نوجوانوں کی تربیت کے لیے سب سے کامل اور بہترین نمونہ اندازِ نبوت ہے: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
نوجوان کسی بھی قوم کا حقیقی اثاثہ اور تابناک مستقبل ہوتے ہیں، کیونکہ ان ہی کے جذبے، عزم اور توانائی سے ترقی و خوشحالی کی راہیں کھلتی ہیں۔ اگر نوجوان علم، ہنر اور اعلیٰ اخلاق سے آراستہ ہوں تو وہ قوم کو بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں، اور اگر وہ غفلت و بے عملی کا شکار ہوں تو پوری قوم زوال کا سامنا کرتی ہے۔ نوجوانوں کی سوچ، کردار اور محنت ہی آنے والے کل کی شکل طے کرتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ انہیں درست تعلیم، مثبت رہنمائی اور عملی مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملت و وطن کو روشن مستقبل عطا کریں۔
نوجوانوں کی تربیت کے لیے سب سے کامل اور بہترین نمونہ اندازِ نبوت ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے نوجوانوں کو کبھی نظرانداز نہیں کیا بلکہ ان کی صلاحیتوں کو پہچانا، ان پر اعتماد کیا اور انہیں ذمہ داریاں سونپیں۔ آپ ﷺ نے نوجوانوں کے دلوں کو محبت، حکمت اور حسنِ اخلاق سے جیتا، سختی یا تحقیر کے بجائے شفقت اور رہنمائی کے ذریعے ان کی شخصیت کو نکھارا۔ نبوی انداز میں نوجوانوں کو عزت، اعتماد اور مقصدِ حیات دیا، تاکہ وہ نہ صرف اپنی ذات کو سنواریں بلکہ امت کے لیے کارآمد اور دین کے سفیر بن سکیں۔ یہی وہ اسلوب ہے جو آج بھی نوجوان نسل کی تربیت کے لیے سب سے مؤثر اور کامیاب طریقہ ہے۔
نوجوانوں کی تربیت اور اندازِ نبوت:
شیخ الإسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نوجوانوں کی تربیت کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک نوجوان آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ، میں آپ کی تعلیمات کے تمام احکامات ماننے کو تیار ہوں لیکن میں بدکاری نہیں چھوڑ سکتا۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: إِنَّ فَتًى شَابًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي بِالزِّنَا، فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ، فَزَجَرُوهُ، قَالُوا مَهْ مَهْ، فَقَالَ: ادْنُهْ، فَدَنَا مِنْهُ قَرِيبًا، قَالَ: فَجَلَسَ، قَالَ: أَتُحِبُّهُ لِأُمِّكَ؟ قَالَ: لَا، وَاللَّهِ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ. قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأُمَّهَاتِهِمْ. قَالَ: أَفَتُحِبُّهُ لِابْنَتِكَ؟ قَالَ: لَا، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ. قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِبَنَاتِهِمْ. قَالَ: أَفَتُحِبُّهُ لِأُخْتِكَ؟ قَالَ: لَا، وَاللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ. قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأَخَوَاتِهِمْ. قَالَ: أَفَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ؟ قَالَ: لَا، وَاللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ. قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِعَمَّاتِهِمْ. قَالَ أَفَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ؟ قَالَ: لَا، وَاللَّهِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ. قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِخَالَاتِهِمْ. قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ، اغْفِرْ ذَنْبَهُ، وَطَهِّرْ قَلْبَهُ، وَحَصِّنْ فَرْجَهُ، فَلَمْ يَكُنْ بَعْدُ ذَلِكَ الْفَتَى يَلْتَفِتُ إِلَى شَيْءٍ.
(أحمد بن حنبل، المسند، ج5، ص 256، رقم: 22265)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے۔ لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا میرے قریب آجاؤ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا، حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی ﷺ نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی ﷺ نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی ﷺ نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا: کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا: کہ اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی ﷺ نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر نبی ﷺ نے اپنا دست مبارک اُس پر رکھا اور دعاء فرمائی کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما، راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج کے دور کا کوئی معلّم، کوئی مفتی، کوئی مبلغ ہوتا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اُس کا کیا حشر ہوتا۔ لیکن حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس نوجوان کی بات سُن کر اُسے اپنے قریب کر لیا اور اُس کی تربیت فرمائی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہتے ہیں کہ ہم نے اُس نوجوان کو تادمِ وفات دیکھا کہ اُس نے کبھی کسی عورت کی طرف نظر اٹھا کر کبھی نہیں دیکھا۔
حاصلِ کلام:
نوجوان کسی بھی قوم کے اصل معمار اور مستقبل کے امین ہوتے ہیں، اس لیے ان کی صحیح تربیت نہایت ضروری ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ اس حوالے سے کامل نمونہ ہے کہ آپ نے نوجوانوں کو عزت دی، ان پر اعتماد کیا اور ان کی رہنمائی محبت و حکمت کے ساتھ فرمائی۔ آپ ﷺ نوجوانوں کے مسائل تحمل سے سماعت فرماتے، اور ان کی اصلاح نرم روی، گفتگو اور دعا کے ذریعے کرتے، جیسا کہ ایک نوجوان کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس نے بدکاری کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اسے براہِ راست سمجھانے کے بجائے اس کے جذبات کو دلیل و حکمت کے ساتھ بدلا اور پھر اس کے لیے دعا کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ نوجوان ہمیشہ کے لیے پاکیزگی کا پیکر بن گیا۔ یہی نبوی اسلوب آج کے دور کے لیے بھی رہنما ہے کہ نوجوانوں کی اصلاح سختی یا تحقیر سے نہیں بلکہ شفقت، محبت اور حکمت سے ممکن ہے۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)
تبصرہ