قرآن کے ساتھ تعلق ایک مسلمان کو زمین پر اللہ کا نمائندہ اور خلقِ خدا کے لیے باعثِ رحمت بنا دیتا ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
دورِ حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم قرآنِ مجید کے مفاہیم ومضامین سمجھتے ہیں مگر ہماری زندگی میں قرآن نظر نہیں آتا: صدر منہاج القرآن
قرآن مجید کے ساتھ مسلمان کا تعلق محض تلاوت، حفظ یا ظاہری تعظیم تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ہمہ گیر روحانی و عملی وابستگی ہے جو ایک مسلمان کی زندگی کے ہر گوشے کو منور کرتی ہے۔ قرآن نہ صرف ہدایت کا سرچشمہ ہے بلکہ ایک زندہ ضابطۂ حیات ہے جو انسان کے دل و دماغ، اَخلاق و کردار اور عمل و افکار کو سنوارتا ہے۔ جب ایک مسلمان دل کی گہرائیوں سے قرآن کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا دل تقویٰ سے لبریز، نگاہ پاکیزہ، زبان سچائی کی ترجمان، اور عمل صداقت کا پیکر بن جاتا ہے۔ قرآن کے ساتھ ایسا تعلق ایک مردِ مومن کو زمین پر اللہ کا نمائندہ اور خلقِ خدا کے لیے باعثِ رحمت بنا دیتا ہے۔
قرآن مجید سے روحانی و عملی تعلق کی چار منازل
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے قرآن مجید کے ساتھ مسلمان کے روحانی و عملی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: کہ انسان قرآن مجید سے چار طرح کے تعلّقات قائم کرتا ہے۔
پہلا تعلق: جب ہم قرآنِ مجید ناظرہ پڑھتے ہیں اور ٹھہر ٹھہر کر قرآنِ مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآنِ مجید اُس پڑھنے والے شخص کو اپنا دوست بنا لیتا ہے۔
دوسرا تعلق: یہ ہے کہ جب کوئی قرآنِ مجید کا بغور مطالعہ کرتا ہے، یعنی قرآنِ مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھتا ہے اور پھر اُس کا تفسیر کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے، یعنی جب کوئی قرآنِ مجید کے مفاہیم اور مضامین میں غور و خوض کرتا ہے، تو ایسا کرنے والے کے ساتھ قرآنِ مجید اُس شخص کو دوستی میں اور قریب کر لیتا ہے اور اُسے اپنے ساتھ جوڑ لیتا ہے۔
تیسرا تعلق: یہ ہے کہ انسان جو کچھ قرآنِ مجید سے سمجھتا ہے اُسے اپنی زندگی میں داخل کر لیتا ہے۔ یعنی جو علم و فہم اُسے قرآنِ مجید عطا کرتا ہے وہ اُس پر عمل کرنے لگ جاتا ہے۔ در حقیقت یہ تیسرا اور اہم ترین درجہ ہے جو قرآنِ مجید کسی کو عطا کرتا ہے۔ جو کچھ قرآنِ مجید سے کسی نے پڑھا اور اُس کی زندگی میں ہر ایک بات ویسے ہی نظر آنے لگ جاتی ہے۔
چوتھا تعلق: یہ ہے جب کوئی شخص قرآنِ مجید کا علم سیکھ لیتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے دین کا خادم ہو جاتا ہے اور پھر اُس علم کو آگے لوگوں تک پہنچانے کی دن رات کوشش کرتا ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ جب آپ لوگ ان جامعات میں آتے ہیں تو اللہ تعالی اِن چاروں رشتوں سے آپ کو گزارتا ہے۔ اَب یہ قرآنِ پاک پڑھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ پہلے تعلق پر رُک جاتا ہے، دوسرے تعلق پر رُک جاتا ہے، تیسرے رشتے تک پہنچ پاتے ہیں یا پھر بڑھ کر چوتھے رشتے تک بھی چلے جاتے ہیں۔
دورِ حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم قرآنِ مجید کے مفاہیم ومضامین سمجھتے ہیں مگر ہماری زندگی میں قرآن نظر نہیں آتا۔
حاصلِ کلام
قرآنِ حکیم ایک ایسا الہامی سرچشمہ ہے جو محض الفاظ کی قراءت سے نہیں، بلکہ قلب و روح کی گہرائیوں میں اُتر کر انسان کی فطرت کو نکھارتا اور اس کے باطن کو منور کرتا ہے۔ ایک مؤمن کے لیے قرآن کے ساتھ تعلق ایک ارتقائی سفر ہے، جو تلاوت سے شروع ہو کر فہم، عمل اور دعوتِ دین کی منازل طے کرتا ہے۔ یہ تعلق جتنا گہرا ہوتا چلا جاتا ہے، انسان اتنا ہی اللہ کی رضا کے قریب اور مخلوق کے لیے نافع بنتا چلا جاتا ہے۔ اصل کمال یہ نہیں کہ انسان الفاظ کو سمجھے، بلکہ یہ ہے کہ وہ اُنہیں اپنے کردار میں ڈھالے اور دوسروں تک بھی منتقل کرے۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ قرآن کی حکمتیں ہمارے شعور تک تو پہنچتی ہیں، مگر ہمارے کردار کا حصہ نہیں بن پاتیں۔
تبصرہ