پنجگانہ نماز انبیاء کرام کے شکرانے کی دائمی یادگار ہے: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
پنجگانہ نماز دراصل انبیاء کرام کے اُن لمحاتِ شکر کی تجدید ہے جو انہوں نے اللہ کے حضور اظہارِ بندگی اور احسانِ الٰہی کے شکرانے کے طور پر ادا کیے: شیخ الاسلام کا خطاب
اسلام نے عبادات کو محض رسمی اعمال تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں انبیائے کرام علیہم السلام کی حیاتِ مبارکہ اور ان کے شکرانے کے واقعات سے جوڑ کر ایک دائمی یادگار بنا دیا۔ پنجگانہ نماز دراصل انبیاء کے ان لمحاتِ شکر کی تجدید ہے جو انہوں نے اللہ کے حضور اظہارِ بندگی اور احسانِ الٰہی کے شکرانے کے طور پر ادا کیے۔ یوں ہر نماز نہ صرف ایمان کی علامت ہے بلکہ انبیاء کی یاد اور ان کی نسبت کا استعارہ بھی ہے، جسے امتِ محمدیہ ﷺ دن میں پانچ مرتبہ زندہ کرتی ہے۔
نماز پنجگانہ کا پسِ منظر:
شیخ الإسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نمازِ پنجگانہ کے متعلق بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام میں "کسی موقع کو منانا" یا "یادگار کے طور پر کسی چیز کو دہرانا" کی کوئی روایت نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف علاقائی، جغرافیائی یا برصغیر کی ثقافتی روایت ہے اور اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کو منانا، اسے یاد رکھنا اور بار بار دہرانا دراصل اسلام کی اصل تعلیم ہے۔ مثال کے طور پر ہماری پنجگانہ نماز بھی ایک طرح کی Celebration ہے۔ یہ نماز انبیاء کی یاد اور ان سے وابستگی کو زندہ رکھنے کے لیے ہے۔
نمازِ فجر سیدنا آدم علیہ السلام کی یادگار ہے:
امام طہاوی نے شرح معانی الآثار میں پانچ فرض نمازوں کی نسبت کے متعلق امام محمد بن عائشہ کا قول نقل کیا ہے کہ نمازِ فجر حضرت آدم علیہ السلام کی یاد دلاتی ہے۔
إن آدم عليه السلام لما تِيبَ عليه عند الفجر، صلى ركعتين، فصارت الصبح.’’جب صبح کے وقت ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) دو رکعت نماز پڑھی ، پس وہ نمازِ فجر بن گئی‘‘
(طحاوی، شرح معانی الآثار، ج۱، ص 175، رقم: 1046)
نمازِ ظہر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے:
امام طہاوی لکھتے ہیں کہ:
وَفُدِيَ إِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّهْرِ فَصَلَّى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَرْبَعًا، فَصَارَتِ الظُّهْرَ.’’ظہر کے وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق سے نواز گیا تو آپ نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات ادا کیں، پس اسی طرح وہ نمازِ ظہر بن گئی‘‘
(طحاوی، شرح معانی الآثار، ج۱، ص 175، رقم: 1046)
نمازِ عصر سیدنا عُزیر علیہ السلام کی یادگار ہے:
وَبُعِثَ عُزَيْرٌ فَقِيلَ لَهُ كَمْ لَبِثْتَ؟ فَقَالَ: يَوْمًا، فَرَأَى الشَّمْسَ فَقَالَ: أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرَ.(طحاوی، شرح معانی الآثار، ج۱، ص 175، رقم: 1046)
’’جب حضرت عُزیر علیہ السلام کو (100 سال) بعد اٹھایا گیا تو اُن سے پوچھا گیا: آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پس انہوں نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات ادا کیں تو وہ نمازِ عصر بن گئی۔‘‘
نمازِ مغرب سیدنا داود علیہ السلام کی یادگار ہے:
