صحابہ کرامؓ کا یہ عقیدہ تھا کہ ہر پریشانی کا حل مصطفیٰ ﷺ کے پاس ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
حضرت عکّاشہؓ نے جب لکڑی رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک سے پکڑی تو وہ ایک لمبی، مضبوط اور چمکتی ہوئی تلوار بن گئی: صدر منہاج القرآن
حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزات اور برکات اپنی نوعیت میں یکتاء اور بےمثال ہیں۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایسے ظاہری و باطنی معجزات عطا فرمائے جو قیامت تک انسانیت کے لیے ہدایت و رہنمائی کا چراغ ہیں۔ آپ ﷺ کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہونا، چاند کا شق ہونا، بیماروں اور اندھوں کو دعا سے شفا ملنا، درختوں کا آپ ﷺ کی طرف جھک جانا، آپ ﷺ کا ہاتھ لگا کر کسی لکڑی کو تلوار بنا دینا، یہ تمام نشانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ ﷺ اللہ کے برگزیدہ نبی اور تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ ان معجزات کی برکتیں آج بھی اہلِ ایمان کی زندگیوں میں ظاہر ہوتی ہیں، کہ جب وہ آپ ﷺ سے محبت اور نسبت کو مضبوط کرتے ہیں تو اُن کے دل نورِ ایمان سے منور اور زندگی سکون و رحمت سے بھر جاتی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزات کی برکات
:ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزات کی برکات کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: غزوۂ بدر میں حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ تلوار کے ساتھ جرأت مندانہ انداز سے جنگ کر رہے تھے۔ اچانک اُن کی تلوار اُن کے ہاتھ میں ٹوٹ جاتی ہے۔ اَب اُن کے پاس اور تلوار نہیں تھی۔ صحابہ کرامؓ کا یہ عقیدہ تھا کہ ہر پریشانی کا حل مصطفیٰ ﷺ کے پاس ہے۔ علامہ ابن ہشام، امام ابو نعیم اور ابن سعد روایت کرتے ہیں کہ:
قَاتَلَ عُكّاشَةُ بْنُ مِحْصَنِ بْنِ حُرْثَانَ الْأَسَدِيّ يَوْمَ بَدْرٍ بِسَيْفِهِ حَتّى انْقَطَعَ فِي يَدِهِ فَأَتَى رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلّمَ فَأَعْطَاهُ جِذْلًا مِنْ حَطَبٍ فَقَالَ قَاتِلْ بِهَذَا يَا عُكّاشَةُ فَلَمّا أَخَذَهُ مِنْ رَسُولِ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلّمَ هَزّهُ فَعَادَ سَيْفًا فِي يَدِهِ طَوِيلَ الْقَامَةِ شَدِيدَ الْمَتْنِ أَبْيَضَ الْحَدِيدَةِ فَقَاتَلَ بِهِ حَتّى فَتَحَ اللّهُ تَعَالَى عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَكَانَ ذَلِكَ السّيْفُ يُسَمّى: الْعَوْنَ . ثُمّ لَمْ يَزَلْ عِنْدَهُ يَشْهَدُ بِهِ الْمَشَاهِدَ مَعَ رَسُولِ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلّمَ حَتّى قُتِلَ فِي الرّدّةِ وَهُوَ عِنْدَهُ.1۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص 185
2۔ أبو نعیم، دلائل النبوۃ، ج1، ص 610، رقم: 555
3۔ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص 188
