شریعت کی پاسداری جنت میں لے جاتی ہے جبکہ پاکیزہ طبیعت بندے کو اللہ تعالیٰ سے مِلا دیتی ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مورخہ: 06 اگست 2025ء

جب تک انسان اپنی طبیعت کو نہ سنوارے، اُس وقت تک شریعت پر عمل اُسے کامل نفع نہیں دے سکتا: شیخ الاسلام کا خطاب

شریعت انسان کو جنت کی راہ دکھاتی ہے، کیونکہ وہ ظاہری افعال و اعمال کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع کر کے بندے کو فلاح کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ مگر جب دل کی طبیعت سنور جائے، باطن نکھر جائے اور انسان کی فطرت میں صفا و طہارت آ جائے، تو یہی طبیعت اسے اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص تک لے جاتی ہے۔ شریعت راستہ ہے، اور طبیعت منزل کی جھلک ہے۔ شریعت کا حسن عمل سے ظاہر ہوتا ہے، جبکہ طبیعت کا جمال اندرونی کیفیتوں سے اُبھرتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ شریعت جنت کا دروازہ کھولتی ہے اور پاکیزہ طبیعت بندے کو اللہ تعالیٰ کی معرفت سے ہمکنار کر دیتی ہے۔

شریعت اور طبیعت کا باہمی تعلق:

شیخ الإسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شریعت اور طبعیت کے متعلق شاندار خطاب کیا۔ آپ نے خطاب کا آغاز قرآنِ کریم کی آیتِ کریمہ سے کیا جس میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ۝

(الْأَعْرَاف, 7 : 199)

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں‘‘

اس آیت میں اللہ تعالی نے لوگوں کو معاف کر دینے اور اُن کی کوتائیوں، غلطیوں سے در گزر کرنے کا طرزِ عمل اپنانے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد پھر لوگوں کو اچھائی کی تبلیغ کیجئے یعنی لوگوں کو معاف کرنا سیکھیے۔ اس تبلیغ اور اشاعت دین اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے process میں اگر کوئی آپ کے ساتھ برے طریقے سے respond کرے، آپ کو تکلیف دینے والا طرزِ عمل اختیار کرے، تو فرمایا: پھر آپ اُن کے ساتھ اسی طرح respond نہ کریں بلکہ ان کی جہالت، اکھڑپن، زیادتی اور نامناسب رویے کو نظر انداز کر دیں۔

شیخ الاسلام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس آیت کی روشنی میں طبیعت اور شریعت دو چیزوں کو سمجھانا چاہتا ہوں، یعنی عفو درگزر کو اختیار کرنا، پھر نیک کاموں کا حکم دینا اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینا۔ اگر لوگ برا response دیں، تو اُن کے طرزِ عمل پر صبر کرنا اور سیلف کنڑول قائم رکھنا ناگزیر عمل ہے۔ اِن چیزوں پر عمل کرنا محض شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے پیدا نہیں ہوتا، بلکہ طبیعت کو بدلنے سے پیدا ہوتا ہے۔

اب طبیعت اور شریعت کا تعلق یہ ہے کہ شریعت پر عمل کرنا ان لوگوں کے لئے جن کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا غلبہ ہے۔ وہ بھلائی کی طرف بلائیں کسی بھی capacity میں خواہ وہ parents ہیں، خواہ وہ ٹیچرز ہیں، خواہ وہ مساجد کے امام ہیں، خواہ وہ خطیب ہیں، خواہ وہ سکالرز ہیں، مدرس ہیں، خواہ وہ علماء ہیں، خواہ وہ تنظیموں کے اندر ذمہ دار لیڈرز ہیں۔

طبیعت کو بدلنا ایک مشکل امر ہے، جب تک انسان اپنی طبیعت کو نہ سنوارے، اُس وقت تک شریعت پر عمل اُسے کامل نفع نہیں دے سکتا

طبعیت کیا ہے اور شریعت کیا ہے؟

طبیعت سے مراد انسانی جسم کا ظاہر ہے، اس کو صورت کہتے ہیں، اور انسان کی جو باطنی personality ہے، اُس کو طبیعت کہتے ہیں۔ ظاہری شخصیت صورت ہے اور باطنی شخصیت طبیعت ہے۔ وہی طبیعت کبھی سیرت بھی کہلاتی ہے اس کو کبھی آپ nature بھی کہتے ہیں۔

