۔ وہ کھا کر چلا گیا۔ اُس کے عمل نے مجھے بتایا کہ میں سیر ہو گیا ہوں۔
فَكَرِهْتُ أَنْ أَشْبَعَ وَهُوَ جَائِعٌ.
غزالی، اِحیاء علوم الدین، ج3، ص 258
میں نے تمام روٹیاں اُسے اِس لیے دے دیں کہ میرے دل نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میں اُس کو بھوکا واپس بھیج دوں۔
معرفت کی حقیقت:
شیخ الإسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کے دوران معرفت کے متعلق بیان کرتے ہوئے کہا کہ: معرفت اللہ تعالیٰ کی پہچان کو کہتے ہیں، جس کو اللہ تعالی کی پہچان ہو جائے وہ عارف ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کی پہچان کس کو ہے اور کس کو نہیں ہے اُس شخص کے رویّے بتا دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے مزید رویّے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: رویّہ سوچ سے جنم لیتا ہے اور رویّے ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا باعث بنتے ہیں۔
حاصلِ کلام:
معرفت دل کی وہ روشنی ہے جو انسان کے باطن کو منور کر کے اُس کے ظاہر کو بھی سنوار دیتی ہے۔ جب دل اللہ کی پہچان سے روشن ہو جاتا ہے تو انسان کا رویّہ صرف انسانوں ہی نہیں، بلکہ ہر ذی روح کے لیے سراپا رحمت بن جاتا ہے۔ عارف کا ظرف اتنا کشادہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی بھوک پر دوسری مخلوق کی بھوک کو ترجیح دیتا ہے، اپنی راحت پر دوسروں کی راحت کو مقدم جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو سیر کرنا، اللہ کی رضا کا راستہ ہے۔ معرفت جب سچے دل میں جاگزیں ہو جائے تو انسان ایثار، انکساری اور محبت کا پیکر بن جاتا ہے، اور یہی وہ اصل پہچان ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی اللہ کو پہچان چکا ہے۔ یعنی اُس کے عمل میں خودی نہیں، صرف خُدا ہوتا ہے۔
تبصرہ