غزوۂ بدر کے دن حضرت عُکّاشہ بن محصن بن حرثان الاسدیؓ اپنی تلوار سے لڑ رہے تھے کہ اچانک وہ ان کے ہاتھ میں ٹوٹ گئی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اَقدس میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے انہیں لکڑی کی ایک چھڑی عطا فرمائی اور فرمایا: عکّاشہ! اسی سے لڑائی کرو۔ حضرت عکّاشہؓ نے جب اسے رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک سے لیا اور ہلایا تو وہ ایک لمبی، مضبوط اور چمکتی ہوئی تلوار بن گئی۔ حضرت عکاشہؓ نے اسی تلوار سے قتال کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔ اس تلوار کا نام ’العَون‘ مشہور ہوا اور وہ ہمیشہ حضرت عکّاشہؓ کے پاس رہی۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کئی معرکوں میں اسی تلوار سے حصہ لیا، یہاں تک کہ مرتدّین کے خلاف ہونے والی جنگ میں شہید ہوئے اور وہ تلوار اُس وقت بھی اُن کے پاس تھی۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا معجزہ یہ تھا کہ اُن کے ہاتھوں میں لوہا نرم ہو جاتا تھا، اور وہ اس سے تلواریں اور زرہیں تیار کر لیتے تھے۔ لیکن یہ کس نے سنا تھا کہ لکڑی کی ایک شاخ تلوار بن جائے! یہ کام صرف وہی ذات کر سکتی ہے جو کائنات کی مالک ہو، جو چاہے اور جیسا چاہے کر دے۔ حضرت عکاشہؓ نے اسی ٹہنی کو تلوار کی صورت میں پکڑ کر پوری جنگ لڑی، اور وہ تلوار پھر کبھی اپنی شکل میں واپس نہ بدلی، کیونکہ وہ تلوار حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزے سے وجود میں آئی تھی۔
اسی طرح جنگ اُحد میں ایک صحابی رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری تلوار ٹوٹ گئی ہے۔ آقا ﷺ نے درخت سے ایک ٹہنی توڑ کر انہیں دی اور فرمایا: جاؤ، اسی سے لڑائی کرو۔ جیسے ہی وہ ٹہنی صحابیؓ کے ہاتھ میں گئی، وہ ایک تلوار میں تبدیل ہوگئی۔
امام بیہقی روایت کرتے ہیں کہ:
إن عبد الله ابن جحش جاء إلى النبي يوم أحد وقد ذهب سيفه فأعطاه النبي عسيبا من نخل فرجع في يد عبد الله سيفا.1۔ ابن راشد، الجامع، ج11، ص 279، رقم: 20539
2۔ بیہقی، دلائل النبوۃ، ج3، ص 250
حضرت عبداللہ بن جحشؓ جنگ اُحد کے دن نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، کیونکہ اُن کی تلوار ٹوٹ چکی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی، جو اُن کے ہاتھ میں تلوار بن گئی۔
یہ کتنا حیرت انگیز اور عظیم واقعہ ہے کہ اس طرح کے معجزات صرف اُن ہستیوں سے ظاہر ہوتے ہیں جو کائنات کے حقیقی مختار و مالک کے محبوب ہوں۔ جنگ اُحد میں ایک صحابی کو آقا ﷺ نے درخت کی ٹہنی عطا فرمائی، جو اُن کے ہاتھ میں جا کر تلوار بن گئی۔ خود وہ صحابی گواہی دیتے ہیں کہ میں نے اُسی تلوار کے ساتھ بعد کی کئی جنگوں میں بھی حصہ لیا، مگر وہ تلوار پھر کبھی ٹہنی نہ بنی بلکہ ہمیشہ تلوار ہی رہی۔ یہ معجزہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے تصرفات اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہمیشہ قائم رہنے والے اور برکت و کرامت سے بھرپور ہیں۔
حاصلِ کلام
:حضور نبی اکرم ﷺ کے معجزات محض وقتی مظاہر نہ تھے بلکہ دائمی برکتوں اور ناقابلِ انکار حقائق کے طور پر ظاہر ہوئے۔ لکڑی کی ایک سادہ ٹہنی کا آپ ﷺ کے دستِ مبارک سے چمکتی ہوئی تلوار میں بدل جانا اور پھر ہمیشہ تلوار ہی رہنا اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے وہ برگزیدہ نبی ہیں جن کے تصرفات میں بقا اور اثر آفرینی رکھی گئی ہے۔ یہ واقعات اس اَمر کے گواہ ہیں کہ آپ ﷺ کی عطا اور آپ ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز اہلِ ایمان کے لیے نصرت، رحمت اور فتح کا ذریعہ ہے، اور آپ ﷺ کی برکتیں قیامت تک امتِ مسلمہ کے لیے رہنمائی و یقین کا سرمایہ رہیں گی۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)
تبصرہ