اسی طبیعت سے temperament بھی نکلتا ہے یعنی مزاج۔ طبیعت تین چیزوں یعنی دل، دماغ اور روح کا combinationہے۔ یعنی ہمارا نفس ہمارا ذہن، دماغ اور ہمارا دل، اِن تین چیزوں کو آپس میں جمع کر لیں، تو ان کو جمع کرنے سے جو چیز وجود میں آتی ہے اس کو طبیعت کہتے ہیں۔ اب یوں سمجھ لیں کہ طبیعت سے مراد inner personality ہے یا Moral personality ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ: نفس کس طرح سوچتا ہے، کیا چاہتا ہے، کیسے ورک کر رہا ہے؟ Soul یا برین کیا چاہتا ہے، کس طرح سوچتا ہے، کس طرح کام کرتا ہے؟ دل کی خواہش کیا ہے؟ کیا رغبت کرتا ہے؟ اِن تینوں چیزوں کے نتیجے میں جو انسان کی اندر کی شخصیت بنتی ہے اس کو طبیعت کہتے ہیں، اسی طبیعت سے مزاج جنم لیتا ہے، اسی مزاج سے اخلاق جنم لیتا ہے۔

جب تک اصل ٹھیک نہ ہو تو نقل کام نہیں دیتی:

طبیعت اور خلق nature یعنی ہمارا اَخلاق، اسی سے انسان کی باطنی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ باطنی شخصیت ہی انسان کی اَصلیت ہوتی ہے۔ اَب اگر اَصل ٹھیک نہ ہو تو احکامِ شریعت پر عمل کرنا نقل ہے۔ اگر اصلیت ٹھیک نہیں ہے تو شریعت کے احکام پر عمل کرنا نقل رہ جاتا ہے۔ چونکہ اصل ٹھیک نہیں، تو اگر اصل ٹھیک نہ ہو تو نقل کام نہیں دیتی۔ ثواب اس کا بھی ملتا ہے چونکہ نقل میں بھی ایک Effortہے۔

شریعت پر عمل کرنا اور طبیعت کا بدلنا:

شیخ الاسلام نے خطاب کے دوران مزید کہا کہ: جن لوگوں نے نافرمانی چھوڑ کر فرمانبرداری کی راہ اختیار کر لی، اُن کے لیے شریعت کو آپنانا آسان ہے۔ جب طبیعت نہ بدلے تو شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے ثواب تو ملتا ہے مگر انسان کے اندر انقلاب بپا نہیں ہوتا۔ شریعت کی فرمانبرداری جنت میں لے جاتی ہے اور طبیعت جتنی اعلیٰ ہو جائے وہ اللہ تعالیٰ سے مِلا دیتی ہے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ: میں یہ چیز آپ کو اپنی پوری زندگی کے مطالعہ اور تجربات کے نچوڑ سے بتا رہا ہوں۔ یعنی شریعت جنت تک لے جاتی ہے اور اگر شریعت آپ کی طبیعت بن جائے تو اللہ تک لے جاتی ہے۔

اللہ رب العزت نے جو بات ہمیں اس آیت میں سمجھائی ہے وہ یہ کہ: وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ۔ یہ حکمِ شریعت ہے کہ دین کی دعوت دیں۔ یعنی نیکی کی دعوت دینا اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کا حکم ہے۔

خُذِ الْعَفْوَ میں اللہ تعالیٰ طبیعت کو بدلنے کا حکم فرما رہا ہے کہ شریعت کی تبلیغ سے پہلے اپنی طبیعت کو بدلو۔ یعنی لوگوں کو معاف کرنا، اُن کی کوتائیوں سے صرفِ نظر کرنا، اس میں طبیعت ہے، اور وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ میں شریعت۔اَب آپ کو یہ سمجھ میں آگیا کہ طبعیت سنوارے بغیر جو شریعت کا حکم دے گا اس کو ثواب ملے گا مگر لوگ تبدیل نہیں ہوں گے، اس کی تبلیغ ہوگی مگر تاثیر نہیں ہوگی۔

اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں بڑی عجیب بات فرمائی ہے کہ اَمر بالمعروف سے پہلے خُذِ الْعَفْوَ اپنی طبیعت میں پیدا کرلو۔ طبیعت معاف کرنے والی بناؤ۔ یعنی پہلے اپنا رویہ درست کرو۔ لوگ اتنا تبلیغ سے اثر نہیں لیتے جتنا کردار سے اثر لیتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ لوگ تبلیغ کرنے، تقریر کرنے اور خطاب کرنے کا اتنا اثر نہیں لیتے جتنا سیرت اور کردار دکھانے کا اثر لیتے ہیں۔

