میلاد النبی ﷺ پر خوشی منانا دراصل ایمان و محبتِ رسول ﷺ کا عملی اظہار ہے: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
جب ایک کافر کو محض ولادتِ مصطفی ﷺ کی خوشی میں اِنعام مل سکتا ہے تو ایک مؤمن کے لیے اس خوشی اور عقیدت کا اَجر و ثواب کس قدر عظیم ہوگا! شیخ الاسلام کا خطاب
میلاد النبی ﷺ پر خوشی منانا دراصل ایمان و محبتِ رسول ﷺ کا عملی اظہار ہے۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بھی اس خوشی کا اجر عطا فرمایا جو ایمان کی دولت سے محروم تھے۔ ابو لہب جس کے متعلق قرآن نے سخت الفاظ میں مذمت فرمائی، جب اس نے محض حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی ثویبہ کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس عمل کا انعام اسے دیا اور ہر پیر کے دن اس کے عذاب میں تخفیف فرمائی۔ جب ایک کافر کو محض میلاد النبی ﷺ کی خوشی منانے پر اجر و ثواب مل سکتا ہے تو ایک مؤمن مسلمان کے لیے اس خوشی اور عقیدت کا اجر و ثواب کس قدر عظیم ہوگا! یہی وجہ ہے کہ اہلِ ایمان میلاد النبی ﷺ کو نہایت عقیدت و محبت کے ساتھ مناتے ہیں تاکہ دنیا و آخرت میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی خوشنودی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرسکیں۔
میلاد النبی منانے پر اَجر و ثواب کا ملنا
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے میلاد النبی ﷺ کے موقع پر جشن اور خوشی کے اظہار کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے وقت ابو لہب نے اپنی لونڈی ثویبہ کو بھیجا اور کہا: جاؤ، میرے مرحوم بھائی عبداللہ کے گھر آج بچہ ہونے والا ہے، دیکھ کر مجھے خبر دینا۔ جب آقا علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو ثویبہ نے حضور ﷺ کو اپنی گود میں لیا اور خوشی خوشی دوڑتی ہوئی ابو لہب کے پاس پہنچی اور کہا: ابو لہب! مبارک ہو، اللہ نے تمہارے مرحوم بھائی کے گھر بیٹا عطا فرمایا ہے، اور اس کا نام محمد رکھا گیا ہے۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مذکورہ بالا حدیث کے حوالہ جات دیتے ہوئے کہا کہ: یہ حدیث بخاری شریف میں ہے، مصنف عبدالرزاق میں ہے، بیہقی کی السنن الکبری میں ہے، بیہقی کی شعب الایمان میں ہے، اِس کے علاوہ امام عسقلانی نے فتح الباری میں، امام عینی نےعمدۃ القاری شرح البخاری میں اور علمائے دیوبند کے علامہ انور شاہ کاشمیری نے بخاری کی شرح فیض الباری میں روایت کیا ہے۔
آمدِ مصطفی ﷺ پر اظہارِ مسرت پر کافر کے عذاب میں تخفیف
قرآن و حدیث کا مسلّمہ اصول اور اِجماعِ امت ہے کہ کافر کی کوئی نیکی اُسے آخرت میں فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ اُس کے اُمورِ خیر کے صلہ میں اُسے جنت دی جائے گی نہ اُس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ بلکہ اُس کے اچھے اعمال کے صلہ میں اُسے دنیا میں ہی کشادگی عطا کر دی جاتی ہے۔ آخرت میں نیک کاموں پر جزاء کے مستحق صرف مسلمان ہیں کیونکہ عند اللہ اَعمال کے اجر کا باعث ایمان ہے۔
لیکن جب ابو لہب کی باندی ثویبہ ولادتِ مصطفی ﷺ کی خبر ابو لہب کو دو کہ اے ابو لہب! اللہ نے تجھے بھتیجا محمد ﷺ عطا کیا ہے۔ ابو لہب نے اپنی دو انگلیوں کے اشارے سے اس کو کہا: ثویبہ! میں نے تمہیں میرے بھتیجے محمد ﷺ کی ولادت کی خوشی میں آزاد کیا۔ ثویبہ آزاد ہو گئی۔ پھر ابولہب وہ شخص تھا جس کی مذمت میں قرآن اُترا: (تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ) وہ بدبختی میں رہا، حالتِ کفر میں مر گیا۔ مرنے کے 1 سال بعد حضورﷺ کے چچا اور اپنے بھائی حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ کو خواب میں ملا۔
حضرت عباسؓ نے پوچھا بتاؤ بھائی ابو لہب، کفر پہ مرے کیا حال ہے؟ اس نے کہا بڑی بری حالت میں ہوں، میرے اوپر بھی دوزخ کی آگ ہے اور نیچے، آگے، پیچھے، دائیں، بائیں دوزخ کی آگ میں جلتا رہتا ہوں۔
