انسانی شخصیت میں حقیقی تبدیلی تب رونما ہوتی ہے جب اَحکاماتِ الہیہ دل میں علمِ نافع بن کر اُتر جائیں: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

مورخہ: 01 اگست 2025ء

آج کا انسان عبادات میں مشغول تو ہے، مگر اس کی روح اُن عبادات کی تاثیر سے محروم ہے۔ نمازیں قائم ہیں، صفیں بھری ہوئی ہیں، اذان کی صدا پر لوگ مسجدوں کا رُخ کرتے ہیں، مگر دل کی زمین پر وہ نورانی بیج نہیں اُگتے جو کردار و اَخلاق کو بدل سکیں۔ عبادت کا ظاہر زندہ ہے، مگر باطن سویا ہوا ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا یہ فکر انگیز خطاب اسی روحانی تضاد کو بے نقاب کرتا ہے کہ کیوں ہماری نماز، ہمارے اعمال اور ہماری عبادتیں ہماری شخصیت میں انقلاب برپا نہیں کرتیں۔ کب عبادت، محض رسم بن کر رہ جاتی ہے؟ اور وہ کون سا راز ہے جو عبادت کو روحانیت میں ڈھالتا ہے اور دل کے اندھیروں کو نور میں بدل دیتا ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں احکامِ الہی کے متعلق کہا کہ: احکامِ الٰہی جب تک صرف الفاظ میں رہتے ہیں، اُس وقت تک وہ حکم ہے اور کوئی اس پر عمل کرے تو اُس حکم کی بجا آوری ہے۔ لیکن جب تک یہ دل میں علمِ نافع بن کر سرایت نہیں کرتے اُس وقت تک کسی کی شخصیت تبدیل نہیں ہوتی۔

اَحکامِ الہی سے شخصیت میں تبدیلی کیسے ممکن ہے؟

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے دورانِ خطاب کہا کہ: جب تک اللہ تعالیٰ کے احکامات انسان کے قلب و باطن میں علمِ نافع کی صورت میں جاگزیں نہیں ہوتے تب تک انسانی شخصیت میں تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتا ہے:

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ.

 [العنكبوت، 29/ 45]

ترجمہ: ’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘

تو کیا آجکل نماز ہمیں ہمارے فحش کاموں سے روکتی ہے؟ ہم پانچ وقت باجماعت نماز پڑھتے ہیں، اس کے بعد کیا گناہ ترک کرتے ہیں؟ کیا ایسے کاروباری نہیں ہیں جو جماعت کے ساتھ نماز پڑھ کے نکلتے ہیں اور اس کے بعد چوری کی گاڑی کا سودا کرتے ہیں کرتے ہیں۔

کیا ایسے لوگ نہیں ہیں جو تجارت میں فائدہ کے حصول کے لیے جھوٹ بولتے ہیں، دکانوں پر بیٹھتے ہیں اور لین دین کے اندر گھپلا کرتے ہیں۔ سب کچھ کرتے ہیں، حق تلفی بھی کرتے ہیں، چوری بھی کرتے ہیں، جھوٹ بھی بولتے ہیں اور بے حیائی کے کام بھی کرتے ہیں، اس کے باوجود کہ وہ نماز پڑھ کے نکلتے ہیں۔

ظاہر و باطن کا تضاد اور عبادت کے ساتھ گناہ کا اِمتزاج

نمازوں کی پابندی، صفِ اول میں کھڑے ہونے کا اہتمام، اور اذان کی صدا پر مسجد کی جانب لپکنا، یہ سب کچھ بظاہر ایک مؤمن کی تصویر دکھاتے ہیں، عبادت اگر دِل کی دنیا کو منور نہ کرے، تو وہ فقط بدن کی حرکت بن کر رہ جاتی ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: میں نے اپنی آنکھوں سے وہ نوجوان دیکھے ہیں جو gulf ممالک سے تھے اور وہ عادتًا با جماعت نماز ادا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ اجتماعی طور پر بیٹھ کے شراب نوشی شروع کرتے تھے۔ یعنی اُن کے ظاہر میں نور، مگر باطن میں تاریکی تھی۔ یہ وہ تضاد ہے جو روحانیت کو کھوکھلا، اور عبادت کو بے اثر بنا دیتا ہے۔

نماز ادا کرنے کے باوجود زندگی میں تبدیلی کیوں نہیں آتی؟

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: بعض لوگ عادتًا نماز تو پڑھتے ہیں لیکن اُن کی نماز اُن کو شراب نوشی سے نہیں روکتی، اُن کو فحش کاموں سے نہیں روکتی۔ اب معاذ اللہ، اللہ پاک کا کلام ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ.

