تقویٰ اور پرہیزگاری کے بغیر علم، انسان کے لیے نفع بخش نہیں ہوتا: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
حقیقی علم وہی ہے جو انسان کی سوچ میں پاکیزگی،کردار میں بلندی اور عمل میں اخلاص پیدا کرے: صدر منہاج القرآن
تقویٰ اور پرہیزگاری کے بغیر علم محض الفاظ کا ذخیرہ ہے، جس سے نہ دل منور ہوتا ہے اور نہ ہی زندگی سنورتی ہے۔ حقیقی علم وہی ہے جو انسان کے باطن کو جِلا بخشے، اُس کی سوچ میں پاکیزگی، کردار میں بلندی، اور عمل میں اخلاص پیدا کرے۔ جب علم کے ساتھ تقویٰ کا نور شامل ہو جاتا ہے تو وہ علم انسان کو خالقِ کائنات سے جوڑ دیتا ہے، بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتا ہے، اور زمین پر چلتے پھرتے وہ ایک جیتا جاگتا علمِ نافع کا نمونہ بن جاتا ہے۔ لیکن اگر تقویٰ نہ ہو تو علم غرور کا ذریعہ بن جاتا ہے، زبان دانا ہو جاتی ہے مگر دل کھوکھلا، اور ایسی صورت میں علم فائدے کے بجائے وبالِ جان بن جاتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے علم کی برکات حاصل نہ ہونے کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: امام ترمذی نے السنن میں حضرت عمران بن حصینؓ سے حدیث روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ ایک قاری یعنی قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے والے کے پاس سے گزرے، قرآن پڑھنے کے بعد اُس شخص نے حضرت عمران بن حصینؓ کچھ سوال کیا (یعنی پیسوں کا تقاضا کیا) تو آپؓ نے اُس پر إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا۔ لوگوں نے آپؓ سے پوچھا: اے عمران بن حصین! یہ قاریٔ قرآن ہے اور آپ نے اس پر إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کیوں پڑھا؟ وہ فرمانے لگے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلْيَسْأَلِ اللَّهَ بِهِ فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَسْأَلُونَ بِهِ النَّاسَ.
(ترمذی، السنن، ج5، ص 179، رقم: 2917)
’’جو شخص قرآن پڑھے اسے چاہیے کہ وہ فقط اللہ تعالیٰ سے سوال کرے، اس لیے کہ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھ کر اس کے واسطے سے لوگوں سے سوال کریں گے۔‘‘
تقوی کے باعث انسانی شخصیت میں تبدیلی
تقویٰ انسانی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب دل میں خوفِ خدا جاگزیں ہو جاتا ہے اور انسان ہر چھوٹے بڑے عمل سے پہلے اپنے رب کی رضا کو مدنظر رکھتا ہے، تو اُس کی سوچ میں پاکیزگی آتی ہے، نگاہ میں حیاء پیدا ہوتی ہے، اور کردار میں صداقت و وفا کا رنگ بھر جاتا ہے۔ تقویٰ انسان کو خود احتسابی سکھاتا ہے، اسے باطن کی صفائی، نفس کی تربیت، اور اخلاق کی بلندی کی طرف مائل کرتا ہے۔ نتیجتًا ایک باوقار، بااخلاق اور باکردار شخصیت وجود میں آتی ہے جو نہ صرف اپنے لیے بلکہ معاشرے کے لیے بھی خیر و بھلائی کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: جب تقویٰ انسانی شخصیت سے رُخصت ہو جاتا ہے تو انسان کے کردار میں بہت سے تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ وہ علمِ دین، جو دراصل انسان کے لیے نفع بخش اور روح کی غذا تھا، اُس پر بند ہوتا چلا جاتا ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ سے ملنے والی ہدایت اُس کے دل پر اثر انداز نہیں ہوتی، کیونکہ دل کی زمین تقویٰ کے بغیر بنجر ہو چکی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کے علم سے وابستہ ہونے والے افراد کے لیے لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے اندر تقویٰ کی صفات پیدا کریں، دل کو خشیتِ الٰہی سے لبریز کریں، اور ہر علم کے حصول کو رضائے الٰہی کا ذریعہ بنائیں۔ جب طالبِ علم تقویٰ کے ساتھ قرآن کو پڑھے گا، تو محض الفاظ ہی نہیں، بلکہ قرآن کا نور اُس کے دل میں اترتا چلا جائے گا، اور وہ علم اُس کی شخصیت کا حصہ بن کر اُسے ایک صالح، باکردار اور نورانی انسان بنا دے گا۔
قرآنی تعلیمات انسان میں نور پیدا کرتی ہیں
قرآنی تعلیمات انسان کے دل و دماغ کو منور کرنے والی وہ آسمانی روشنی ہے جو نہ صرف فکری گمراہیوں کو ختم کرتی ہیں بلکہ باطن کو بھی جلا بخشتی ہیں۔ جب انسان اخلاصِ نیت کے ساتھ قرآن کو پڑھتا، سمجھتا اور اس پر عمل کرتا ہے، تو اس کے دل کی تاریکیاں چھٹنے لگتی ہیں اور اس کے وجود میں نورانیت کا ایک پاکیزہ سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ قرآن کی آیات انسان کو حق و باطل میں تمیز سکھاتی ہیں، اُس کی سوچ کو مثبت رخ دیتی ہیں، اور اُس کے اخلاق و کردار میں ایک ایسی بلندی پیدا کرتی ہیں جو اُسے عام انسانوں سے ممتاز کر دیتی ہے۔ یہی نورِ قرآن انسان کی زندگی کو ہدایت، رحمت اور سکون کا سرچشمہ بنا دیتا ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ:
جب قرآن انسان کے اندر نور پیدا کرتا ہے، تب ہی وہ سچا علم حاصل کرتا ہے جو اُس کے دل و دماغ میں اُتر جاتا ہے۔ درحقیقت ایسے ہی لوگوں کو اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں "راسخون فی العلم" کہا ہے۔ یعنی وہ لوگ ہیں جن کا علم محض زبان تک محدود نہیں رہتا بلکہ دل میں اُتر کر اُن کے باطن کو روشن کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے صرف علم حاصل نہیں کیا بلکہ اس پر عمل کر کے اپنے وجود کو اُس علم کا مظہر بنا لیا۔ یہی علم جب نور بن کر دل میں جگہ پاتا ہے تو انسان کو اللہ کی طرف سے برکتیں اور روحانی رفعتیں عطا ہوتی ہیں، اور وہ ہدایت و بصیرت کے ایسے درجے پر فائز ہو جاتا ہے جہاں وہ علم اُس کی سیرت، کردار اور زندگی کو مکمل طور پر بدل دیتا ہے۔
حاصلِ کلام
علمِ دین اپنی اَصل صورت میں اُس وقت ہی انسان کے لیے نفع بخش بنتا ہے جب اُس کے ساتھ تقویٰ، اخلاص اور خشیتِ الٰہی ہو۔ اگر تقویٰ رخصت ہو جائے تو دل کی زمین بنجر ہو جاتی ہے، اور پھر قرآن و سنت کی تعلیمات انسان پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے فرمودات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن وہ نور ہے جو صرف زبان پر نہیں بلکہ دل میں اُتر کر باطن کو روشن کرتا ہے، بشرطیکہ طالبِ علم خود کو تقویٰ سے آراستہ کرے۔ ایسے ہی افراد کو قرآن نے "راسخون فی العلم" کہا ہے، جو نہ صرف علم حاصل کرتے ہیں بلکہ اُس پر عمل کر کے اپنی سیرت و کردار کو اُس علم کا عملی نمونہ بنا لیتے ہیں، اور یہی لوگ درحقیقت اللہ کی طرف سے ہدایت، برکت اور روحانی بلندیوں کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
تبصرہ