إِلاَّ أَنَّ الْعَذَابَ یُخَفَّفُ عَنِّي کُلَّ یَوْمِ اثْنَیْنِ. فَقَالَ ذَالِکَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم وُلِدَ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَکَانَتْ ثُوَیْبَةُ بَشَّرَتْ أَبَا لَهَبٍ بِمَوْلِدِهٖ فَأَعْتَقَهَا۔
1 - بخاری، الصحیح، ج5، ص 1961، رقم: 4813
2 –عبد الرزاق، المصنف، ج7، ص 478، رقم: 13955
3 – بیہقی، شعب الإیمان، ج1، ص 261، رقم:281
4- ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج9، ص 145
5 – الکلاعی، الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللہ، ج۲، ص 39
6– حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج1، ص 138
7 – بدر الدین عینی، عمدۃ القاری، ج20، ص 95
ابو لہب نے کہا کہ میں پورے سال روزانہ دوزخ کے عذاب میں جلتا رہتا ہوں، لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو اس دن میرا عذاب ہلکا کر دیا جاتا ہے۔ اس دن میرے ہاتھ کی انگلیوں سے ٹھنڈا پانی جاری ہوتا ہے، جس سے آگ کا عذاب کم ہو جاتا ہے اور مجھے کچھ راحت نصیب ہوتی ہے۔ میں اسی ٹھنڈے پانی سے اپنی پیاس بجھاتا ہوں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پیر ہی کے دن حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت ہوئی تھی۔ جب ثویبہ نے آ کر مجھے یہ خوشخبری سنائی تھی تو میں نے خوشی کے طور پر اسے آزاد کر دیا تھا۔ حضور ﷺ کی ولادت کی اس خوشی کا عمل آج بھی میرے لیے دوزخ کے عذاب میں کمی اور راحت کا باعث بنتا ہے۔
کافر کا کوئی عمل آخرت میں اَجر کا باعث نہیں ہوتا
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہا کہ: کافر کا کوئی عمل آخرت میں اجر کا باعث نہیں ہوتا۔ أعمال الکفرۃ هَبَاءً مَنْثُورًا۔ کافر کے عمل کو آخرت میں اجر نہیں ملتا۔ وہ ابولہب ہے اور کافر کے لیے آخرت میں کوئی اجر نہیں ہے۔
ابو لہب کو میلادِ مصطفی ﷺ کی خوشی کا اِنعام
شیخ الاسلام نے مزید وضاحت کرتے ہوئے خطاب میں کہا کہ کفار کا کوئی عمل آخرت میں اُن کے لیے اجر وثواب کا باعث نہیں ہوتا، مگر ابو لہب صرف ایک کافر ہی نہیں تھا بلکہ کافروں کا سردار تھا، جس کی مذمت قرآن میں بھی کی گئی ہے۔ اس نے ثویبہ کو آزاد کیا، لیکن یہ اس نیت سے نہیں تھا کہ وہ حضور ﷺ کا میلاد منا رہا ہے، بلکہ اس خوشی میں کیا کہ اس کے بھتیجے محمد ﷺ کی ولادت ہوئی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابو لہب تو کافر ہے، بدبخت ہے، مگر چونکہ اس نے میرے محبوب ﷺ کی ولادت کی خوشی منائی ہے، اس لیے میں نے اس کے اس عمل کا اجر باقی رکھا۔ کسی کافر کو کسی نیک عمل کا بدلہ نہیں ملتا، مگر اگر وہ مصطفی ﷺ کا میلاد منائے اور آپ ﷺ کی آمد پر خوشی کا اظہار کرے تو اس کا اجر بھی محفوظ رہتا ہے۔
حاصلِ کلام
میلادِ مصطفیٰ ﷺ دراصل حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد پر مسرت و شادمانی کے اظہار کا نام ہے، جو اہلِ ایمان کے لیے ایمان و محبتِ رسول ﷺ کا سب سے حسین مظہر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ابو لہب جیسے کافر اور ملعون شخص کو بھی، جس کی مذمت قرآن میں نازل ہوئی، فقط اس وجہ سے ہر پیر کے دن عذاب میں تخفیف نصیب ہوتی ہے کہ اس نے آقا ﷺ کی ولادت کی خوشی میں اپنی باندی کو آزاد کیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ایک کافر کے معمولی اظہارِ مسرت کو بھی راحت و سکون کا ذریعہ بنا دیا تو ایک مسلمان مومن کے لیے میلاد النبی ﷺ کی محفل میں شریک ہو کر خوشی منانے اور عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کا صلہ اور ثواب کس قدر عظیم ہوگا! یہی وہ حقیقت ہے جس نے اہلِ ایمان کو صدیوں سے میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے چراغ روشن کرنے اور نغماتِ حمد و ثنا بلند کرنے پر آمادہ رکھا ہے۔
تبصرہ