 [العنكبوت، 29/ 45]

ترجمہ: ’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘

یعنی نماز تمہیں بُرے کاموں سے روکتی ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اَثر نہ رکھتا ہو۔ اِس کے اندر بھی ایک راز ہے، وہ راز یہ ہے کہ جس نماز کا اللہ رب العزت تقاضا فرما رہا ہے، ہم ویسی نماز ادا نہیں کرتے، اِس لیے ہماری زندگی نہیں بدلتی۔ وہ اخلاص والی نماز، وہ خشوع و خضوع والی نماز جو تمام جہان سے منقطع ہو کر ادا کی جائے، جب انسان صرف اُسی کا ہوجائے اور اُسے اپنے گرد و نواح کی خبر ہی نہ ہو۔ اس کیفیت کے ساتھ انسان نماز ادا کرے تو ایسی نماز لوگوں کو فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: تمام اعمالِ صالحہ کا تعلق خشوع و خضوع کے ساتھ ہے۔ جب تک اعمالِ صالحہ کا تقاضا پورا نہ کیا جائے یعنی اُن کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا نہ کیا جائے تو وہ انسان کے اندر نور پیدا نہیں کرتے۔

شخصیت میں تبدیلی کیسے رونما ہوتی ہے؟

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: انسان دو پہلوؤں کا مجموعہ ہے: ایک اُس کا ظاہر، جو گوشت پوست سے بنا جسم ہے؛ اور دوسرا اُس کا باطن، جو لطیف روح پر مشتمل ہے۔ جس طرح انسان کا وجود صرف جسم تک محدود نہیں بلکہ روح کے بغیر وہ ایک بے جان قالب ہے، اُسی طرح انسان کے اعمال بھی صرف ظاہر پر قائم نہیں بلکہ ان کا ایک باطنی پہلو بھی ہوتا ہے۔

اعمال کا ظاہر وہ ہے جسے فرشتے قلم بند کرتے ہیں، جو ثواب کی شکل میں ذخیرۂ آخرت بنتا ہے۔ مگر اعمال کا اصل فیض، اُس کا باطنی اثر ہے، وہ نور جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیے گئے عمل کے نتیجے میں دل کی تاریکی کو چیر کر روشنی میں بدل دیتا ہے۔ محض عمل کرنا شخصیت کو نہیں بدلتا، بلکہ عمل کی وہ باطنی کیفیت، جو خلوص، توجہ اور عاجزی سے جنم لیتی ہے، انسان کے باطن میں ایک روحانی اجالا پیدا کرتی ہے۔ یہی نور باطن کو جلا بخشتا ہے، اور شخصیت کو نکھارتا ہے، سنوارتا ہے۔

حاصلِ کلام:

عبادت کی اصل روح اس کے باطن میں پوشیدہ ہے، اور وہ باطن صرف الفاظ یا حرکات سے نہیں، بلکہ خلوص، خشوع اور خضوع سے روشن ہوتا ہے۔ جب تک اللہ کے احکامات صرف زبان پر رہیں یا عبادتیں محض عادت بن جائیں، وہ انسان کے باطن کو چھو نہیں سکتیں۔ حقیقی تبدیلی تب آتی ہے جب یہ احکامات دل میں علمِ نافع بن کر اُتر جائیں اور عبادت محض رسم نہیں بلکہ روح کی پکار بن جائے۔ ایسی ہی عبادت دل کے اندھیروں کو نور میں بدلتی ہے، انسان کو فحش، جھوٹ، دھوکہ دہی اور گناہوں سے روکتی ہے، اور اسے ایک باوقار، باکردار اور باطن میں روشن انسان بنا دیتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دین، عبادت اور اخلاق ایک ہو کر انسانی شخصیت کو نکھارتے ہیں، سنوارتے ہیں اور قربِ الٰہی کا دروازہ کھولتے ہیں۔

بلاگ اَز: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top