صفتِ رؤوف اصل میں شفقت و محبت کا وہ حصار ہے جو بندے کو آزمائش کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی ڈھانپ لیتا ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
صفتِ رحیم اس وقت جلوہ گر ہوتی ہے جب انسان کمزوری یا گناہ کی دلدل میں جا پڑے اور پھر رحمتِ مصطفیٰ ﷺ اُسے سنبھال کر نجات عطا کرے: صدر منہاج القرآن
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے بارے میں فرمایا: بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ۔ یہاں دو صفات بیان کی گئی ہیں: رؤوف اور رحیم۔ "رؤوف" کا مطلب ہے نہایت شفقت کرنے والا، جس میں نرمی، دلسوزی اور ہمدردی کی اعلیٰ ترین کیفیت پائی جائے۔ یہ وہ صفت ہے جس کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ اپنے اُمتیوں کے دکھ درد کو محسوس کرتے اور ان کے ساتھ بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ جبکہ "رحیم" کا مطلب ہے سراپا رحمت بن جانا، یعنی اپنی شفقت کو عملی صورت دے کر بندوں کے لیے خیر و بھلائی اور آسانی کا ذریعہ بننا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ "رؤوف" شفقت کے جذبے اور دل کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جبکہ "رحیم" اس شفقت کو عمل اور رحمت کی صورت میں بندوں تک پہنچاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نہ صرف دل سے امت کے لیے مخلص اور دلسوز تھے بلکہ اپنی عملی زندگی میں بھی ان پر رحمت اور بھلائی کے دروازے کھول دینے والے تھے۔
لفظِ رؤوف اور رحیم میں فرق
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم ﷺ کی دو صفات رؤوف اور رحیم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: الرؤوف پہلے ہے اور الرحیم بعد میں آتا ہے۔ "رؤوف" مبالغہ کا صیغہ ہے جس میں بے پناہ شفقت، محبت اور کرم نوازی پائی جاتی ہے، اور یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بندے کو کسی آزمائش آنے سے پہلے ہی بچا لیا جاتا ہے۔ جبکہ "رحیم" اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب کوئی بندہ کسی آزمائش میں مبتلا ہوجائے، تو اس پر احسان کیا جاتا ہے اور اُسے اس آزمائش سے نجات عطا کر دی جاتی ہے۔ یوں "رؤوف" آزمائش سے پہلے کی شفقت ہے اور "رحیم" آزمائش کے بعد کی رحمت ہے۔ إسماعیل حقی، روح البیان، 3/410-411
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: الرؤوف اہل اللہ کے لیے ہے، کیونکہ اللہ رب العزت نے اپنے خاص بندوں کو گناہوں سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ ابھی گناہ کی آزمائش کے قریب بھی نہیں پہنچتے کہ اللہ کی رأفت یعنی شفقت و محبت اُنہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان کو گناہوں سے بچا لیتی ہے۔ لیکن عام لوگ اور باقی مخلوقات اپنے کمزور ایمان کی وجہ سے جب گناہوں میں پھنس جاتے ہیں تو اس وقت حضور ﷺ کا کرم اور آپ ﷺ کی رحمت جلوہ گر ہوتی ہے اور انہیں اس گناہ کی دلدل سے نکال لیتی ہے۔
کہیں پر خدا اور مصطفیٰ ﷺ کسی کو اُس گناہ کی دلدل میں جانے ہی نہیں دیتے، اور پھر کسی ایک درجے پر جو اُس گناہوں کی دلدل میں چلے جائیں تو اُن کو بچا کر نکال لاتے ہیں۔ یہی فرق ہے رؤوف اور رحیم کا۔
الرؤوف کو الرحیم سے پہلے کیوں لایا گیا؟
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے لفظ رؤوف کو رحیم پر مقدّم رکھنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہا کہ: "رؤوف" کو پہلے اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں حفاظت شامل ہے، یعنی بندے کو نقصان یا آزمائش آنے سے پہلے ہی بچا لیا جاتا ہے۔ جبکہ "رحیم" کو بعد میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ رحمت اس وقت جلوہ گر ہوتی ہے جب بندے کو کوئی نقصان پہنچ چکا ہو، اور پھر کرم و انعام کے ذریعے اُسے اس حالت سے نکالا جاتا ہے۔ آلوسی، روح المعانی، 11/52-53
لفظ رؤوف میں حفاظت بھی ہے اور وہ بھی مراتب کے مطابق۔ یعنی جس بندے کو اللہ رب العزت نے جتنا مقام عطا فرمایا ہے، اسی حساب سے اُس کی حفاظت بھی کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ "رؤوف" کے مفہوم میں پرورش بھی شامل ہے، کیونکہ پرورش ہمیشہ شفقت کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس لیے بندہ جس مقام پر بھی ہوتا ہے، صفتِ رؤوف کے تحت اُسے اللہ اور رسول ﷺ کی بارگاہ سے ایسی پرورش ملتی رہتی ہے کہ وہ اپنے حال، اپنے احوال اور اپنے مقامات میں ترقی کرتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ لفظ "رؤوف" کے فیض میں شامل ہے، کیونکہ اس میں شفقت اور محبت پوشیدہ ہے۔
اس کے برعکس رحمت جب انسان کسی تکلیف میں مبتلا ہوجائے تو پھر رحمت بچانے آ جاتی ہے۔ اس لیے آقا ﷺ نے فرمایا:
شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي.
میری شفاعت قیامت کے دن میرے گنہگار امتیوں کے لیے ہے۔
ترمذی، السنن، ج4، ص 625، رقم: 2435
یعنی میری شفاعت گنہاگاروں کے لیے رحمت ہے اور وہ کن کو بچائے گی جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کر لیے تھے۔
حاصلِ کلام
حاصلِ کلام یہ ہے کہ صفتِ رؤوف اصل میں شفقت و محبت کا وہ حصار ہے جو بندے کو آزمائش اور خطا کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی ڈھانپ لیتا ہے، جبکہ صفتِ رحیم اس وقت جلوہ گر ہوتی ہے جب انسان کمزوری یا گناہ کی دلدل میں جا پڑے اور پھر رحمتِ مصطفیٰ ﷺ اُسے سنبھال کر نجات عطا کرے۔ یوں رؤوف میں حفاظت اور پرورش پوشیدہ ہے جو بندے کو مرتبہ بہ مرتبہ آگے بڑھاتی ہے، اور رحیم میں انعام و شفاعت کا جلوہ ہے جو گناہ گاروں کو بھی محروم نہیں رہنے دیتی۔ یہی دونوں صفات مل کر حضور ﷺ کی رحمتِ عامہ اور شفقتِ خاصہ کی کامل تصویر پیش کرتی ہیں۔
تبصرہ