وَقَدْ قِيلَ غُفِرَ لِعُزَيْرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَغُفِرَ لِدَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، عِنْدَ الْمَغْرِبِ، فَقَامَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَجُهِدَ فَجَلَسَ فِي الثَّالِثَةِ، فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا.(طحاوی، شرح معانی الآثار، ج۱، ص 175، رقم: 1046)
’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت داود علیہ السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے (شکرانے کے طور پر) چار رکعات نماز شروع کی (مگر نقاہت اور کمزوری کے باعث) تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے (اِس طرح تین رکعات ادا کیں اور چوتھی رکعت مکمل نہ ہو سکی) پس وہ نمازِ مغرب بن گئی۔‘‘
نمازِ عشاء حضور نبی اکرم ﷺ کی یادگار ہے:
وَأَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ.(طحاوی، شرح معانی الآثار، ج۱، ص 175، رقم: 1046)
اور جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشاء) ادا کی وہ ہمارے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ الغرض یہ پنجگانہ نمازیں ان جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کی عبادت کی یاد دلاتی ہیں جن پر اللہ تعالی نے لطف و کرم اور فضل و احسان فرمایا اور انہوں نے اظہارِ تشکر کے طور پر دوگانہ اور چہار گانہ نوافل ادا کیے جو اللہ رب العزت نے امتِ محمدی ﷺ کے لیے پانچ فرض نمازوں کی صورت میں ان کی یادگار بنا دیئے۔ اس طرح دن بھر کی ان تمام نمازوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے انبیاء کرام کی یاد کا تسلسل بنا دیا۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک اور روایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ: حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں رہے۔ 40 دن کے بعد مچھلی کے پیٹ سے باہر نکلے تو چار رکعات شکرانے کے پڑھے۔ اُن کے چار رکعات کو امتِ مصطفی ﷺ کے لیے نماز عشاء بنا دیا گیا۔
نماز سے بڑی اللہ تعالیٰ کی کوئی عبادت نہیں۔ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاةِ: کہ مومن اور کافر کے درمیان فرق صرف نماز کا ہے۔ نماز علامتِ ایمان ہے۔ اللہ رب العزت نے نماز کو بھی اپنے محبوب پیغمبروں کی یادگاریں بنا رکھا ہے۔
نماز اللہ تعالیٰ کی سب سے اعلیٰ عبادت ہے، اس سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے نماز کو بھی اپنے نبیوں سے وابستہ کیے بغیر قبول نہیں فرمایا۔ پانچوں نمازوں کو کسی نہ کسی نبی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ جب نماز انبیاء کے ساتھ وابستہ ہوئی تو مصطفیٰ ﷺ کی امت پر یہ فرض قرار دی گئی۔ اس طرح نماز صرف عبادت ہی نہیں بلکہ انبیاء علیہم السلام کے شکرانے کی ایک عظیم یادگار بھی ہے۔ ہم دن میں پانچ بار نماز پڑھ کر گویا انبیاء کے شکرانے کی تقریب مناتے ہیں، اور یہی ہماری نمازِ پنجگانہ ہے۔
حاصلِ کلام:
نماز محض ایک دینی فریضہ نہیں بلکہ انبیائے کرام علیہم السلام کی عظیم روایات اور شکرانے کی یادگار ہے۔ پانچوں وقت کی نماز ہمیں کسی نہ کسی نبی کی نسبت اور اللہ کی نعمتوں پر ادا کیے گئے شکر کی جھلک دکھاتی ہے۔ اس طرح پنجگانہ نماز امتِ محمدیہ ﷺ کے لیے صرف بندگی کا فریضہ نہیں بلکہ انبیاء کی یاد کو تازہ کرنے اور اللہ کی نعمتوں پر مسلسل شکر ادا کرنے کا ذریعہ ہے۔ یوں دن کے پانچ اوقات میں نماز پڑھ کر ہم عبادت کے ساتھ ساتھ انبیاء کی سنتوں اور ان کے شکر کے واقعات کو زندہ کرتے ہیں۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)
تبصرہ