اگر تبلیغ کرنے والے کی سیرت و طبعیت خود شریعت کے خلاف ہے تو لوگ دین سے متنفر ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں پہلے طبیعت کی بات کی، بعد میں شریعت کی بات کی ہے۔ یعنی خُذِ الْعَفْوَ میں جب فرما دیا ہے کہ: معاف کرنے والے بنو، تو یہ بھی احکام شریعت میں سے ہی ایک حکم ہے، مگر یہ ایک ایسا حکم ہے جو طبیعت کو بدل رہا ہے، طبیعت کی تنگی دور کر رہا ہے، طبیعت سے غصہ نکال رہا ہے۔ جس آدمی کی طبیعت میں غصہ ہے وہ دوسرے کو معاف نہیں کر سکتا۔

جب آپ طبیعت کو بدل کر شریعت کا حکم آگے پہنچائیں گے تو پھر آگے آپ کو استقامت بھی چاہیے، آپ کو رد عمل آئے گا، ممکن ہے لوگ آپ کو گالیاں دیں۔ اگر آپ گالی دینا چھوڑ گئے، جواب میں لوگوں کو بُرا بھلا کہنا چھوڑ گئے، تو اس سے طبعیت میں اخلاقِ حسنہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ چیز اُس وقت کام دیتی ہے جب طبیعت میں خُذِ الْعَفْوَ والی صفت پیدا ہو جائے۔

جب آدمی میں خُذِ الْعَفْوَ والی صفت پیدا ہو جاتی ہے تو اُس میں وسعت آجاتی ہے، تنگ دلی ختم ہو جاتی ہے، تنگ نظری ختم ہو جاتی ہے، تنگ ظرفی ختم ہو جاتی ہے اور پھر اس شخص کے دل ودماغ میں کوئی stress نہیں ہوتا۔

خطاب کے آخر میں شیخ الاسلام پروفسیر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ: اگر آپ نے ساری شریعت پر عمل کر لیا اور آپ کی طبیعت نہ بدلی تو آپ کا تمام بدن کلیسا اور چرچ کی مانند ہے۔ اگر طبیعت کے اندر بخل ہے، جھوٹ ہے، خیانت ہے، تنگی ہے، تعصب ہے، حقد ہے، حسد ہے، کبر ہے، سختی ہے، بگاڑ ہے اور طبیعت میں اچھے اخلاق نہیں آئے تو باقی جو چاہیں کرتے رہیں آپ کا بدن کلیسا کی مانند ہے۔ اگر طبیعت بدل گئی، طبیعت میں جو بدن کلیسا کی مانند تھا، وہ مسجد بن گیا اور اگر بُت خانہ تھا تو عبادت خانہ بن گیا۔ پھر اللہ پاک اس شخص کے سینے کو کھول دیتا ہے۔ اُس پر ایمان کا نور اترتا ہے۔ انوار و تجلیات اترتی ہیں۔ اس کے عقدے اور گرہیں کُھل جاتی ہیں، اور اس بندے پر اللہ پاک کی بارگاہ سے عرش کا فیض نازل ہوتا ہے۔ اللہ تعالی اُسے اپنے قرب سے نوازتا ہے، اسے طہارت اور پاکیزگی عطا کرتا ہے، یہ طبیعت اور شریعت کا فرق بھی ہے اور طبیعت اور شریعت کا تعلق بھی۔ لہذا اپنی طبیعتوں کو بدلو اور خوبصورت کرو تاکہ شریعت کا فیض ملے۔ شریعت کے انوار و تجلیات نصیب ہوں اور شریعت کے فوائد نصیب ہوں۔

حاصلِ کلام:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہایت بصیرت افروز انداز میں واضح کیا کہ شریعت اور طبیعت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ شریعت ظاہری اعمال و احکام کا نظام ہے جو انسان کو جنت کی طرف لے جاتا ہے، جبکہ طبیعت انسان کی باطنی شخصیت ہے، جس کی تطہیر و تزکیہ انسان کو اللہ کے قربِ خاص تک پہنچاتی ہے۔ جب تک انسان اپنی طبیعت میں نرمی، عفو و درگزر، تحمل، صبر، اور اخلاق حسنہ پیدا نہ کرے، اُس وقت تک شریعت پر عمل محض ظاہری نقل رہ جاتا ہے، جو اثر انگیز نہیں ہوتا۔ تبلیغ اُس وقت مؤثر بنتی ہے جب مبلغ کا کردار، طبیعت اور سیرت شریعت کے مطابق ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں پہلے طبیعت کو سنوارنے کا حکم دیا: خُذِ الْعَفْوَ، اور پھر شریعت کے احکام: وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ: پس جو شریعت، طبیعت کا حصہ بن جائے، وہ بندے کو صرف جنت تک نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ تک پہنچا دیتی ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top